نیا رشتہ

سید علی

کوئی نہیں جانتا کہ یہ ہمکتا ہوا شیر خوار بچہ کس کا ہے۔ نکاح و طلاق کی جکڑ بندیوں سے آزاد معاشرہ کی یہ عجیب تصویر ہے۔ بچہ کی ماں ضرور جانتی ہوگی کہ اس بچہ کا اصل باپ کون ہے۔ اونہہ! باپ بڑا دقیانوسی لفظ ہے۔ وہ جانتی ہوگی کہ اس کے کس بوائے فرینڈ کا وہ تحفہ ہے لیکن اس نے اپنے اس بوجھ کو فٹ پاتھ پر کوڑا کرکٹ کی طرح پھینک دیا تھا پھر وہ کیڑے کی طرح کلبلا کلبلا کر نہ جانے کس طرح اتنے دنوں زندہ رہ گیا تھا۔ خاندانی منصوبہ بندی کے اس سنہرے دور میں ہر ترقی پسند کی نگاہ میں ایک یا دو، بس اس سے زیادہ بچے پالنے سے بہتر کتا پالنا ہے۔ اسی لیے ماڈرن لوگ نامطلوب بچوں کو پیدا ہوتے ہی جھاڑیوں میں یا کوڑے کرکٹ کے ٹپ میں غلاظت کی طرح پھینک دیتے ہیں۔ اس ہمکتے ہوئے شیر خوار بچہ کو کوئی غیر ملکی رحم دل لے پالک بنا کر ہندوستانیوں کو غیرت کو للکار نہیں سکتا۔ ہمارا سماج سوشلسٹ طرز کا ان معننوں میں ہرگز نہیں ہے کہ گرے پڑے بچوں کو پالنے کا نظم کرتا پھرے۔ کسی نامراد جوڑے کی اولاد کی خواہش بھی ہو تو وہ اس قسم کے بچہ کو جس کی ذات برادری معلوم نہیں ہو ود لے کر اپنے وقار کو مٹی میں کیوں ملائے گا۔ مدر ٹریسا بھی کتنے بچوں کو راستے راستے چنتی پھرے گی اب تو بوتل کے دودھ کی قیمت بھی آسمان سے چھو رہی ہے۔ تب فطرت کے اس معصوم شاہکار کو کون سینے سے لگائے؟

کیا کوئی کتیا؟ ایسی بات زبان سے نہیں نکالنی چاہیے، کسی سوشلسٹ ملک کے ترقی یافتہ شہری کا اس سطح پر اتر کر سوچنا ملکی توہین ہے۔

ہمارا ملک اب ترقی کے اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ ہمارے جوان خلاء میں تیرنے لگے ہیں۔ ہمارے ملک میں عالمی معیار کے اسٹیڈیم ہیں، فائیو اسٹار ہوٹل ہیں، بڑے بڑے ڈیم ہیں، دیو ہیکل کارخانے ہیں، فضا میں گردش کرنے والے سیارے ہیں اور ترقی کے شاندار پانچ سالہ منصوبے ہیں۔ ترقی کی منزلوں کو چھونے کی اس دوڑ میں پیچھے مڑ کر ایسے گرے پڑے بچے کو کون دیکھے۔

معلوم نہیں دنیا میں اب تک عجائبات کی تعداد کتنی ہوگئی ہے۔ ہمارے ملک میں صرف تاج محل ایک عجوبہ تھا مگر وہ ایک بادشاہ کا بنایا ہوا ہے (جو آج کل کے جدید تاریخ داں مٹراوک وغیرہ کے خیال میں کسی راجہ کا محل تھا لیکن شہرکلکتہ میں سوشلسٹوں کے خواب کی اس دنیا میں ایک اور عجوبہ ہے جس پر دنیا والوں کی نگاہ نہیں پڑی ہے اس لیے ہم ہندوستانیوں کی بھی نگاہ نہیں پڑی ہے۔ بی بی سی والوں کی آنکھیں بھی اس کو نہیں دیکھ سکی ہیں۔ لوئس مالے کی فلمی عجائبات میں بھی اس قسم کا حیرت ناک منظر نہیں دیکھا گیا۔ ہندوستان میں کام کرنے والی غیر ملکی ایجنسیاں جو چیونٹی کی چال پر بھی نظر رکھتی ہیں وہ بھی اس عجوبہ کے دید سے محروم رہیں۔ آخر وہ عجوبہ ہے کیا؟

ہندوستان ٹائمز میں پہلے صفحہ پر اس کی تصویر چھپی ہے۔ ہزاروں نے دیکھا لیکن ایک درجن لوگوں نے بھی اس کو اہمیت نہیں دی اور وہ اہمیت دینے کے لائق عجوبہ ہے بھی نہیں۔ وہ نہ سیلوٹ کی تصویر ہے، نہ راکیش شرما کی، نہ تال کٹورہ میں تیراکی کا روح پرور منظر، گوا کا تفریحی رنگ محل بھی نہیں، ناوابستہ کانفرنس کے موقع پر کاسٹرو کے ہمارے وزیر اعظم سے پرجوش معانقہ کی تصویر بھی نہیں۔ آخر کوئی پرکشش اور کوئی حیرت انگیز بات بھی تو ہو۔ کم از کم موئلی ٹیپ یا آؤک اسکینڈل ہی کی تصویری جھلک ہو۔ کسٹم کے چھاپے، برآمد حشیش یا غیر ملکی شراب ہی کا فوٹو ہو یا پھر اجل منڈل کے قتل، ایلزبتھ ریکار کی خود کشی، اور اس کی جھولتی لاش، کچھ تو سنسنی خیز سین ہو، بنک ڈکیتی، جلتی دلہنیں، شعلے اگلتے مکانات، لاشوں کی ڈھیر یہ سب کچھ بھی تو نہیں بہت ہی معمولی سی تصویر تھی،ایک کتیا اور ایک ہمکتے بچے کی۔ بھلا اس میں غیر معمولی بات کیا تھی۔ کتا تو ایک وفادار جانور ہے جو اجنبیوں کو دیکھ کر بھونکتا ہے اور ہڈی پاکر خوش ہو جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں انگریزوں کے چند پسماندگان ابھی تک کتے کو اپنا عزیز دوست سمجھتے ہیں۔ باقی لوگ اسے کتا ہی سمجھتے ہیں ایک کاٹ کھانے والا جانور۔ یورپ میں کتے کی بڑی شان ہے، کسی ’’صاحب‘‘ یا ’’میم‘‘ کا وجود بغیر کتے یا کتیا کے مکمل ہی نہیں ہوتا۔ وہ خاندان کا اہم فرد سمجھا جاتا ہے بلکہ کتے کی حیثیت شوہر وبیوی کے درمیان مہر و نفقہ سے کچھ زیادہ ہی ہے۔ ایسے واقعات اخبارات میں چھپتے رہتے ہیں کہ ایک میم نے اپنے صاحب سے عدالت میں مقدمہ دائر کر کے جدائی حاصل کرلی کیوں کہ صاحب نے اپنی میم کے کتے کو ذرا ڈانٹ پلا دی تھی۔ ایک دلچسپ واقعہ ابھی حال میں اخباروں کی زینت بنا۔ ہوا یہ کہ ایک صاحب کو اپنی ماں کی اس کے کتے کے ساتھ بڑھتی ہوئی دلچسپی پسند نہیں آئی تو اس نے اس کتے کو اغوا کرلیا۔ چناں چہ ماں نے بیٹے کے خلاف مقدمہ دائر کر کے اپنا کتا حاصل کرلیا اور بیٹے کو کئی ہزار پاؤنڈ تاوان میں ادا کرنا پڑا۔

کتے کے سلسلے میں فلپائن کے لوگوں کا ذوق بڑا جارحانہ ہے وہ لوگ کتے کا گوشت بڑے شوق سے تناول فرماتے ہیں۔ بس ان کا کتوں کو ذبح کرنے کا طریقہ بڑا غیر مہذب ہوتا ہے اس لیے ابھی حال ہی میں برطانیہ میں بڑے بڑے سگ نواز دانشوروں کی ایک نشست ہوئی تھی جس میں کتے کے طریقہ ذبح پر اظہارِ غم و غصہ کرتے ہوئے ذبح کا آرامدہ طریقہ تجویز کیا گیا۔ جنوبی کوریا کے لوگ کتے کے گوشت سے کتے کا شوربہ (سوپ) زیادہ پسند کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے استعمال سے اسپورٹنگ اسپرٹ آتی ہے اور چینی حکمت اور امریکی عیاری پیدا ہوتی ہے۔ چند ماہ قبل سیول (جنوبی کوریا میں) ایک قانون کے ذریعے غیر ملکیوں کے لیے کتے کے سوپ کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ ہندوستان میں اس کتے کو بھوکنے اور کاٹنے والا جانور سمجھا جاتا ہے بلکہ ان کو پکڑ پکڑ کر شہر سے باہر بھگا دیا جاتا ہے۔

ہندوستان ٹائمز میں جو تصویر چھپی تھی اس کی بس اتنی خصوصیت تھی کہ تہذیب جدید کا ایک ہمکتا ہوا بچہ ایک کتیا کا دودھ پی رہا تھا۔ اور یہ روز کا معمول تھا، کتیا سڑک پر آکر ایک مقررہ جگہ پر دراز ہو جاتی اور انسانی بچہ اس کے سینے سے چمٹ کر دودھ چوستا رہتا۔ کتیا پر سکون انداز میں مامتا کی پوری شفقت اور کشادہ دلی سے سماج کے ٹھکرائے ہوئے اس انسانی پلے کو سینے سے لگا لیتی اور بچہ بھی انسان اور کتے کے فرق سے بے نیاز شیر ماد رسمجھ کر کتیا کا دودھ پیتا رہتا ہے۔ راہ گیر اس دلخراش منظر پر اچٹتی نگاہ ڈالتا ہے اور اپنی راہ لیتا ہے جیسے ہر ایک راہ گیر نے انسان اور کتے کے رشتے کو ماں اور بیٹے کے روپ میں قبول کرلیا ہو اور ویسے بھی دودھ کا رنگ ایک ہی ہوتا ہے۔ انسان بندر کی اولاد ہونا قبول کرسکتا ہے تو کتے کا بچہ بن کر اس کا دودھ پینے میں کیا مضائقہ ہے۔

وہ بچہ جب جوان ہوگا تو بڑے فخر سے کہے گا کتیا کے دودھ پر میں پل کر جواں ہوا ہوں۔ اور وہ کہیں لیڈر بن گیا تو بقائے باہم کا زبردست حامی ہوگا اور ہمارے کتوں کو شہری حقوق عطا کر کے انسان کا ہم رتبہ قرار دینے کی مہم چلائے گا اور اس کا نعرہ ہوگا ’’انسان کتا بھائی بھائی‘‘ اس کا بھونکنا اور کاٹنا بھی دیکھنے کی چیز ہوگی۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں