میٹھی زبان: کامیابی کی ضمانت

نادیہ کنول

معروف قول ہے کہ ’’بارش کا قطرہ سانپ اور سیپی دونوں کے منہ میں گرتا ہے مگر سانپ اسے زہر بنا دیتا ہے اور سیپی اسی قطرے کو موتی بنا دیتی ہے۔‘‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ زبان سب کو دیتا ہے، کوئی اس سے زہر اگل کر پست ہو جاتا ہے اور کوئی موتی بنا کے بلند ہو جاتا ہے۔ انسان کے پاس زبان ہی ایک ایسا عضو ہے جس سے انسان اچھا بھی بن سکتا ہے اور برا بھی۔

اچھی گفت گو ایک فن ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ انسان کے منہ سے نکلے ہوئے میٹھے بول جادو بھرے ہوتے ہیں۔ اس سے وہ دوسروں کے دلوں میں جگہ پاتا ہے۔ مثلاً ہم دردی کے دو بول بولنا، کسی کو اچھا مشورہ دینا، پیار بھری نصیحت، دل جوئی کرنا، جائز تعریف کرنا، مشکل وقت میں دوسروں کی حوصلہ افزائی کرنا اسی زمرے کی باتیں ہیں۔ اس سے آپ دوسروں کا دل جیت سکتے ہیں۔ زبان سب سے اچھی چیز ہے یہ ہی بہت بری بھی۔ اللہ کا نام بھی زبان سے ادا کیا جاتا ہے، کلمہ بھی زبان سے پڑھا جاتا ہے اور دکھ درد کا مداوا بھی زبان سے ہی ممکن ہے۔ اس کے برعکس اگر زبان سے کسی کا مذاق اڑایا جائے، برا بھلا کہا جائے، گالی دی جائے یا کسی کی دل آزاری کی جائے تو پھر آپ دولت اور حیثیت کے باوجود لوگوں کے دلوں میں مقام اور عزت نہیں پاسکتے اور دوسروں کی نظروں میں گر جاتے ہیں۔ کوئی آپ سے بات کرنا پسند نہیں کرے گا۔ لوگ آپ سے دو رہوجائیں گے۔ ملنا گوارا نہیں کریں گے۔ بہت سے لوگوں کو زبان کی بدولت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خاص طور پر آج کل لڑکیوں کو ان کی عمر اور شادی کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اسی طرح شادی شدہ خواتین کو سسرال میں بے شمار باتیں سننی پڑتی ہیں۔ اسی طرح اگر لڑکوں کو دیکھا جائے تو ان کو بھی معاشرے میں بے شمار باتیں سننا پڑتی ہیں۔ وہ اس قسم کے باتیں سن کر مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

آج کل ہرکوئی کسی نہ کسی آزمائش کا شکار ہے، اس کے پیچھے زبان ہی کار فرما ہوتی ہے۔ طرح طرح سے طنز کے تیر چلائے جاتے ہیں، کسی کی شکل و صورت کا تو کسی کی عقل کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ بعض خواتین کی عادت ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کے پیچھے غیبت کر کے خوش ہوتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے خواتین و حضرات اپنے سے کم تر لوگوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان سب باتوں کی وجوہات یہ ہیں کہ ہم لوگ گفت گو کے آداب سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو یہ ہی معلوم نہیں ہوتا کہ اپنے بڑوں سے بات کیسے کرنی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بدتمیزی پر اتر آتے ہیں۔ اسی طرح اپنے سے چھوٹوں سے شفقت سے بات کرنے کی بجائے مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔ ان ہی باتوں کی وجہ سے ہماری بول چال میں بناوٹ اور تصنع آجاتی ہے۔ اس کی وجہ سے نہ بزرگوں کے وقار کا لحاظ کیا جاتا ہے اور نہ چھوٹوں سے عزت و احترام سے بات کی جاتی ہے۔

اچھی گفتگو کرنا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ ارد گرد دوسروں کے دلوں پر حکم رانی کریں تو سب سے پہلے اس بات کا خیال رکھیں کہ زبان میں مٹھاس ہو اور دوسروں کی دل آزاری نہ ہو۔ دوسروں کی عزت کو اچھالا نہ جائے۔ دوسرے کی کم تری کا کبھی مذاق نہ اڑایا جائے۔ اگر آپ دوسروں کا بھرم رکھنا سیکھ لیں اور اچھے طریقے کے ساتھ پیش آئیں تو دوسرے لوگ بھی آپ کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھیں گے اور اوپر والا بھی آپ کا پردہ رکھے گا۔

دوسروں کی کامیابیوں پر خوش ہوں، دکھ درد اور خوشی کے موقع پر ان کے ساتھ رہیں۔ خوشی میں شرکت کرنے سے خوشی کا احساس دگنا ہو جاتا ہے اور دکھ کے عالم میں شرکت سے حوصلہ ملتا ہے۔ اس لیے ہمیں ہر وقت یہ کوشش کرنی چاہیے کہ اپنی زبان سے اچھے الفاظ نکالیں۔ فارغ اوقات میں دعائیں اور کلمہ خیر ہی منہ سے نکالیں، برے کلمات سے پرہیز کریں۔

کہا جاتا ہے کہ اچھی اور میٹھی بات بھی صدقہ ہے۔ اگر کسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے تو کوشش کرنی چاہیے کہ کسی کو نقصان بھی نہ پہنچے۔ یہی زبان انسان کو جہنم یا جنت میں لے جانے والی ہے، اس لیے زبان سے خوشی دینا اگر ممکن نہیں تو کسی کو دکھی بھی نہ کریں۔ اس لیے اپنی زبان پر قابو رکھیں۔

رسول پاکؐ نے فرمایا:

’’بندہ ایک بات اپنی زبان سے نکالتا ہے جو خد اکو خوش کرنے والی ہوتی ہے، بندہ اس کو نہیں جانتا لیکن اللہ اس کی وجہ سے اس کے درجات کو بلند کرتا ہے۔ اسی طرح آدمی خدا کو ناراض کرنے والی بات بول جاتا ہے اور اس کو کوئی اہمیت نہیں دیتا حالاں کہ وہی بات اسے جہنم میں لے جاکر گرا دیتی ہے۔‘‘

ایک اور جگہ آپؐ نے لوگوں کو آگاہ کیا کہ ’’لوگ جہنم میں نہیں جائیں گے سوائے اپنی زبان کی فصلوں کے کاٹنے کے نتیجے میں۔‘‘ اس کے برخلاف آپؐ نے فرمایا: ’’جو شخص مجھے اپنی زبان اور شرم گاہ کی حفاظت کرنے ضمانت دے، میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں