شور سے بھرے ہوئے شہر کے اس حصے میں جہاں مارکیٹ کا پرانا، انگریزوں کے زمانے کا بنا ہوا ٹاور بس میں آنے جانے والوں کو وقت بتاتا تھا اس ٹاور کے زیر سایہ اندرونی علاقے میں شور کے اثر سے اعصاب پل پل کو آرام کرتے محسوس ہوتے۔ اس بلند عمارت کے سائے میں پھیلی ہوئی دکانوں کے ایک جانب مرغیوں اور پرندوں کے ڈربے ایک ساتھ رکھے ہوئے تھے۔ یہاں آکر آدمی اس بے ہنگم چیخ پکار سے صرف اس حد تک چھٹکارا پاتا تھا کہ اس کی سماعت پرندوں کی آوازوں سے آشنا ہو جاتی تھی۔
میں کئی چڑی ماروں کی دکانوں سے ہوتا ہوا اس دکان تک آیا تھا وہیں میں نے اس آدمی کو د یکھا شاید وہ میرے آنے سے پہلے ہی سودا کر چکا تھا۔ اور ایک ایک چڑیا کو پنجرے کے ادھ کھلے دروازے سے نکال کر آزاد کر رہا تھا۔ اس کا ہاتھ پنجرے سے باہر نکل کر بلند ہوتا اور فضا میں ایک لمحے کو بھوری گیند سی اچھلتی اور مجھے شور خاموشی میں بدلتا ہوا محسوس ہوتا۔
بازار کی آدھی دکانیں مرغی والوں کی تھیں اور باقی دکانوں پر مختلف پنجروں میں لعل، پودے، بجری طوطے اور چڑیاں علیحدہ علیحدہ پنجروں میں بند تھے۔ میں کافی دیر سے لعلوں کا ایک جوڑا خریدنے کے لیے مختلف دکانیں جھانکتا ہوا اب اس دکان تک آیا تھا۔ زندگی کی اور چیزوں کی طرح لعل بھی بڑے مہنگے تھے۔ دکان داروں نے گراں قیمتوں کا سبب یہی بتایا تھا کہ لعل امریکہ اور یورپ بھیجے جاتے ہیں اسی وجہ سے مہنگے ہوگئے ہیں۔
اس دکان پر آکر بھی میں نے لعلوں اور چھوٹے بڑے پنجروں کی قیمت دریافت کی، شاید یہاں سے بھی میں مایوس ہی لوٹ جاتا۔ مگر اس اجنبی آدمی کا چڑیا آزاد کرنا مجھے کچھ ایسی غیر معمولی بات لگی کہ میرے پاؤں وہیں جم گئے۔ اجنبی کو دیکھتے رہنے کے ساتھ ساتھ میں ایک نظر چڑی مار کی دکان پر بھی ڈال لیتا تھا جہاں چھوٹے بڑے پنجرے جن میں مختلف پرندے بند تھے، جگہ کی کمی کے باعث ایک دوسرے کے اوپر رکھے ہوئے تھے۔ میری نگاہ دکان کے بائیں جانب لٹکے ہوئے لکڑی کی تیلیوں کے ایک چھوٹے سے پنجرے پر جا پڑی۔ اس پنجرے میں دو لعل بند تھے، جن کے پروں پر سیاہ و سفید تل ان کی خوب صورتی میں اضافہ کر رہے تھے اور چڑی مار کے بیان کے مطابق ایک موسم کی بارش دیکھ چکے تھے۔ بڑے پنجروں میں بند بہت سارے دوسرے لعلوں کے مقابلے میں یہ جوڑی خوب صورت اور جسامت میں بڑی نظر آرہی تھی میں نے قیمت دریافت کی تو چڑی مار نے جوا ب دیا۔
’’یہ پالتو ہیں بکاؤ نہیں۔‘‘
میں نے دوبارہ ان لعلوں کی طرف دیکھا جن کی آزادی کے لیے اس تنگ پنجرے میں کوئی جگہ نہیں تھی۔ اس تنگ سے پنجرے میں شاید وہ اپنے پر پوری طرح کھول کر پھڑپھڑا بھی نہیں سکتے، اسی لمحے ان کے جسموں میں حرکت پیدا ہوئی اور ان کا جسم تھوڑا سا پھول کر رہ گیا۔ بے چارے قیدی! اس لمحے میرے جی میں ایک ہی خیال آیا کہ بڑی سے بڑی قیمت ادا کر کے بھی لعلوں کی اس جوڑی کو آزاد کرا دینا چاہیے۔ یہ خیال آتے ہی میں نے اس آدمی کی جانب دیکھا جس میں اس تنگ سے پنجرے میں لعلوں کو بند دیکھنے کی وجہ سے کچھ دیر کو غافل ہوگیا تھا۔ شاید وہ آخری چڑیا تھی جو اس نے ان قیدی چڑیوں میں سے نکالی تھی، کیوں کہ اس کے فضا میں بلند ہوتے ہی اس نے پنجرے کی نیم وا دَروازے کو بند کیا، چڑیا کو فضا میں اڑتے دیکھ کر ایک لمحے کو اس آدمی کے چہرے پر جو مسکراہٹ آئی تھی وہ اگلے ہی لمحے غائب ہوگئی۔ دوبارہ اس کا چہرہ ماتمی ہوگیا تھا۔ ایسا چہرہ جو آدمی کے حوصلے نہ نکال سکنے پر ہوتا ہے۔ پنجرے میں ابھی کافی چڑیا باقی تھیں۔
تعارف نہ ہونے کے باوجود بے اختیار میں نے سوال کر رہی ڈالا۔ ’’آپ روزانہ اسی طرح چڑیاں خرید کر انہیں آزاد کر دیتے ہیں؟ اس کے چہرے پر ناگورای کی کیفیت پیدا ہوئی، چند ثانئے وہ خاموش رہا میں سمجھا کہ وہ جواب نہیں دے گا۔ مگر جب اس کا چہرہ دوبارہ پرسکون ہوا تو وہ بولا۔
’’جی ہاں میں انہیں آزاد کر دیتا ہوں روزانہ نہیں جب جیب اجازت دیتی ہے پھر آزردہ لہجے میں کہنے لگا کہ آدمی کا یہ مقدور کہاں کہ وہ اپنی خواہش کے مطابق مخلوق کو آزاد کراسکے۔‘‘
اس آدمی کے جانے کے بعد میں لعلوں کی خریداری تو بھول گیا اور چڑی مار سے اس کے بارے میں سوال کر ڈالا۔ ’’مجھے تو اس آدمی کی گراری ڈھیلی معلوم ہوتی ہے۔‘‘ چڑی مارنے اپنے ہاتھ کی انگلی کو کنپٹی کے ساتھ لگاتے ہوئے جواب دیا۔ عجیب چریا پن کی باتیں کرتا ہے۔ کبھی کہتا ہے میرا آدمی قید ہے، کبھی کہتا ہے ہم سب کا آدمی۔ کسی دن آتا ہے تو دیر تلک باتیں کیے چلا جاتا ہے اور کبھی بالکل گم صم دکان پہ آیا، جیب سے پیسے نکالے مجھے دیے۔ چڑیا اڑائیں اور یہ جاوہ جا۔
’’یار تم نے کبھی اس آدمی سے اس کا سبب دریافت نہیں کیا؟‘‘ میں نے ذرا زیادہ اپنائیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔ چڑی مار بھی شاید اس وقت کچھ موڈ میں تھا یا شاید اس کا سبب یہ ہوگا کہ ابھی اس کی دکان پر کوئی اور گاہک نہیں آیا تھا کہنے لگا:
’’بابو جی ہم ایسی باتوں کے چکر میں زیادہ پڑتے نہیں ہیں اپنا تو دھندا ہی ایسا ہے کوئی گاہک آکر کہے کہ درجن بھر چڑیاں کاٹ دو تو میں ان کا سر کاٹ ڈالوں گا۔ پھر بھی میں نے ایک دفعہ یوں ہی پوچھ لیا۔‘‘ چڑی مارنے کہا:
’’تو کیا جواب دیا تھا اس نے‘‘ میں نے بے تابی سے سوال کیا۔
کہتا تھا ’’چڑیوں میں درویشوں کی روحیں رہتی ہیں اور فقیر چاہے کسی روپ میں ہو اس کی دعا قبول ہوتی ہے‘‘ چڑی مار اس کے بعد خاموش ہوا یا باتیں کرتا رہا مجھے کچھ یاد نہیں۔ البتہ یہ بات سن کر پرندوں کی چہکار میں اپنا آپ فراموش کر چکا تھا۔ ’’اس آدمی نے بھی خوب طریقہ نکالا ہے۔‘‘ میں خیالات میں کھوگیا تھا ’’یہ عجیب آدمی داستانوں کے عہد میں زندہ ہے۔ صرف اس نے تھوڑی سی تبدیلی کرلی۔ پرانے زمانے میں کسی ملک کا بادشاہ بیمار پڑتا۔ مرض لاعلان ہو جاتا۔ حاذق طبیب اور دانا افراد عاجز و لاچار ہوجاتے تو بادشاہ کو اپنے بندی خانوں کے دروازوں کو کھول دینے اور قیدیوں کو رہا کرنے کا مشورہ دیا جاتا تھا۔‘‘ یہ سوچتے ہوئے میری نظریں دوبارہ اس تنگ سے پنجرے پر جا پڑیں جہاں لعلوں کا ایک خوب صورت جوڑا اس تنگ سے پنجرے میں بیٹھا ہوا تھا اور پرواز نہیں کر سکتا تھا۔ ایک زمانہ ایسا بھی آسکتا ہے جب وہ بالکل ہی اڑنا بھول جائیں، یہ خیال مجھے دوبارہ اس دکان کے ماحول میں کھینچ لایا تھا۔
’’یہ جوڑا بیچ دو۔‘‘
’’نہیں بابو جی بالکل نہیں۔ یہ تو اپنے پارٹنر کے شوق کی چیز ہے۔ یہ تو ایک لاکھ روپے میں بھی نہ دوں کا‘‘ چڑی مار نے جواب دیا۔ ’’اتنی زیادہ رقم میرے پاس ہے بھی نہیں۔‘‘ میں نے ہنس کر کہا تھا۔ اور میں یہ سوچ کر افسردہ ہوگیا تھا کہ میں اس جوڑے کو آزاد کرانے کا اختیار نہیں رکھتا۔ اسی لمحے میں نے فیصلہ کیا تھا کہ جب میں کسی کو آزاد نہیں کرا سکتا تو مجھے کسی کو قید کرنے کا بھی کوئی حق نہیں ہے میں اپنے بچے کے لیے لعل خرید کر نہیں لے جاؤں گا۔ ایک حسرت بھری نگاہ میں اس تنگ پنجرے کے باسیوں پر ڈالتا ہوا وہاں سے چلا آیا تھا۔
گھر پہنچا تو دروازے کھولتے ہی بیوی نے سوال کیا۔ ’’لے آئے ہو۔ بچہ صبح سے انتظار کر رہا ہے۔ اتنے میں میرا چھوٹا بچہ دوڑتا ہوا آکر لپٹ گیا۔ اورپوچھنے لگا: ’’ابو میلی چلیاں لائے۔‘‘ (ابو میری چڑیاں لائے)۔
’’بیٹے دکان دار نے کہا ہے کہ وہ کل تک ہمیں لعل پکڑ دے گا۔ کل ضرور لاکر دوں گا اپنے بیٹے کو‘‘ بسکٹ اس کی جانب بڑھاتے ہوئے میں نے کہا۔ ’’یہ لو بسکٹ کھاؤ آہا امی کتنا اچھا ہے؟‘‘
جب میں نے بیگم کو سارا واقعہ سنایا اور کہا کہ پرندے جن میں لعل اور چڑیاں سبھی شامل ہیں اس لیے نہیں ہوتے کہ انہیں قید کیا جائے تو اس نے برہم ہوکر جواب دیا۔
’’تم تو ہمیشہ کے ضعیف الاعتقاد ہو۔ کیا تم یا وہ پاگل آدمی دنیا کے سارے پرندوں کو جہاں جہاں بھی وہ قید ہیں آزاد کرا سکتے ہو؟‘‘
’’اونہہ بے وقوف، چڑیاں آزاد کرانے سے کہیں قیدی بھی آزاد ہوتے ہیں۔ اور پھر اس کی بات کا تو ایک جواز ہے وہ تو اپنے کسی آدمی کو قید سے چھڑانے کے لیے یہ سب کچھ کر رہا ہے۔ آپ کو تو کسی آدمی کو قید سے نہیں چھڑانا، سب لوگ تمہاری طرح کے ہوجائیں تو بس دنیا کا کام چل چکا۔‘‘
’’میری بات تو سنو‘‘ میں نے ملتجیانہ انداز میں کہا۔ ’’چڑی مار کا بیان ہے کہ وہ عجیب آدمی کبھی کبھی یہ بھی کہتا ہے کہ وہ تنہا ہی اس کا آدمی نہیں ہے۔‘‘
مگر شاید مجھے اپنی دلیل کمزور پڑتی محسوس ہوئی اور حقیقت میں یہ کوئی ایسی دلیل بھی نہیں تھی، اسی وجہ سے مجھے یہ کہنا پڑا کہ ’’ہے یہ عجیب سی بات‘ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔‘‘
وہ اپنی بات پر مصر تھی ’’میں کچھ نہیں جانتی کل آپ لعلوں کا ایک جوڑا ضرور خرید کر لائیں گے۔ بچہ کتنا انتظار کر رہا ہے آپ کو کیا معلوم؟‘‘
مجھے سب کچھ معلوم تھا۔ صبح ہوتے ہی ہمارے کمرے کے دریچے کے باہر اُگے ہوئے درخت پر چڑیاں آکر شور مچانا شروع کر دیتی ہیں ان میں سے کئی چڑیاں پھدک پھدک کر درخت کی شاخوں سے اندر کمرے تک آتی جاتی رہتی ہیں اور میرا بچہ ان چڑیوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا رہتا ہے۔
ہمیں اس مکان میں آئے ہوئے ابھی ایک سال بھی نہیں ہوا، جب ہم یہاں آئے تو گرمی کا موسم تھا۔ کمرے میں آجانے والی بہت ساری چڑیوں میں سے اکثر ایک نہ ایک چڑیا تیز رفتار پنکھے سے ٹکرا کر مر جاتی مگر نہ تو پنکھا بند کیا جاسکتا تھا اور نہ چڑیوں کے شوق پرواز میں کمی آسکتی تھی۔
صبح دفتر جاتے ہوئے جب یہی تقاضا ہوا تو میں نے ایک بار پھر سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا: ’’بچے کی بات ہے، دو چار دن کی ضد ہے بھول جائے گا، تم زمین پر باجرا ڈال دیا کرو بہت ساری چڑیاں جمع ہوجایا کریں گی۔ بچہ خوش ہوجائے گا۔‘‘
’’میں کہتی ہوں نہیں نہیں‘‘ بیگم نے چیخ کر کہا ’’چڑیاں اس طرح کبھی اس کے پاس نہیں ٹھہریں گی، پھر ان چڑیوں کا رنگ بھی تو لعلوں جیسا نہیں ہوتا۔
دوکان پر پہنچا تو وہی منظر گویا میرا منتظر تھا۔ دو پرندے اسی تنگ سے پنجرے میں مقید، میں نے اپنی نظریں اس جانب سے ہٹالیں اور چڑی مار سے معاملے کی بات کرنے لگا۔
’’بابو جی یہ جوڑے لے جائیں، بچوں کے لیے ابھی کچھ دن میں ان کے پروں کا رنگ گہرا ہوجائے گا۔
برسات سر پر کھڑی ہے۔ بارش کے ساتھ ہی ان کے پروں پر بھی ایسے ہی خوب صورت نشان آجائیں گے۔‘‘ چڑی مار نے اس تنگ سے پنجرے کے جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا، نہ جانے اس لمحے میں میں نے کیسے خود کو وہاں سے فرار ہونے سے روکا تھا۔
کافی دن گزر گئے میں اپنے گھر میں دو قیدیوں کو دیکھنے کا عادی ہوگیا تھا۔ ایک دن میری بیوی کہنے لگی۔ ’’ان لعلوں نے تو ابھی انڈے بھی نہیں دیے معلوم نہیں یہ جوڑا ہے بھی یا نہیں۔ اتنے بڑے پنجرے میں یہ دو اچھے نہیں لگتے ایک دو جوڑا اور خرید لاؤ۔‘‘
میں اس دکان پر پہنچا تو وہ عجیب آدمی وہاں موجود تھا اور چڑیاں آزاد کر رہا تھا۔ غیر ارادی طور پر میرے منہ سے نکل گیا۔
’’کیوں صاحب ابھی تک آپ کا آدمی…‘‘
ابھی میں اپنی بات پوری بھی نہ کر پایا کہ وہ تقریباً چیخ کر بولا۔ اس کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا تھا۔
تم … لا علم … پھر اس نے تیزی سے پنجرے سے ہاتھ نکالا۔ چڑی مارنے بجلی کی سی تیزی سے آگے بڑھ کر پنجرہ بند کر دیا تاکہ چڑیاں بغیر حساب کے آزاد نہ ہوسکیں، میں اس چہرے اور اس آواز سے ڈر گیا تھا اور بغیر لعل خریدے وہاں سے واپس چلا آیا تھا۔
وہ چہرہ جو بیک وقت قید بھی تھا اور آزاد بھی، اس نے مجھے اپنی قید میں لے لیا تھا۔ راستے میں اور گھر تک پہنچنے کے بعد بھی میں اس چہرے اور اس آواز کو فراموش نہیں کر پا رہا تھا۔ مجھے یوں لگ رہا تھا کہ گویا زندگی کے اس ان دیکھے پہلو کا انکشاف جو مجھ پر تھوڑے دن پہلے ہوا تھا آج اس کی تکمیل ہوئی ہو۔ اس روز بھی گھر میں ہم تین نفوس تھے اور کمرے کے باہر دریچے پر جھکا ہوا درخت اور لعلوں کا جوڑا جس کی نسل بڑھنے کی ہمیں فکر تھی۔ جتنے لال چاہوں میں انہیں لاکر اس پنجرے میں بند کر سکتا ہوں۔ مگر کیا جب میں چاہوں تو انہیں آزاد بھی کر سکتا ہوں؟ بیوی اور بچے کا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے تھا۔ یہی میری قید تھی۔ بیوی جو باورچی خانے میں کام میں مصروف تھی اور بچہ جو کھلونوں سے کھیلنے میں مصروف تھا۔ شام کے اس سناٹے میں لعل درخت کے تلے تنہا بیٹھے تھے۔
رات کو ن سا پہر تھا جب میری آنکھ کھل گئی وہاں میرے سوا سب تھے بھی اور نہیں بھی۔ میں آگاہی کے اس لمحے میں جب اس عجیب آدمی کا چہرہ رات کے اس سمے میرا تعاقب کرتا ہوا یہاں تک آگیا تھا۔ وہ آدمی جو خود بھی ایک قیدی ہی تھا، اپنے کرب کا قیدی، قید صرف سنگ و آہن کی دیواروں کے پیچھے محبوس کردیے جانے کا نام تو نہیں وہ اپنے کرب سے نجات پانے کے لیے چڑیاں آزاد کرتا تھا۔ اس کا عمل کس کے لیے تھا۔ میں نہیں جانتا۔ ہاں یہ ہے کہ دوسروں کے ساتھ ہم بھی ان کی قید میں اپنی آزادی کے باوجود شریک ہوتے ہیں۔ دوئی مٹ گئی تھی، وہ چہرہ اور میں اب ایک ہی تھے۔ مجھے اپنے ہر موئے بدن سے ایک ہی آواز سنائی دے رہی تھی۔ یہ آواز، حکم کی مانند تھی اور اس سے نجات کی ایک ہی صورت تھی۔ آخر وہ لمحہ آپہنچا جب آدمی ہر پابندی اور قید سے ماورا ہوتا ہے اور میں نے اس اندھیری رات میں اٹھ کر پنجرے کا دروازہ کھول دیا۔lll