اداس شام

نور الحسنین

اخلاص اور محبتوں میں ڈوبا ہوا خاندان، امی چولھے کے سامنے کھری روٹیاں بیل رہی ہیں۔ چچی جان چٹائی پر بیٹھی سبزی کاٹ رہی ہیں۔ رخسانہ پھوپھی دھوبن کو کپڑے دے رہی ہیں۔ دادی اماں تخت پر بیٹھی پان لگا رہی ہیں۔ دادا جان بازار سے سودا سلف لانے جاچکے ہیں۔ دالان میں چھوٹے چھوٹے پنگوڑوں میں رضیہ اور الطاف ہاتھ پیر ما رہے ہیں۔ ابان جان اخبار کی تازہ خبروں میں الجھے ہوئے ہیں اور چچا جان آئینے کے سامنے کھڑے بال سنوار رہے ہیں۔ رحیمن بوا صحن میں برتن مانجھ رہی ہیں۔ صحن کے ایک کونے میں بکریاں ممیا رہی ہیں۔ مرغیاں زمین کرید رہی ہیں اور کچھ فاصلے پر کھڑا ٹامی دم ہلا رہا ہے۔

یہ سار امنظر ٹکڑوںٹکڑوںمیں جمع ہوتا ہے اور پھر ساکت ہو جاتا ہے۔ کچھ دیر اسی طرح رکا رہتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ دھندلا جاتا ہے۔

٭٭

منو میاں روتے ہوئے گھر میں داخل ہوتے ہیں۔

گھٹنے کے پاس پاجامہ کھسک گیا ہے۔ خون کا ایک چھوٹا سا دھبہ ابھر آیا ہے۔

’’منو میاں اسکول کی سیڑھیوں پر سے گر گئے ہیں۔۔۔!‘‘ رمضانی اطلاع دیتے ہوئے ان کا بستہ کھونٹی سے ٹانگتا ہے۔ ساری نگاہیں برق رفتار منو میاں کی جانب دوڑتی ہیں۔

’’ہائے میرا بچہ…!‘‘ امی جان بے تحاشہ دوڑتی ہوئی آتی ہیں اور گود میں اٹھا لیتی ہیں۔

’’منّو میاں کیسے گر گئے…؟‘‘ چچی جان رمضانی پر برس رہی ہیں۔ رخسانہ پھوپھی صحن سے زخم حیاکا پتہ لے کر دوڑتی ہوئی آتی ہیں۔

’’ہائے ہائے… یہ اسکول والے خدا جانے اتنی سیڑھیاں بنواتے کیوں ہیں…؟‘‘ دادی اماں بھی کسی طرح منو میاں کے پاس پہنچ گئی ہیں۔

منو میاں ہنوز تنک رہے ہیں۔

کوئی ان کے سر پر ہاتھ پھیر رہا ہے۔

کوئی انھیں پنکھا جھل رہا ہے۔

ان کے سامنے ٹافیوں کا انبار لگ گیا ہے۔

رخسانہ پھوپھی معمولی زخم کو صاف کر کے زخمِ حیات کا پتہ باندھ رہی ہیں۔ منو میاں کے چہرے پر مسکراہٹ آجاتی ہے۔ یہ منظر بھی کچھ دیر جھملاتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ معدوم ہو جاتا ہے۔

٭٭

برسات کا موسم ہے، رم جھم پھواریں برس رہی ہیں۔ ٹھنڈی ہوائیں چل رہی ہیں۔ صحن پانی سے بھر گیا ہے۔ باورچی خانے میں انگیٹھی پر مکئی کے بھٹے بھونے جا رہے ہیں۔ کھپریل کی چھت سے کہیں کہیں پانی ٹپک رہا ہے۔

دالان میں تخت پر دادا جان آنکھیں موندے حقہ گڑگڑا رہے ہیں۔ ابا جان اور چچا جان ابھی تک دفتر سے واپس نہیں آئے۔ رخسانہ پھوپھی دوڑ دوڑ کر بھنے ہوئے بھٹے ایک ایک تک پہنچا رہی ہیں۔ امی جان اور چچی جان آپس میں گفتگو کر رہی ہیں۔

منّو میاں کاغذ کی ناؤ سے ایک بحری بیڑہ تیار کر چکے ہیں۔ ان کے عقب میں رضیہ اور الطاف کھڑے ہیں۔ دادی اماں مسلسل ٹوک رہی ہیں کہ بچوں کو روکو، پانی میں بھیگ جائیں گے تو بیمار ہوجائیں گے۔ صحن کی جانب قدم اٹھانے کے لیے منو میاں مچل رہے ہیں۔ دادی اماں انھیں ڈپٹ رہی ہیں۔ وہ تصور میں انھیں منہ چڑھاتے ہیں اور پھر رخسانہ پھوپھی کی جانب ملتجی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ وہ دوڑی دوڑی اُن کے پاس پہنچتی ہیں اور دوسرے ہی لمحے بحری بیڑہ روانہ ہو جاتا ہے۔ منو میاں تالیاں بجاتے ہیں۔ امی جان کے چہرے پر مسکراہٹ کھل اٹھتی ہے، چچی جان اپنی جگہ سے چیخ رہی ہیں، ’’ارے پائنچے تو اوپر کرلو۔ بھیگ جائیں گے تو آفت آجائے گی…‘‘

ہنسی مذاق کے پھوارے چھوٹ رہے ہیں۔

دادی اماں کا موڈ خراب ہوگیا ہے۔ وہ ہر ایک کی طرف غصیلی نظروں سے دیکھ رہی ہیں، لیکن سب ہی کا موڈ شوخ ہوگیا ہے۔

امی جان اور چچی جان آنکھوں آنکھوں میں کچھ اشارے کرتی ہیں۔ رخسانہ پھوپھی کی آنکھیں بھی خوشی سے چھلک اٹھی ہیں، پھر دادی اماں اور دادا جان کو چھوڑ کر گھر کے سارے ہی افراد صحن میں پہنچ گئے ہیں اور رم جھم پھواروں کا لطف اٹھا رہے ہیں۔

دادی اماں غصے کے مارے پن کُٹی میں تیز تیز پان کوٹ رہی ہیں۔

پورا منظر آنکھوں کے فریم میں ٹھہر گیا ہے اور پھر تھمے ہوئے پانی میں جیسے ہی کوئی کنکری گرتی ہے، ارتعاش ان ساری بننے والی تصویروں کو غائب کرنے لگتا ہے۔ ایسے ہی یہ منظر بھی غائب ہو جاتا ہے۔

٭٭

پتہ نہیں امی جان اور ابا جان کے درمیان کب حجت ہوگئی۔ امی جان شرمندہ شرمندہ سی ہیں۔ ابا جان فجر کی نماز سے فراغت پانے کے بعد دوبارہ بستر پر لیٹ گئے ہیں۔ امی جان بے سبب بار بار کمرے میں چکر لگا رہی ہیں۔ کسی نہ کسی بہانے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی ہیں، لیکن ابا جان گھڑی کی سوئیوں کو بنا مقصد گھو رہے ہیں۔

سامنے ٹیبل پر چائے اور بٹر ویسے ہی پڑے ہیں۔

ناشتے کے دسترخوان پر ابا جان کی غیر موجودگی کو سبھی محسوس کرتے ہیں۔ امی جان سے سوالات پوچھے جا رہے ہیں، لیکن جواب میں ان کے چہرے کا رنگ فق ہوگیا ہے ا ور آنکھوں میں امڈے ہوئے آنسو آپ ہی آپ ضبط ہوجاتے ہیں۔

دادی اماں کی پیشانی پر فکر مندی کی لکیریں اُبھرتی ہیں۔

پورے گھر میں ایک تناؤ کی سی کیفیت ہے۔ امی جان، ابا جان کا پسندیدہ حلوہ تیار کر رہی ہیں۔ دادی اماں ابا جان کے پاس بیٹھی ہیں اور اُن کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھ رہی ہیں۔ ’’بیٹھے کیا تمہاری طبیعت خراب ہے۔۔۔؟‘‘

ابا جان مسکرا کر اُن کی طرف دیکھتے ہیں، ’’نہیں تو…؟‘‘

’’پھر تم ناشتے کے لیے کیوں نہیں آئے…؟‘‘

ابا جان خاموش ہیں۔

’’بھابھی جان آپ کے لیے حلوہ تیار کر رہی ہیں۔ چچی جان بھی وہاں پہنچ گئی ہیں، ’’بھائی میاں بے چارے صبح سے اداس ہیں… کیا ہوگیا آپ کو…؟‘‘

’’مجھے نہیں کھانا ہے حلوہ…!‘‘ ابا جان کا روکھا سا جواب فضا میں بلند ہوتا ہے۔

’’ارے!‘‘ دادی اماں پچکارتی ہیں۔ ’’بیٹے یہ کفرانِ نعمت ہے… اللہ ناراض ہوتا ہے۔‘‘

’’بھائی میاں؟‘‘ رخسانہ پھوپھی ابا جان کے پائنتی کھڑی ہیں، میں آپ کے لیے ٹماٹر کی چٹنی تیار کرتی ہوں، وہ تو آپ بہت شوق سے کھاتے ہیں۔‘‘

ابا جان کے چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ نمودار ہوتی ہے۔

’’چل اٹھ…!‘‘ دادی اماں انھیں ٹھوکا دیتی ہیں ’’چھوٹی بہن کو کیوں ناراض کرتا ہے…!‘‘

’’اچھا بھائی میاں مجھ سے کہیے میں کیا بناؤںآپ کے لیے…؟‘‘ چچی جان سوال کرتی ہیں۔

سارے فکر مند چہرے ابا جان کو تک رہے ہیں۔ اچانک ان کے چہرے کی پھیکی مسکراہٹ، مسرت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

’’دلہن بیگم دسترخوان لگاؤ۔‘‘ دادی اماں کا حکم جاری ہوتا ہے، پھر دسترخوان سج جاتا ہے۔ ابا جان کھانا کھا رہے ہیں۔ سب انھیں گھیرے ہوئے ہیں اور حلوہ ان کا حلق میٹھا کر رہا ہے۔ سب کے چہروں پر خوشی کھل اٹھتی ہے۔

یہ منظر بھی ٹھہر جاتا ہے۔ کچھ دیر تک جھلملاتا ہے اور پھر جس طرح ہوا کے بگولے سوکھے پتوں کو اڑالے جاتے ہیں، آنکھوں سے یہ منظر بھی اسی طرح اڑ گیا۔

٭٭

’’امی جان… منو میاں کا غصہ ابھی تک نہیں اُترا …!‘‘ چھوٹی بہن رضیہ نے اطلاع دی۔

’’کیا مشکل ہے۔ یہ لڑکا بہت ہی ضدی ہوگیا ہے…؟‘‘ امی جان اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔

’’ہاں…! بچپن ہی سے تم نے اسے سر چڑھا رکھا ہے…!‘‘ ابا جان نے دوبارہ اخبار کے صفحات میں اپنے آپ کو جھونک دیا۔‘‘

گریجویٹ ہوگیا ہے لیکن عقل نام کو نہیں ہے۔‘‘

’’تم چپ رہو جی…!‘‘ امی جان سیدھے منو بھائی کے کمرے میں داخل ہوتی ہیں۔‘‘ دیکھو بیٹے کھانا کھالو، کہہ تو رہی ہوں کہ موٹر سائیکل دلادوں گی… بس ذرا صبر کرو…!‘‘

منو میاں پلنگ پر اوندھے پڑے ہیں۔

’’ارے منّو میاں مان بھی جاؤ…!‘‘ چچی جان بھی وہاں آجاتی ہیں۔ ’’دیکھو میں تمہارے لیے گاجر کا حلوہ لے کر آئی ہوں…‘‘

منو میاں اسی طرح پلنگ پر اوندھے پڑے رہے۔

’’منو سے منیر ہوگیا، لیکن حرکتیں وہی ہیں…!‘‘ ابا جان نے زور سے کھنکھارا۔

’’ارے بچے اگر ضد نہ کریں تو کون کرے گا۔۔۔؟‘‘ دادی اماں لکڑی ٹیکتے ہوئے وہاں پہنچتی ہیں، موٹر ہی تو چاہیے نا۔۔۔؟ میں دلادیتی ہوں۔۔۔!‘‘ دادی اماں نے روپوں سے بھری تھیلی منو میاں کے سامنے رکھ دی۔

’’سچ دادی اماں…؟‘‘منیر میاں ایک دم خوشی سے اچھل جاتے ہیں۔

’’ہاں… مگرپہلے تجھے کھانا کھانا پڑے گا…!‘‘

یہ منظر بھی آنکھوں میں فریز ہو جاتا ہے، اور کچھ ہی دیر کے بعد آپ ہی آپ تحلیل ہو جاتا ہے۔

٭٭

’’منیر میاں یہ کھڑکی سے کیا تاک جھانک کرتے رہتے ہو…؟‘‘ چچی جان نے کان کھینچا ’’لگتا ہے اب تمہارا بیاہ کردینا چاہیے …!‘‘

’’ہاں۔۔۔!‘‘ منیر میاں نے شرارت بھری مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا، لیکن رخسانہ پھوپھی کی طرح نہیں۔‘‘

’’کیوں…؟‘‘ چچی جان کی آنکھیں حیرت سے پھیل جاتی ہیں، ’’اس کی شادی میں کیا خرابی تھی…؟‘‘

’’ارے وہ بھی کوئی شادی تھی، نہ ان کی مرضی پوچھی گئی اور نا ہی شادی سے پہلے انھیں پھوپھا صاحب کو دکھایا گیا۔ بس دلہن بنا دیا تھا، آپ لوگوں نے اور وہ بے چاری روتی بسورتی سسرال چلی گئیں۔‘‘

’’سن لڑکے…!‘‘ چچی جان نے مصنوعی غصے سے کہنا شروع کیا، ’’شادی پر ہر لڑکی روتی ہے، لیکن دولہا کے ساتھ جانے پر نہیں، بلکہ میکے کے چھوٹنے کے غم میں … دیکھا نہیں تم نے … وہ اپنی سسرال میں کس قدر خوش ہے…!‘‘

منیر میاں لاجواب ہوگئے۔

’’لیکن تیری شادی تو میں اپنی پسند سے کروں گی۔‘‘

’’لگتا ہے مجھے پھر ایک بار اور روٹھنا پڑے گا۔‘‘

دونوں کا قہقہہ فضا میں بلند ہوتا ہے۔

پھر شہنائیاں گونج اٹھیں۔ منیر میاں اپنی پسند کی بیوی لے آئے اور سارا گھر خوشیوں سے بھر گیا۔

یہ منظر بھی جس طرح ابھرا تھا اسی طرح ابلتے دودھ کی طرح خود ہی بیٹھ گیا۔

پتا نہیں یادوں کے جگنو آج میری آنکھوں میں کیسے در آئے ہیں۔ جانے کتنے ہی منظر میری آنکھوں میں اُبھرے اور ڈوب گئے اور پھر وہ مناظر بھی میں نے دیکھے جو میرے چاہنے نہ چاہنے سے پرے وقت نے مجھے دکھائے۔ سارا خاندان بکھر گیا۔ دادا جان تو پہلے ہی رخصت ہوگئے تھے پھر دادی اماں بھی چلی گئیں۔ اس کے بعد اسی آبائی گھر میں پہلی بار دو چولھوں سے آگ روشن ہوئی اور وہ وہ چیزیں نظر آنے لگیں، جنھیں پہلے کبھی کسی نے دیکھا بھی نہیں تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے آبائی گھر فروخت ہوگیا۔ سارا شیرازہ بکھر گیا۔ چچا جان شالیمار کالونی کے ایک فلیٹ میں منتقل ہوگئے اور ہم لوگ روشن پور میں آباد ہوگئے… اب نہ ابا جان باقی ہیں اور نا ہی امی جان… کل شام بیوی سے ان بن ہوگئی تھی۔ تب سے تنہا بھوکا پیاسا پلنگ پر اوندھا پڑا ہوں۔ منانے والی کوئی آواز میرے کانوں تک نہیں پہنچ رہی ہے، کیوں کہ مقابل کے کمرے میں ناراض بیوی اور بچے ٹی وی دیکھ رہے ہیں اور میں انتظار کر رہا ہوں کہ کوئی چپکے سے آکر مجھے منالے۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں