گزشتہ دنوں ہمارے ملک میں دو اہم واقعات سامنے آئے۔ ایک منی پور میں دو قبیلوں کے درمیان خون خرابہ اور راجدھانی سے ملحق ریاست ہریانہ میں فساد۔ ان دونوں واقعات نے پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا۔ خاص طور پرملک کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں جو کچھ ہوا اور جس قدر طویل مدت تک جاری رہا اس نے ملک کے باشعور شہریون کا سر شرم سے نہ صرف جھکا دیا بلکہ بہت سے لوگوں کو یہ خیال گزرا کہ ملک کی مذکورہ ریاست میں امن و قانون نام کی کوئی چیز بچی بھی ہے یا نہیں۔
اس کا سب سے تاریک پہلو یہ تھا اور اب بھی ہے کہ منی پور میں آگ اور خون کا یہ کھیل مہینوں جاری رہا اور حکومت اسے کنٹرول نہ کر سکی یا کنٹرول کرنا نہیں چاہتی تھی۔ جبکہ وہاں پر جو کچھ ہو رہا تھا اس کے جو ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے تھے انہیں دیکھ کر ہر کوئی اندازہ لگا سکتا تھا کہ وہاں آگ و خون کا کس قدر بھیانک کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ حالات کی سنگینی اور باہمی منافرت کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ وہاں پر خواتین کو برہنہ کرکے پریڈ کرائی گئی۔ آزادی کی سات دہائیوں پر محیط اس مدت میں اہل وطن کے درمیان فرقہ وارانہ فسادات میں بھی ایسی چیزوں کا تصور محال تھا، اسی طرح کسی خون خرابہ کا تین ماہ کی مدت تک جاری رہنا بھی اپنے آپ میں بے مثال حادثہ ہے جس پر جس قدر تکلیف کا اظہار کیا جائے وہ کم ہے۔ اس میں ایک بات جو بہت زیادہ محسوس کی گئی وہ وزیر اعظم کی طویل خاموشی تھی۔ اس طرح کی خاموشی سے عوام میں صحیح میسیج نہیں جاتا اور لوگ مختلف خیالات اپنے ذہن میں پالنے لگتے ہیں۔ عوام یہ توقع کرتے ہیں کہ کسی بھی نا خوشگوار واقعہ پر وزیر اعظم کا فوری رد عمل سامنے آنا چاہئے۔ ان کا بیان نہ صرف حالات کو مزید بگڑنے سے بچاتا ہے بلکہ قانون و انتظام میں لگی ایجنسیوں کو بہتر کارکردگی دکھانے کا پیغام دے کر عوام میں اعتماد پیدا کرتا ہے۔
اب جبکہ وہاں پر حالات معمول کی طرف آتے دکھائی دے رہے ہیں، حکومت کے سامنے یہ بڑی محنت طلب مہم ہوگی کہ دونوں گروپوں کے درمیان اعتماد اور بھائی چارے کی فضا کیسے ہموار کی جائے اس لئے کہ نفرت کے ساتھ باہم زندگی گزارنا آسان نہیں ہوتا اور نفرت کی موجودگی کبھی بھی اپنا اثر دکھا کر حالات کو پھر سے خراب کر سکتی ہے۔
جہاں تک ہریانہ کے فساد کا معاملہ ہے تو یہ منی پور سے مختلف نوعیت کا تھا اور شروع ہی سے اس کا رنگ فرقہ وارانہ تھا اور اس نفرت کی سیاست کا نتیجہ تھا جو آج کل عروج پر ہے۔ دہلی سے لگے گروگرام (گڑگاؤں)، نوح اور فریدا باد اس کی زد میں تھے جبکہ ہریانہ کا مسلم آبادی والا علاقہ میوات اس کا خاص ہدف تھا۔ ذہن میں رہے کہ گروگرام میں، جب سے ہریانہ میں نئی حکومت آئی ہے، نفرت کا بازار کافی کرماہٹ لئے ہوئے ہے۔ قارئین کو گزشتہ سال پارک میں نماز جمعہ کی ادائیگی کو لے کر کھڑا کیا گیا طویل ہنگامہ اور ملکی میڈیا میں اس کی رپورٹنگ یاد ہو تو اس واقعہ سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ فساد ’سنیوجت‘ تھا اور ایک لیڈر نے اس کے لئے باقاعدہ کال دی تھی جبکہ ایسا کرنے پر اسے فوری طورپر گرفتار کر لیا جانا چاہئے تھا مگر نہیں ہوا۔ ہمیں اس پر کوئی اصرار نہیں کہ یہ منصوبہ بند تھا یا نہیں البتہ اس پر یقین ہے کہ وہ نفرت کا نتیجہ اور اسی کی فصل تھا جس کواس کی کاشت کرنےوالوں نے کا ٹا اور اب بھی وہ اس کو کھاد پانی دے رہے ہیں۔ وہ مہا پنچایتیں کر رہے ہیں اور قراردادیں منظور کر رہے ہیں کہ ان کے گاؤں میں مسلم تاجروں اور پھیری والوں کا داخلہ ممنوع ہوگا۔ ہمیں مسلم پھیری والوں اور تاجروں کی تجارت کے سلسلے میں بہت زیادہ تشویش نہیں کہ ہم اللہ تعالی کی رزاقیت پر ایمان رکھنے والے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ اللہ ان کے لئے فراہمی رزق نئے راستے کھول دےگا،ہمیں تشویش اس ملک کے مستقبل کو لے کر ہے کہ یہ نفرت کے ساتھ کیسے جی سکےگا۔
نفرت کی سیاست کرنے والوں کو بھی سوچنا چاہئے اور ملک کے سچے محب وطن شہریوں اور سیاست دانوں کو بھی یہ بات سمجھنی چاہئے کہ نفرت اندھی ہوتی ہے، اسے اپنا پرایا نظر نہیں آتا یہ تو بس اپنی من پسند کی روادار ہوتی ہے اور جو پسند نہ ہو، خواہ کوئی بھی ہو اس کے خلاف بھڑک اٹھتی ہے۔ یہ وہ ڈائن ہے جو بھوک کی صورت میں اپنے بچے اور پرائے بچہ کا فرق بھول جاتی ہے۔
کسی قوم کی طاقت اس کا باہمی اتحاد ہے۔ اگر بہ حیثیت قوم باہمی اتحاد میں خلل پڑتا ہے یا خلل ڈالا جاتا ہے تو قوم کو کمزور کرنے کی کوشش ہے جس پر حکومتوں اور اہل وطن دونوں کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے اور اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ مذہب کی بنیاد پر عوام کو تقسیم کرنے کی سیاست براہ راست ملک کو کمزور کرنے والا عمل ہے جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔