اُسؐ کا احسان ہے، اُسؐ کا فیضان ہے، میر ی ہستی کو اس نے سنوارا بہت
آج اشکوں سے میں نے محمدؐلکھا اور پھر اس کو ہونٹوں سے چوما بہت
آپؐ بہرِ عیادت گئے اس کے گھر، پھینکتی تھی جو کوڑا سرِ پاک پر
کتنی بد بخت تھی، کتنی خوش بخت تھی، یاد آتی ہے مجھ کو وہ بڑھیا بہت
وہ تو رحمت ہی رحمت ہیں سب کے لیے، وہ ہوں اپنے قبیلے کے یا غیر ہوں
ان کے کردارِ عفو و کرم کے لیے ’’فتحِ مکہ‘‘ کا ہے اک حوالا بہت
وہ پیمبر بھی تھے، وہ سپاہی بھی تھے، بانیِ سلطنت بھی تھے، حاکم بھی تھے
ان کا ہمتا کوئی بھی نہ مجھ کو ملا، میں نے تاریخ عالم میں ڈھونڈا بہت
آپؐ کو مال و زر جو بھی، جب بھی ملا، دوسروں ہی میں تقسیم اُسے کر دیا
اور اپنے لیے اک چٹائی بہت، بے چھنے جو کے آٹے کی ٹکیا بہت
تاج دارِ رسالتؐ کا ارشاد ہے ’باغِ جنت ہے ماؤں کے قدموں تلے‘
آپؐ کا یہ بھی عورت پہ احسان ہے، کر دیا ماں کے رُتبے کو اونچا بہت
اہلِ ایماں کو جو حکم اسؐ نے دیا، اس پہ سب سے زیادہ عمل خود کیا
جو کہا، وہ کیا، جو کیا، وہ کہا، وہ انوکھا بہت تھا، نرالا بہت
تو درودوں میں ہے، تو سلاموں میں ہے، تو اذانوں میں ہے، تو نمازوں میں ہے
سارے عالم میں پھیلی ہے خوش بو تری، سارے جگ میں ترے نام لیوا بہت
سیّد ولدِ آدم! شفیع الامم! نازش بزم عالم! جمیل الشیم!
تیرے رستے پہ چلنا نہ چھوڑیں گے ہم، چاہے ہم کو ستائے یہ دنیا بہت
میری بیوی ہو، لڑکے ہوں یا لڑکیاں، سب کے چہروں سے ہے نورِ ایماں عیاں
آفتابِ رسالتؐ ترا شکریہ! میرے گھر میں ہے تیرا اُجالا بہت
متحد ہو نہ جائیں ترے اُمتی، بن نہ جائیں کہیں ایک ’طاقت‘ نئی
ہو نہ جائے ترا دین پھر حکمراں، تیرے اعدا کو ہے آج کھٹکا بہت
تیری تعریف میں جو بھی میں نے لکھا، تیری توصیف میں جو بھی میں نے کہا
اُس کو سن کر اگر اے مسیحا جاں! مسکرا دے ذرا سا تو اتنا بہت