جوس لو جوس!ٹھنڈا ٹھار جوس۔۔۔ بھائی صاحب جوس لے لو!مسجدسے نکلتے ہی میرے کانوں سے یہ آوازٹکرائی تومیں نے دیکھاایک آدمی جوکہ ضعیف العمرہونے کے ساتھ ساتھ ایک ہاتھ سے بھی محروم تھا،سائیکل پربیٹھااپنے قریب سے گزرتے ایک آدمی سے مخاطب تھا،مگراس شخص نے جب باباجی کی بات کی طرف بالکل بھی توجہ نہ کی تواس معذورکے لہجے میں اب لجاجت آگئی۔
بھائی صاحب میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ خود معذور اور بوڑھا ہوں مگرپھربھی حق حلال کی کمانے کی کوشش کرتاہوں کسی سے بھیک نہیں مانگتا۔ صاحب صرف ایک ڈبہ جوس کاخریدلومیراتعاون ہوجائے گا۔ اتنے میں میں بھی قریب پہنچ چکاتھا۔ میں یہ دیکھ کرحیران رہ گیاکہ جوس بیچنے والے کی التجاؤں کااس آدمی پرکوئی اثرہی نہ ہوااوروہ سرجھٹک کرایک سمت چل دیااورجوس بیچنے والے کی آنکھوں کے جلتے دیپ مایوسی سے بجھ گئے۔ اس کی آنکھوں کی مایوسی دیکھ کرمجھے اس شخص پر غصہ آیا۔ کیا حرج تھااگروہ ایک جوس کاڈبہ خریدلیتا۔ وہ کوئی اس سے بھیک تھوڑی نہ مانگ رہاتھا۔
اتنے میں جوس بیچنے والے کی نظرمجھ پرپڑی توایک آس سے اس نے پکارا!جوس بھئی جوس،ٹھنڈے ٹھار دل بہار جوس،بھائی صاحب جوس لیں بہت ہی ٹھنڈا ہے، آپ کادل خوش ہوجائے گا۔میں توپہلے ہی لینے کا ارادہ کرچکاتھالہذامیں نے اس کوجوس کا ایک ڈبہ دینے کو کہا۔ اس نے جلدی سے لکڑی کے بنے ایک ڈبے میں سے جوس کاایک ڈبہ نکالا،جس میں اس نے جوس کے ڈبے ٹھنڈے کرنے کیلئے برف اورپانی ڈال رکھا تھا۔ جوس کاڈبہ اس نے مجھے تھمادیا۔
’’کتنے پیسے باباجی۔۔۔؟‘‘میں نے حقارت بھری نظروں سے اس آدمی کی طرف دیکھ کرذرااونچی آواز میں کہاجوقریب ہی کھڑاتھاتاکہ اس کوشرمندگی توہو۔ شایدوہ بھی میری طرح مسافرتھاکیونکہ یہ واقعہ میرے ساتھ ایک سفرمیں پیش آیا۔اس کی نظریں میری نظروں سے چارہوئیں میری آنکھوں میں اپنے لئے حقارت دیکھ کراس نے شرمندگی سے نظریں جھکالیں۔
دس روپے بیٹاصرف دس روپے۔۔۔!‘‘باباجی نے مجھے جوس کے ڈبے کے پیسے بتائے تومیں چونک گیا۔ میں نے پچاس کانوٹ نکال کرباباجی کوتھمایا۔باباجی نے گیلے ہاتھوں سے بقایاپیسے مجھے دیے۔میں نے وہ پیسے پکڑ کر جیب میں ڈال لئے اوروہیں قریب پڑے بینچ پر میں بیٹھ گیا،کیونکہ گاڑی کی روانگی میں ابھی پندرہ منٹ باقی تھے۔جوس پینے کے ساتھ ساتھ میں وقتافوقتااس جوس نہ خریدنے والے کی طرف دیکھنابھی اپنافرض سمجھتا رہا کہ اس کواتنابھی احساس نہیں ہواکہ ایک معذورکی مدد ہی کردے۔شکل سے دیکھوکیساپارسالگ رہاہے بہرحال میں جی بھرکراس سے بدگمان ہوااوردل ہی دل میں اس کوخوب سنائیں۔
میں جوس پی کر فارغ ہی ہواتھاکہ ایک میرے قریب لگی پٹرول کی مشین کے پاس ایک پجارو آکررکی۔اس میں تین جوان بیٹھے ہوئے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ کسی امیرگھرانے کے چشم وچراغ تھے جویوں بے فکری سے قہقہے لگارہے تھے۔جلدی سے پٹرول پمپ پر موجود ملازم گاڑی کے قریب آیااوراس میں پٹرول ڈالنے لگا۔پجاروکودیکھ کروہ جوس والے باباجی بھی اپنی سائیکل کو گھسیٹتے ہوئے پجاروکے قریب آگئے اور اشارے سے جوس کاکہنے لگے کیونکہ پجاروکے شیشے بند تھے آوازلگانابے کارتھی۔گاڑی میں موجودنوجوانوں نے بابا جی کی طرف مڑکربھی نہ دیکھا۔یہ سارامنظرمیں چونکہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہاتھا۔پجارووالوں کی بے اعتنائی دیکھ کرمجھے شدیدغصہ آیادل میں آیاکہ جاکران کوشرم دلواؤں کہ ایک معذورآدمی ہے، ایک دوجوس کے ڈبے خریدلینے سے ان کوفرق نہیں پڑے گا،مگراس غریب کا اچھاتعاون ہوجائے گا۔جتنی بڑی گاڑی ہوتی ہے اتنے ہی کنجوس ہوتے ہیں۔بخیل کہیں کے۔ دل ہی دل میں ان پجارووالوں کوکھری کھری سنانے لگاکہ زبان سے کھری کھری سنانامہنگاپڑسکتاتھا۔
میں ابھی یہ سوچ ہی رہاتھااورپیچ تاب کھارہاتھاکہ پجارو کا شیشہ نیچے سرکاتومیں اس طرف متوجہ ہوگیا۔ پجارومیں سے ایک نوجوان نے سرباہرنکالا۔باباجی تین ڈبے جوس کے دے دیں۔باباجی نے بجلی کی سرعت سے ٹھنڈے ٹھارڈبے نکالے اوران کوکپڑے سے صاف کرکے اس نوجوان کوپکڑادیے۔کیونکہ ان ڈبوں سے پانی ٹپک رہاتھا۔نوجوان نے تینوں ڈبے پکڑلیے اور ایک نوٹ باباجی کی طرف بڑھادیا۔مگرباباجی نے انکارمیں سرہلایا۔میں حیران ہواکہ باباجی پیسے کیوں نہیں لے رہے؟کہیں ایساتونہیں کہ گاڑی والے پیسے کم دے رہے ہوں۔مگرجب میں نے غورکیاتوگاڑی والے کے ہاتھ میں ہزارکانوٹ چمک رہا تھا۔ اور باباجی کہہ رہے تھے کہ بیٹامیرے پاس چینج نہیں ہے۔ غریب آدمی ہوں۔نوجوان کے چہرے پرایک پر اسرار مسکراہٹ ابھرآئی۔مجھے لگاکہ وہ جان بوجھ کرباباجی کو پریشان کرنے کے لئے ہزارکانوٹ دے رہا ہے۔ مگر اگلالمحہ میرے لیے شدیدحیرت کاتھاجب نوجوان نے کہا ’’باباجی میں کب آپ سے بقایامانگ رہاہوں۔’’ باقی آپ رکھ لیں ،ہماری طرف سے ہدیہ ہیں۔’’باباجی نہ نہ کرتے رہ گئے۔مگراس نوجوان نے ڈرائیورکواشارہ کیا اس نے گاڑی آگے بڑھادی اورباباجی کاوہ ہاتھ اٹھا کا اٹھارہ گیاجس میں ہزارکونوٹ دباہواتھااورباباجی کی آنکھوں سے تشکرکے آنسوچھلک پڑے۔
ادھرمیری یہ حالت تھی کہ کاٹوتوبدن میں لہونہیں، مجھے اب اپنے آپ سے گھن آنے لگی کہ میں جوسوچ رہا تھاکہ میں نے ایک ڈبہ خریدباباجی پر احسان کیا ہے۔میں نے بہت بڑی سخاوت کی ہے۔ مجھے ایسے لگاکہ میری جیب میں موجودبقایا روپے جو باباجی نے پچاس میں سے واپس دیے تھے،میرے ضمیر پر کچو کے لگارہے ہیں کہ تم بقایالے کربھی اپنے آپ کوسخیوں کی صف میں شامل کررہے ہو اور جنہوں نے ہزار کا بقایا نہیں لیاان کوکیانام دوگے؟یہ سوچ آتے ہی میرے سر شرمندگی سے جھکتا چلا گیا اور میں اپنے کیے اورسوچ پرتوبہ واستغفارکرنے
لگا۔lll