وادیٔ عشقِ نبیؐ میں یوں سفر کرتے ہیں
ان پہ قربان دل و جان و جگر کرتے ہیں
بحر و بر، شمس و قمر، جنّ و بشر کرتے ہیں
رشک سرکار پہ سب لعل و گہر کرتے ہیں
شرم آتی ہے دکھائیں گے انھیں منہ کیسے؟
اپنے کردار پہ ہم جب بھی نظر کرتے ہیں
یہ تو سچ ہے کہ عمل میں ہیں بہت ہم کچے
دعویٔ حبّ نبی دل سے مگر کرتے ہیں
دل نکل جائے گا، دل سے وہ نہیں نکلیں گے
برملا ہم یہ زمانے کو خبر کرتے ہیں
ایک حبشی کو بھی دیتے ہیں مقام سید
جب مرے آقا ذرا اس پہ نظر کرتے ہیں
سربلندی تو مقدر ہے انھی کا تنویرؔ
حکم سرکار پہ خم اپنا جو سر کرتے ہیں