نئے دور کے مہمان

فضّہ حسین

ایک دور تھا جب مہمان داری اور مہمان نوازی کا بڑا اہتمام ہوتا تھا ، مہمان کی قدر کی جاتی تھی۔ میزبانی کے فرائض بڑی دلجوئی سے ادا کئے جاتے تھے۔اسے خیر وبرکت کا باعث سمجھا جاتا تھا۔ مہمان کی عزت افزائی کے لئے کھانے پینے کا خصوصی انتظام کیا جاتا۔ مہمان بھی خوب ڈٹ کر کھانے سے انصاف کرتے تھے۔ اس کے باوجود میزبان اصرار کرکے میزبانی کے حقوق ادا کرتے تھے۔ مہمانوں کو مزید کھانے پر اکسایا جاتا تھا۔ وقت کیا بدلا، روایتیں ہی بدل گئیں۔ آج اچھی روایتوں کا فقدان ہے۔

انسانی ضرورتیں منہ کھولے کھڑی ہیں۔ گھر میں آسائش کی تمام اشیاء موجود ہیں پھر بھی و جہ بے و جہ مہنگائی کا رونا رویا جاتا ہے۔ موٹر سائیکل اور کار سے لے کر ٹی وی، ریفریجریٹرتک موجود ہیں جن کی وجہ سے اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ اس لیے مہنگائی کا عفریت و سائل کو نگل رہا ہے۔ شاید اس لیے اب مہمان کو وبالِ جان سمجھا جاتا ہے۔

پہلے یہ مثال بھی مشہور تھی کہ مہمان اپنے نصیب کا رزق ہمراہ لاتا ہے۔ سبھی اس پر یقین بھی رکھتے تھے۔ہماری بستی کی ایک فیملی کسی کے ہاں مہمان جا ٹھہری۔ میاں بیوی کے علاوہ اْن کے چار عدد نونہال بھی ساتھ تھے۔ ایک ہفتے تک وہ مہمان داری کے مزے لیتے رہے۔ گھر کا سارا نظام بچوں نے شرارتوں سے تلپٹ کر دیا۔

ایک صبح جب سب گھر والے مہمانوں کے ہمراہ ناشتہ کر رہے تھے تو میزبان یہ سمجھے کہ شاید اس ناشتے کے بعد گلو خلاصی ہوجائے۔ مہمان صاحب دمع فیملی جانے کا قصد کریں گے۔ مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد اس گھرانے کا سربراہ صوفے پر بیٹھ گیا۔مہمان فیملی کا سربراہ قریب ہی بیٹھا تھا۔

بچے کھیل کود میں مصروف ہوگئے۔ خواتین زنان خانے میں محوِ گفتگو ہوئیں۔ میزبان نے مہمان سے پوچھا۔ اچانک ہمارے ہاں آنے کا پروگرام کِس طرح بنا۔‘‘مہمان بڑے فخر سے بولا۔’’ بس جی کیا بتائیں۔ یہ سب دانے پانی کا چکر ہے۔ جس کا دانہ پانی جہاں مقسوم ہے۔ اس کو وہ کھانا ہے۔‘‘ میزبان یہ سْن کر سٹپٹا گیا۔ دور اندیش آدمی تھا۔ فوراًسمجھ گیا۔ موصوف کے جانے کے ارادے نظر نہیں آرہے۔

’’ہاں یہ تو ہے۔‘‘میزبان گلوگیر آواز میں بولا۔

’’ایک اہم بات تو آپ کو بتانا بھول گیا۔‘‘ مہمان بولا۔

میزبان کے کان کھڑے ہوئے۔ اشتیاق بھی پیدا ہوا کہ وہ اہم بات کیا ہوسکتی ہے۔ پھٹ سوال داغ دیا۔’’وہ اہم بات کیا تھی جناب!‘‘

مہمان نے صوفے پر پہلو بدلا۔ پھر اہم بات بتانے لگا۔’’ ایک صبح کی بات ہے۔ میری زوجہ نے ایک خاص نظارہ دیکھا؟‘‘ اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگیا۔

میزبان سسپنس میں مبتلا ہوگیا۔ کہ وہ خاص نظارہ کیا ہوسکتا ہے؟

مہمان نے سلسلۂ کلام جوڑتے ہوئے بیان جاری کیا۔’’میری بیوی نے دیکھا کہ میرے جوتے پر جوتا چڑھا ہوا ہے۔ اس نے میری توجہ اس جانِب مبذول کرائی تو میں بھی حیران ہوا۔ ابا حضور فرماتے تھے کہ جب جوتے پہ جوتا چڑھ جائے تو سمجھو سفر کرنا ہے۔ بس جی پھر کیا بتائوںیہ سفر کرکے ہم آپ تک آپہنچے۔ ابا حضور کا فرمان درست ثابت ہوا۔ پرانی وضع کے لوگ تھے۔ اْن کی باتیں پتھر پر لکیر ثابت ہوتی تھیں۔ اْن کی مثالوں کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ بڑے سچے اور کھرے لوگ تھے۔

میزبان نے پیشانی کو مسلا پھر سرکھجاتے ہوئے بولے۔ ’’بالکل درست فرمایا۔ پرانے لوگوں کی مثالیں واقعی پتھر پر لکیر ہوتی تھیں۔ وہ اس لکیر کے فقیر ہوتے تھے۔ اچھا مجھے اجازت دیجیے۔میں ذرا بازار سے ہو آئوں۔آپ قیلولہ فرمائیے۔ تاکہ کھانا ہضم ہو جائے۔‘‘ اتنا کہہ کر میزبان اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ مہمان صاحب سامنے بیڈ پر لیٹ گئے۔

رات کا کھانا سب نے مل کر کھایا۔ اب میزبان صاحب سوچنے لگے کہ ایسی کیا تدبیر کی جائے کہ مہمان صاحب مع فیملی عزت و آبرو کے ساتھ رخصت ہوں۔ وہ رات بخیر و خوبی گزری۔‘‘

دوسری صبح کا سورج آب و تاب سے طلوع ہوا۔ اچانک میزبان صاحب مہمان کے کمرے میں داخل ہوئے۔ انھوں نے اپنی ایک عمدہ اسکیم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سبھی اہلِ خانہ کو ساتھ لینے کا سوچا اورمیزبان نے اونچی آواز سے تمام گھر والوں کو مہمان کے کمرے میں بلا لیا۔

مہمان کے بیوی بچے بھی دوڑے چلے آئے۔ سب یک زبان ہوکر پوچھنے لگے۔ کیا ہوا۔‘‘

تب میزبان نے سب کی توجہ ایک اہم نظارے کی طرف مبذول کرائی۔ سب اس نظارے کی طرف متوجہ ہوئے۔سب نے دیکھا کہ مہمان کا جوتا اس کے دوسرے جوتے پہ سوار ہے۔سب انگشت بدنداں ہوئے۔ مہمان صاحب بھی ہڑ بڑا کراٹھ بیٹھے۔ اْن کی نگاہ بھی اپنے جوتے پر گئی۔ جوتے پہ جوتا چڑھا ہوا تھا۔ اس منظر کو جھٹلانا ممکن نہ تھا۔

’’اوہ…ہو۔ لگتا ہے بھئی پھر آپ کی قسمت میں کوئی نیا سفر لکھا ہے۔ آپ کے جوتے تو یہی بتا رہے ہیں۔‘‘ میزبان بولا۔

مہمان صاحب یہ مثردہ سن کر سٹپٹا ہی گئے۔ خجالت سے بولے۔ بالکل جناب!جوتے تو یہی بتارہے ہیں کہ ہمیں اب کہیں اور کا نہیں گھر واپسی کا سفر درپیش ہے۔‘‘

چنانچہ تمام لوگ ناشتے کے لئے دسترخوان پر آگئے۔ ناشتہ شروع ہوا۔ ناشتے کے بعد مہمان صاحب واپس جانے کے لئے تیار ہوئے۔ دن کے دس بجے انھوں نے تیاری مکمل کی اورمیزبان کی اجازت سے اْن کے گھر سے رخصت ہوئے۔

مہمان چلے گئے تو میزبان کی بیوی بولی۔’’یہ نگوڑے جوتے بھی عجیب ہوتے ہیں، جوتے پر جوتا چڑھا اور سفر شروع۔‘‘ پھر وہ گھر کے اْجڑے ماحول کو درست کرنے میں لگ گئی۔ میزبان صاحب بھی کام پرجانے کی تیاری کرنے لگے۔ بیوی بولی۔’’پرانے لوگوں کی باتیں بھی کیا خوب ہوتی تھیں۔ مہمان کے باپ کی بات دوسری بار سچ ہوگئی۔ جوتے پہ جوتا چڑھا اور بیچاروں کو ایک اور سفر پر روانہ ہونا پڑا۔‘‘

میزبان بولا۔’’بس اب رہنے بھی دو بزرگوں کا فلسفہ۔‘‘یہ صرف کہنے کی باتیں ہیں۔ تمھیں کیا پتا مجھے جوتے پر جوتا چڑھانے کے لئے کتنی محنت کرنی پڑی۔ کئی بار کمرے تک آیا، کبھی وہ جاگ رہا ہوتا اور کبھی کچی نیند میں بڑبڑا رہا ہوتا۔ صبر آزما انتظارکے بعد جاکر یہ سنہری موقع ملا، تمھیں بزرگوں کے فلسفے کی پڑ گئی۔ یہ نہیں دیکھا کھانا پکاتے پکاتے ہمارے ہاتھوں میں گٹے پڑگئے تھے۔‘‘ بیوی یہ سن کر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ ’’آپ بھی ناں؟‘‘

’’پورا بھی بولو ناں‘‘ میزبان نے عرصے بعد اپنی بیوی کو یوں کْْھل کر کھِل کھلاتے دیکھا تھا…

’’تدبیر کام کر گئی۔ ورنہ ہم کام سے گئے تھے۔ بیوی نے اپنے سرتاج کا ہاتھ تھام لیا اوربولی’’سیانے ایک بات اور بھی تو کہتے ہیں کہ مہمانی تین دن کی۔ آنے والے اس کا بھی خیال رکھ لیتے تو میرے سرتاج کو یوں جوتے پر جوتا چڑھانے کی مشقت تو نہ کرنی پڑتی۔‘‘

پھر اس نے خاوند کی چٹکی لی اور بولی ہے تو وہ بھی آپ ہی کے خاندان سے، سمجھ تو گیا ہوگا کہ یوں اپنے آپ اتنے اہتمام سے جوتے پر جوتا کیسے اور کب چڑھا ہے!‘‘lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں