بچوں کی پرورش او ران کی مناسب تربیت والدین کے لیے نہایت صبر آزما کام ہے۔ بچے ذہین، نرم خو، ایمان دار اور بااخلاق ہوں تو اس کا سہرا والدین کے سر بندھتا ہے۔ وہ خطاکار، بداخلاق اور نالائق ہوں تو اس کا ذمہ دار بھی والدین ہی کو ٹھیرایا جاتا ہے۔ کسی بھی خاندان میں والدین اور بچوں کے درمیان تعلق کو نہایت اہمیت دی جاتی ہے کیوں کہ یہی تعلق ۔۔۔۔ اچھا ہو یا برا ۔۔۔۔۔ بچے کی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔
جوان بچوں کو خود اعتماد، ہمدرد اور خود انحصار بنانے میں والدین اہم کردار ادا کرتے ہیں، اور ان کی تربیت کے معاملے میں والدین کی محبت اور شفقت کو ماہرین نفسیات بہت اہمیت دیتے ہیں۔
تمام والدین اپنے بچوں کے بارے میں ایک تصور قائم کرلیتے ہیں کہ بچوں کو کیسا ہونا چاہیے، جب وہ بڑے ہوں گے تو ان کو کیسی تعلیم دی جائے اور ان کے اخلاق و کردار کیسے ہوں۔ والدین اپنا مقصد سامنے رکھ کر بچوں پر طرح طرح کے طریقے آزماتے ہیں۔ وہ بچوں کو ڈانٹتے اور سزائیں دیتے ہیں، خود کو مثالی کردار بنا کر پیش کرتے ہیں اور اپنی امیدوں اور عقائد کو بیان کرتے ہیں اور اس سلسلے میں عزیزوں، دوستوں، ہمسایوں کی مدد حاصل کرتے ہیں کہ وہ ان کے اقدار و مقاصد کی تائید کریں۔
ذیل میں والدین کی چند اقسام بیان کی جا رہی ہیں۔ آپ دیکھیں کہ آپ کا شمار کس قسم کے والدین میں ہوتا ہے۔
تحکم پسند والدین
ایسے والدین اپنے اصولوں کی وجہ بیان کرنے کا تکلف نہیں کرتے۔ وہ بچوں سے توقع رکھتے ہیں کہ بچے ان کی باتیں بلا چون و چرا مان لیں اور سوال نہ کریں۔ ایسے والدین تفصیلات میں جانے اور بحث کرنے سے گریز کرتے ہیں کیوں کہ ان کے نزدیک بچوں کو نقصان بتانا یا ان سے بحث ومباحثہ کرنا ان کے رعب اور دبدبے کو کم کردے گا۔ ایک غلطی ان والدین سے یہ ہوتی ہے کہ وہ اختلاف کو دباتو سکتے ہیں لیکن اسے ختم نہیں کرسکتے۔ اس طرح وہ بچے میں کڑوے احساسات کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ایسے والدین کے بچے میں خود انحصاری کا فقدان ہوتا ہے اور وہ خود سوچنے اور اس پر عمل کرنے پرکم دھیان دیتا ہے، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے اپنے خیالات کو آزمانے کا مناسب موقع نہیں دیا جاتا اور انفرادی ذمہ داری سے دور رکھا جاتا ہے، کیوں کہ اس کے خیالات اور مشورے کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی۔ اسے ویسا ہی کرنا ہے جیسا اس کے والدین نے حکم دیا ہے۔ اس طرح بچوں میں خود اعتمادی پیدا ہی نہیں ہوسکتی اور وہ ساری عمر سہارے کی تلاش میں رہتے ہیں، خود فیصلے نہیں کرپاتے اور نقصان اٹھاتے ہیں۔
یہ والدین اپنی قوت اور زبردستی نافذ کیے ہوئے نظم و ضبط پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کے ساتھ درشتی اور سرد مہری سے پیش آتے ہیں اور بچوں کی دست گیری میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں ہوتا۔ ایسے والدین کو انتہائی حاکمانہ کہا گیا ہے کیوں کہ بچوں پر ان کی گرفت مضبوط اور طاقت کا استعمال زیادہ ہے۔ اور بچوں کی اس بات پر قطعی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی کہ وہ والدین پر ناراضی یا رائے زنی کرسکیں، حالاں کہ اگر بچوں کو اس بات کا موقع دیا جائے توان کی شخصیت میں نکھا رآجاتا ہے۔
جمہوریت پسند والدین
یہ والدین بچوں سے گھلے ملے ہوتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ بچوں سے خود اعتمادی اور نظم و ضبط کی توقع رکھتے ہیں۔ اگرچہ یہ والدین بچوں کے مشوروں کو ٹھیک جانتے ہیں، مگر ا س کے باوجود اپنی جگہ قائم رہتے ہیں اور ان کی رہ نمائی کرتے ہوئے اپنے دلائل پیش کرتے ہیں اور بچوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس پر عمل کریں۔ ایسے والدین کی بچوں پر گرفت بھی ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ بچوں کی صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔ ان والدین کے بچے سمجھ دار اور مستعد ہوتے ہیں کیوں کہ انہیں والدین کی رہ نمائی اور شفقت حاصل ہوتی ہے، لیکن غلط بات اور غلط کام پر سرزنش پر وہ مضطرب نہیں ہوتے۔ ایسے والدین کو عموماً پسند کیا جاتا ہے کیوں کہ وہ بچے کی بھلائی کو مدنظر رکھتے ہیں۔ جب بچے کو کسی کام سے منع کرتے ہیں تو اس کی وجہ بھی بیان کرتے ہیں۔
قنوطیت پسند والدین
تیسری قسم ایسے والدین کی ہے جن کے بچے بہت ہی ناسمجھ ہوتے ہیں۔ ایسے والدین کا بچوں پر کوئی کنٹرول نہیں ہوتا۔ نہ ہی وہ بچوں سے کسی قسم کی امیدیں وابستہ کرتے ہیں۔ وہ گھر کے امور سنبھالنے میں بھی عدم دلچسپی کا اظہا رکرتے ہیں۔ نظم و ضبط میں ڈھیلے اور بچوں کو شاباش دینے میں انتہائی کنجوس ثابت ہوتے ہیں۔ بچوں میں اچھی سوچ اور خود اعتمادی پیدا کرنے پر کم توجہ دیتے ہیں۔ بچوں کو بدتمیزی پر کم یا کبھی کبھار ٹوکتے ہیں۔ ایسے والدین بچوں پر پابندیاں عائد نہیں کرتے۔ بچے شور مچائیں، یہ توجہ نہیں دیتے اور نہ انہیں ایسے کسی کھیل یا اچھل کود سے منع کرتے ہیں، جس سے گھر کی اشیاء ٹوٹنے کا احتمال ہو۔ وہ گھر یا بچوں کی صفائی پر بھی دھیان نہیں دیتے، نہ ہی بچوں کو فرماں برداری کی ترغیب دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک گندا رہنا، بدتمیزی کرنا اور توڑ پھوڑ کرنا معمولی بات ہے۔ ان کی طرف سے بچوں کو کھلی اجازت ہے کہ وہ جس قسم کا چاہیں، کھیل کھیلیں یا گالی گلوچ کریں۔ ایسے ہی ایک والد سے سوال کیا گیا کہ وہ بچوں کو ٹوکتے ہیں یا نہیں؟ انہوں نے جواب دیا: ’’بچوں کو اس وقت ٹوکا جاتا ہے جب شور ناقابل برداشت ہو یا بچے آپس میں لڑیں، اور لڑائی یہاں تک پہنچ جائے کہ کسی کو سخت چوٹ لگنے کا اندیشہ ہو۔ میں بچوں کو مارتا نہیں، میرے نزدیک ان کی لڑائی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ اگر بچے لڑتے ہوئے چھری چاقو اٹھائیں تو میں درمیان میں آجاتا ہوں۔ انہیں روکتا ہوں۔ میں نے اکثر احساس دلائے بغیر انہیں چیک کیا ہے وہ اپنے مسائل خود ہی نپٹا لیتے ہیں۔‘‘
ایسے والدین بے حد سست ہوتے ہیں اور بچوں کو اپنے فیصلے خود کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ بچوں کی رہنمائی میں عدم دلچسپی، ان کی تربیت میں بے توجہی بچوں میں کتنے خطرناک اثرات مرتب کرتی ہے، اس سے وہ آگاہ ہوتے ہوئے بھی ڈھیلے پڑے رہتے ہیں۔
دشنام طراز والدین
بچوں کو گالیاں دینے والے اکثر والدین کا تعلق زیادہ تر نچلے طبقے سے ہوتا ہے، لیکن درمیانے طبقے والے بھی اس سے مبرا نہیں ہیں۔ ادھیڑ عمر ماؤں کی نسبت نوجوان مائیں بچوں کو زیادہ برا بھلا کہتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کو پیٹتے یا زخمی کیوں کرتے ہیں؟ جب والدین یہ خیال کرلیں کہ گھر میں نظم و ضبط کو قائم رکھنے کے لیے بچوں کو زخمی کرنا قابل قبول ہے تو ان کے لیے بچوں کے ساتھ غلط برتاؤ کی حد کو پار کرنا قدرے آسان ہو جاتا ہے۔
ان گھروں میں جہاں بچوں کو مارا پیٹا جاتا ہے، وہاں میاں بیوی کے درمیان جھگڑا عام ہے۔ اپنے ساتھی کا غصہ معصوم بچے پر اتارا جاتا ہے۔ مزید برآں اس گھر کے بچے بھی آپس میں اکثر لڑائی جھگڑے اور تشدد میں مشغول رہتے ہیں۔ ایسے والدین خود بھی معاشرے سے کٹ جاتے ہیں اور بچوں کو بھی دوسروں سے میل جول بڑھانے سے روک دیتے ہیں اور انہیںگھر تک محدود کردیتے ہیں۔ معاشرے سے دوری اور غربت اس قسم کے والدین کو خاندان، دوست احباب اور معاشرتی ذرائع سے دور رہنے پر مجبور کرتی ہے۔
والدین پر ذہنی دباؤ معاشرتی وجوہ مثلاً کم آمدنی یا بے روزگاری سے بھی ہوسکتا ہے اور یہی ذہنی دباؤ بچوں سے برا سلوک کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اکثر گھرانوں میں تمام بچوں میں سے کسی ایک بچے پر کچھ زیادہ ہی تشدد کیا جاتا ہے۔ ایسے بچے جو زیادہ اچھل کود مچاتے ہوں یا زیادہ بدتمیز ہوں، وہ والدین کے تشدد کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ والدین کے لیے پریشانی کا باعث ہوتے ہیں۔
جو بچے گھر میں والدین کی گالیوں کا شکار رہتے ہیں، انہیں کسی پر بھی اعتبار نہیں رہتا اور کسی سے جذباتی تعلقات قائم کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اگرچہ وہ محبت اور توجہ کے شدید طالب ہوتے ہیں۔ جب وہ کسی سے معاشرتی تعلق قائم کرتے ہیں تو وہ ذرا سی ناامیدی پر بے اعتمادی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ وہ والدین کی اس خراب عادت کو قبول کرلیتے ہیں، تب بھی وہ ان کی عدم توجہی پر ان سے شدید نفرت کرنے لگتے ہیں۔ گھر سے بھاگے ہوئے بچوں کے پیچھے ایسے ہی والدین کا رویہ کار فرما ہوتا ہے۔
والدین کی ان بڑی اقسام کے علاوہ چند اور چھوٹی اقسام ہیں۔ ان میں اول وہ والدین ہیں جو بچوں سے محبت کا اظہار مختلف ذرائع سے کرتے ہیں اور اس کا انحصار خود والدین کی اپنی شخصیت پر ہوتا ہے۔ ایسے والدین سمجھتے ہیں کہ ان کے بچوں میں بہت ہی مثبت صلاحیتیں ہیں۔ وہ اپنے بچوں کے ساتھ رہنے میں لطف محسوس کرتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ وہ بچوں سے محبت کا اظہار انہیں گلے لگا کر یا چوم کر کریں بلکہ بچوں پر والہانہ نظر اور بھرپور فخریہ مسکراہٹ ہی ان کے لیے کافی ہے۔ جو والدین بچوں سے بہت پیار کرتے ہیں وہ بچوں کے ساتھ رہنا بھی پسند کرتے ہیں اور ان کی اچھی عادت کی تعریف بھی کرتے ہیں۔
دوسری قسم والدین کی وہ ہے جو تحکم پسند والدین سے قدرے مشترک ہے، سوائے اس کے کہ ان کو ان کے بچوں پر کنٹرول کی حیثیت سے نہیںدیکھا جاسکتا کیوں کہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان کا بچوں پر کنٹرول ہے، لیکن وہ اس کو کم ہی ظاہر کرتے ہیں۔ ان کے بچے والدین کے دباؤ کے بغیر ہی جیسا والدین چاہتے ہیں ویسا کرتے ہیں۔ ایسے گھرانوں کی لڑکیوں کو بھی فکر و سوچ کی آزادی دی جاتی ہے۔
تحکم پسند والدین اور جمہوریت پسند والدین دونوں ہی بچوں پر کنٹرول کے حق میں ہیں۔ لیکن ان کے طریقہ کار قطعی مختلف ہیں۔ پہلی قسم کے والدین فرماں برداری کی توقع رکھتے ہیں، وہ بھی اپنے سخت رویے کے جواب میں۔ جب کہ دوسری قسم کے والدین بچوں کے نقطہ نظر کو سامنے رکھتے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ بھی اپنے مشورے پیش کرسکتے ہیں۔ بچے والدین کے قائم کردہ اصولوں پر سوال اٹھاسکتے ہیں اور خاندان کے آپس کے تعلقات پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک نفسیات دان نے نہایت دلچسپ بات کہی ہے کہ جمہوریت پسند والدین کے بچے اول قسم کے بچوں کی نسبت اپنے والدین پر کنٹرول حاصل کرلیتے ہیں۔ جمہوریت پسند والدین کو دوسری اقسام کے والدین کی نسبت اپنے بچوں کی تربیت پر اعتماد ہوتا ہے۔
اکثر گھرانوں میں والد کا رویہ بچوں سے سخت اور والدہ کا رویہ نرم ہوتا ہے۔ اگر والدہ کا رویہ سخت ہو تو والد نرم ہوتا ہے۔ اگر دونوں ہی سخت یا دونوں ہی لاپرا ہوں تو ان کے بچوں کو کارآمد شہری بنانے میں یقینا کسی تیسرے فرد کا ہاتھ ہوتا ہے۔lll