نقصان نہ پہنچاؤ!

ڈاکٹر فیاض ہردل

چلتے میں ٹھٹک کر رک گیا۔ کسی کے دعا مانگنے کی آواز آ رہی تھی۔ مسجدکے ستون کی اوٹ میںکوئی صاحب نہایت خشوع و خضوع سے ایک ہی دعائیہ جملہ بار بار دہرا رہے تھے۔ میری حیرانی کا سبب یہ تھا کہ میں نے زندگی میںکسی کو اتنی عجیب دعا مانگتے نہیں سنا تھا۔ دبلے پتلے باریش بزرگ صف پر دوزانو بیٹھے اور نہایت عاجزی سے ہاتھ پھیلائے بار بار دعا دہرا رہے تھے:

’’یااللہ میرے شرسے اپنے بندوں کو بچا، یااللہ میرے باطن کے شر سے اپنے بندوں کو بچا۔‘‘

میں سکتے کے عالم میںان کی آہ و زاری سنتا رہا۔ اچانک مسجد میں کھٹکے کی آواز سن کر انھوںنے دعا ختم کی اور اٹھ کر باہر جانے لگے۔ میرے قریب سے گزرے تو نہ چاہتے ہوئے بھی میرے منہ سے بے اختیار سوال نکل گیا ’’بابا جی! آپ یہ دعا کیوں مانگ رہے تھے؟‘‘

انھوں نے نظر اٹھا کر میری طرف دیکھا، ہلکا سا مسکرائے اور پھر بولے ’’غور کرو تو سمجھ میںآ جائے گا۔‘‘

یہ کہہ کروہ اپنے جوتے لے کر باہر نکل گئے۔ میں کافی دیر تک سوچتا رہا کہ انھوں نے میرے سوال کا جواب وضاحت سے دینا کیوں مناسب نہ سمجھا۔ آخر ایک دن اچانک ذہن میں جھماکا سا ہوا۔ جس سوال کا جواب عین سامنے طاق میں دھرا ہو، کیا زبان سے اس کا اظہار کرنا ضروری ہے؟

اس دن ایک صوفی بزرگ کی لکھی کتاب کامطالعہ کر رہا تھا کہ ایک جملے پر میری نظرٹھہر گئی:

’’فقر کی ابتدا مخلوقِ خدا کے لیے بے ضرر بن جانے سے ہے اور انتہا نفع بخش ہوجانے پر۔‘‘

مجھے فوراً مسجدوالاواقعہ یاد آ گیا۔ ’’اچھا تو وہ بزرگ تہذیبِ نفس کا سبق پختہ کر رہے تھے۔‘‘ میں نے سوچا۔

’’میرا دھیان پھر اس بقراطی حلف نامے کے الفاظ کی طرف گیا جس کی پاسداری کرنا ہرمیڈیکل ڈاکٹر پر لازم ہے۔ وہ الفاظ یہ ہیں: ’’نقصان نہ پہنچائو۔‘‘ ان الفاظ کا مفہوم بھی یہی ہے کہ ڈاکٹر کی طرف سے قصداً کوئی ایسا عمل سرزد نہ ہو جس سے مریض کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو۔ خواہ یہ نقصان جان، مال، عزت و آبرو کسی بھی شے سے متعلق ہو۔

آپ نے اکثر یہ جملہ سنا ہو گاکہ بندہ چاہے ضائع ہو جائے لیکن فقرہ ضائع نہیں ہوناچاہیے۔ اس جملے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں بلا سوچے سمجھے جو منہ میں آئے کہہ دینے والے لوگ دوسروں کے احساسات کو شدید نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس خصوصیت کو محفل آرائی کے لیے ضروری خوبی سمجھا جاتا ہے۔ بہت سی محفلوں میں شمع محفل ایسے لوگ ہوتے ہیں جو منہ پھٹ، بدلحاظ اور زہر آلود پھبتیاں کسنے میں طاق ہوں۔

ایک دن میرے نفسیاتی کلینک میں ایک صاحب تشریف لائے۔ لگ بھگ پچاس برس کی عمر کے وہ صاحب معقول شخصیت کے مالک لیکن اپنی شخصیت کے حوالے سے شدید احساسِ کمتری میں مبتلا تھے۔ بچپن کے ماحول پر بات ہوئی تو انھوں نے بتایاکہ ایک چچاان کی سانولی رنگت کے سبب انھیں مذاق سے کالا کوا کہہ کر بلاتے تھے۔انھیں سخت برا لگتا لیکن احتراماً کچھ کہہ نہ پاتے۔وقت کے ساتھ ساتھ وہ اپنی رنگت کے بارے میںزودحس ہوتے گئے۔ لوگوں کا سامنا کرنے سے کتراتے اور آئینے میں گھنٹوںاپنے آپ کو دیکھ کر کڑھتے۔

رنگ گورا کرنے کے بہت سے نسخے بھی آزمائے۔ اب یہ صورتِ حال تھی کہ آس پاس یا کام کی جگہ پرلوگ دھیمے لہجے میںبات کرتے تو انھیں شک گزرتا کہ ان کے بارے میں بات کی جا رہی ہے یا تمسخر اڑایا جا رہا ہے۔ لوگ یقین دہانی بھی کرواتے لیکن ان کا شک رفع نہ ہوتا۔ خود سمجھتے بھی تھے کہ ان کا شک اکثر بے بنیاد ہوتاہے لیکن منفی سوچ سے نجات نہ ملتی۔

اس طرح کے تجربات عیاں کرتے ہیں کہ ہمارے بے احتیاط رویے دوسروں کو کتنی اذیت پہنچا سکتے ہیں۔ عمر میں چھوٹے افراد اورماتحت لوگوںکو بسا اوقات سرزنش اور تنبیہہ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس دوران خوب ناپ تول کر الفاظ استعمال کرنے چاہئیں۔ گالیاں اور تمسخر آمیز الفاظ استعمال کرنا اصلاح کا سبب نہیں بنتا بلکہ الٹا کسی منفی ردِعمل کو جنم دینے کی وجہ بن جاتا ہے۔ ایک مثال سنیے۔

ایک صاحب کا اپنے گھریلوملازم سے روّیہ بہت برا تھا۔ بات بے بات اس کو برابھلا کہنا اور عزتِ نفس کو مجروح کرنا روزمرہ کی عادت بن گئی تھی۔ ملازم خون کے آنسو پیتا لیکن اپنے آپ کو بے بس پاتا۔ آخرکار اس کے اندرونی کرب اور غصے نے تسکین کی ایک راہ ڈھو نڈ لی۔ اب وہ صاحب کے لیے چائے تیار کرتا تو پہلے کپ میں اپنا لعابِ دہن ڈالتا اور پھر چائے ڈال کر ان کے سامنے لے جاتا۔ وہ چائے پیتے اور یہ انھیں دیکھ کر دل ہی دل میں ہنستا اور تسکین محسوس کرتا۔ اسے یوں لگتا جیسے اس کے زخموں پر کسی نے شفا بخش مرہم رکھ دیا ہے۔

بلاشبہ اس واقعے میںملازم کا ردِعمل منفی اورکراہت آمیزتھا۔ سوال یہ ہے کہ اس کو ردِعمل پر مجبورکرنے والاکیسے بری الذمہ ہو سکتا ہے؟

ایک نفسیاتی تحقیق کا موضوع یہ تھاکہ گزری زندگی کے کن جذبات یا واقعات کا نقش کبھی نہیں مٹتا۔ تحقیق کا نتیجہ یہ نکلا کہ ماضی میں شرمندگی اور ذلت کے عالم میںگزرے لمحات کا نقش طویل ترین عرصے تک قائم رہتا ہے اور انسان اس تجربے کی اذیت کبھی نہیں بھول پاتا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے عمومی رویوں اور دوسرے لوگوں سے معاملات میں کس قدر احتیاط سے کام لیا جانا چاہیے۔

کسی کو نقصان پہنچنے کی بہت سی صورتیں ہو سکتی ہیں! کچھ تو واضح اور سیدھی ہیں اور کچھ باریک اور ڈھکی چھپی۔ مثلاً غیبت اور بہتان کے ذریعے کسی کو پہنچنے والے نقصان کو تو ہم سمجھتے ہی ہیں۔ اس کے علاوہ کسی کے بارے میںبری نیت سے ایسا راز افشا کرناجس سے اس کی جان و مال اورعزت و آبرو کو زک پہنچنے کا احتمال ہو، بحیثیت ملازم ذاتی ناراضی پر ماتحت کی رپورٹ، اے سی آر وغیرہ خراب کر دینا‘ ناجائزدبائو ڈلواکرکسی کو حق سے محروم کرنا، کسی کو ایسی امید دلادینا جسے پورا کرنے پر ہم قادر نہ ہوں یا جسے پورا کرنے کا دل سے ارادہ ہی نہ ہو بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔

ایک صاحب ایک دانا بزرگ کے پاس مشورہ کرنے پہنچے اور بتایا کہ ان سے کسی کو نقصان پہنچ گیا ہے حالانکہ ارادہ نہیں تھا۔ بزرگ نے نقصان کے ازالے کی صورت بھی بتائی لیکن ساتھ ہی یہ بھی سمجھایا کہ عدم قصدِ ایذا یعنی نقصان پہنچانے کا ارادہ نہ ہونا کافی نہیں بلکہ برتر کیفیت قصدِعدم ایذا ہے یعنی نقصان نہ پہنچانے کا ارادہ دل میں ہو۔ پہلی صورت میں انسان غفلت کی کیفیت میں ہو تو کسی کو نقصان پہنچ جاتا ہے۔ دوسری صورت میں انسان روزمرہ امور میں اپنا جائزہ لیتا رہتا اور اہتمام سے فکر کرتا ہے کہ اس کی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں