پھر کیا ہوا…؟

ڈاکٹر طاہر مسعود

وقت کو کب، کس نے سمجھا ہے، جو علیم الدین حیدر کی سمجھ میں آجاتا۔ انہیں کبھی یہ ایک دائرے جیسا لگتا ہے کہ صبح، دوپہر، شام، رات اور پھر وہی صبح، وہی دوپہر، وہی شام اور … کبھی یوں لگتا کہ جیسے ایک تکرار کا نام ہو وقت۔ دن، مہینے، برس اور پھر صدیاں بیت جائیں، مگر وقت کی تکرار ختم نہ ہو۔ یا پھر ایسا پرشور بہتا دریا کہ جس کی لہروں اور موجوں کو تقسیم کیا ہی نہ جاسکے، سب کچھ اپنے ساتھ بہالے جانے والا، سب کو اپنی آغوش میں چھپا لینے اور ہر شے کو مٹا دینے والا۔ اور یہ بھی کیسی عجیب پراسرار سی بات تھی کہ وقت کے مظاہر سورج، چاند، ستارے، درختوں، جانوروں اور سب سے بڑھ کر پتھروں کی پوجا تک کی گئی نہ کی تو وقت کی، جو سب سے بڑی حقیقت ہے۔ یہی بات فلسفے کے پروفیسر ڈاکٹر علیم الدین حیدر کے لیے ناقابل فہم اور پریشنا کن تھی۔ وہ سگار ہونٹوں میں دبائے، اوپری منزل پر اپنے اسٹڈی روم کے دریچے سے لگے گھنٹوں کھڑے باہرکے منظروں کو دیکھتے اور خاموش سوچتے رہتے اسی وقت کی بابت۔ جب سوچتے سوچتے ڈوب جاتے، تو وقت کے دریا میں، جو ان کے اندر بہتا اور گونجتا رہتا تھا کہ وقت کیا ہے، کھو جاتے مگر کہیں سے کوئی جواب تو کیا آتا، بس نیچے سے بیوی کی دھاڑتی ہوئی آواز ہی آتی ’’کیوں بیٹھے ہیں اوپر؟ نیچے آئیے۔‘‘ تو وہ چونک اٹھتے۔

وہ پھر آہستہ قدموں سے سیڑھیاں اترتے نیچے آجاتے۔ نہایت آہستگی اور نرمی سے پوچھتے، ’’بیگم! کوئی کام ہے کیا؟‘‘

گرچہ بیوی ان کی محنتی تھیں، مگر زبان کی کڑوی اور مزاج کی تیز، جس طرح وہ وقت کو نہ سمجھ پائے تھے، بیگم بھی ان کے لیے معمہ ہی رہیں۔ بات فقط اتنی تھی کہ پروفیسر ڈاکٹر علیم الدین حیدر ہر چیز چاہے وہ مرد ہو یا خاتون، بچہ ہو یا بوڑھا یا پھر حادثوں اور سانحوں پر مشتمل چھوٹے بڑے واقعات، سب ہی کو سمجھنا چاہتے تھے کہ فلفسیانہ ذہن جو تھا۔ ان کا خیال تھا کہ انسان دنیا میں سوچنے اور سمجھنے ہی کے لیے بھیجا گیا ہے کہ دنیا میں کوئی اور مخلوق ایسی ہے ہی نہیں، جو اتنی گہرائی سے سوچتی ہو اور جو کچھ سوچتی ہو، اس میں دوسروں کو بھی شریک کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ یوں پروفیسر ڈاکٹر علیم الدین حیدر، فلسفی، مفکر، دانش ور جب سے دنیا میں آئے تھے، ہوش سنبھالنے کے بعد سے سوچنا ہی ان کی سب سے بڑی مصروفیت یا یوں کہیے سب سے بڑی عیاشی تھی۔ اس سوچ میں کسی وجہ سے خلل پڑتا تھا تو وہ چونک اٹھتے تھے۔ عموماً جب بیوی چیختی ، اجی! کس سوچ میں پڑے ہیں۔ کچھ آٹا، چاول، دال کی بھی فکر کیجیے۔ جائیے سودا لائیے، پکانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے گھر میں۔‘‘ اور وہ سامان کی فہرست اور رقم بیوی سے لے کر بازار کی طرف چل پڑتے۔ رستے بھر سوچتے جاتے، یہاں تک کہ خریداری کرتے وقت بھی اور دکان دار کو رقم دیتے وقت بھی اسی طرح بقایا رقم لے کر گنتے ہوئے بھی۔ اس لیے حساب میں اکثر گڑبڑ ہو جاتی۔ پتا اس وقت چلتا، جب بیوی ان سے ایک ایک پیسے کا حساب لینے بیٹھ جائیں۔ پانچ کلو آٹا کتنے کا آیا، چاول دس کلو کس بھاؤ ملے وغیرہ وغیرہ۔ اب پروفیسر ڈاکٹر علیم الدین حیدر چپ۔ حساب کتاب، مول تول کرتے، رقم دیتے اورواپس لیتے، کچھ یاد ہو تو بتائیں۔ ’’اسی سوال و جواب سے بچنے کے لیے انھوں نے تہیہ کیا کہ آئندہ ہر چیز کی قیمت ادا کر کے لکھ لیا کریں گے تاکہ بیوی کی سخت گیر جواب دہی سے بچ سکیں۔ لیکن ہمیشہ یہی ہوا کہ گھر واپسی پر یاد آیا کہ ’’لکھنا تو وہ بھول ہی گئے‘‘ اور اب بھلا یہ کہاں یاد کہ ٹماٹر کتنے روپے کلو خریدے، بھنڈی اور لوکی کیا بھاؤ ملے؟ اب یہ تو روز روز ہونے سے رہا کہ واپس جائیں اور سبزی والے دکان دار سے پوچھیں کہ ’’بھائی، ذرا پھر بتادو ٹماٹر کیا بھاؤ ہیں؟ لوکی اور بھنڈی کس حساب بیچ رہے ہو؟‘‘

تو عجیب زچ تھی ان کی زندگی۔ تقریباً مصیبت زدہ سی۔ چھوٹی چھوٹی باتیں، معمولی معمولی واقعات ان کی سوچوں میں خلل انداز ہوجاتے تھے اور وہ اپنا دامن چھڑا نہ پاتے تھے۔ کوئی پریشانی نہ ہوتی، اگر ان کی بیوی، ملنے جلنے والے دوست احباب اور رشتے دار ان کی سوچنے کی اہمیت سے واقف ہوتے۔ چوں کہ وہ سب خود اس طرح نہیں سوچتے تھے تو کیسے جان پاتے کہ پروفیسر صاحب کس طرح زندگی، زمانے اور انسان کی حقیقت کی بابت، کائنات کی تخلیق اور انسانی ذہن کے ارتقا جیسے گمبھیر مسائل و معاملات میں الجھے رہتے ہیں۔ جب آدمی کسی کام کی حقیقت اور اہمیت کو نہیں جانتا، تو وہ اسے حقیر اور بے کار ہی سمجھتا ہے بلکہ اسے بھی احمق اور ناکارہ ہی سمجھتا ہے، جو ایسے کام کے لیے خود کو وقف کردے۔ فرض کیجیے کہ اگر پروفیسر ڈاکٹر علیم الدین حیدر ی کی سوچنے کی عادت سے ان کی بیوی کا معیار زندگی بلند ہوتا، رہنے سہنے کے انداز اور طور طریقے میں واضح دکھائی دینے والی کوئی تبدیلی رونما ہوتا، تو پھر یقینا بیوی بھی ٹہوکے دے دے کے پوچھتیں ’’کیا بات ہے جی! ادھر دو دن سے تم کچھ سوچتے نظر نہیں آئے۔ سوچا کرو ناں، سوچنے کے بڑے فائدے ہیں۔‘‘ ہاں صورت معاملہ کا یہ وہ تجزیہ تھا جو پروفیسر صاحب ہی نے سوچ، سوچ کر کیا تھا اور اس تجزیے میں بڑی سچائی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ پروفیسر صاحب صرف سوچوں میں گم رہتے تھے۔ نہیں… وہ لکھتے بھی تھے، جو کچھ سوچتے تھے، اپنے نتائج فکر مضامین، مقالات اور کتابوں کی صورت اہل علم اور اہل تحقیق کے سامنے پیش بھی کرتے رہتے تھے۔ لیکن ملک میں ایسے اہل علم اور اہل تحقیق تھے ہی کتنے۔ بس مٹھی بھر۔ چناں چہ ملک کا ایک بہت چھوٹا سا حلقہ ان کے نام اور کام سے واقف تھا۔ ان کے موضوعات فکر، جنہیں وہ قلم بند کرتے تھے، علم و ادب کے بازار میں ان کی مانگ بہت تھوڑی تھی۔ جس یونیورسٹی میں وہ فلسفہ پڑھاتے تھے، وہاں بھی لڑکوں نے ان کا نام ’’پروفیسر سوچ بچار‘‘ رکھ دیا تھا کہ کلاس میں بھی لیکچرر دیتے دیتے، اپنے ہی بیان کردہ کسی نکتے پر ذہن میں جھماکا ہوتے ہی وہ سوچ میں ڈوب جاتے، گم صم سے ہوجاتے۔ انہیں چپ پاکر کوئی لڑکا کھنکھارتا، تو پھر وہ واپس کلاس میں آتے۔ تو یوں گزر رہی تھی سوچنے اور مسلسل سوچنے والے پروفیسر ڈاکٹر علیم الدین حیدر کی زندگی۔ وہ پریشان رہتے لوگوں سے اور بیوی سمیت سبھی تنگ رہتے تھے ان سے۔

وہ ان کی پریشان کن زندگی کی آخری رات تھی، جب انھوں نے موت کی بابت زندگی کے خاتمے، قیامت کے تصور اور کائنات سے متعلق سوچا اور جب سوچنا شروع کیا تو جیسے ایک اندھیرے نے انہیں چاروں طرف سے آلیا۔ وہ دریچے سے دیکھ رہے تھے کہ آسمان سے اندھیرے کا ایک ریلا اترا اور آہستہ آہستہ ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لیتا چلا گیا۔ سب کچھ دھیرے دھیرے ڈوبتا گیا تاریکی میں۔ انھوںنے گھبرا کر پیچھے ہٹنا، کرسی کا سہارا لے کر بیٹھنا چاہا، لیکن چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ آگے بھی پیچھے بھی، دائیں بھی بائیں بھی، اوپر بھی، نیچے بھی، یہاں تک کہ وہ خود بھی ایک جیتا جاگتا اندھیرا بن گئے۔ بیوی نے بہت دیر ہونے پر نیچے سے آواز دی۔ ’’اجی! سنتے ہیں، کب تک سوچیں گے نیچے آئیے۔‘‘ کئی بار آواز دینے پر جب کوئی جواب نہ آیا تو وہ اس خلاف معمول واقعے پر مضطرب ہوکر تیزی سے سیڑھیاں چڑھتی اوپر چلی آئیں اور وہاں عجیب ہی منظر دیکھا۔ کتابوں سے بھرے اسٹڈی روم میں مکمل، پورے کا پورا اندھیرا تھا اور تاریکی بس کمرے ہی میں تھی، کمرے سے باہر روشنی اسی طرح تھی۔ اور زندگی بھی اسی طرح روزانہ کی طرح رواں دواں تھی۔‘‘lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں