اسلام میں اخلاق کی جو اہمیت ہے اس کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے کہ نبی کریم ﷺسے پوچھا گیا کہ سب سے افضل ایمان کو ن سا ہے ؟ تو آپؐ نے فرمایا وہ ایمان جس کے ساتھ اخلاق حسنہ موجود ہو۔ دوسر حدیث میں فرمایا:
’’ اہل ایمان میں سب سے کامل الایمان شخص وہ ہے جو اخلاق میں سب سے عمدہ ہو۔‘‘
نبی اکرم ﷺ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’ بے شک آپ اخلاق کے اعلی مرتبے پر ہیں۔ ‘‘(القلم :۴)
یہ حدیث تو خاص طور پر اسلام میں اخلاق حسنہ کی اہمیت کو واضح کررہی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے تین بار فرمایا کہ خدا کی قسم وہ شخص مومن نہیں، صحابہ کرام نے پوچھا کون اے اللہ کے رسول، آپ ﷺ نے فرمایا وہ شخص جس کی ایذا رسانی سے اس کا پڑوسی مامون نہ ہو ۔
اخلاق کی فلسفیانہ اساس
علم اخلاق یا اخلاقیات کی ذیل میں قرآن کی اہم ترین تعلیم جو اخلاقیات کی فلسفیانہ اساس بنتی ہے وہ یہ کہ انسان کے نفس میں اللہ تعالی نے نیکی اور بدی کا شعور الہامی طور پرودیعت کردیا ہے جیسا کہ سورہ الشمس میںاللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’اور نفس انسانی کی قسم اور جیسا کچھ اللہ نے اسے بنایااور الہامی طور پر اس میں فجور اور تقویٰ کا علم ودیعت کر دیا‘‘۔ ( ۷۔ ۸)
قرآن کریم میں نیکی اور بدی کے لئے معروف اور منکر کا لفظ متعدد جگہوں پر استعمال ہوا ہے ۔ معروف کے معنی جو چیز جانی پہچانی ہو اور منکر کا مطلب جس شئی کے بارے میں اجنبیت محسوس کی جائے۔ نفس انسانی میں خود خیر اور شر میں امتیاز کی صلاحیت رکھ دی گئی ہے ۔یہ وہ بنیادی تصورات ہیں جو پورے نوع انسانی کا اثاثہ ہیں۔ سچ بولنا، انسانیت ، ہمدردی، انصاف، ایمانداری وغیرہ جیسی صفات تمام مذاہب ، ہرمعاشرے اور ہر دور میں خیر قرار دی گئی ہیں اور ان کے برعکس چیزوں کو برا اور شر سمجھا گیا ہے۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
’’ اگر کوئی اچھا کام کرکے تمہیں خوشی ہو اور کوئی برا کام کرکے تمہیں خود ملال ہو تو تم مومن ہو۔ ‘‘
یہ احساس ہی ایمان کی علامت ہے کہ فطرت ابھی مسخ نہیں ہوئی ہے اس میں خیر و شر کا امتیاز برقرار ہے۔
ایک اور جگہ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ گناہ وہ ہے جو تمہارے سینے میں کھٹکے اور تم ناپسند کرو کہ وہ کام لوگوں کے علم میں آئے۔‘‘
اسی لئے سورہ القیامۃ میں نفس لوامۃ کی قسم کھائی گئی ہے : ’’ نہیں میں قسم کھاتا ہوں نفس ملامت گر کی۔ ‘‘
انسانی ضمیر ایک زندہ حقیقت ہے اور اگر آپ کا ضمیر آپ کی کسی خطا پر ملامت کرتا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ فطرت انسانی اپنی صحت پر برقرار ہے۔ تو جہاں تک انسان اخلاقیات کی بات ہے تو اس کے لئے انسان کسی تلقین یا تعلیم کا حاجت مند نہیں بلکہ اللہ کی عطا کردہ یہ دولت انسانی فطرت میں ودیعت کر دی گئی ہے۔
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا ہو اور اس میں یہ الفاظ وارد نہ ہوئے ہوں ’’ جس شخص کے اندر امانت داری نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں اور جس میں ایفائے عہد کا مادہ نہیں اس کا کوئی دین نہیں۔ ‘‘
اسی طرح خدمت خلق کے متعلق آپؐ نے فرمایا :
’’ لوگوں میں بہترین وہی ہیں جو لوگوں کو فائدہ پہنچائیں۔‘‘
قرآن میں بنیادی اخلاقیات مثلا صداقت، ایفائے عہد، صلہ رحمی، خدمت خلق، غریبوں کی مدد، یتیموں مسکینوں کی دیکھ بھال کمزوروں کی سر پرستی وغیرہ بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
’’ کیا آپ نے دیکھا اس شخص کو جو جزاء کے دن کو جھٹلاتا ہے ، پس وہی ہے جو یتیموں کو دھکے دیتا ہے اور مسکینوں کو کھانا کھلانے پر نہیں ابھارتا ہے۔ ‘‘ ( الماعون : ۱-۳)
اصل جذبہء محرکہ ایمان
اسلام میں تمام تر اخلاقیات کی بنیاد ایمان باللہ و ایمان بالآخرۃ ہے ۔ ایک طرف اللہ کی محبت ، اس کی رضاجوئی ، دوسری طرف اللہ کا خوف اور اس کی ناراضگی کا ڈر ، آخرت کی سزا کا خوف ہے، جس نے ایما ن باللہ کو مضبوطی سے تھام لیا اب بڑے سے بڑے امتحان میں اس کے پائے استقامت میں لغزش نہیں آئے گی ۔ دوسرا آخرت کا خوف ، آخرت کی جواب دہی کا احساس کہ ہر عمل کا حساب دینا ہے ۔ اگر انسان اس چیز کو اپنے شعور میں تاز ہ رکھے تو یقینا وہ ہر قدم پر اپنا محاسبہ کرے گا اور ہوشیار رہے گا کہ کہیں کوئی ایسا فعل نہ سرزد ہو جائے جو خدا کے احکام کے منافی ہو۔
اسلام نے اخلاق و اعمال کی درستی کے لئے آخرت کی فکر، جواب دہی کے احساس اور خدا پر ایمان اور اس کی محبت کو بنیاد بنایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ قر آن میں بار بار اپنی محبت کا ذکر کرتا ہے :
’’ اللہ تعالی احسان کی روش اختیار کرنے والے کو محبوب رکھتا ہے۔ ‘‘ ( البقرۃ )
’’ اللہ تعالیٰ متقیوں کو پسند کرتا ہے۔ ‘‘ ( التوبۃ : ۴)
’’ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے اور پاک صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ ‘‘ ( البقرۃ : ۲۲۲)
ا ن آیات میں اور اس قسم کی تمام آیات میں یہ تحریض ہے کہ یہ محبت کبھی ختم نہیں ہوگی ، اللہ کبھی اپنے لوگوں کوان بندوں کا ساتھ نہیں چھوڑے گا ۔ یہ احساس انسان کو تمام معاملات زندگی میں اچھے سے اچھا کام کرنے پر ابھارتا ہے اور مشکلات میں دل کے سکون کا باعث بنتا ہے۔ انسان کی محبت اپنے رب کے لئے اور اس کی رضاجوئی اور محاسبۂ اخروی کے احساس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
’’ اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو حرام خواہش سے روکا تو یقینا اس کا ٹھکانہ جنت ہوگی۔ ‘‘ ( النازعات : ۴۶)
ہمارے لئے سیرت و کردار کی تعمیر اور تہذیب اخلاق کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ایمان کی گہرائی اور گیرائی کے لئے زیادہ سے ز یادہ کوشش کی جائے اور اس کی افزائش کا اہتمام کیا جائے ۔ اسی کا نام در حقیقت معرفت ہے ۔ اگر اللہ سے ملاقات کی امید و یقین ہوگا تو انسان کے اخلاق میں عظیم تبدیلی نمایاں ہو گی ۔
پھر اسلام بالکل واضح طور پر دنیا میں انسان کی حیثیت کو متعین کرتا ہے ۔ اس دنیا میں انسان کی حیثیت خدا کے بندے اور اس کے نائب کی ہے ۔ یعنی اس دنیا میں انسان کا جن چیزوں سے سابقہ پڑتا ہے وہ سب کی سب خدا کی ملک ہیں یہاں تک کہ انسان کا جسم اور اس کی تمام تر قوتیں اور صلاحیتیں بھی خدا کی عطا کردہ امانت ہیں اور ا ن تمام چیزوں کے لئے وہ اس کے ا صل مالک کے سامنے جواب دہ ہو گا۔ حیثیت کے اس تعیین سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ خدا کے امتحان میں کامیاب ہونا اور اس کی رضا کا حصول ہی بلند ترین بھلائی ہے جو مقصود بالذات ہونی چاہیے اور اچھے اخلاق کی پابند ی اور برے اخلاق سے اجتناب کے اصل محرک خدا سے محبت ، اس کی رضا کی طلب اور اس کی ناراضگی کا خوف ہونا چاہیے۔یہی وہ اصل جذبۂ محرکہ ہے جس پر تمام اخلاقیات کی اساس ہے۔
خدا کے نائب ہونے کا احساس انسانی زندگی کے لئے راستے اور مقصد دونوں کی تعیین کر دیتا ہے ۔ اس تصور سے لازم آتا ہے کہ ا نسان کے لئے کسی ا ور کی بندگی اور خود مختاری کے تمام رویے غلط ہیں اور اس کے لئے صرف یہی رویہ صحیح ہے کہ وہ اپنے تمام تصرفات میں خدا کی مرضی کا تابع اور اس کے نازل کردہ اخلاقی قانون کا پابند بن کر رہے۔ ساتھ ہی خدا کی املاک میں اس کا تصرف، اس کی رعیت میں اس کی فرما ںروائی، اس اخلاق اور برتاؤ کے عین مطابق ہو جو اس سلطنت کا اصل مالک اپنی ملک اور اپنی رعیت میں کررہا ہے ۔ نیز اس تصور سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ جو قوتیں اللہ نے انسان کو عطا کی ہیں اور جو ذرائع اور وسائل بخشے ہیں اسے منشائے الٰہی کے مطابق استعمال کرنے پر انسان مامور ہے ۔ نیز یہ بھی تصور لازم آتا ہے کہ پوری نوع انسانی کی اجتماعی زندگی ایسے ڈھنگ پر قائم ہو کہ سارے انسان ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں ایک دوسرے کے معاون و مدد گار ہوںجو ان کے مالک نے ان پرڈ الی ہے۔
انسان کی اخلاقی زندگی کا مقصد اور اس کی تمام سعی و عمل کا نصب العین اسی تصور سے بالکل ایک منطقی لزوم کے ساتھ متعین ہوتا ہے ۔ نائب سلطان کی حیثیت سے انسان کا زمین پر مامور ہونا خود بخود اس بات کا متقاضی ہے کہ انسان کی زندگی کا مقصد زمین پر خدا کی مرضی پوری کرنے کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے ۔ خدا کے قانون کو جاری رکھنا ، خدا کی منشا کے مطابق امن اور عدل و انصاف کا قیام ، اور اس نظام میں شر و فساد کی جو صورتیں پیدا ہوں ان کو دبانا ا ور مٹانے کی کوشش کرنا ، ان بھلائیوں کو زیادہ سے زیادہ نشوونما دینا جو اس کے مالک کو محبوب ہیں اور جن سے وہ اپنی زمین اور رعیت کو آراستہ دیکھنا چاہتا ہے ۔
اللہ پر ایمان، آخرت پر ایمان ،اجتماعی زندگی کی فلاح کا احساس اور خدا کا نائب ہونے کے ناطے ذمہ داریوں کو سمجھنے اور نبھانے کا جذبہ اور فکر انسانیت وہ بنیادیں ہیں جو اخلاق انسانی کی تعمیر کے لئے اسلام نے ہم کو دی ہیں ۔ اسلام کسی ایک قوم کی جاگیر نہیں بلکہ تمام انسانیت کی مشترک میراث ہے اور سارے انسانوں کی فلاح اس کے پیش نظر ہے ۔ ان اخلاقی نظام کو اپنا کر انسانیت کی فلاح و بہبودکا حصول ممکن ہے اور خود ایک شخص کی کامیابی ان اخلاق کو اپنانے میں مضمر ہے جو خدا نے ضمیر کی شکل میں انسان کے اندر ودیعت کر رکھا ہے ۔ ان اخلاقیات کو اپنا کر اپنی فطرت کو مسخ ہونے سے بچایا جا سکتا اور انسان کی کامیابیوں کا دارومدار بھی انسانیت کو اپنانے میں ہی ہے اگر انسانیت کو انسان کے اندر سے نکال دیا جائے تو وہ محض ایک حیوان بن کر رہ جاتا ہے اور اشرف المخلوقات کا درجہ کھو بیٹھتا ہے ۔ جو چیز انسان اور حیوان کے درمیان تفریق کرتی ہے وہ انسانیت ا ور انسانی جذبۂ حسن سلوک ہے۔ lll