مدرسے کی پڑھائی میں عموماً پیچھے رہ جانے والے بچے کو پھسڈی بچہ کہتے ہیں۔ پھسڈی پن کے بے شمار اسباب ہیں۔ ناساز گار ماحول سب سے بڑی وجہ ہے۔ ماحولی اسباب کو سمجھنا بہت آسان ہے اور مقابلتاً ان کا تدارک بھی اتنا مشکل نہیں۔ مدرسہ، گھر اور محلہ ماحولی اسباب کے تین بڑے عناصر ہیں جو بچے کو پھسڈی بنانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
دقیانوسی معلّم اور پھسڈی بچے
پھسڈی پن کی پہلی نشانی پڑھنے لکھنے میں بے توجہی اور مکتب کی زندگی میں عدم دلچسپی ہے۔ ممکن ہے مدرسے کا نظام ہی اتنا ناقص ہو کہ بچہ تعلیم سے متنفر ہونے پر مجبور ہوجائے۔
ہمارے اکثر مدرسوں میں اب بھی قدیم اصولوں اور تعلیم و تدریس کے فرسودہ نظریوں کا دور دورہ ہے۔ اکثر معلّم بے انتہا خشک انداز میں پڑھاتے ہیں۔ وہ بات بات پر جھڑکی دینے اور ڈنڈے کا عام استعمال کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ ان معلّموں کے پاس تعلیم کا بس ایک ہی طریقہ رہ گیا ہے۔ ننھے طلبہ کے طبعی رجحانوں اور انفرادی میلانات سے بالکل بے نیاز ہوکر وہ لٹھ بازی ہی کو تعلیم کا بہترین اسلوب سمجھتے ہیں۔ جدید ماہرین تعلیم کے مفید مشوروں سے اس قسم کے اساتذہ بہت بیزار ہوجاتے ہیں۔ جماعت میں ذہین، متوسط، پھسڈی، غبی اور کند ذہن بچوں سے یکساں سلوک کیا جاتا ہے۔ سبق کسی کے پلّے پڑے یا نہ پڑے، یہ جاہل معلّم اس کی پروا نہیں کرتے، بولنے پر آتے ہیں تو رکنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ سبق کو عام فہم زبان میں نرمی سے سمجھانے کی بجائے ایسے معلّم خشک اور درست لہجہ اختیار کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔
افلاس زدہ گھر بھی بچے میں پھسڈی پن پیدا کرتے ہیں۔ ایسے گھر جہاں اولاد کی کثرت ہو، مالی پریشانی ہو، ماں اور باپ آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہوں، کھانے کو نہ ملے، نیند پوری نہ ہو، غلیظ، گندہ اور تاریک مکان ہو، بچہ لاغر، بے کاری اور خرابی صحت کا شکار ہو، ایسی تمام حالتیں بچے میں چڑچڑاپن پیدا کرکے اسے پھسڈی بنادیتی ہیں۔
اگر گھر میں مذہبی اور اخلاقی قدریں ناپید ہوں، احساسِ ذمہ داری غائب ہو تو چوری اور دوسری خلاف معاشرت حرکتوں کی وجہ سے مدرسے کی دلچسپی کم ہوجاتی ہے اور بھگوڑا پن اور پھسڈی پن پہلے سے زیادہ پسندیدہ مشغلہ بن جاتا ہے۔
پھسڈی پن کا علاج
اساتذہ اور والدین کو پھسڈی پن کے مختلف پہلوؤں کا گہرا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ان بدقسمت بچوں کی مشکلوں کا صحیح جائزہ لے کر ان کی مناسب مدد کرنی چاہیے۔ بچے کو مدرسہ ناپسند ہو تو اسے دلچسپی پیدا کرنے کے لیے عام فہم اور دلچسپ کتابیں مہیا کیجیے۔ کھیل کود اور فالتو وقت کے تفریحی مشاغل میں دلچسپی پیدا کرنے کے مناسب سامان فراہم کیجیے۔ اپنے بچوں کو گلی کی آوارہ سوسائٹی سے بچانے کا ایک آسان اور سائنسی طریقہ یہ ہے کہ محلے کے چند اچھے اچھے بچوں کو اکٹھا کرکے ایک چھوٹا سا کلب بنادیں تاکہ وہ آپس میں مل بیٹھ کر متوازن مشاغل اور صحت مند تفریحات سے محظوظ ہوا کریں۔ والدین کی خاص توجہ اور ایسی اجتماعی کوششوں سے اچھے نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
جسمانی معذور بچے
بچوں کی ذہنی صحت اور ان کے نفسیاتی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جسمانی طور پر معذور بچوں کا ذکر کرنا بھی اہم ہے۔ کیونکہ موجودہ آبادی میں تقریباً ایسے لاکھوں ذہین لیکن جسمانی طور پر معذور افراد ہیں جو کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی سوچ، طرزِ زندگی اور باہمی میل جول ایک خاص نقطۂ نظر کا حامل ہے۔ سماجی، قانونی، اقتصادی اور تعلیمی نا انصافیوں کی بنا پر یہ افراد تنزلی کے ساتھ ساتھ ایک احساس بے بسی و کمتری کی زندگی گزار رہے ہیں۔
معاشرے میں ان کے متعلق ایسے متعصبانہ خیالات اور نظریات ہیں کہ انہیں بے چارے سمجھ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کی فطری صلاحیتیں بھی ابھرنے نہیں پاتیں اور یوں لوگوں کی تنگ نظری اور یک طرفہ سوچ کے نتیجے میں وہ کچھ نہیں کرسکتے اور ابھرنے کے مواقع نہ ملنے کی وجہ سے ان کے عقائد و منفی رجحانات کو تقویت پہنچتی رہتی ہے۔ یوں نفسیاتی بگاڑ کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔
جہاں تک معذور بچوں کی اقسام کا تعلق ہے، ان میں اپاہج، نابینا و ناقص بینائی والے بچے، بہرے، گونگے و ناقص اعضائے خمسہ رکھنے والے بچے بے شمار ہوتے ہیں۔ موجودہ دور میں نفسیات اور سائنس نے کافی ترقی کرلی ہے مگر ہمارے ہاں ان خدمات سے خاطر خواہ افادہ نہیں اٹھایا گیا۔ دراصل ہمیں اس سلسلے میں ضروری سہولتیں میسر نہیں جس سے ان بچوں کا ضیاع ہورہا ہے۔ کچھ تو دوسروں سے اپنے آپ کو کمتر خیال کرکے اور کچھ دوسروں کے طعنوں سے احساس کمتری و محرومی کا شکار ہوجاتے ہیں اور اپنی ذات کو بے معنی سمجھ کر سنبھلنے اور ترقی کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔
علاج
سوسائٹی میں پرانے عقائد ختم کرکے انہیں باعزت مقام دینے کے لیے یہ ضروری ہے کہ نفسیاتی طور پر ان میں Self-Respect اور Self-Worthیعنی عزت نفس اور خودداری پیدا کی جائے۔ ان میں انفرادیت کے ساتھ ساتھ خود اعتمادی پیدا کی جائے۔ معذور بچوں کے والدین کو انہیں بوجھ سمجھنے کے بجائے ان کے جذبات و احساسات کا خیال رکھنا چاہیے۔ کیونکہ یہ کئی ایک لوگوں سے بہتر اور شریفانہ فطرت رکھتے ہیں۔
اگر ہم میں سے ہر ایک اپنے آپ کو ان کی ذہنی کیفیت و احساسات کی رو سے دیکھے تو انہیں سمجھنے میں بڑی آسانی ہوسکتی ہے۔ ہم سب مل کر ایسے مراکز اور ادارے کھول سکتے ہیں جہاں ان کی مناسب دیکھ بھال نفسیاتی اور میڈیکل تجزیے سے راہنمائی کی جاسکتی ہے۔ والدین کے لیے لازم ہے کہ ان کے احساسات و جذبات کا خاص خیال رکھیں۔ انہیں اظہارِ خیال کے مواقع دیں تاکہ یہ اپنے اندر دبے ہوئے احساسات کا اظہار کرکے راحت و سکون پاسکیں۔ انہیں ان کے گروپوں میں اکٹھے رکھیں۔ اظہار کرنے اور پسندوناپسند کے مطابق شادی بیاہ کا موقع دینا چاہیے۔ یہ بھی مکمل انسانوں کی طرح جذبات رکھتے ہیں۔ اگر ان کی نفسیاتی ضروریات اور خواہشات کو نظر انداز کردیا جائے تو یہ مزید ذہنی الجھن، خلفشار اور اعصابی بوجھ تلے دب کر ناجائز اور غلط طریقے کار استعمال کرکے اپنے لیے مزید پریشانیاں کھڑی کرسکتے ہیں۔ مثلاً جوان ہونے پر اگر ان کی شادی نہ کی جائے تو یہ جنسی بے راہ روی اور غلط طریقوں سے اپنی خواہشات پوری کرنے کی کوشش کریں گے۔ نتیجتاً جسمانی و نفسیاتی بیماریاں پیدا کرلیں گے یا احساسِ گناہ کی بدولت مزید الجھنوں کا شکار ہوجائیں گے۔ ان کے متعلق بہتر رائے استعمال کرکے اور ان کی انا کو مضبوط کرکے انہیں بہتر شخصیت اجاگر کرنے میں مدد دی جاسکتی ہے۔ جہاں تک ہوسکے، انہیں تشویش اور اضطراب سے بچانا چاہیے۔ پھبتی یا آوازیں کسنے سے ان کی روح زخمی ہوتی ہے، ایسا کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہ کوئی پاگل نہیں ہوتے بلکہ جذبات سے بھر پور خوددار انسان ہوتے ہیں۔
معاشرے میں ان کی دلجوئی کرنے کے لیے مہینے میں کم از کم ایک دوبار انہیں گروپ میں اکٹھا ہونے، زندگی کے متعلق پلاننگ کرنے، باہم خیالات کا اظہار کرنے کے مواقع دینے چاہئیں۔ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ یہ اکیلے نہ ہوں۔ اس طرح یہ مظلومانہ قسم کی سوچوں میں ڈوبے رہیں گے۔ انہیں آزادانہ فضا میں لوگوں سے گھلنے ملنے کا موقع دینا چاہیے۔ انہیں مناسب ورزشوں اور دلچسپیوں میں اس طرح مگن رکھیں کہ وہ نہ صرف اعصابی بوجھ ہلکا کرلیں بلکہ اسی طریقۂ کار سے کچھ سیکھ بھی لیں، یہ طریقہ نہایت کار آمد ثابت ہوسکتا ہے۔
معذرو بچوں کا عمر کے ابتدائی حصے میں نفسیاتی اور جسمانی ٹیسٹ کروا کے ان کی راہنمائی شروع کردیں تاکہ وہ وقت کے ساتھ ساتھ تعلیم و تربیت اور ہنر مندی مثلاً ٹائپ کرنا، کڑھائی کرنا، کرسیاں بننا، قالین بافی اور اسی طرح کے سادہ سادہ کام سیکھ لیں اور اپنے آپ کو بہتر بنالیں۔ قدرت نے ہمیں صحت مند پیدا کیا ہے اور اس صحت کا شکریہ ادا کرنے کے لیے ہمیں اس کے معذور انسانوں کی دیکھ بھال اور بہتری کے لیے کام کرنا چاہیے۔ ان کے لیے حساس ہوکر سوچیں کہ اگر ہم معذور ہوتے یا ہماری بینائی نہ ہوتی تو ہم کس طرح سے یہ محسوس کرتے یا ہمیں کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔ اس جذبے اور نیت سے ان کی بہبود کے لیے کام کریں۔ اگر ہم سب ان کے لیے اور کچھ نہ کرسکیں تو کم از کم ان کے لیے مراکز کھولنے اور تعلیمی ادارے قائم کرنے میں تھوڑی بہت مدد ضرور کریں اور ان کے جذبات کا احترام کریں۔ انہیں حقیر یا معذور سمجھ کر ان کی انا کو پامال نہ کریں۔ سال میں ایک مرتبہ ان کا عالمی دن منانے میں تعاون کریں، تاکہ ہر سال لوگوں کو ان کی موجودگی کا احساس ہو، ان کے مسائل کا پتہ چلے اور ان کے لیے کی گئی کوششوں کا جائزہ لیاجائے اور ان کے لیے مزید بہتر منصوبہ بندی کی جائے۔ عالمی تنظیموں کے درمیان رابطہ قائم کرکے انہیں اپنائیت اور یکجہتی کا احساس دیں۔ اگر ہم سب ان کے لیے کوشش کریں گے تو ان میں بھی اپنی حالت کو بہتر سے بہتر بنانے کا عزم پیدا ہوگا اور یوں وہ اپنی حالت کو سدھار کر معاشرے میں اہم اور مثبت کردار ادا کرسکیں گے۔