کسی نے جھنجھوڑ کر جگایا تو سونے والا اٹھ بیٹھا۔ ہر طرف نظر دوڑائی مکرے میں کوئی دکھائی نہ دیا۔ حیرت اس بات کی تھی کہ کون اندر آیا اور کس نے جگایا؟ سونے کے کمرے میں تو کسی کو آنے کی اجازت نہ تھی پھر یہ کون اور کیسے چلا آیا۔ وہ جنھیں اس بات کی حیرت تھی رسولِ اکرمﷺکے ایک صحابی تھے، بڑے جلیل القدر صحابی! اُنھیں وحی کی کتابت کا شرف بھی حاصل تھا۔ وہ بڑے ذہین، بڑے لائق، بڑے معاملہ فہم اور مدبر انسان تھے۔ تاریخِ اسلام میں اُن شخصیت کی بڑی ممتاز ہے۔ میدانِ جنگ میں بھی ان کا جواب نہیں تھا۔ تاریخ اسلام کی پہلی سمندری لڑائی انھوں نے ہی جیتی اور قبرص کا جزیرہ مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔ صحیح بخاری میں خاتم المعصومین صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جہاد میں حصہ لینے والوں کو جنت کی بشارت دی تھی۔ اُن کی بہن حضرت ام حبیبہ ام المومنین ہونے کا شرف رکھتی تھیں۔ یہ صحابی امیر معاویہؓ تھے!
روایت ہے کہ حضرت امیر معاویہؓ سو رہے تھے اور کسی نے انھیں سوتے سے جگا دیا۔ آخر بہت چھان بین کے بعد وہ مل گیا، جس نے انھیں اٹھایا تھا۔ انھوں نے پوچھا: تم کون ہو؟ یہاں کیسے آئے؟ جواب ملا: میرا یہاں آنا تو بہت آسان ہے۔ رہا کون ہوں تو کیا بتاؤں؟ دنیا مجھے جانتی ہے کہ میں ابلیس ہوں! مولانا رومی نے لکھا اب ابلیس سے امیر معاویہؓ کی بات چیت شروع ہوئی۔ انھوں نے پوچھا: تونے مجھے کیوں جگایا؟ جواب ملا: نماز کا وقت تنگ ہو رہا تھا۔ میں نے سوچا آپ جلدی سے اٹھ کر نماز پڑھ لیں۔ حضرت امیر معاویہؓ نے فرمایا: تو اور نیکی کے دم میں ہو یہ تو ممکن ہی نہیں؟ اگر چور گھر میں گھس آئے اور بولے کہ میں پہرہ دینے آیا ہوں تو کیا میں قبول کرلوں گا! ابلیس بولا: میں بھی کبھی عبادت گزار رہا ہوں، کبھی کبھی عبادت کی لذت مجھے بھی یاد آتی ہے! امیر معاویہؓ نے فرمایا: بتا کہ صحیح بات کیا ہے؟ ابلیس نے کہا: کوئی بد ہو بدنام نہ ہو۔ میں نے صرف ایک غلطی کی تھی ہر ایک مجھے برا کہتا ہے۔ آدم کی اولاد چھپا چھپا کے کیسے کیسے گناہ کرتی ہے اور دنیا کے سامنے معتبربن کر آتی ہے۔ کوئی کچھ نہیں کہتا؟ میری سچ بات کو بھی آپ سچ نہیں مانتے کیا کوئی کسوٹی ہے آپ کے پاس؟ صحابی رسولؐ نے فرمایا: ہاں! آں حضرتﷺ کا ارشاد ہے کہ جھوٹ دلوں میں شک پیدا کرتا ہے اور سچ اطمینان! تیری باتوں پر مجھے شک ہوتا ہے۔ ابلیس بہت حیلے بہانے کرتا رہا آخر اسے سچ کہنا ہی پڑا تو بولا: بے شک میں نے آپ کو نماز کے لیے اٹھایا ہے کہ آپ جماعت سے نماز پڑھ لیں اور فارغ ہوکر مطمئن ہو بیٹھیں۔ اگر آپ کی نماز قضا ہوجاتی تو آپ کو بڑی ندامت ہوتی۔ آپ سوز و گداز سے اللہ کے حضور گڑگڑاتے توبہ و استغفار کرتے۔ میں جانتا ہوں آپ کے دل کی وہ کیفیت ایسی ہوتی کہ اللہ تعالیٰ آپ کی قضا بھی قبول فرماتا اور آپ کو زیادہ ثواب بھی دیتا۔ میں آخر کوشیطان ٹھیرا میں نہیں چاہتا ہوں کہ آپ کو زیادہ ثواب ملے۔ بس اسی لیے میں نے آپ کو اٹھایا۔
جسے اپنی غلطی کا احساس ہو اس کے دل میں توبہ کا خیال پیدا ہوتا ہے اور جس کی توبہ دل سے ہو پھر اللہ تعالیٰ اس کا گناہ معاف نہیں فرماتا بلکہ اس سے کچھ سوا بھی دیتا ہے۔ شیطان بالکل نہیں چاہتا کہ آدمی میں ندامت کا احساس پیدا ہو۔ جو اپنے گناہوں پر شیر ہوجاتا ہے وہی اس کا دوست ہوتا ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا نے اپنی اولاد کے لیے یہ روایت قائم کی ہے کہ جیسے ہی اپنی غلطی کا احساس ہو ہمیں توبہ کرنا اور اطاعت کی طرف لوٹ جانا چاہیے۔ سورہ اعراف میں ہے جیسے ہی انھیں شیطان کے جال میں پھنسنے کا احساس ہوا انھوں نے بارگاہِ خدا وندی میں دعا کی کہ ربنا ظلمنا انفسنا و ان لم تغفر لنا و ترحمنا لنکونن من الخسرین مولا! ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا۔ اب اگر تونے ہمیں معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو بے شک ہم گھاٹے میں رہیں گے۔ll