زندگی کے مسلسل ارتقا کے لیے ضروری ہے کہ ہر نئی نسل اپنی پیشرو نسل سے علم اور تحقیق میں آگے ہو۔ اگر یہ نہیں ہوتا تو نوعِ انسانی کے قدم آگے کی طرف بڑھنے کے بجائے پیچھے کی جانب ہٹنے لگتے ہیں۔ اور آگہی میں توسیع کی جگہ جہل میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ یورپ میں قدیم یونان نے صدیوں تک فلسفہ و سائنس میں وہ کمال دکھایا کہ دنیا آج بھی اس قیمتی ورثے سے فیضیاب ہے۔ اس کے بعد روما کی تہذیب نے علوم و فنون کی عالم افروز شمعیں روشن کیں، لیکن پھر یورپ پر جہل کا اندھیرا چھا گیا۔ ایسا گھٹا ٹوپ کہ تاریخ اسے یورپ کا دورِ ظلمت کہتی ہے۔
مصر و نینوا کی قدیم قومیں اپنی لگن اور کاوش سے دنیا کو بہت کچھ دے گئیں۔ لیکن پھر ان قوموں کی آنے والی نسلوں نے اس روایت سے اپنا ناطہ توڑ لیا اور جاہلیت کا شکار ہوگئیں۔ خود ہماری ملت نے صدیوں تک تحقیق و تخلیق میں دنیا کی قیادت کی۔ جاہلیت میں مبتلا دنیا کو اپنی دستگیری سے ایک نئی توانائی ایک نئی جہت عطا کی۔ لیکن پھر یہ ملت خود اپنی روایت اپنے ماضی سے کٹ گئی اور نتیجہ یہ ہوا کہ وہ جنہیں اس ملت نے ترقی کے سفر پر گامزن کیا تھا اس پر غالب آگئے۔ وہ آقا بن گئے اور یہ غلام۔ ہم نے ہندوستان اس لیے آزاد کرایا تھا تاکہ اپنی قومی روایات کو زندہ رکھ سکیں۔ انفرادی اور اجتماعی ہر دو سطح پر آزادی کی فضا میں آگے بڑھیں، ملی شعور کو غیروں کی غلامی کے شکنجوں سے نکالیں اور زندگی کے ہر شعبے میں کسب کمال کریں۔ اقبال کہتے ہیں۔ اللہ کا دین ہے جسے دے میراث نہیں۔ بلند نامی اپنے نور نظر سے، کیا خوب فرماتے ہیں۔ حضرت نظامی۔
جائے کہ بزرگ بایدت بود
فرزندگی من تداردت سود
ہماری آرزو تھی کہ ہم اپنے بزرگوں کے کمالات پر فخر کرنے کے ساتھ ساتھ خود صاحب کمال بنیں۔ کیوں کہ صرف بزرگوں کی فضیلت کسی کو فضیلت نہیں دیتی۔ یہ دنیا مقابلے کا میدان ہے۔ عزت اسی کو ملتی ہے جو اس میدان میں دوسروں سے سبقت لے جائے۔
آج جب انسان ہر شعبے میں انقلاب انگیز ترقی کر رہا ہے۔ ہم محض ابن رازی، ابن سینا، ابن رشد اور دوسرے مشاہیر کے تذکرے سے کچھ حاصل نہیں کرسکتے۔ مشرق و مغرب کے سائنس داں ذرّے کا جگر چیر چکے ہیں۔ زمین و آسمان کی طنابیں کھینچ رہے ہیں۔ اگر ہم تحقیق اور ٹیکنا لوجی میں اپنی رفتار ان کی رفتار سے تیز تر نہیں کریں گے تو ہمارا اور ان کا فاصلہ بڑھتا ہی چلا جائے گا، ہمیں یہ فاصلہ کم ہی نہیں کرنا ہے، ترقی یافتہ قوموں کے برابر بھی آنا ہے۔
یہ فاصلہ امتحانوں میں روایتی نمبر لے کر پاس ہونے سے تو کم نہیں ہوسکتا۔ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ ہمارے نوجوان اپنا وقت بے مصرف کاموں میں صرف کریں۔
امتحان کے وقت زور یا زاری سے کامیابی حاصل کرنا چاہیں اور پھر یہ توقع بھی رکھیں کہ دنیا میں عزت حاصل ہوگی، وہی عزت جو غیر ملکوں کے محنتی اور ہنر مند نوجوانوں کو حاصل ہے۔ اگر کوئی انجینئر ہے۔ اگر کسی نے ڈاکٹری پاس کی ہے تو اسے امراض اور ادویہ کا علم ہونا ہی چاہیے۔ اگر اس میں یہ اہلیت نہیں تو سند مہارت کے باوجود کوئی اس سے علاج نہیں کرائے گا۔ اس لیے کہ نیم حکیم خطرۂ جان ہوتا ہے۔
علم کا کوئی بھی شعبہ ہو اس میں نیم حکیم نہیں ہونا چاہیے۔ پوری استعداد حاصل کرنی چاہیے۔
کسبِ کمال مکن کہ عزیز جہاں شوی
اور اس استعداد کے حصول کے لیے لازم ہے کہ دل لگا کر تعلیم حاصل کی جائے۔ وہ جو روح کو تعلیم کا روشن لباس پہناتے ہیں، ان کی باتیں ادب سے اور گوش ہوش سے سنیں، تعلیم کا زمانہ بڑا قیمتی زمانہ ہوتا ہے۔ یہی شخصیت کی تہذیب و تعمیر کا وقت ہوتا ہے۔ یہ وقت پھر لوٹ کر نہیں آتا۔ ضائع ہوگیا تو ساری زندگی ضائع ہوگئی۔
ملت اسلامیہ کے نوجوان بقول اقبال شاہین بچے ہوتے ہیں۔ انہیں خاکبازی کا شیوہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ رومی کہتے ہیں:
’’از خدا خواہیم توفیقِ ادب‘‘
شاگرد کے دل میں علم کی لگن اور اہل علم کا ادب ہو تو وہ خود ایک دن عالم بن جاتا ہے۔ پھر لوگ اس کا ادب کرتے ہیں۔ اس کی عزت کرتے ہیں۔ اگر نہ علم کی لگن ہو نہ دل ادب سے بہرہ مند ہو تو نتیجہ ظاہر ہے۔ دوسرے حقارت کی نظر سے دیکھیں گے، اپنے اندر کمتری کا احساس روز بروز بڑھتا چلا جائے گا۔ اور شخصیت گھٹ کر رہ جائے گی۔lll