کچے آنگن میں لگے سوکھے بیری کے پیڑ کے ساتھ رکھے کائی زدہ مٹکے کے دائیں جانب خستہ حال دیوار کے سائے میں کھڑی ٹوٹی ہوئی پرانی سائیکل، دیوار کے بائیں جانب لگے پانی کے نل کے اطراف گندے کپڑوں کا ڈھیر، ساتھ ہی پڑے برتنوں پر مکھیوں کی بھنبھناہٹ، کچرے سے اٹے صحن کے سامنے لگے دروازے پر لٹکتے ٹاٹ کو ہٹاکر اندر آتے صغیر کو دیکھ کر رشیدہ کی تو جیسے سانسیں ہی رکنے لگی ہوں۔
صغیر صبح کا گیا شام گئے گھر لوٹا تھا۔
صحن میں اڑتی چولہے کی ٹھنڈی راکھ صاف بتا رہی تھی کہ یہاں کے مکینوں کو آج بھی گزشتہ شب کی طرح پانی پی کر ہی گزارا کرنا پڑے گا۔
صغیر دھیرے دھیرے قدم بڑھاتے ہوئے رشیدہ کے پاس آبیٹھا۔ اس کے چہرے پر ناامیدی کے اثرات نمایاں تھے۔ دن بھر پڑتی شدید دھوپ نے اس کے چہرے کی رنگت کو جھلسا کر رکھ دیا تھا۔
’’کام ملا بیٹا…؟‘‘
گھر میں ہونے والے فاقے کو بھانپتے ہوئے صغیر ماں کے قریب ہوتے ہوئے بولا: ’’بچے کہاں ہیں اماں؟‘‘
’’ابھی ابھی سوئے ہیں‘‘۔ رشیدہ بیٹے کے کاندھے پر شفقت بھرا ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔
’’اماں آج بھی…!‘‘
’’نہیں نہیں، خدیجہ کے گھر گیارہویں کی نیاز تھی، اس کی بیٹی ایک تھیلی میں تھوڑے چاول دے گئی تھی، تینوں نے دو دو نوالے کھا لیے تھے۔‘‘
’’اور اماں تم نے!‘‘
’’میری طبیعت ٹھیک نہیں، کسی چیز کا بھی من نہیں کررہا، یہ شوگر بھی بڑی نامراد بیماری ہے…کبھی خالی پیٹ کلیجہ منہ کو آتا ہے، تو کبھی ایک لقمہ بھی اندر نہیں اترتا۔ تْو میری چھوڑ اپنی بتا، کچھ کھایا تْو نے؟ صبح سے گیا ہوا تھا میرا بچہ۔‘‘ بھوک سے نڈھال ماں اپنی جانب آتی بات کا رخ موڑتے ہوئے بولی۔
’’وہ… وہ… ہاں ہاں دوست نے کھلادیا تھا۔‘‘ صغیردلاسا دیتے ہوئے بولا۔
’’خدا بھلا کرے اْس کا جس نے میرے بچے پر احسان کیا‘‘۔ رشیدہ کے خشک ہونٹوں سے نکلتی دعا نے صغیر کے چہرے پر لکھی بھوک وافلاس کی تحریر کو مزید گہرا کردیا۔
’’بتایا نہیں کیا بنا کام کا؟‘‘ بیٹے کے چہرے سے عیاں ہوتی ندامت کو نظرانداز کرتے ہوئے رشیدہ نے پوچھا۔
’’کل بلایا ہے، کارخانے کا مالک بھلا آدمی لگتا ہے۔ بڑا کارخانہ ہے، کام بہت زیادہ ہے، امید ہے صبح سے کام پر چڑھ جاؤں گا۔‘‘ ماں کو تسلی دیتے ہوئے صغیر کبھی آسمان کی جانب دیکھتا تو کبھی اس کی نظریں برآمدے میں بھوک سے نڈھال کروٹیں بدلتی چھوٹی بہنوں پر جا ٹھیرتیں۔
’’خدایا شکر ہے تیرا، میرے بچے کو روزگار ملا‘‘۔ رشیدہ اپنے دوپٹے کے پلو سے ماتھے سے بہتا پسینہ صاف کرنے لگی۔ دو دن کے فاقوں کی وجہ سے اْس کے چہرے کی جھریاں مزید نمایاں ہورہی تھیں۔ وہ چارپائی پر بیٹھی کسی بڑے مرض میں مبتلا دکھائی دے رہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے نکلتے آنسو بے بسی کی داستان بیان کررہے تھے۔ وہ چاہتے ہوئے بھی اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکی۔ وہ کبھی چارپائی کی پائنتی پر بیٹھے اپنے جوان بیٹے کو دیکھتی، تو کبھی گھر کے بارے میں سوچنے لگتی۔ گھر کے حالات کی وجہ سے اس کی آنکھوں کی چمک ماند پڑ چکی تھی۔
حالات کے ہاتھوں مجبور ماں بیٹا خاصی دیر گم سم بیٹھے رہے۔ رات گہری ہوتی جا رہی تھی۔ سخت گرمی میں گھر کی بجلی واجبات ادا نہ کرنے پر پہلے ہی کٹ چکی تھی۔ حبسِ بڑھتا جا رہا تھا۔
’’جا بیٹا جا، تھوڑی دیر کمر سیدھی کرلے، سارے دن کا تھکا ہوا ہے، جاگنے سے طبیعت خراب ہوجائے گی۔ صبح کام کی تلاش میں جانا ہے، اگر تْو بیمار پڑ گیا تو ہمارا کیا بنے گا! تیرے والد کی وفات کے بعد ایک تْو ہی تو ہمارا سہارا ہے۔ چھوٹی بہنوں کی طرف دیکھ، ان کی پرورش کرنی ہے۔ بڑی ذمے داریاں ہیں تجھ پر۔ جا میرا بچہ، زیادہ نہ سوچ، دو گھڑی آرام کرلے۔‘‘
’’اماں، تم آرام کرلو، مجھے نیند نہیں آرہی۔ تمہاری طبیعت خراب ہے، اس عمر میں جب آرام کرنا چاہیے، تم سارا دن گھر کے جھمیلوں میں پڑی رہتی ہو۔ چھوٹی کے پاس چلی جاؤ، لگتا ہے وہ جاگ رہی ہے۔ ویسے بھی خالی پیٹ نیند نہیں آتی‘‘۔ صغیر برآمدے کی جانب دیکھتے ہوئے ماں سے التجا کرنے لگا۔
رشیدہ کو ان بدترین حالات سے نکلنے کا کوئی بھی راستہ سْجھائی نہیں دے رہا تھا۔ یہ رات اس گھرانے کے لیے قیامت سے کم نہ تھی۔ ماں کو اگر بچوں کی فکر کھائے جارہی تھی تو دوسری طرف صغیر کی قسمت کا ستارہ بھی گردش سے نکلنے میں ناکام تھا۔
سوچوں میں گم تارے گنتے مسجدوں سے اذانِ فجر سنائی دینے لگی۔ صغیر نے پہلی اذان کے ساتھ ہی مسجد کا رخ کیا۔ ادائیگیِ نماز کے بعد وہ اس کارخانے کی جانب چل پڑا جس کے مالک نے گزشتہ روز اسے نوکری دینے کی آس دلائی تھی۔ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ جس کارخانے کی جانب چل پڑا ہے اس کے کھلنے میں ابھی خاصا وقت باقی ہے۔ سب کچھ جاننے کے باوجود وہ گھر لوٹنا نہیں چاہتا تھا… اور لوٹتا بھی کیسے، وہ جانتا تھا کہ گھر میں پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ اس کے پاس گھر میں بھوک سے نڈھال ماں اور تین معصوم چھوٹی بہنوں کی آنکھوں سے ابھرتے سوالات کا کوئی جواب نہ تھا۔
اس کی تو خود ابھی پڑھائی کرنے کی عمر تھی۔ والد کی وفات کے بعد فقط بیس برس کی عمر میں ہی سارے گھر کا بوجھ اس کے کاندھوں پر آن پڑا تھا جس نے اس کی طبیعت کو انتہائی حساس بنا ڈالا۔
صغیر کارخانہ کھلنے کے انتظار میں کبھی سڑکوں پر، تو کبھی انجانے محلوں میں چکر کاٹنے لگا۔ خالی پیٹ بڑھتی کمزوری اور بھوک کی شدت کو مٹانے کے لیے وہ بار بار پانی پیتا۔ وہ مستقل کارخانہ کھلنے اور کام مل جانے کی دعائیں کرتا رہا۔
موسم کی سختی کی وجہ سے اس کی حالت غیر ہوتی جا رہی تھی۔ کارخانہ کھلتے ہی وہ مالک کے پاس جا پہنچا۔
’’کیاکام جانتے ہو؟‘‘
’’کچھ نہیں۔ پڑھائی کے دوران ہی والد صاحب اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے۔ ان کی یہی خواہش رہی کہ میں پڑھ لکھ کر کوئی مقام حاصل کروں، لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ہے! والد کی وفات کے بعد یوں لگا جیسے ہمارے سروں پر کوئی پہاڑ آگرا ہو۔ گھر میں ایک ماں اور تین چھوٹی معصوم بہنوں کا ساتھ ہے، پریشانیوں نے گھیر رکھا ہے۔ قضا بتاکر نہیں آیا کرتی، آپ مجھ پر احسان کریں اور کوئی کام دے دیں‘‘۔ یوں گھر میں ہونے والے فاقوں کے باوجود اَنا و خودداری کا بھرم رکھتے ہوئے صغیر نے ساری بات کارخانے کے مالک کے سامنے کھول کر رکھ دی۔
’’لیکن ہمارے پاس تمہارے مطلب کا کوئی بھی کام نہیں، یہاں آگ کی بھٹیوں پر لوہا پگھلانے کا کام ہوتا ہے، تم تو شکل سے ہی بابو لگ رہے ہو، آگ کے سامنے کام کرنا آسان نہیں، گرمیاں شروع ہوتے ہی بڑے سے بڑا کاریگر بھاگ جاتا ہے، اسی لیے میرے کارخانے میں مزدوروں کی جگہ تھی، اور ویسے بھی میں کوئی جلاد نہیں جو اس عمر میں تم پر اپنے فائدے کے لالچ میں ظلم کروں۔ میں تمہارا دشمن نہیں ہوں کہ اتنی سخت گرمی میں بابو ٹائپ لڑکے کو آگ اگلتی بھٹیوں کے سامنے جھونک دوں۔‘‘
میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں، خدارا ایک موقع دے دیجیے، میں یہ کام ضرور کرلوں گا‘‘۔ صغیر بضد تھا کہ کارخانے کا مالک اسے کام پر رکھ لے۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ پیٹ کی آگ کی شدت لوہا پگھلاتی بھٹیوں سے نکلنے والی آگ کی شدت سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ اسے اپنے سے زیادہ اْن زندگیوں کا خیال تھا جنہیں بتائے بغیر وہ گھر سے نکل آیا تھا۔ وہ کارخانے کے مالک کے ہر سوال پر نوکری دینے کی ہی فریاد کرتا رہا۔
’’شام تک کام کرنا ہوگا تب ہی چار سو روپے دیہاڑی ملے گی۔ اگر کام کی شکایت ملی تو پیسے کاٹ لوں گا۔ جاؤ اس کاریگر کے ساتھ کام کرو جو سامنے لوہے کی سلاخوں کو پیٹ کر سیدھی سیدھی پٹیاں بنا رہا ہے۔‘‘
چارسو روپے کا سنتے ہی صغیر کے وجود میں تو جیسے توانائی بھر گئی۔ وہ تیز تیز قدم بڑھاتا بھٹی پر کام کرتے کاریگر کے پاس جا پہنچا جہاں آگ میں تپتی بڑی بڑی سلاخوں کو وزنی ہتھوڑوں سے پیٹ کر ایک سانچے میں ڈھالا جارہا تھا۔ صغیر کو بھٹیوں سے نکلتی ان بڑی بڑی راڈوں پر وزنی ہتھوڑوں سے پوری قوت کے ساتھ ضرب لگانی پڑتی۔ آگ کی بھٹیوں سے اڑتی چنگاریوں نے اس کے کپڑوں کو جگہ جگہ سے جلا ڈالا۔ سخت کام کی وجہ سے پہلے ہی دن اس کے نرم ہاتھوں میں چھالے ابھر آئے۔ نماز ظہر کی ادائیگی کے ساتھ ہی سارے مزدور کھانے کے لیے بیٹھ گئے، صغیر اس دوران کارخانے کے ایک کونے میں جا بیٹھا۔ مزدوروں کو کھانا کھاتے دیکھ کر اس کی آنکھیں ڈبڈبانے لگیں، وہ کوشش کے باوجود بھی آنکھوں سے امنڈتے آنسوؤں کو روک نہ سکا۔ اس نے ساتھی مزدور کے بے حد اصرارِ کے باوجود ایک لقمہ تک نہ کھایا۔ دن ڈھلنے لگا، وقت اپنی رفتار سے آگے بڑھ رہا تھا، لیکن صغیر کے لیے گزرنے والا ہر لمحہ گھنٹوں پر محیط تھا، اس کا سارا دھیان اپنے گھر کی طرف تھا۔
’’جائو اپنی دیہاڑی لے لو‘‘۔ ساتھ کام کرنے والے مزدور کی آواز نے تو جیسے صغیر کے سارے آنسو ہی پونچھ ڈالے ہوں۔ وہ ہوا کے گھوڑے پر سوار کارخانے کے مالک کے پاس جا پہنچا۔ ہاتھوں میں چھالے، گندے کپڑوں میں ملبوس صغیر اب پہلے جیسا نہ تھا۔
’’چار سو روپے، وہ بھی میرے پاس… آج ماں اور بہنیں پیٹ بھر کے کھانا کھائیں گی۔ چھوٹی رات کو دودھ بھی پیے گی‘‘۔ یوں خودکلامی کرتا صغیر تو جیسے باؤلا ہی ہو چلا تھا۔
سالن روٹیاں اور چھوٹی بہن کے لیے دودھ کی تھیلی لیے وہ تیز تیز قدم بڑھاتا تو کبھی دوڑنے لگتا۔ اسی کشمکش میں وہ اپنے گھر آن پہنچا۔ دروازے سے اندر قدم رکھتے ہی سامنے پڑی چارپائی پر سر پر پٹی باندھے ماں کے پاس بیٹھی بہنوں کو دیکھ کر بولا ’’کیا ہوا؟‘‘
’’بھیا امی کے سر میں درد ہے، خاصی دیر سے سورہی ہیں، اٹھا رہی ہوں کوئی جواب نہیں دے رہیں۔‘‘ بہن کے کانپتے ہونٹوں سے نکلتے جملے سنتے ہی صغیر بے اختیار چیخ اٹھا ’’ماں، اٹھو، دیکھو میں کھانا لایا ہوں، اٹھو ماں مجھے نوکری مل گئی ہے‘‘۔ وہ مسلسل آوازیں دیتا رہا، چھوٹی اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے ماں کا بازو کھینچتی رہی۔ پَر ماں کیسے اٹھتی! وہ تو اس دنیا سے کوچ کرگئی تھی۔ ننھی پریوں کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ ہر آنکھ اشک بار تھی۔ صغیر بہنوں کو اپنے ساتھ لگائے نوکری مل جانے کی صدائیں دیتا رہا۔ دو دن سے بھوکی بیمار رشیدہ اب اِس دنیا میں نہ تھی۔lll