نماز کے شرائط و آداب

؟؟؟؟

فضیلت و اہمیت اسی نماز کی ہے جو واقعی نماز ہو، جو سارے ظاہری آداب اور باطنی صفات کا لحاظ کرتے ہوئے شعور کے ساتھ ادا کی گئی ہو، اسی لیے قرآن نے نماز کو ادا کرنے کے لیے ’’ادا کرنے‘‘ کا سادہ انداز اختیار کرنے کے بجائے، اقامت ’’واقیموا الصلوٰۃ ‘‘ (البقرۃ: ۴۳) و محافظت ’’والذین ہم علی صلوٰتہم یحافظون (المومنون: ۹) کے الفاظ استعمال کیے ہیں، اقامت و محافظت کے معنی یہ ہیں کہ نماز ادا کرنے میں ان ظاہری آداب کا بھی اہتمام کیا جائے، جن کا تعلق نماز کی ظاہری حالت کی درستگی سے ہے اور ان باطنی صفات کا بھی پورا پورا اہتمام کیا جائے جن کا تعلق آدمی کے قلب و روح اور احساسات و جذبات سے ہے۔

ذیل میں مختصر طور پر کچھ آداب و صفات بیان کیے جاتے ہیں۔

طہارت و پاکیزگی

شریعت نے پاکی اور طہار کے جو طریقے سکھائے ہیں اور جن احکام کی تعلیم دی ہے، ان کے مطابق جسم و لباس کو اچھی طرح پاک صاف کرکے خدا کے حضور حاضری دی جائے۔

’’ایمان والو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو چاہیے کہ اپنے منھ اور ہاتھ کہنیوں تک دھولو، سر کا مسح کرلو، اور پاؤں ٹخنوں تک دھولو اور اگر تم حالتِ جنابت میں ہو تو خوب اچھی طرح پاکی حاصل کرلو۔‘‘ (المائدہ: ۶)

دوسری جگہ ارشاد ہے:

’’اور اپنے لباس کو خوب اچھی طرح پاک صاف کرلو۔‘‘ (المدثر:۴)

وقت کی پابندی

یعنی ٹھیک وقت پر نماز ادا کی جائے، اس لیے کہ نماز وقت کی پابندی کے ساتھ فرض کی گئی ہے:

’’پس نماز قائم کرو، بیشک نماز مومنوں پر وقت کی پابندی کے ساتھ فرض کی گئی ہے۔‘‘

(النساء: ۱۰۳)

نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:

’’بہترین بندے وہ ہیں جو سورج کی دھوپ اور چاند تاروں کی گردش کو دیکھتے رہتے ہیں کہ نماز کا وقت فوت نہ ہونے پائے۔‘‘ (مستدرک حاکم)

یعنی نماز کے اوقات کی پابندی کے لیے ہمہ وقت فکر مند رہتے ہیں اور سورج کی دھوپ اور چاند تاروں کی گردش سے وقت معلوم کرتے رہتے ہیں کہ صحیح وقت پر نماز ادا کرلیں اور کوئی نماز قضا نہ ہونے پائے۔

نماز کی پابندی

مراد یہ ہے کہ تسلسل کے ساتھ بلا ناغہ ہمیشہ نماز پڑھی جائے۔حقیقت میں وہی لوگ نمازی یا فرمانبردار کہلانے کے مستحق ہیں جو پابندی کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں:

’’مگر نماز پڑھنے والے جو التزام کے ساتھ ہمیشہ نماز پڑھتے ہیں۔‘‘ (المعارج:۲۲،۲۳)

سکون و اعتدال

نماز سکون و اطمینان کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر ادا کی جائے کہ قرأت، قیام، رکوع اور سجود جملہ ارکانِ نماز کا حق ادا ہوجائے۔

’’اور اپنی نمازیں نہ تو زیادہ بلند آواز سے پڑھئے اور نہ بالکل ہی پست آواز سے، بلکہ درمیانی روش اختیار کیجیے۔ (بنی اسرائیل:۱۱۰)

حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ نبی اکرم ﷺ مسجد کے ایک گوشے میں تشریف فرما تھے کہ ایک آدمی مسجدمیں داخل ہوا اور اس نے نماز پڑھی۔ نماز پڑھ کر وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور سلام کیا۔ آپ ﷺ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ ’’پھر جاکر نماز پڑھو، تم نے نماز ٹھیک نہیں پڑھی۔‘‘ وہ آدمی گیا اور اس نے پھر نماز پڑھی، پھر آپﷺ کے پاس آیا اور سلام کیا۔ آپ ﷺ نے سلام کا جواب دیا اور پھر فرمایا: ’’جاؤ پھر نماز پڑھو، تم نے نماز ٹھیک نہیں پڑھی۔‘‘ اس آدمی نے تیسری دفعہ میں یا اس کے بعد عرض کیا، یا رسول اللہ! مجھے سکھا دیجیے کہ میں کس طرح نماز پڑھوں، آپؐ نے ارشاد فرمایاکہ ’’جب تم نماز پڑھنے کا ارادہ کرو تو پہلے خوب اچھی طرح وضو کرو، پھر قبلہ کی طرف رخ کرو، پھر تکبیر تحریمہ کہہ کر نماز شروع کرو اور قرآن کا جو حصہ آسانی سے پڑھ سکو پڑھو، پھر قرأت کے بعد رکوع کرو، یہاں تک کہ تم رکوع میں پورے سکون و اطمینان سے ہوجاؤ۔ پھر رکوع سے اٹھ کر بالکل سیدھے کھڑے ہوجاؤ، پھر سجدہ کرو یہاں تک پورے اطمینان و سکون سے سجدہ کرلو، پھر اٹھ کر بالکل اطمینان سے بیٹھ جاؤ، پھر اپنی پوری نماز اسی اطمینان و سکون کے ساتھ ادا کرو۔‘‘ (بخاری ومسلم)

نبی اکرمﷺ کی ہدایت کا مطلب یہ ہے کہ نماز سر سے بوجھ اتارنا نہیں ہے کہ آدمی جلدی جلدی پڑھ کر اٹھ کھڑا ہو، بلکہ یہ خدا کی افضل ترین عبادت ہے۔ اس کا حق یہ ہے کہ آدمی نہایت سکون و اطمینان سے اس کے سارے ارکان ادا کرے اور ٹھہر ٹھہر کر توجہ سے نماز پڑھے۔ نبی اکرم ﷺ کی نظر میں وہ نماز، نماز ہی نہیں ہے جو پورے اطمینان و سکون کے ساتھ نہ پڑھی گئی ہو۔

نماز باجماعت کا اہتمام

یہ صرف مردوں کے لیے۔ انہیں حکم ہے کہ فرض نماز لازماً جماعت سے پڑھنی چاہیے۔ الا یہ کہ جان و مال کا واقعی خون ہو یا پھر شدید مرض ہو یا دوسرا کوئی شرعی عذر مانع ہو۔

تلاوت قرآن میں ترتیل و تدبر

تلاوت قرآن کا حق ہی یہ ہے کہ اس کو ٹھہر ٹھہر کر پوری توجہ، دل کی آمادگی، طبیعت کی حاضری اور ذوق و شوق کے ساتھ پڑھا جائے اور ایک ایک آیت پر غوروفکر کیا جائے۔ نبی اکرم ﷺ ایک حرف کو واضح کرکے اور ایک ایک آیت کو الگ الگ کرکے پڑھا کرتے تھے:

’’اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھئے۔‘‘ (المزمل: ۴)

’’یہ کتاب جو ہم نے آپؐ پر نازل کی ہے بابرکت ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غوروفکر کریں اور اصحابِ عقل اس سے نصیحت حاصل کریں۔‘‘ (ص:۲۹)

شوق و انابت

نماز درحقیقت وہی ہے جس میں آدمی اپنے دل و دماغ جذبات و احساسات اور افکار و خیالات سے پوری یکسوئی کے ساتھ خدا کی طرف متوجہ ہو، اور خدا سے ملاقات اور مناجات کے شوق کا یہ حال ہو کہ ایک وقت کی نماز ادا کرنے کے بعد دوسرے وقت کے انتظار میں اس کا دل لگا ہوا ہو:

’’اور ہر نماز کے لیے اپنا رخ ٹھیک رکھو، اور اسی کو پکارو، اپنی اطاعت کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے۔‘‘ (الاعراف:۲۹)

ادب و فروتنی کا احساس

ایک فرمانبردار غلام کی طرح آدمی عاجزی اور فروتنی کا پیکر بن کرخدا کے حضور اس طرح کھڑا ہو کہ دل خدا کی عظمت و جلال سے لرز رہا ہو، اور اعضاء پر بھی ادب و تعظیم کے ساتھ عجز و انکسار کی کیفیت طاری ہو:

’’اپنی نمازوں کی نگہداشت کرو، خصوصاً بہترین نماز کی اور خدا کے حضور ادب اور فروتنی کا پیکر بن کر کھڑے ہو۔‘‘ (البقرہ:۲۳۸)

’’اور اپنے رب کو صبح و شام یاد کیا کیجیے۔ دل ہی میں دل میں گڑگڑاتے ہوئے اور اس سے ڈرتے ہوئے، اور پست آواز سے اور غافلوں میں سے مت ہونا۔‘‘

(الاعراف: ۲۰۵)

حضرت امام زین العابدینؒ جس وقت نماز کے لیے وضو فرماتے ان کا رنگ زرد پڑجاتا۔ ان کے گھر والوں نے پوچھا کہ وضو کے وقت آپ کی یہ کیا حالت ہوجاتی ہے؟ فرمایا: تم نہیں جانتے کہ میں کس ہستی کے سامنے کھڑا ہونا چاہتا ہوں۔ (احیاء العلوم)

خشوع و خضوع

خشوع و خضوع نماز کی جان ہے اور وہ نماز درحقیقت نماز نہیں ہے جو خشوع و خضوع سے خالی ہو۔ خشوع کے معنی ہیں، پست ہوجانا، دب جانا اور عاجزی سے جھک جانا۔ نماز میں خشوع اختیار کرنے کے معنی یہ ہیں کہ نہ صرف جسم بلکہ دل و دماغ سب کچھ خدا کے حضور پوری طرح جھکا ہوا ہو۔ دل پر خدا کی عظمت اور بڑائی کی ایسی ہیبت چھائی ہوئی ہو کہ پست جذبات اور ناپسندیدہ خیالات کا دل میں گزر نہ ہو، اور جسم پر بھی سکون اور پستی کے ایسے آثار نمایاں ہوں جو رب عظیم کے عظمت و جلال والے دربار کے شایانِ شان ہوں۔

’’فلاح یاب ہوگئے وہ مومن لوگ جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں۔‘‘ (المومنون: ۱-۲)

خدا سے قربت کا شعور

نماز آدمی کو خدا سے اتنا قریب کردیتی ہے کہ کسی بھی دوسرے عمل سے اس قرب کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:

’’بندہ اس وقت اپنے خدا سے انتہائی قریب ہوتا ہے، جب وہ اس کے حضور سجدہ ریز ہوتا ہے۔‘‘ (مسلم)

اقامتِ صلوٰۃ کی ایک اہم شرط یہ بھی ہے کہ آدمی کو اس قرب کا احساس اور شعور ہو اور اس کے دل کی گہرائی میں اس قرب کی آرزو اور تمنا بھی ہو، اور اس طرح نماز پڑھ رہا ہو کہ گویا وہ خدا کو دیکھ رہا ہے یا کم از کم یہ احساس ہو کہ خدا اس کو دیکھ رہا ہے۔

’’اورسجدہ کرو، اور قریب ہوجاؤ۔‘‘ (العلق: ۱۹)

خدا کی یاد

نماز کا حقیقی جوہر خدا کی یاد ہے، اور خدا کی یاد کا جامع اور مستند طریقہ نماز ہے، اس لیے کہ یہ اسی ہستی کا بتایا ہوا طریقہ ہے جس کی یاد مطلوب ہے جو نماز خدا کی یاد کے جوہر سے خالی ہے وہ مومنوں کی نماز نہیں، منافقوں کی نماز ہے۔ نماز کے قیام کا تو مقصود ہی یہ ہے کہ خدا کو یاد کیا جائے۔

’’ہماری آیات پر تو وہی لوگ درحقیقت ایمان لاتے ہیں کہ جب ان کو ان آیات کے ذریعے یاددہانی کرائی جاتی ہے، تو وہ سجدہ میں گر پڑتے ہیں۔ اور اپنے رب کی تعریف اور پاکی بیان کرنے لگتے ہیں اور وہ کبر و غرور نہیں کرتے۔‘‘ (السجدہ:۱۵)

یعنی ان کے سجدے اور رکوع شعور کے سجدے اور رکوع ہوتے ہیں۔ یہ لاپرواہی کے ساتھ، محض نوک زبان سے تسبیح و تمجید کے الفاظ ادا نہیں کرتے بلکہ جو کلمات بھی ادا کرتے ہیں خدا کی یاد میں کرتے ہیں اور ان کی نماز سراسر خدا کی یاد ہوتی ہے۔

ریاسے اجتناب

محافظتِ نماز کی ایک اہم شرط یہ بھی ہے کہ وہ ریا، نمود و نمائش اور اس طرح کے دوسرے ایسے سارے گھٹیا جذبات سے محفوظ رہے جو اخلاص کے خلاف ہوں۔ ریا کاری سے نہ صرف یہ کہ نماز ضائع ہوجاتی ہے بلکہ ایسا نمازی بھی تباہ و برباد ہے جو دکھاوے کی نماز پڑھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’تباہی ہے ان نمازیوں کے لیے جو اپنی نمازوں میں غفلت کرتے ہیں اور ان لوگوں کے لیے جو دکھاوے کی نماز پڑھتے ہیں۔‘‘ (الماعون)

حضرت شداد بن اوسؓ کا بیان ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے دکھاوے کی نماز پڑھی، اس نے شرک کیا۔‘‘

کامل سپردگی

اقامتِ صلوٰۃ کی آخری اور جامع شرط یہ ہے کہ مومن پورے طور پر اپنے آپ کو خدا کے حوالے کردے، وہ جب تک زندہ رہے خدا کا اطاعت گزار غلام رہے۔ جب موت سے ہمکنار ہو تو اس کی موت بھی خدا ہی کے لیے ہو:

’’بے شک میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے اپنے خود کو خدا کے سپرد کرنے والوںمیں ہوں۔‘‘ (الانعام:۱۶۲-۱۶۳)

اس آیت میں ایک خاص ترتیب کے ساتھ چار چیزوں کا ذکر ہے، نماز اور قربانی اور پھر نماز کے ساتھ زندگی اور قربانی کے ساتھ موت کا ذکر ہے۔ دراصل نماز اور قربانی دو جامع عنوان ہیں جو مومن کی پوری زندگی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ نماز دراصل اس حقیقت کی ترجمان ہے کہ مومن نہ صرف نماز میں بلکہ نماز کے باہر پوری زندگی میں بھی خدا ہی کا وفادار اور اطاعت شعار غلام ہوتا ہے، اور قربانی دراصل اس حقیقت کی ترجمان ہے کہ مومن کا جان و مال سب کچھ خدا کی راہ میں قربان ہونے ہی کے لیے ہے۔

کامل سپردگی کے اس شعور کے ساتھ جو نماز پڑھی جائے وہی نماز اللہ کے نزدیک مقبول اور بندہ کو عملی زندگی میں برائیوں سے روکنے والی ہوتی ہے۔ کیونکہ نماز کی خوبی ہی یہ ہے کہ ’’وہ بندئہ مومن کو فحش کاموں اور برائیوں سے روکنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو ہمیں اپنی نماز کے بارے میں سوچنا چاہیے۔‘‘

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146