[wpdreams_ajaxsearchpro id=1]

نیک توقعات

تحریر : امل عبدالستار ، ترجمہ: روید خان، علی گڑھ

نیک توقعات سے وابستہ رہنا سنت نبویؐ اور انصاف پسند نفوس کی ایک بہترین صفت ہے،جس کا انسان کے اعمال اور اس کے موقف پر گہرا اثر پڑتا ہے۔نیک توقعات رکھنا نفس کی سالمیت اور بلند حوصلوں کو پروان چڑھا کر انسان کو کام کرنے کی ترغیب دلاتا ہے اور یہ پاک بصیرت اور صاف و شفاف دل کے مالک کی تعبیر ہے ۔
نیک توقع رکھنا خود کو راہ راست پر گامزن رکھنے کا نام ہے جس کی نبی کریم ﷺ نے تاکید فرمائی ہے۔ اسی طرح یہ نیک طینت اور قابل ستائش صفت کا نام ہے، جس سے اللہ تعالیً نے اپنے نبیوں اور اپنے رسولوں کو نوازا تھا،کیونکہ نبی اکرم ﷺ خواہ مقیم ہوں یا مسافر، حالت جنگ میں ہوں یا امن میں ، حالت شکم سیری میں ہوں یا بھوک و پیاس میں ہر حال میں پر امید رہتے تھے۔ پر امید ہونا اور نیک توقعات رکھنا ہی انسان کوعزت و شرافت سے ہم کنار کرتاہے اور اس کو زمین سے اٹھا کر آسمان کی بلندیوں تک پہچانے میں اہم رول ادا کرتا ہے۔ اندھیرا جب اپنے عروج پر ہوتا ہے تب یہ روشنی کی شکل دھار لیتا ہے اور بحرانوں کی شدت کے وقت مشکلات سے نکلنے کا راستہ بن جاتا ہے اسی طرح تکلیف کے وقت سانس لینے کا ذریعہ اور شدید ترین مشکلات کا حل بن کر سامنے آتا ہے ۔ انسان جب نیک توقعات کا حامل ہوگا اور زمین و آسمان کے رب سے اپنے تعلق کو استوار کرے گا تو اللہ تعالی اس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ بنادے گا اور ہر قید و بندش اور تکلیف سے آزاد کردے گا ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سنگین حالات میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے دلوں میں نیک توقعات اور اللہ پر یقین مضبوط کرنے کا تخم بوتے تھے اور ان کے دلوں میں یہ بات بٹھاتے تھے کہ مصیبتیں بارش کے بادلوں کی طرح چھٹنے والی ہیں اور اللہ کے فضل و کرم سے ان کو خاتمہ کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
انسان کونیک توقعات سے وابستہ رہنے اور اپنے روشن مستقبل کی تصویر کشی کرنے کا حق ہے ۔پرامید ی بلند عزم کے حاملین کی ایک شاندار صفت ہے اور جو پر امید ہوتا ہے وہ دوسروں پر خرچ کرنے کی حکمت کو بھانپ لیتا ہے اور یہ حکمت اس کو دنیا و آخرت میں سعادت و مسرت کا تاج پہناتی ہے ۔
بدشگون انسان نیک توقعات سے عاری ہوتا ہے اورمایوسی اور شکست خوردگی کی حالت میں خود کو ہلاکت کے سپرد کردیتا ہے۔ وہ ماضی میں لاحق تکلیف کی وادیوں میں قید ہوکر رہ جاتا ہے اور منفی افکار کے گھیرے میں رہ کر زندگی بسر کرتا ہے ، اس کے پاس اپنے منفی خیالات کے شکنجے سے نکلنے کے لیے کوئی چارۂ کار نہیں ہوتا ۔
مصائب و آلام ہماری زندگی کا ایک ناگزیر حصہ ہیں جو کھرے اور کھوٹے کی پرکھ کے لیے ہمیں لاحق ہوتی ہیں۔ اپنے بندوں کو آزمانا اللہ کی سنت رہی ہے ۔ انسانوں کی ایمانی قوت کے مطابق مصائب و آلام کے درجے مختلف ہوتے ہیں۔ایک ان کو آہ و فغاں کرکے قبول کرتا ہے تو دوسرا رضائے الہی سمجھ کر صبر کے ساتھ ان کا استقبال کرتا ہے ۔
نیک توقعات رکھناایمان کی علامت ہے اور بد شگونی شیطان کی طرف سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نیک توقعات کی تعلیم دی اور تربیت کے ساتھ تاکید فرمائی ہے۔ کئی احادیث سے اس کی نشاندہی ہوتی ہے ۔ ایک حدیث میں وارد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’اگر قیامت قریب ہو اور تم میں سے کسی کے پاس کھجور کا پودا ہو اور وہ اس کو لگانے کی استطاعت نہ رکھتا ہو پھر بھی اس کو پودا لگانے کی کوشش کرنی چاہئے۔‘‘کیونکہ درخت کئی مہینوں اور سالوں میں پھل دینے کے کے قابل ہوتا ہے۔ درخت لگانے والا اس بات کی ضمانت نہیں لیتا کہ وہ اس سے ضرور فائدہ اٹھائے گا لیکن ہاں ! آنے والوں کے لیے وہ درخت ضرور نفع بخش ثابت ہوگا ۔
ہم کو چاہیے کہ ہر وقت بھلی توقعات سے وابستہ رہیں؛خواہ مصائب و آلام کا پہاڑ ٹوٹے یا غموں کا بوجھ ہی کیوں نہ آن پڑے۔ ہمیشہ اپنی زندگی کو صحیح رخ پر لے جانے کی کوشش کرنی چاہیے اور نا امیدی، خوف و ہراس اور احساس کمتری سے نکل کر راہ راست پر چلنا چاہیے ۔اگر ایسا ہوا تو لازمی طور پر نیک توقعات ہمیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جائیں گی اور نامساعد حالات سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ دیں گی۔ جب انسان مثبت فکر کے ساتھ آگے بڑھے اور روشنیوں کو حرزِ جاں بنا لے تو یاد رکھیے کام یابی ہماری منتظر ہے۔
جو شخص اللہ تعالی کے فیصلہ پر رضا مندی کا ثبوت پیش کرتا ہے تو اللہ اس سے راضی ہوجاتا ہے اور جو ناگواری و ناراضگی کا اظہار کرتا ہے تو اللہ تعالٰی بھی اسے اپنے غضب کا نشانہ بناتا ہے ۔ ماضی کی لغزشوں سے سیکھ کر مسقبل کا سدھار کریں ۔ اس کے لیے توبہ کا سہارا لیں کیونکہ توبہ خود کے محاسبہ کی کیفیت کا نام ہے اور امید کا ایک دروازہ ہے کیونکہ توبہ ہی ہے جو ماضی میں ہوئی لغزشوں کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیتی ہے اس لیے کہ توبہ نیک توقعات کا ذریعہ ہے ۔
انسان کو مصیبتوں سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور یقین کی رسی سے خود کو باندھ لینا چاہیے کیونکہ اللہ تعالٰی ماضی میں کیے گیے گناہ کو توبہ کے بعد بخشنے والا ہے ، سورج کے جانے پر آنسوں نہیں بہائے جاتے کیونکہ آنسوں افق میں ٹمٹماتے ستاروں کی روشنی کو چھپا دیتے ہیں ۔ll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں