اسی سے نوعِ انساں پھر ہدایت کی سوالی ہے
وہ ہادیؐ جس نے دنیا، دین کے سانچے میں ڈھالی ہے
امید و بیم کی تصویر بن کر رہ گیا ہوں میں
نظر سوئے فلک ہے ہاتھ میں روضہ کی جالی ہے
ادب سے میں یہ موتی اُنؐ کے قدموں میں سجا دوں گا
مری آنکھیں تو پُر ہیں کیا ہوا گر ہاتھ خالی ہے
کسی بھی قیصر و کسریٰ کو خاطر میں نہیں لاتے
محمدؐ کے غلاموں کی ادا سب سے نرالی ہے
مٹانا چاہتے ہیں آپؐ کے قانون کو شاہا!
کچھ ایسے لوگ جن کا شیوہ حق کی پائمالی ہے
اندھیرے خود پریشاں ہیں یہ میرا کیا بگاڑیں گے
کہ میں نے شمعِ ایماں خانۂ دل میں جلا لی ہے
حفیظ اب ہم نبیؐ کے ہجر میں آنسو بہائیں گے
نکلنے کی ہماری حسرتوں نے راہ پا لی ہے