نکاحِ ثانی گناہ یا کارِ خیر

تمنا مبین اعظمی

آج کل ہمارے محلے میں ایک ہی موضوع زیر بحث ہے، خاص طور پر جہاں دو چار عورتوں کا گروپ ہوتا ہے اس موضوع پر اظہارخیال کیا جانا ضروری امر سمجھا جاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جناب بشیر عالم صاحب جو ایک نہایت ہی متقی، دیندار، شریف ہو نے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے شوہر، اچھے باپ، اچھے پڑوسی اور نیک انسان بھی ہیں، ان کی زوجہ محترمہ تقریبا چھ مہینہ پہلے انتقال کر گئیں، اور سات معصوم بچوں کی ذمہ داری اکیلے بشیر احمد صاحب کے کاندھوں پر آ گئی۔ان بچوں کی تعلیم و تربیت، دیکھ بھال، شادی بیاہ اور دیگر گھریلو مسائل کو دیکھتے ہوئے کچھ خیرخواہ لوگوں نے دوسری شادی کا مشورہ دیا۔بشیر صاحب کو بھی حالات کو بہتر بنانے اور بچوں کی پرورش و پرداخت کے لئے یہی راستہ مناسب لگا۔ چنانچہ انھوں نے دوسری شادی کا فیصلہ کر لیا۔ اور شادی کے لئے ایک نیک بیوہ عورت کا انتخاب کیا۔اس فیصلے سے گویا پورے محلے کو ایک چٹ پٹا مو ضوع مل گیا جس پر مختلف پہلوؤں سے بحث و مباحثہ ہوتا ، اپنی اپنی رائے کو پیش کیا جاتا ۔عورتیں خاص طور پر اس شادی کی سخت مخالف تھیں کیو نکہ بشیر صاحب کی عمر پچاس سال سے کچھ اوپر ہی ہے۔

ارے یہ بھی کوئی عمر ہے شادی کرنے کی، جوان بچے بچیاں ہیں ، نواسے نواسی اور پوتے پوتی کھلانے کی عمر ہے،مردوں کو تو بیوی کے مرتے ہی دوسری شادی رچانے کا موقع مل جاتا ہے، مرد تو بے وفا ہوتے ہی ہیں، عورت کے بنا رہ ہی نہیں سکتے ، وغیرہ وغیرہ باتیںعورتوں میں عام ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بشیر صاحب کوئی غلط قدم اٹھا رہے ہیں؟ کیا شادی کا مطلب صرف خواہشات کی تکمیل ہے؟ کیا گھریلو مسائل کی اور بچوں کی پرورش و پرداخت کی کوئی اہمیت نہیں ؟ مسائل کو سمجھنے کے بجائے ان پر تنقیدیں کر کے کیا ہم ایک اچھے انسان ہونے کا فرض نبھا رہے ہیں؟کیا ایک باپ اپنے بچوں کی وہ ذہنی اور اخلاقی تربیت کر سکتا ہے جو ایک ماں بچوں کے درمیان رہتے ہوئے کرتی ہے؟ کیا وہ اپنی بچیوں کو وہ شعور عطا کر سکتا ہے جس سے وہ گھریلو ذمہ داریوں اور ایک نئی نسل کو سنبھالنے کے لیے تیار ہو سکیں ؟کیا وہ چھوٹے بچوں کی تنہا پرورش کر سکتا ہے جب کہ اسے ضروریات زندگی کو بھی فراہم کرنا ہے؟کیا ایک تنہا عورت معاشی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو وہ تحفظ دے سکتی ہے جو کہ باپ کا وجود دیتا ہے؟کیا وہ بچوں کی بیرونی سرگرمیوں پر پوری طرح نظر رکھ سکتی ہے جبکہ اسے اپنی آبرو کی بھی حفاظت کرنی ہوتی ہو؟اگر نہیں تو پھر اس کار خیر کی طرف بڑھتے ہوئے قدم کی حو صلہ افزائی کرنے کے بجائے اعتراض اور نکتہ چینی کیوں کی جاتی ہے؟ کیوں ایک انسان ہونے کے ناطے ہم ان خاندانی اور معاشی مسائل کو محسوس نہیں کر پاتے ہیں جس کو بیوی اور شوہر کھونے والا انسان محسوس کرتا ہے؟اتنے خود غرض ہم کیسے بن جاتے ہیں؟

یہ سارے غیر اسلامی روایات و اقدار ہیں جن کی جڑیں بہت گہرائی سے ہمارے سماج میں پیوست ہیں۔ اگر کوئی اس کے خلاف قدم اٹھاتا ہے تو اس پر تنقیدیں شروع ہو جاتی ہیں۔ اس کی اولاد کو اس سے متنفر کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ سوتیلی ماں اور سوتیلے باپ کا ڈراونا نقشہ کھینچا جاتا ہے۔ان کے معصوم دلوں میں نفرت اور خوف کا بیچ بو دیا جاتا ہے جس کو مٹانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ان کے اس قدم کو سراہنے اور مدد کرنے کے بجائے عیاشی کا نام دے دیا جاتا ہے۔

نکاح ثانی کرنامرد وعورت کسی کے لیے بھی عیب کی بات نہیں ہے۔ چاہے وہ کسی بھی عمر کا کیوں نہ ہو۔ ہم اکثر اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ بڑھاپے میں ساتھی کی ضرورت جوانی سے زیادہ ہو تی ہے۔ شادی کی اسی مصلحت اور ضرورت کی وجہ سے اسلام شادی کرنے پر زور دیتا ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:

’’اور جو بغیر نکاح کے ہوں ان کا نکاح کر دو اور غلاموں اور لونڈیوں میں سے جو بھی اس کے اھل ہوں ، ان کابھی نکاح کر دو۔ ( سورہ نور:۳۲)

مولانا اشرف علی تھانوی اپنے تفسیری ترجمے میں لکھتے ہیں: یعنی احرار میں جو بے نکاح ہوں، خواہ مرد ہوں یا عورت، خواہ ابھی نکاح ہی نہ ہوا ہو، یا وفات و طلاق سے اب تجرد ہو گیا ہو۔

اس وضاحت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس حکم میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جن کے پاس بیوی یا شوہر نہ ہوں۔ کیونکہ خاندان کو مستحکم بنانے ، اولاد کی تعلیم و تربیت، آبرو کی حفاظت اور محبت و رحمت کے حصول کے لیے نکاح نہایت ہی کارگر نسخہ ہے۔ ماں باپ کی وفات یا طلاق کا سب سے برا اثر بچوں پر پڑتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو نا مکمل محسوس کرنے لگتے ہیں۔ ان کی ذہنی اور اخلاقی نشوونما میں خلا پیدا ہو جاتا ہے۔ غلط راستے اور غلط صحبت اختیار کرنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اولاد کی پرورش و پرداخت میں ماں باپ دونوں کی ضرورت نا گزیر ہے۔ دونوں کے لیے ایک دوسرے کی کمی پوری کرنا تقریبا نا ممکن ہے۔ باپ نہ ہونے سے معاشی دشواریاں ،بیوی بچوں کے تحفظ کا مسئلہ جنم لیتا ہے۔ کچھ ہی گھرانوں میں خاندان کے دوسرے لو گوں کا سپورٹ مل پاتا ہے۔ ماں نہ ہونے کی صورت میں گھر کی دیکھ ریکھ، بچوں کو سنبھالنا، اندرونی اور بیرونی مسائل کے درمیان اعتدال پیدا کر پانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسے لا متناہی ٹینشن اور دشواریوں سے بچانے کے لیے اسلام، نکاح ثانی کی نہ صرف اجازت دیتا ہے بلکہ اس کی ترغیب و تلقین بھی کرتا ہے۔ اور کسی کو اجازت نہیں دیتا کی وہ اس نکاح میں رکاوٹ بنے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

’’اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے دو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو ان کو نہ روکو کہ وہ اپنے شوہروں سے نکاح کر لیں ،جب کہ وہ دستور کے مطابق آپس میں راضی ہو جائیں ۔مولانا مودودی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

نیز اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو طلاق دے چکا ہو اور عورت عدت کے بعد اس سے آزاد ہو، کہ کسی دوسری جگہ نکاح کرنا چاہتی ہو تو اس سابق شوہر کو ایسی کمینی حرکت نہیں کرنی چاہیے ، جو اس کے نکاح میں مانع ہواور یہ کو شش کرتا پھرے کہ جس عورت کو اس نے چھوڑا ہے ، اسے کوئی نکاح میں لانا قبول نہ کرے۔

آنحضرتﷺ اور آپ کے خلفاء کے دور میں بڑی آسانی سے عقد ثانی ہو جاتا تھا۔ بیوہ اور طلاق ہونے کے بعدکئی کئی بار شادیاں کرنا بھی معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ خود آپﷺ کی سبھی بیویاں بیوہ تھیں سوائے حضرت عائشہ کے۔

سوتیلے رشتے کے بارے میں عموما یہ تصور عام ہے کہ وہ برا ہوتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی تعلیمات کو عام کیا جائے۔ اور ایک ایسے سماج کی تشکیل کی جائے جس کا ہر فرد اپنے حقوق کے ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریوں سے بھی بخوبی واقف ہو۔ دل خوف خدا سے معمور ہو تب یقینا کسی کے ساتھ حق تلفی کا ڈر نہیں ہو گا۔پڑوسیوں اور رشتے داروں کی ذمہ داری ہے کہ نئے ماں باپ کے خلاف بھڑ کانے کے بجائے بچوں کے دلوں میں ان کے لیے جگہ پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ اسی طرح والدین کو بھی اپنے دل کو وسیع کرنا چاہیے تاکہ جس ذمہ داری کو انہوں نے قبول کیا ہے اس کا کماحقہ حق ادا کرسکیں۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں