ارینہ نے اپنے من میں جلتی لالٹین کی لونیچی کی۔ درد بڑھتا جا رہا تھا۔ ماضی کے سفر کی صعوبت سے وہ ہانپ گئی تھی۔ ابھی کل ہی کی تو بات ہے، جب ارتات احمد نے اس کا گھونگھٹ الٹا تھا، تو اس کا کہنا تھا کہ تمہارے حسن نے میری آنکھیں خیرہ کردی ہیں۔ گھونگھٹ الٹتے ہی اسے سکتہ ہوگیا تھا اور وہ ساری باتیں بھول سا گیا تھا۔ شب عروسی میں اس کے پاس کہنے کے لیے بہت کچھ تھا، لیکن اس کے حسن کے سامنے جیسے اس کی زبان پر تالے سے پڑ گئے گئے۔ وہ ایک ٹک اسے دیکھتا رہا، ان دونوں کے درمیان بس خامشی زبان تھی۔ وہ اپنی قسمت پرجتنا بھی ناز کرتا، کم تھا۔ اس کی شریک سفر اعلیٰ تعلیم یافتہ تھی۔ آخری ڈگری اس نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے لی تھی۔ سسرال میں اسے سر آنکھوں پر بٹھایا گیا۔
گھر میں پہلے ہی کام کرنے والے ملازمین کی کون سی کمی تھی کہ اسے ارتات احمد نے مغلیہ عہد کی شہزادیوں کی طرح کئی کنیزیں بھی رکھ دیں۔ وہ کئی بار سوچتی، کیا یہ میرے ظاہری حسن کی پزیرائی ہے؟ ارتات احمد نے میرے اندر تو جھانکا ہوتا۔ وہ میری سیرت کی پزیرائی کرتا، تو مجھے اس سے کہیں زیادہ خوشی ہوتی۔ اس گھر میں دولت کی ریل پیل تھی۔ اس گھرانے کے خیالات بڑی حد تک باغیانہ تھے۔ ان کے ہاں دولت ہی ہر مسئلے کا حل تھی، جب کہ اسی گھر میں اس کی ایک اپاہج نند بھی تھی۔ پانی کی طرح پیسا بہایا گیا، لیکن اس کی معذوری برقرار رہی۔
ارینہ ایک آئیڈیل زندگی گزار رہی تھی۔ اس نے اپنے اخلاق سے سب کے دل جیت لیے تھے۔ بس، اسے ایک گلہ تھا، مگر اس کی بھی اس نے کبھی شکایت نہیں کی تھی، حالاں کہ اسے یہ شکایت کرنی چاہیے تھی کہ اس کا خاوند کاروباری معاملات کے سبب جب رات گئے گھر لوٹتا، تو وہ اس کے انتظار میں اندر سے ٹوٹ پھوٹ چکی ہوتی تھی۔ انتظار اس کے باطنی وجود کی چولیں ہلاکر رکھ دیتا، لیکن زندگی کے آرام کا سوچ کر وہ چپ ہو رہتی۔ اسی پیار کی بدولت تو وہ اپنی اکلوتی اپاہج نند کے بھی آرام اور علاج کا پورا خیال رکھتی۔ نند اس کی دوست تھی، ساتھی اور غم گسار بھی۔ ارتات کے آنے پر وہ اسے مسکرا کر کہتی، ’’لو، بھابھی! ہمارے حصے کا وقت ختم ہوگیا۔‘‘
ایک دن اچانک زلزلہ آگیا، تو اپنی جان بچانے کے خوف سے اکیلے بھاگنے کی بجائے وہ نند کی کرسی بھی ساتھ گھسیٹ لائی، لیکن اسی رات اس کے من میں آنے والے زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر بہت زیادہ تھی۔ اس کے اندر کی عمارت زمین بوس تو نہیں ہوئی، لیکن دڑاروں نے عمارت کو کافی کم زور کردیا۔ اس کے خاوند نے غیر متوقع طور پر اس کے اعتماد کی چادر کا کونا پکڑ کر یوں کھینچا کہ وہ لرز کے رہ گئی۔ ’’ایک خیال مجھے پریشان کرتا رہتا ہے۔‘‘
’’خیریت ہے، کیسا خیال؟‘‘
’’تم ناراض ہوجاؤگی۔‘‘
’’میں اور آپ سے ناراض؟ اگر خواب میں بھی آپ نے یہ منظر دیکھا، تو معاف نہیں کروں گی۔‘‘
’’میرے ساتھ ایک مسئلہ ہوگیا ہے۔‘‘
’’اولاد نہ ہونے کی وجہ سے تو آپ پریشان نہیں؟‘‘
’’نہیں یہ بات نہیں۔‘‘
’’بات یہی ہوگی۔ رپورٹ آجانے سے آپ پریشان ہیں، تو کھل کر کہیں۔ اگر میں اولاد پیدا نہیں کرسکتی، تو پروین شاکر کی طرح کمال ضبط کو آزما کر آپ کی دلہن اپنے ہاتھوں سے سجاؤںگی۔ اگر آپ کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے، تو میں ساری عمر آپ پر آنچ نہیں آنے دوں گی۔‘‘
’’تم بات کو کہاں سے کہاں لے گئی ہو۔‘‘
’’تو پھر مسئلہ کیا ہے؟‘‘
’’میرے اندر زہر پھیل گیا ہے۔‘‘ وہ یوں تڑپی جیسے اسے کسی صحرائی بچھو نے ڈنک مارا ہو۔
’’کھل کر بات کریں۔‘‘ وہ پلنگ پر بیٹھی تھی اور اس کی زلفیں پریشان تھیں۔
’’میرے اندر شک کا زہر پھیل گیا ہے۔‘‘
’’میں آپ کی ان الجھی باتوں کو سمجھ نہیں پا رہی۔ آپ کہہ کیا رہے ہیں؟‘‘
’’ہاں! لیکن میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تمہارے کردار پر شک کرنے کی بجائے تمہارے ساتھ کھل کر بات کرلی جائے۔ اگر تم جھوٹ نہیں بولوگی، تو بات یہیں دفن ہوجائے گی۔‘‘ وہ ہولے ہولے کانپ رہی تھی، خزاں رسیدہ پتے کی طرح۔ اُس کا تن من اجلا تھا، بے داغ۔ کہیں کوئی خراش نہیں تھی۔ پھر بھی جانے اس کے مجازی خدا نے اس پر کیوں شک کیا تھا۔ اس نے اپنے وجود کے ریزے جمع کر کے، حواس کو مجتمع کیا، کیوں کہ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوچکی تھی۔ انسان کے وجود کے ٹکڑے بکھر جائیں، تو انہیں سمیٹنا مشکل ہوتا ہے۔ جانے شک کی چنگاری اس کے مجازی خدا کے من میں کہاں سے آگری تھی۔ غصے اور جذبات کی رو میں بہنے کا وقت نہیں تھا۔ اس نے پورے اعتماد سے سوال کیا۔ ’’میں شک کی وجہ جان سکتی ہوں؟‘‘
’’تمہارے بے پناہ حسن نے مجھے اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے۔‘‘
’’اس میں میرا کوئی قصور نہیں نکلتا۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’میں نے اپنے آپ کو تخلیق نہیں کیا۔ یہ تخلیق کار کی عنایت ہے۔‘‘
’’ایک بات کہوں؟‘‘
’’کہیے…‘‘
’’اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں تمہارا کوئی دوست بھی رہا ہے؟‘‘
’’دوست سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘‘اس کا اعتماد بحال ہو رہا تھا۔
’’کوئی ایسا شخص جس نے تمہیں پسند کیا ہو؟‘‘ پسند کرنے والے تو ہزاروں تھے۔ میں ہزاروں کی پسند سہی، لیکن میں نے کسی کو پسند نہیں کیا۔ میری زندگی میں آپ پہلے مرد ہیں۔‘‘
’’میں کیسے یقین کرلوں؟‘‘
’’بے یقین زندگی آپ کو ذہنی عذاب میں مبتلا کردے گی، میں آپ کی ہوں۔ مجھ پر یقین کیجیے۔ یہ یقین اسٹامپ پیپر پر لکھ کر نہیں دیا جاسکتا۔ دل کے اسٹامپ پیپر کسی عدالت سے نہیں ملتے۔ میں اپنی عدالت میں بے گناہ ہوں۔ آپ اپنی عدالت سے فیصلہ لیں۔ مشکلات کی ہوا چل پڑی تو یقین کے خیمے اُکھڑنے سے ہم عمر بھر کے لیے بے سائبان ہوجائیں گے۔‘‘ اس کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔ وہ بے یقینی کی پگڈنڈی پر ننگے پاؤں بھاگ رہا تھا۔ اس کی من کی سلگن اس کے لیے سوہانِ روح بن چکی تھی۔
گھر میں سرد مہری کے کاکروچ نکل آئے تھے اور ان کا سد باب کرنے والا بھی کوئی نہیں تھا۔ ارینہ کے اندر بھی ایک روز انتقام کے ناگ نے پھن پھیلایا، لیکن اس نے قوتِ ارادی کے منتر سے اسے رام کرلیا۔ معلوم تھا کہ اگر یہ ناگ پھن پھیلائے، اپنا کام کر گیا، تو پھر کچھ بھی باقی نہیں بچے گا۔ سو وہ خود مسمار ہوتی چلی گئی۔ اسے اپنے آپ کو تعمیر کرنا تھا، لیکن اس کی ہمت جواب دے رہی تھی۔ اس نے تمام حربے آزما ڈالے۔ اس کی روح اس کے جسم سے نکل چکی تھی۔ وہ بس ایک ڈھانچا تھی، ایک پنجر… اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا وہ سانس کیسے لے رہی ہے۔ وہ اپنے شریک سفر کے تعمیر شدہ شک کے کنویں سے نکلنے کی سعی کرتی رہی۔ وہ کنارے تک پہنچتی لیکن خاوند کی کائی زدہ گفتگو اسے پھر پھسلا کر پاتال میں دھکیل دیتی۔ اسی کوشش میں ایک دن ایک خیال اس کے اندر کوندے کی طرح چمکا۔ وہ چونکی اور یوں مسکرائی، جیسے اچانک اندھیرے میں کوئی جگنو چمکے۔ اسے زندہ رہنے کو کنارا ہاتھ آگیا۔ وہ خوشی سے چیخناچاہتی تھی، لیکن اس ڈر سے کہ اسے پاگل نہ سمجھ لیا جائے، ضبط کر گئی۔ اس نے کپڑے تبدیل کیے۔ ہلکا سا میک اپ کیا۔ کمرے میں ٹہلتی اور گنگناتی رہی۔ سارے منظر بدل گئے تھے۔ وہ اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی۔ جب اس نے نند کے سامنے کھانا لا رکھا، تو اس نے حیرت اسے اسے دیکھا۔
’’یہ تم ہو؟‘‘
’’ہاں، میں ہوں۔ اتنی حیران کیوں ہو رہی ہو۔‘‘
’’یہ تبدیلی کیسے؟‘‘
’’مجھے وہ مل گیا ہے۔‘‘
’’کون مل گیا ہے؟‘‘
’’جس کی تلاش میں صدیوں سے میری روح بھٹک رہی تھی۔‘‘
’’میرے بھائی کے علاوہ بھی کوئی ہے؟‘‘
’’ہاں ہے۔‘‘
’’عقل کے ناخن لو، تمہارا دماغ تو نہیں چل گیا؟‘‘
’’اگر تم راز دار رہنے کا وعدہ کرو، تو میں تم کو وہ راز بتا سکتی ہوں۔‘‘
اس کی آواز خوشی سے کانپ رہی تھی۔ عورت کے فطری جذبہ تجسس سے مجبورہوکر اس نے وعدہ کرلیا۔
’’میں نے اپنے اندر ایک تخیل تعمیر کرلیا ہے۔ ایک وجیہہ شخص کا تخیل۔ بالکل ایسے جیسے فرانسیسی ناول نگار پیرالوئی کے عظیم الشان ناول افرڈائیٹ کا مرکزی کردار۔ جب وہ مجھے دیکھتا ہے، تو میرے پورے وجود میں موسیقی کی لہریں اٹھتی ہیں۔ میرا پورا جسم موسیقی کے آلات میں بدل جاتا ہے، جب وہ میری زلفوں کے تار پر کوئی راگ چھیڑتا ہے، تو میں دنیا وما فیہا سے کٹ جاتی ہوں۔ میری آنکھوں کے بربط پر اس کا لمس راگ درباری میں بدل جاتا ہے۔ کبھی وہ میرے پاس بیٹھ جائے تو یوں لگتا ہے میں الن فقیر کا اکتارہ ہوں، جسے وہ بے خود ہوکر بجا رہا ہے۔ میں میں نہیں رہتی، تم ہو جاتی ہوں۔ میں اس کی آواز پر چونک اٹھتی ہوں۔ وہ میرے ساتھ رہتا ہے، میں اس کی دیو داسی ہوں۔‘‘
اس دن دوپہر کے کھانے پر اس کا خاوند آیا، تو وہ کھانے کی میز پر نہیں تھی۔
’’ارینہ کہاں ہے؟‘‘ اس کی طبیعت خراب ہے۔ بہن نے بتایا تو وہ بیڈ روم میں چلا گیا۔ وہ کمبل اوڑھے سو رہی تھی۔ اس نے اسے جگانا مناسب نہیں سمجھا۔ اگلی صبح وہ ناشتے پر بھی نہیں تھی۔ استفار پر اس نے ناسازی طبیعت کا بہانہ کیا۔ آنے والے دنوں میں اس نے محسوس کیا کہ ارینہ اس سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ حالاں کہ یہ خلیج اس کی اپنی پیداکردہ تھی۔ اس کی طبیعت میں جھلاہٹ آنے لگی۔
’’تم کس دنیا میں رہتی ہو؟‘‘
’’اپنی دنیا میں۔‘‘
’’کون سی دنیا ہے تمہاری؟‘‘
’’تمہیں اس سے کیا؟؟‘‘
’’تم ہر وقت بنی سنوری کیوں رہتی ہو؟‘‘
’’میری اپنی بھی کوئی زندگی ہے۔‘‘
’’تمہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ تم میری بیوی ہو۔‘‘
’’شاید…‘‘ وہ غصے میں پیر پٹختا باہر نکل گیا۔
ارینہ اس سے دور ہوتی چلی گئی۔ اسے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ ساحل پر کھڑا ہے اور سامنے سمندر میں اس کا مال بردار جہاز آہستہ آہستہ ڈوب رہا ہے۔ وہ اسے بچانا چاہتا تھا، لیکن سمندر پرشور تھا۔ اس نے ارینہ کو کسی ماہر نفسیات کو دکھانے کا فیصلہ کیا۔ ڈاکٹر سے اپوائنمنٹ لے کر جب وہ گھر پہنچا تو ارینہ کسی انگریزی ناول میں کھوئی ہوئی تھی۔ وہ کرسی گھسیٹ کر اس کے قریب بیٹھ گیا۔ شیشے کی میز پر رکھی چائے شاید ٹھنڈی ہوگئی تھی۔‘‘
’’ارینہ۔۔۔؟‘‘ گہری خاموشی تھی۔ اس نے دوبارہ پکارا۔
’’ارینہ ناول میں اتنا استغراق؟‘‘ اسے اس کی خاموشی سے الجھن ہونے لگی۔
’’ارینہ۔۔۔ ارینہ!‘‘ اس نے ناول بند کیا اور پوچھا:
’’یہ آپ کس کو پکار رہے ہیں؟‘‘
’’تمہیں…‘‘
’’لیکن معاف کیجیے میں تو ارینہ نہیں ہوں۔‘‘
’’آپ کون ہیں اور کس سے ملنا ہے آپ کو؟‘‘
’’ارینہ! یہ آپ کے لیے کوئی چائے رکھ گیا ہے۔ پی لیجیے۔‘‘ اس نے ارینہ کی آنکھوں میں جھانکا، تو آنکھوں میں رکھی اس کے حصے کی چائے کی پیالی تو جانے کب سے ٹھنڈی ہوچکی تھی۔lll