میرا تو ہمیشہ سے یہی المیہ رہا کہ جو کام کرنے کے تھے نہیں کیے اور جو کام نہیں کرنے تھے وہ بھی نہیں کیے… کردہ اور ناکردہ کے درمیان ایک ایسا طویل سفر درپیش رہا کہ اب پلٹ کر دیکھتی ہوں تو لگتا ہے جیسے میں نہیں کوئی اور ہی اب تک سفر میں تھا… یہ کیا…! نہ میری سانس ہی پھولی ہوئی ہے اور نہ ہی آنکھوں میں کوئی تھکاوٹ ہے… جب نوکری کرتی تھی تو خود کو کوستی تھی کہ دنیا اپنے گھر میں رہتی ہے، اسے سنوارتی بناتی ہے اور میں در در کی خاک چھانتی رہتی ہوں… نوکری چھوڑ کر گھر بیٹھی تو بھی دن بھر سوائے دیواروں سے سر ٹکرانے کے کرتی ہی کیا ہوں…! ٹھیک ہی کہتے ہیں میرے شوہر صاحب کہ مجھ میں ’’میں‘‘ بہت ہے… بس اپنے بارے میں سوچتی رہتی ہوں۔ کبھی دنیا کی بھی فکر کی کبھی سوچا کہ کون کون سی دریافتیں کر کے دوسرے ممالک آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں، لوگ کیسی کیسی تعلیم حاصل کر کے لاکھوں کما رہے ہیں، اسٹینڈرڈ بنا رہے ہیں اور میرا اسٹینڈرڈ… تف ہے مجھ پر… مجھ پر تو یہ لفظ ’’اسٹینڈرڈ‘‘ آکر کچھ صدر بازار سے لیے گئے پرانے کوٹ جیسا ڈھیلا ڈھالا بن جاتا ہے اور پھر دور سے ہلکی ہلکی آتی گنگناتی آواز نے باقاعدہ اپنا آپ منوالیا۔
گلی گلی مری رسوائیوں کا ساتھی ہو
کوئی تو ہو جو مری وحشتوں کا ساتھی ہو
یہ شاعر لوگ بھی ہم جیسے دیوانوں کو اور بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں۔ میں نے لاؤنج میں بجنے والی آواز ہلکی کردی اور توقع کرتی رہی کہ یہیں کہیں کونے کھدرے سے وہ سر نکالے گا… اس کی یہی پہچان تھی، جہاں ہوتا، اس کا ریڈیو اسی طرح میڈم نور جہاں الاپتا رہتا اور وہ کسی کونے میں گھسایا پھر کہیں دیوار پر چمٹا کچھ نہ کچھ کر رہا ہوتا… مگر حیرت انگیز طور پر اس کی طرف سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ میں نے بھی خاموشی سے کچن کا رخ کیا۔ ساس صاحبہ جلدی جلدی دوپہر کے کھانے کے بعد اٹھائی گئی پلیٹوں سے بچا کھچا کھانا ایک بدرنگی پلیٹ میں ڈھیر کر رہی تھیں۔ میں چائے کی رسیا… کیتلی اٹھائی ہی تھی کہ ساس صاحبہ نے جھٹ سے شاید صبح کی بنی ہوئی چائے ایک کپ (جو اپنا رنگ بھول چکا تھا) میں انڈیل لی…
’’فیصل کے لیے رکھ رہی ہوں… وہ دوپہر کے کھانے کے ساتھ چائے پیتا ہے ناں… ’’وہ کچھ توقف کے بعد گویا ہوئیں‘‘ تمہاری طرح۔‘‘
ساس صاحبہ نے فخریہ ٹرے اسے تھما دی۔ میرے گلے میں کچھ اٹک گیا، جیسے دل پر ایک دھچکا سا لگا۔ میں شرمندگی سے نظریں چرانے لگی۔ وہ کچن میں چوکی گھسیٹ کر کونے میں براجمان بڑے اہتمام سے کھانا جیسا کھانا کھانے لگا۔
’’بھابھی آپ چائے بہت پیتی ہیں، صحت کے لیے اچھی نہیں ہوتی۔ ہر وقت چائے اتنی چائے۔‘‘ اس نے ایک دو نوالے خاموشی سے کھانے کے بعد کہا۔ میں جواب تک چائے دو کپ میں انڈیل چکی تھی۔ مسکرا کر رہ گئی۔ میں نے ایک کپ اس کی طرف بڑھا دیا… وہ دم بخود رہ گیا ’’کیا بھائی صاحب کو دے آؤں…؟ پر وہ تو سو رہے ہیں اوپر والے کمرے میں۔ ابھی چند منٹوں پہلے ہی تو دیکھ کر آیا تھا میں۔‘‘
’’یہ تمہارے لیے ہے، گرم اور تازہ…‘‘ میں نے ہلکے سے کہا۔
وہ گھبرا کر کھڑا ہوگیا اور چائے کا کپ لیتے ہوئے اس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے۔ میں خاموشی سے اوپر جانے کے لیے زینہ چڑھ گئی۔ شام تک ہم واپسی کے لیے نکلے۔ کل پیر ہے اور دو دن سسرال میں گزار کر اب ہم واپس اپنے گھر جا رہے تھے۔ راستے میں شوہر صاحب نے بتایا کہ گیلری کی صفائی کے لیے انھوںنے فیصل سے بات کرلی ہے، وہ ایک دو دن میں ہمارے ہاں آئے گا اور گیلری کی صفائی کردے گا۔ انھوں نے مجھے ہدایات دیں کہ اور بھی کچھ کام ہوں تو کروالوں… مجھے واقعی ایک مددگار کی ضرورت تھی، یوں تو میرے گھر میں کوئی ملازمہ نہیں آتی تھی، میں جب سے نوکری چھوڑ کر بیٹھی تھی گھر کے تمام کام خود اپنے ہاتھ سے کرنے لگی تھی، مگر ہمارے فلیٹ کی گیلری کچھ اس طرح کی تھی کہ پورا محلہ اس میں جھانک تانک کرتا جاتا تھا، لہٰذا مجھے اکیلے گیلری میں صفائی سے حجاب آتا تھا۔ پھر کچھ چیزیں جو دو چھتی میں پڑی سڑ رہی تھیں ان کو نکلوا کر کسی کو دینا دلانا تھا، کچھ باہرکے کام… میں دل میں تھوڑی مطمئن ہوگئی۔
فیصل میری ساس صاحبہ کے محلے میں رہتا تھا۔ اس کو کونے والے گھر میں کسی صاحب نے گود لیا تھا مگر بعد میں ان کے انتقال کے بعد سے فیصل کے ساتھ گھر والوں کا رویہ اچھا نہیں تھا۔ وہ اسی طرح محلے والوں کے چھوٹے موٹے کام کر کے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرتا تھا۔ ساتویں تک ہی تعلیم حاصل کر سکا تھا۔ دبلا پتلا، لمبا چھریرا بیس بائیس سال کا لڑکا تھا۔ میں نے ایک دوبار ساس صاحبہ سے پوچھا بھی کہ آخر یہ فیصل کہیں باقاعدہ نوکری کیوں نہیں کرلیتا؟ جس پر انھوں نے یہی بتایا کہ فیصل کے گھر والے نہ تو اس کے تعلیمی سرٹی فکیٹ اس کو دیتے ہیں اور نہ ہی اب تک اس کا شناختی کارڈ بنوایا ہے کہ اس کے لیے خاندان کا نمبر دینا ضروری ہے اور وہ لوگ جائداد کی وجہ سے ایسا کچھ کرنے سے گریزاں ہیں۔ میں کیوں کہ کم ہی سسرال جاتی تھی اس وجہ سے کبھی موقع بھی نہیں ملا تھا کہ فیصل سے پوچھتی۔ وہ ہر کام میں ماہر تھا۔ پینٹ کر والو، سیمنٹ کروالو، کار پینٹری میں بھی بہت ماہر… غرض لوگوں کے ہاں صرف ایک وقت کے کھانے کے عوض وہ اچھے سے اچھا کام کر کے دے دیتا تھا، مگر پھر بھی اس کی حیثیت لوگوں کی نظروں میں ایک معمولی کام کرنے والے سے زیادہ نہ تھی۔ وہ سب محلے والوں کا کام ایک طرح سے محنت اور دل سے کر کے دیتا مگر لوگوں کی نظروں میں نوکر ہی تھا۔ جب کہ ساس صاحبہ نے تو اس کے کھانے اور پینے کے برتن تک علیحدہ کر رکھے تھے شکل وصورت اور قد کاٹھی سے کسی طرح بھی معمولی نوکر نہ لگتا تھا، بلکہ مجھے تو اس کے لیے نوکر کا لفظ استعمال کرنا ہی بڑا افسردہ کردیتا تھا۔
ہمارا گھر سسرال سے خاصی دور تھا۔ میں نے آج تک بس سے سفر نہیں کیا تھا۔ اس لیے جب فیصل خاصے بوجھل قدموں سے پہنچا تو معلوم چلا کہ اسے ہمارے ہاں آتے آتے تین بسیں بدلنا پڑیں اور دو سے ڈھائی گھنٹے سفر میں لگے۔ میں شرمندہ سی ہوگئی، اصولاً مجھے اس کے لیے گاڑی بھجوانی چاہیے تھی یا اسے آٹورکشے کا کرایہ دے کر آنا تھا۔ بہرحال واپسی پر صاحب سے کہوں گی کہ تھوڑی دیر کے لیے ڈرائیور کو روک لیں تاکہ فیصل کو واپسی پر آسانی رہے۔
وہ کمر باندھ کر گیلری میں لگ گیا تھا۔ کئی دنوں سے کبوتروں نے جو انڈے بچے دیے تھے، ان سب کی گندگی کی صفائی کی، جس کو ہماری بلڈنگ میں صفائی کرنے کے لیے آنے والے نے صاف کرنے سے سختی سے انکار کر دیا تھا۔ اس نے تحمل سے سب پر ایک نظر ڈالی اور پھر مجھ سے صفائی کرنے کے لیے ڈٹرجنٹ، جھاڑو اور فنائل مانگا۔ میں نے بھاگ بھاگ کر سب لاکر گیلری میں ڈھیر کر دیا۔ اس نے مجھے گیلری سے نکال دیا اور خود گیلری کا دروازہ بند کر کے دھڑادھڑ صفائی میں لگ گیا۔ مجھے اور کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو میں نے اس کے لیے جلدی سے پراٹھے اور آملیٹ بنا کر رکھ لیا۔ ایک گھنٹے تک مسلسل پانی، ڈٹرجنٹ اور فنائل سے صفائی کرنے کے بعد وہ گیلری کو چمکا کر مجھے آوازیں دے کر بلانے لگا۔ اس کا ریڈیو ویسے ہی الاپے جا رہا تھا:
میرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو
کوئی تو ہو جو میری وحشتوں کا ساتھی ہو
میں گیلری کی اتنی نفاست سے کی گئی صفائی پر خوشی سے جھوم گئی۔ اس نے ایک پرانی پڑی ہوئی کرسی بھی دھو چمکاکر بڑے اہتمام سے ایسی جگہ رکھ دی تھی کہ بے پردگی نہ ہو اور گیلری میں بیٹھا بھی جاسکے۔ اس نے مسکراتے ہوئے مجھے کرسی پر بٹھا دیا۔
’’لیں بھابھی یہ جگہ بالکل مناسب ہے، اب اس کونے میں چھپی بیٹھ کر آپ وقت کو گزرتے دیکھیں۔‘‘
یہ کیا ہوا؟ میرا دل ایک بار اپنی ہی دھڑکن میں الجھ گیا تھا الفاظ!! کہاں گئے الفاظ، کدھر جا چھپے، جب بھی ان کی ضرورت ہوتی ہے کیوں میرے پاس سے رفو چکر ہو جاتے ہیں! کتنی آسانی سے اس نے مجھے پہچان کر میری ہی سچائی کو مجھ سے بیان کر دیا تھا اور میں شکریہ تک بھی نہ کہہ سکی۔ میں گھبرا کر بیٹھنے کے ساتھ ہی کھڑی ہوگئی اور اس سے پہلے کہ وہ میرے بیٹھنے کی ضد کرتا، میں گیلری سے نکل آئی۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ بھی واپس آگیا اور خاموشی سے باہر کی طرف جاتی ہوئی گلی میں کھڑا ہوگیا۔ میں کچن سے ٹرے میں اس کے لیے پراٹھے اور آملیٹ لے کر نکلی تو وہ اپنے ریڈیو کے کان مروڑ رہا تھا۔ میں نے ٹرے میز پر رکھ کر اسے آواز دی اور واپس کچن میں چائے بنانے چلی گئی۔ اسی اثنا میں مجھے یاد آیا کہ ایک دو دن پہلے برابر والوں کے ہاں سے باہر کی چاکلیٹ بھی تحفتاً آئی تھیں، میں نے فریج سے ایک دو چاکلیٹ باہر نکال کر واپس لاؤنج کی طرف رخ کیا تو اسے میز کے پاس کھڑے پایا۔
’’کیوں، کیا ہوا؟ کھاؤ ناں، سوری بھئی، میں دوپہر میں کھانا تو کھاتی نہیں، اس لیے تم کو یہی پیش کرسکتی ہوں، ہاں رات تک رکو تو ہمارے ساتھ ہی کھانا کھاکر جانا۔ بس تم کھانا شروع کرو، جب تک میں چائے لے کر آتی ہوں۔‘‘ میںنے مسکرا کر اس کے لیے کرسی میز سے باہر نکال دی۔ اب کی بار وہ گڑبڑا گیا۔
’’بھابھی… میں، یہ کہ …‘‘ اس کے ہکلانے پر مجھے احساس ہوا۔
’’اب کیا کروں، میرے کچن میں چوکی نہیں ہے۔‘‘
اب کی بار میں نے اس کو بازو سے پکڑ کر کرسی پر لا بٹھایا تھا۔ اچانک اس کا ریڈیو چلا اٹھا ’’میں تیرے سنگ کیسے چلوں…‘‘ اس نے جلدی سے ریڈیو کا کان مروڑ کر اسے بے آواز کر دیا۔ اس کو میز پر کھاتے دیکھ کر جیسے میرے دل میں کہیں کچھ بہت دھیما سا تیزی سے گزر گیا تھا۔ میں چائے لے کر آئی اور دوسری کرسی گھسیٹ کر اس کے سامنے ہی بیٹھ گئی… اب وہ بہت پرسکون انداز میں کھانا کھا رہا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ اس کے ہر انداز میں نفاست اور صفائی جھلکتی ہے… چائے پیتے اور ادھر ادھر کی گفتگو کرتے وقت کا احساس تک نہ ہوا۔ وہ ایک دوبار ہنسا، خوش دلی سے اپنے معمولات بتاتا رہا۔ اس کی واپسی کا وقت ہوچکا تھا، میں نے واپسی کے لیے اس کو رکشے کا کرایہ دینا چاہا تو وہ اکڑ گیا۔
’’ارے تو جاؤگے کیسے! بس سے تو میں بالکل اجازت نہیں دوں گی۔ ابھی اتنا کام کیا اور اب واپسی ہوتے ہوتے رات ہوجائے گی، اتنی محنت کی ہے، کچھ تو خیال کرو۔‘‘ میں بالکل ہی گڑگڑانے لگی تو وہ زیر لب فخریہ سا مسکرا اٹھا:
’’اچھا اچھا بھئی، میں بس سے نہیں رکشے سے چلا جاؤں گا… بس؟ مگر آپ یہ ظلم نہ کریں… یہ تو پھر کوئی بات ہی نہ ہوئی ناں بھابھی، آخر کو آپ بھابھی ہیں۔‘‘
یوں وہ چلا گیا…اگلے ہفتے ہمیں گھر میں کچھ رشتے داروں کی دعوت کا اہتمام کرنا تھا، لہٰذا سسرال جانا نہیں ہوسکا، اور شوہر صاحب اتوار کے دن صبح صبح دو چار گھنٹے کے لیے ہوکر آگئے۔ مجھے گیلری میں بیٹھا دیکھ کر شوہر صاحب بھی گیلری میں آگئے اور بولے ’’اچھے وقت میں فیصل سے کام کروالیا ورنہ… اب تو…‘‘
میں گھبرا گئی… ’’اب تو کیا…؟‘‘
شوہر صاحب نے غور سے مجھے دیکھا اور اچانک ہی قہقہہ لگا کر ہنس پڑے ’’سمجھ گیا، آخری بار آپ کے پاس ہی بھیجا تھا ناں فیصل کو… بس سمجھ گیا اس بے چارے کے ساتھ تو یہی ہونا تھا۔‘‘
’’ہم …م …م‘‘ میں بے چین سی ہوکر رہ گئی تھی۔ شوہر صاحب ہنسی پر قابو کرتے، بتانے لگے ’’بھئی فیصل کی تو کایا پلٹ ہی ہوگئی۔ سب سے پہلے تو اس نے ڈیمانڈ کرنی شروع کی کہ جب بھی اسے کھانا دیا جائے صاف ستھری پلیٹ میں اور گرم دیا جائے۔ ساتھ میں چائے بھی اچھی سی گرما گرم ملے، پھر ڈائننگ ٹیبل یا دسترخوان پر جیسے گھر کے باقی لوگ کھانا کھاتے ہیں ویسے ہی اسے بھی سب کے ساتھ کھانے میں شریک کیا جائے۔ جب رات کو گھر لے جانے کے لیے اسے باسی روٹی وغیرہ دی جاتی تھی وہ بھی اس نے واپس کرنا شروع کر دی۔ اس کے چند دن بعد ہی وہ نکڑ کے قصائی کے پاس نوکر ہوگیا۔ اب صبح صبح اٹھ کر قصائی کے ساتھ مل کر گوشت بیچتا ہے اور دوپہر میں ہوٹل میں گرما گرم کھانا منگا کر کھاتا ہے، او ررات کو دکان میں ہی سوتا ہے۔ اور معلوم ہوا ہے کہ اب رہائش کے لیے مکان اور اپنی دیکھ بھال کے لیے لڑکی بھی تلاش کر رہا ہے۔ آپ جیسے لوگوں کا تو یہی وطیرہ ہے، خود تو کچھ کر نہیں پاتے، جو دوسرے سیدھی لائن میں لگے نظر آتے ہیں ان کو بھی ڈانواں ڈول کرکے چل پڑتے ہیں۔ بے چارہ پورا محلہ اب پریشان ہے کہ سب کے گھر کے کتنے ہی کام پڑے رہ جاتے ہیں۔‘‘
شوہر صاحب نے طنز کے ایک دو اور تیر مار کر کمرے کی راہ لی اور میں فیصل کو قصائی کی دکان میں گوشت بناتے، تولتے، ریڈیو پر میڈم نور جہاں کو الاپتے سوچنے لگی…
وہ میرے نام کی نسبت سے معتبر ٹھہرے۔۔۔
میرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو۔۔۔
گیلری سے زمانہ ویساہی بھاگتا، دوڑتا نظرآرہا تھا جیسے ایک منٹ کی دیر بھی نہ جانے کون سا طوطان لے آئے گی۔ میں اچانک مسکرا دی، شاید زندگی میں پہلی بار میں نے وہی کر دکھایا جو مجھے کرنا چاہیے تھا۔lll