ماہ صیام کی رحمتیںو برکتیں اور ربِّ دوجہاں کی بندہ نوازیاں عروج پر تھیں۔قیوم رضا کی قسمت کا ستارہ بھی آج کل خوب چمک رہا تھا۔ہر برس کی طرح اس دفعہ بھی بڑی فیاضی کے ساتھ صدقہ،خیرات ،فطرہ وزکوٰۃ محتاجوں اور ضرورت مندوں میںتقسیم کیا گیا تھا۔ اپنے عالیشان بنگلے کے پچھواڑے سے متصل اُن کے آبائی مکان میں قیام پزیر بڑے بھائی ایوب رضا کے یہاںحسبِ معمول بہ نفسِ نفیس تشریف لے جا کر زکوٰۃ کی کچھ رقم تھما آئے تھے۔ اُنہیں اِدراک تھا کہ یہ رقم اگر نوکروں کے ہا تھ بھجوادیتے تو وہ غیور انسان کبھی نہ قبول کرتا۔
زمین کے جس قطعہ پر اُن کا اپناعالیشان بنگلہ کھڑا تھاوہ دراصل اُن کے ا باملِک رضاکی ملکیت تھی جو اُن کے بعد چھہ بچوں میں منقسم ہوئی تو سب کے حصے میں ایک ایک بے حد محدود رقبے پر منحصر قطعہ آیا تھا۔ملکیت کاوہ قطعہ جس پر آبائی مکان واقع تھا سب سے بڑے فرزندایوب رضاکے نام کیاگیاتھا۔پرانے طرز پر بنی ہوئی اُس عمارت کے اوپر ایک اُچٹتی سی نظر ڈالتے ہوئے وہ کسی خیال میں ڈوب گئے جوپچھلے سال کے مقابلے میں مزید بوسیدہ ہو چلی تھی۔ محض طمعِ خام و کینہ توزی مانع تھی ورنہ ایک ذرا سی فراخ دلی او ر نیک نیتی کے نتیجے میں اپنی سالانہ زکوٰۃ کی صرف ایک چوتھائی رقم سے اِس گھر کی مرمت بحسن و خوبی کروا سکتے تھے۔
آبائی جائداد کا بٹوارہ ہوجانے کے بعد چار بھائیوں کے مقابلے میں قیوم رضاکانجی کاروبارچل نکلا۔چشمِ زدن میںاُن کے دن پھر گئے ۔ ناچاری اور تنگدستی کے زیر اثر چاروں بہنیںاپنااپنا قطعہ بھائی کے ہاتھ بیچنے پر مجبور ہوئیں۔ بھائی بہنوں کے آپس کا معاملہ تھالہٰذا ساری املاک بازار سے کچھ کم ہی داموں پر قیوم رضاکے نام منتقل ہو گئیں لیکن بڑے بھائی ایوب کسی قیمت اپنے حصے سے دستبردار ہونے پر آمادہ نہ ہوئے۔ اُس پرانے اورسا ل خوردہ مکان میں وہ اپنی بیوی، تین بیٹوں اور دو بیٹیوں سمیت رہائش پذیر تھے ۔ بچے ابھی زیر تعلیم تھے۔خود اکثر بیمار رہا کرتے تھے اور آمدنی کا کوئی معقول ذریعہ بھی نہیں تھا۔ ٹوٹی پھوٹی ہی سہی سر چھپانے کے لئے چھت تو میسر تھی۔مکان بیچ کر بے چارے کہاں جاتے آخر ۔ اِس طرح آبائی مکان والا قطعہ قیوم کی دسترس میں آنے سے رہ گیا اوراس وسیع و عریض قطعے پر ایک واحد اورعالی شان بنگلہ بنوانے کا ان کا دیرینہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔
بیگم راشدہ قیوم بضد تھیں کہ سرے سے اِس زمین کوبیچ کر کسی دوسرے علاقے میں مکان تعمیر کروایا جائے لیکن قیوم اپنی موروثی جائیداد بیچنے کے حق میںنہیں تھے۔ بیگم صاحبہ جلد از جلد ایک شاندار گھر کی مالکن کہلانے کے لئے اُتاؤلی ہو رہی تھیں۔چنانچہ جتنا رقبہ ہاتھ لگا اُسی پر اکتفا کرتے ہوئے بادلِ ناخواستہ ایک ماہر معمار کی خدمات حاصل کی گئیں اور جدیدطرز پر مبنی ایک بنگلے کا نقشہ بنوایا گیا۔ پیسے کی فرادانی تھی ۔لِہٰذا شہر کے مشہور ٹھیکیدارکی نگرانی میںقلیل سے عرصے کے اندر ایک بلند و بالا مکان بن کر تیار ہوگیا جس کی خوبصورتی اورشان و شوکت کے آگے ِارد گرد کے سارے علاقے کی کوٹھیاں فرسودہ اور پست قدنظر آنے لگیں۔
بیگم راشدہ قیوم اپنی کوٹھی پر بے حد نازاں تھیں مگر سارامزہ اُس وقت کرکرا ہوکر رہ جاتاجب بالائی منزل پر واقع اپنی آرام دہ وسیع و عریض خواب گاہ کی کھڑکی سے نیچے اُس پرانے مکان کی بھدی اور مرمت طلب چھت کا نظارہ دکھائی دیتا ۔مفلسی و بے چارگی کا منہ بولتا نمونہ جسے د یکھتے ہی اُن کے بدن میں جھرجھری دوڑ جاتی۔ برسوں پہلے وہ دلہن بن کر اُسی گھر میں تو آئی تھیں۔۔۔۔۔۔
اکثر و بیشتراُس خاندان کی رنجشیں اور مالی مجبوریوں کا رونا بھی سنائی دے جاتا ۔چھوٹی موٹی ضرورتوں کے لئے آپس میںبچوں کے بیچ تو کبھی ایوب اور اُن کی بیوی کے درمیاں چپقلشیں چلتی رہتی تھیں ۔ اُن کی دانست میں یہ ایوب بھائی کی حماقت ہی تھی کہ دوسرے بھائی بہنوں کی طرح اپنی زمین کا ٹکڑا قیوم کے ہاتھ تھما کر چپ چاپ کہیں اورنہ چل دئیے۔ بے چارے قیوم تو اِس سال خوردہ مکان کے عوض کسی دوسرے مقام پر ایک چھوٹا سا مکان لے دینے کے لئے بھی آمادہ تھے۔بہرحال گنجائش تواب بھی باقی تھی ۔اگر ایوب مان جاتے توبنگلے کی عمارت میں توسیع نہ سہی اُس کھنڈر نمامکان کو مسمار کروانے کے بعد پچھواڑے والا آنگن مزید کشادہ ہوجاتاجہاںایک خوشنماساپائیں باغ بنایا جا سکتا تھا۔ پھراِس کھڑکی سے کم از کم ایک فرحت بخش نظارہ تودیکھنے کو ملتا۔
راشدہ کے لئے ازحد کوفت کا باعث تھا وہ پرانا دروازہ جو احاطے کو منقسم کرنے والی دیوار کے بیچوں بیچ موجود تھا اور دونوں گھروں کے صحن میں کھلتا تھا۔راشدہ نے اپنے نوکروں کو سخت ہدایت دے رکھی تھی کہ ہمیشہ اس دروازے کی کنڈی چڑھائے رکھیں۔ وہ اُس گھرانے سے کوئی تعلق رکھنا نہیںچاہتی تھیں جو شب و روز اُن کے ذہنی آزار کا باعث بنا ہوا تھا۔
٭٭٭
ماہِ مبارک کی رونقیں و ضوافشانیاں بخیرو خوبی تمام ہوئیں۔راشدہ نے اِس بار عید کے موقع پر اپنی نگرانی میں نہ صرف خانساماں کے ہاتھوں بہت سارے پکوان بنوائے تھے بلکہ بطور خاص اپنے ہاتھ سے کئی مزیدار ڈشز بھی تیارکی تھیں۔عید کی نماز سے فارغ ہوکرایک ایک کرکے سارے پکوانوں کو الگ الگ قابوں میں نکال کراُن کی پرت پرچاندی اور سونے کے ورق لگائے۔ پھران پر گلاب کی پتیاں ،بادام کی ہوائیاں ،کشمش اورزعفران وغیرہ سجانے کے بعد میٹھے پکوانوں پرکیوڑے کا عرقِ چھڑکا اورپھر بے حد سلیقے کے ساتھ قابوں کوایک بڑی سی سینی میںرکھکر اُس پر کامدانی والا سر پوش اوڑھاتے ہوئے اپنی نوکرانی سے بولیں۔’’ بات سن ۔۔۔جاکر یہ سینی پڑوس میں دے آ۔ احتیاط سے جانا۔ کہیں ساری محنت اکارت نہ چلی جائے!‘‘
٭٭٭
کچھ عرصہ پہلے اُن کے گھر کے روبرو والی زمین پر اچانک تعمیری کام شروع ہوگیاتھا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے اُس عمارت کا قد اُن کے اپنے مکان سے کہیں بلندہوگیا۔سنا تھا کہ مکان مالک کوئی سبکدوش اعلیٰ سرکاری افسر ہے۔ زیرتعمیر بنگلے کی اندرونی تزئین کاری تو دیکھ کرمیاں بیوی دونوں بے حدمرعوب ہوگئے اورمستقبلِ قریب میں اپنے گھر کی ازسرِنو آرائش پر غور کرنے لگے۔
نوتعمیر بنگلے کے مکین صاحب بیوی ،ایک بیٹا بہو اور اُن کی دو جوان لڑکیاں تھیں۔لباس اور چال ڈھال سے سب کے سب بے حد ماڈرن اورجدید فیشن کے دلدادہ لگتے تھے۔ راشدہ مسلسل اُن کی ٹوہ میں رہنے لگیں کیوںکہ وہ ایک عرصے سے کسی ایسے ہی خاندان کے ساتھ دوستانہ مراسم بڑھانے کی متمنی تھیں اور اُنہیں ایک عدد بہو کی بھی تلاش تھی۔ان کے اپنے خاندان میں جہاں تک نظر جاتی ایک بھی گھرانہ ایسا نہیں تھا جو اُن کے ہم پلہ ہو۔
وہ اپنے خیالوں ہی میں چونک پڑیں۔بتول خالی سینی ہاتھ میں لئے پچھواڑے والے آنگن کے دروازے سے وارد ہورہی تھی۔ مارے حیرت کے اُنہوں نے دریافت کیا ’’اری! تو پچھواڑے کیا کرنے گئی تھی بھلا؟‘‘
’’سینی دینے کے لئے پچھواڑے تو گئی تھی۔بیگم ایوب نے آپ کو سلام اور شکریہ کہلوایا ہے۔‘‘بتول سر پرسے چادر اُتارتی ہوئی بولی۔
راشدہ سن رہ گئیں۔ ’’یہ کیا کر دیا تونے بے وقوف! سینی تو سامنے والے بنگلے کے لئے تھی ! کمبخت ماری تونے ساری محنت پر پانی پھیر دیا۔‘‘
وہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔پھر غصے سے لال پیلی ہوتے ہوئے بولیں۔ ’’ تیری ہمت کیسے ہوئی بھلا عرصے سے بند اُس چٹخنی کو کھولنے کی! تو نے کبھی اِس طرف سے یا اُدھر سے کسی کو آتے یاجاتے دیکھا ہے؟پھر آج ایسی کیا خاص بات ہو گئی جو میں اُن کے ساتھ ازسرِنورابطہ قائم کرلوںگی!‘‘
بتول پشیمان ہوکر بولی۔ ’’بیگم صاحبہ میں تو یہی سمجھی تھی کہ خصوصاََ عید کے موقع پر آپ اپنے جیٹھ کے گھر پکوان بھجوا رہی ہیں۔‘‘
’’اپنی سمجھ پر مٹی ڈال اور جلدی سے میری مدد کر، تاکہ دوسری سینی تیار کر سکوں۔دیر ہو گئی تو کھانے کا وقت ٹل جائے گا۔ نہایت مہذب اورٹائم ٹیبل کے پابند ہیں وہ لوگ۔ تیری تومیں بعد میں خبر لوں گی ۔‘‘راشدہ اپنے آپ میں بڑبڑانے لگیں۔
پھر اُنہوں نے اِنتہائی سرعت اور مزید اہتمام کے ساتھ ایک اور سینی تیار کرکے اپنی نگرانی میں سامنے والے بنگلے میں بھجواکرہی دم لیا۔اُس گھر کے مکینوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے لئے وہ ہمیشہ اِسی نوعیت کے بہانے ڈھونڈتی رہتی تھیں۔قیوم کا بھی یہی منشا تھا کہ کسی طرح اُس خاندان سے دوستانہ مراسم پیدا ہو جائیں۔ویسے راشدہ کئی مرتبہ وہاں گئی تھیںلیکن اُس گھر کے افراد گھر پر کم ہی ملتے تھے۔کبھی اِتفاقاََ بیگم صاحبہ سے ملاقات ہو جاتی توپتہ چلتا کہ کسی نہ کسی محفل،کلب یاپارٹی میں جانے پر کمر بستہ ہیں۔ راشدہ اپنے دل میںیہ سوچتی ہوئی رخصت ہو لیتیں کہ کچھ عرصہ بعد جب جان پہچان گہری ہو جائیگی توباہم ساتھ چلیں گے۔کسی ماڈرن کلب ، پارٹی وغیرہ میں شامل ہونے کی وہ عرصے سے متمنی تھیں۔
بتول نے واپس آکر کہا۔’’ شاید اُن کے یہاںکوئی پارٹی ہونے والی ہے۔ وہ جوان لڑکی نوکروں سے فرنیچر کی ترتیب بدلوا رہی تھی۔ جانے کیسے لوگ ہیں! شکرئیے کے دو بول تک نہیں کہے ۔ بس پاس والی میز پر رکھنے کے لئے کہہ دیا۔مودبانہ شکریہ تو پچھواڑے والی بیگم ایوب نے ادا کیا تھا، اُن کے چہرے کی ممنونیت اورآنکھوں میں تشکر دیکھتے بنتا تھا۔۔۔۔۔۔۔
’’اپنا منہ بند رکھ اور شکر منا کہ اتنی بڑی غلطی کی پاداش میں تجھے کھڑے کھڑے نکال باہر نہیں کیا۔۔۔۔بیگم راشدہ نے اسے غصیلی نظروں سے گھورتے ہوئے کہا۔
بتول نے حیران ہوکر سوال کیا۔’’غلطی! کیا وہ میری غلطی تھی؟لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’کہا نا بکواس بندکر۔۔۔ کہیںیہ بات قیوم صاحب کے کانوں میں پڑ گئی تو جانے اُ ن کا ردِّ عمل کیاہو!‘‘ بیگم راشدہ نے جھنجھلاتے ہوئے جواب دیا۔
٭٭٭
پھر آئی عید کی وہ پُر بہارشام۔ پرانے گلے شکوے ، عداوتیں وغیرہ بھول کرمہمانوں، رشتہ داروں سے ملنے ملانے اور باہم گلے مل کر رشتے استوار کرنے کی مبارک ساعت ۔ بیگم راشدہ نے عید کی شام والا مخصوص بھاری جوڑا زیب تن کیا اوربڑے اہتمام کے ساتھ تیار ہوئیں۔ گھر آئے ہوئے مہمانوں سے گلو خلاصی پاکر بڑے جوش و خروش کے ساتھ سامنے والے بنگلے کی طرف چل دیں۔ صدر دروازہ کھلا ہوا تھا۔ کھنکتے ہوئے قہقہوں کے ساتھ ساتھ آڈیو گرام پر بجتی ہوئی پُرشور مغربی دھن باہر تک سنائی دے رہی تھی۔ راشدہ نے خوشدلی کے ساتھ اندرہال میں قدم رکھا۔سامنے ہی بے شمار جوان لڑکے اور لڑکیاں موسیقی کی تال پر تھرکتے نظر آئے۔ دور کونے میں کمشنر صاحب کی پوتی دکھائی دی جو اپنے بائیں ہاتھ میں مشروب کا پیالہ تھامے کسی لڑکے کے ساتھ محو گفتگو تھی۔ فضا میں مغربی کھانوں کی بو چکرا رہی تھی۔ ہال میں ایک طرف بڑی سی میز پر پِزّا، برگر، شاورما، پیسٹریز، کیک ، کوکِیس اور بھی نہ جانے کیا کیا الم غل فاسٹ فوڈ سجے ہوئے تھے جسے چھینا جھپٹی کر کے کھا یاجارہا تھااور ہاتھوں میں تھامے ہوئے جام سے ہلکی ہلکی چسکیاں بھی لی جا رہی تھیں۔فضا میں مشروب کی ایک عجیب سی بو پھیلی ہوئی تھی جو راشدہ کے لئے قطعی غیر مانوس تھی۔
ایک باوردی نوکر نے سامنے آکر مودبانہ عرض کیا۔’’صاحب لوگ ابھی ابھی باہر کلب گئے ہیں اور گھر پربابا لوگوں کی پارٹی چل رہی ہے۔‘‘
انہیں ایسا لگا جیسے درپردہ جتا یا جارہا ہو کہ نوجوان نسل کی پارٹی میں بھلاآپ کا کیا کام !کسی نے ان کی طرف توجہ نہیں دی تھی۔نا مراد و پشیمان سی وہ صدر دروازے کی طرف مڑنے ہی والی تھیں کہ اچانک ایک کونے میں میز پر پڑی سرپوش سے ڈھکی ہوئی وہ سینی دکھائی دے گئی جوصبح اُنہوں نے بھجوائی تھی۔ لگتا تھا سینی کو کسی نے ہاتھ بھی نہیں لگایا۔۔۔۔
بیگم راشدہ تھکے تھکے قدموںکے ساتھ اپنے مکان کے احاطے میں داخل ہو گئیں۔۔۔۔وہ ایک عجیب مخمصے میں مبتلا ہو گئی تھیں،فیصلہ نہیں کر پا رہی تھیں کہ اُن لوگوں کے بارے میں کیا رائے قائم کریں۔
اُن کے ساتھ ایسا کئی مرتبہ ہو چکا تھا۔پچھلی دفعہ بھی جب وہ اُس گھر میں گئی تھیں تو خوش نصیبی سے مکان مالکن سے ملاقات ہو گئی۔وہ اپنے خوبصورت دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے بڑی خوش اخلاقی سے ملیں۔ دو چار رسمی سی باتیں ہوئیں۔ اِتنے میں فون کی گھنٹی بج اُٹھی۔ پھر وہ فون ہاتھ میں لے کرگویا دنیا و مافیہا سے بے خبر سیڑھیاں چڑھتی ہوئی جاکر اپنی خواب گاہ میں اس طرح غائب ہوئیں کہ بے چاری راشدہ کا کوئی پرسانِ حال نہ رہا۔دریں اثنا نوکر ایک ٹرے میں جوس رکھ کر لے آیا ۔ اُنہوں نے دو گھونٹ پی کر گلاس واپس رکھ دیا اور اُٹھ کر صدر دروازے کی طرف چل دیں۔ نوکر نے اُنہیں رکنے کے لئے نہیں کہاشاید وہ ایسے مناظر کا عادی تھا۔ اُن کے ذہن پر سے ایک ایک کرکے ساری پرتیں ہٹ رہی تھیں۔
سوچ میں گم ازخود اُن کے قدم آنگن کی دیوار میںایستادہ دروازے کی طرف اُٹھ گئے ۔ نہ جانے کونسی کشش کے زیر اثر آہستہ سے درمیانی دروازہ کھول کر پچھواڑے والے مکان کے احاطے میں نکل آئیںاور چپ چاپ کھڑے ہوکر سُن گن لینے لگیں۔صحن میں اندھیرا تھا اور اندر پر سکون خموشی چھائی ہوئی تھی۔ بیچ میںایک آدھ برتن کھنکنے کی آواز سنائی دے جاتی۔دھیرے سے قدم بڑھاتے ہوئے وہ مکان کے داخلی دروازے کے قریب پہنچ گئیںاور سر ٹیڑھا کر کے ذرا سا اندرجھانکا۔ ہال کے بیچوں بیچ نہایت سلیقے کے ساتھ دسترخوان چنا ہوا تھا۔ایوب رضااپنی بیوی منزہ اور بچوں سمیت دسترخوان پر بیٹھے ہوئے تھے ۔ رات کا کھانا تناول فرمایا جا رہا تھا۔درمیان میںرکھی ہوئی وہ سینی اُنہیںصاف دکھائی دے گئی جو ایک غلط فہمی کے نتیجے میں یہاں پہنچ گئی تھی۔ سب لوگ اُس میں سے کچھ نہ کچھ اپنی اپنی رکابی میں ڈال رہے تھے جسے انتہائی مودبانہ اور بے حد رغبت کے ساتھ نوش فرمایاجا رہا تھا۔ ایوب بے اختیارانہ انداز میں کوئی ستائشی جملہ کہہ دیتے اور منزہ مسکرا تے ہوئے اپنا سر ہلاکر اُس کی تصدیق کر دیتیں۔ لڑکیوں کے سر پلو سے ڈھکے ہوئے تھے۔
بڑی لڑکی ضیاء دروازے کی طرف رُخ کئے بیٹھی تھی۔اس پر نظر پڑتے ہی انہیں متحیر رہ جانا پڑا۔اس کے سراپا میں کس قدرخوش گوار تبدیلی آگئی تھی ! اُسے دیکھے بھی تو ایک عرصہ ہو چکا تھا۔ اُجلے آنچل میں لپٹا ہوااُس کا بھولا بھالا چہرہ روشن ہالے میںگھرے مہتاب کی تمثیل پیش کر رہا تھا۔یاد ماضی کی بند کتاب کے اوراق پھڑپھڑانے لگے۔برسوں پہلے نور کے سانچے میں ڈھلی اس بچی کی پیدائش پر خودبیگم راشدہ نے اس کا نام ضیاء تجویز کیا تھا۔دفعتہََ دل کے نہاں خانوں میں اس کے لئے بے پناہ شفقت عود کر آئی۔ایک انوکھے جذبے کے تحت اُسے گلے لگالینے اورمہینے بھر کے روزوں کی گرمی سے مضمحل اُس سرخ و سپید چہرے کی دمکتی ہوئی جبیں پر بے اختیار بوسہ دینے کو جی چاہا۔ان کے بڑھتے ہوئے قدم اچانک ٹھٹک کر رک گئے ۔اچانک اپنی آمد ظاہر کرکے اُس محفلِ طعام میں خلل ڈالنے پر ذہن آمادہ نہیں ہوابلکہ کچھ دیر یونہی چپ چاپ اِس شفاف نظارے کا حظ اُٹھا نے پردل مائل ہوگیا ۔در اصل یہ منظرانہیں کسی اور ہی دنیا میں لے گیاتھا جس سے روگردانی کرتے ہوئے وہ ایک سراب کے پیچھے دوڑ تی رہی تھیں۔
اُن کے ہاتھوں بنے ہوئے کھانے کوبچے اِس طرح چٹخارے لے کر کھا رہے تھے مانو مدتوںبعد اِس قدر لذیذ کھانا نصیب ہوا ہو۔راشدہ کا گلا بھر آیا۔ایسے پکوان تو اُن کے یہاںتقریباََ ہر روز بنتے تھے۔ سامنے والے بنگلے میں مسلسل قاب قاب پربھجواتی رہی تھیں ۔ رمضان کے پورے تیس با برکت ایام گزر گئے لیکن اپنے ہمسایہ خویش و اقارب کا خیال بھولے سے بھی نہیں آیا جو اُن کی فیاضی کے مقدم حقدار تھے ۔
اِس ایک سینی کے آگے ساری دعائیں ،گزارشات وعبادات ہیچ لگ رہے تھے جو غلط فہمی کے نتیجے میں ان کے یہاں پہنچ گئی تھی ۔ندامت پچھتاوہ اور خوفِ اِلٰہی سے اُن کا دل آب آب ہوا جا رہا تھااور بدن پر کپکپی طاری ہو گئی تھی۔پشیمان اوراشک بار آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھاپھران کے لرزہ براندام ہاتھ معافی کی طلب میں اُوپر اُٹھ گئے۔lll