شہنشاہوں کی عظمت آپؐ کے آگے تو پانی ہے
یہ عظمت آپ کی واللہ دشمن نے بھی مانی ہے
سکوں اعصاب میں ہے اور جذبوں میں روانی ہے
سمجھتا ہوں میں یہ فیضِ نشستِ نعت خوانی ہے
جدھر جائو حبیبِ کبریا کے نقشِ پا روشن
’جدھر دیکھو جمال مصطفی کی ضو فشانی ہے‘
سنائیں کیوں نہ بچوں کو کہانی اپنے آقا کی
بتائو اس سے بہتر بھی اگر کوئی کہانی ہے
میں ان کی شان میں اس سے زیادہ کہہ نہیں سکتا
نہ ان کا کوئی ہمسر ہے، نہ ان کا کوئی ثانی ہے
عمل کی مقتضی ہے الفت شاہنشہِ عالم
بغیر اس کے یہ دعوی تو فقط اک لن ترانی ہے
یہ جادو ہے مرے آقا کے اخلاق کریمہ کا
خس و خاشاک سبزہ، خار گل، پتھر بھی پانی ہے
مرے اللہ میں بھی دیکھ لوں سرکار کا کوچہ
یہی میری تمنّا منتہائے نعت خوانی ہے
مجھے اس کے سوا اب چاہیے ہی اور کیا تنویرؔ
کہ ان کی ذات سے وابستہ میری زندگانی ہے