نفسیا:ت کیریئر کے ابھرتے مواقع

ادارہ

بھاگ امراض میں مبتلا کررہی ہے۔ شہری زندگی پہلے بھاگم بھاگ کے لیے جانی جاتی تھی مگر اب دیہی زندگی بھی اسی کی زد میں ہے۔ رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ، تعلقات میں بگاڑ، خاندانی زندگی میں بکھراؤ اور سماجی زندگی سے کٹ کر تنہائی کی زندگی نے انسانوں کے لیے بڑے مسائل پیدا کردئیے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اچھے اچھے اور بہ ظاہر خوش حال نظر آنے والے خاندانوں کے مردو خواتین اور بچے بچیاں خود کشی کررہے ہیں اور یہ تناسب دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اس میں محض شہری زندگی ہی کی قید نہیں دیہاتی زندگی بھی اس کیفیت کی زد میں ہے۔ اس پر اور معاشی مندی نے قرض میں دبے کسانوں ہی کو نہیں بلکہ بڑے بڑے تاجروں کو بھی ایسے ذہنی تناؤ میں مبتلا کردیا ہے کہ وہ زندگی پر موت کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔

اور یہ معاملہ بڑوں ہی کے ساتھ نہیں۔ ہمارے نو عمر بچے مقابلے کی ہوڑ اور تعلیمی سرگرمیوں اور مصروفیات کے سبب تیزی سے ذہنی تناؤ کا شکار ہورہے ہیں کیونکہ مستقبل کے خوابوں کی رنگینیوں اور مقابلے کی شدت نے ان سے بچپن کے حسین اور بے فکری کے دن چھین لیے ہیں۔ اب کامیابی یا من پسند اسکول میں داخلہ ان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن گیا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر سال CBSEکا رزلٹ آتے ہی اور پھر نئے داخلوں کی کارروائی مکمل ہوتے ہیں طلبہ و طالبات میں خود کشی کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔

اس تمام صورت حال کی وجوہات اور اسباب جوبھی ہوں لیکن اس کیفیت نے سماج میں ماہرینِ نفسیات کی ضرورت اور اہمیت کو بہت زیادہ بڑھا دیا ہے۔ اس وقت اچھے اور ذہین طلبہ بھی اس مضمون میں آنے لگے ہیں اور حالت یہ ہوگئی ہے کہ دہلی یونیورسٹی میں اسی فیصد سے کم نمبرات رکھنے والوں کا داخلہ بھی نہیں ہوسکا۔

ماہر نفسیات کا کام

ماہر نفسیات کی حیثیت سے ایک شخص کا کام یہ ہے کہ وہ فرد کی نفسیات کو سمجھے اور اسے مناسب مشورہ دے کر اس کی مناسب ذہنی تربیت کرے۔ یہ کام عام کاؤنسلنگ کی صورتوں میں بھی ہوتا ہے جو مختلف اداروں کی ضرورت ہوگئی ہے اور ہسپتالوں میں کلینکل کاؤنسلنگ کی صورت میں بھی انجام دیا جاتا ہے جہاں نفسیاتی امراض کے شکارلوگ لائے جاتے ہیں۔

روزگار کے مواقع

نفسیات کے طالب علم کے لیے باقاعدہ روزگار کے کئی مواقع ہیں۔ ایم اے نفسیات کرلینے کے بعد ہی ان کی شروعات ہوتی ہے۔ اس میدان کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں آدمی اداروں سے جڑکر نوکری بھی کرسکتا ہے اور اپنی سطح پر کنسلٹنٹ کے طور پر بھی کام کرسکتا ہے۔ اور دوسری صورت میں بھی اچھے پیسے ملنے کے امکانات ہوتے ہیں۔ ذیل میں چند ایسے شعبوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے، جہاں ماہرِ نفسیات بآسانی روزگار سے لگ سکتے ہیں۔

٭ اسکولوں اور تعلیمی اداروں میں بچوں کی نفسیاتی نگہداشت اور رہنمائی کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری اسکولوں میں کاؤنسلر کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اب اسکولوں کا ماحول اور نصاب دونوں ہی سخت مقابلہ کا میدان ہیں جہاں بچوں کی رہنمائی کے لیے ماہرِ نفسیات کا ہونا ضروری محسوس کیا جاتا ہے۔

اب اس کا ایک اور میدان سامنے آنے کی توقع ہے کہ نفسیات کا مضمون اب اسکولی نصاب کا مضمون بننے والا ہے اور اس کے لیے اس مضمون کو پڑھانے والے اساتذہ باقاعدہ ٹیچر کی حیثیت سے مقرر کیے جائیں گے۔

٭ملک میں چلنے والے مختلف قسم کے سماجی خدمت کے اداروں اور NGO’s میں بھی نفسیات کے ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے۔ فیملی کاؤنسلنگ اور ایڈلٹ ایجوکیشن جیسے میدانوں میں کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیموں کو اس میدان کے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

٭ ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بڑے بڑے تجارتی اداروں میں بھی نفسیات کے ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے جو کسی کمپنی کے HR(ہیومن رسورس) شعبہ کا حصہ ہوتے ہیں۔ یہ لوگ کارکنان کی بھرتی، ٹریننگ اور دیگر مسائل کو دیکھتے ہیں۔ کمپنی کے کارکنان کو نفسیاتی تناؤ سے بچانا اورکام کرنے کے ماحول کو بہتر اور ایسا بنانا ان کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ فرد سخت محنت اور مسلسل محنت کے باوجود خوش خوش اور چست درست رہے اور کام کے بوجھ سے ذہنی مریض نہ بن سکے۔

٭ ایم فل یا پی ایچ ڈی کی ڈگریاں رکھنے والے ماہرِ نفسیات ڈیفنس کے شعبوں میں بھی جاسکتے ہیں جہاں DRDO(ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن) کے لیب میں سائنس داں کے علاوہ فوجیوں کی نفسیاتی کاؤنسلنگ کے لیے بھی افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔

٭ کالجوں، یونیورسٹیوں اور مینجمنٹ کی تعلیم کے اداروں میں بھی ٹرینٹر اور نفسیات کا مضمون پڑھانے والے اساتذہ کی حیثیت سے تقرری ہوتی ہے۔

٭ صحت سے وابستہ اداروں اور اسپتالوں میں کلینکل سائیکلوجسٹ یا کاؤنسلر کی حیثیت سے کام کرنے کے وسیع مواقع ہیں جہاں براہِ راست نفسیاتی امراض کہ شکار افراد کی کاؤنسلنگ اورٹریننگ ہوتی ہے۔

دس معروف ادارے

٭لیڈی شری رام کالج، نئی دہلی

www.ldsrcollege.org

٭اندر پرستھا کالج ، نئی دہلی

www.ipcollege.edu

٭ جیسس اینڈ میری کالج، دہلی

www.jmcdelhi.com

٭دولت رام کالج، دہلی

www.daulatramcollege.net

٭ کملا نہرو کالج، نئی دہلی

www.kamlanehrucollege.org

٭ گارگی کالج، نئی دہلی

www.gargicollege.in

٭ الہ آباد یونیورسٹی ، الٰہ آباد

٭ بنارس ہندو یونیورسٹی، وارانسی

٭ پی جی آئی، چنڈی گڑھ

٭ ذاکر حسین کالج، دہلی

روزگار تو تعلیم سے جڑا ہوا ہے ہی اور نفسیات کے مضمون میں ڈگریاں رکھنے والے لوگوں کے لیے اس کے کافی مواقع ہیں۔ ایک خاص بات اس مضمون کی یہ ہے کہ وہ طلبہ و طالبات خصوصاً لڑکیاں جو روزگار کے نظریے سے کچھ ہٹ کر سماجی خدمت اور دینی خدمت کا جذبہ رکھتی ہیں اس میدان کو منتخب کرکے ایک طرف تو سماج میں بڑھتی ابتری کے سامنے بند باندھنے کی کوشش کرسکتی ہیں، دوسری طرف دعوت و ارشاد کی ذمہ داری کو زیادہ بہتر طریقے سے انجام دے سکتی ہیں۔

کیونکہ ایک کامیاب داعی وہی ہوسکتا ہے، جو مدعو کی نفسیات کو زیادہ بہتر سمجھتا ہو اور اسی کے مطابق اس سے گفتگو کرے۔ اس کے علاوہ ایک داعی سماج و معاشرے کے لیے خیر کاپیغام اور مسائل کا حل رکھتا ہے۔ ایک اچھے ماہر نفسیات کی حیثیت سے ہم انسانوں کے بہت سے ذاتی اور گھریلو مسائل حل کرنے کا کام انجام دے سکتے ہیں۔ ایسے ماحول میں جہاں رشتے ٹوٹ رہے ہیں شوہر بیوی کے درمیان تنازعات بڑھتے جارہے ہیں اسلام سپند خواتین کاؤنسلنگ کے ذریعہ سماج کو بہت کچھ دے سکتی ہیں۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں