پیاس بجھاتے چلو! (قسط-۳)

سلمیٰ نسرین آکولہ

اس کی گم صم سی کیفیت کے پیش نظر امی نے اسے ہفتہ واری درس قرآن میں چلنے پر اصرار کیا۔ اسے اجتماع میں جانا بہت بور لگتا تھا۔ البتہ صبا اکثر جایا کرتی تھی اور ساتھ میں اسے بھی زبردستی گھسیٹ لیتی تھی۔ لیکن وہاں جاتے ہی اس پر نیند کا ایسا غلبہ طاری ہوتا کہ پہلو میں لگتے صبا کے ٹہوکے بھی اس کے اونگھتے وجود کو محسوس نہیں ہو پاتے تھے۔

لیکن پتہ نہیں اس دن اس کے دل میں کیا آن سمایا کہ وہ بلا چوں و چرا امی کے ساتھ چلنے پر رضامند ہوگئی۔

’’باجی کی بیٹی اپنی ڈیلیوری کے سلسلے میں یہاں آئی ہوئی ہیں۔ تم دیکھنا ان کی سمجھائی گئی باتوں کا کتنا اثر ہوتا ہے دل پر۔ جب وہ درس دیتی ہیں ناں تو دل چاہتا ہے بس وہ بولتی جائیں اور ہم سنتے جائیں۔‘‘

باجی کی بیٹی کی تعریف وہ بہت دنوں سے سن رہی تھی۔ اس درس قرآن سے واپس آکر کم از کم دو دن وہ ان کا تذکرہ ضرور کرتی تھیں!!

ان کے پہنچنے سے قبل ہی اجتماع شروع ہوچکا تھا۔ تلاوتِ قرآن اور ترجمہ و تمہید وہ مِس کرچکے تھے۔

’’پانی کا ایک گھونٹ کسی کو پلانا صدقہ ہے۔‘‘ اپنا موبائل سوئچ آف کرتے ہوئے وہ بری طرح چونکی تھی۔

’’روز محشر میں انسان ایک ایک نیکی کو ترسے گا تو ہوسکتا ہے پانی پلانے کی یہ نیکی ہی اس کے کام آجائے اور موسم گرما تو ایک بہترین موقع ہے بندگان خدا کو پانی پلا کر نیکیاں سمیٹنے کا۔ پانی کی ضرورت تو ہر موسم میں اور ہر دن ہوتی ہے لیکن یہ وہ موسم ہے جب پیاس کی شدت عام دنوں سے بڑھ جاتی ہے اور صرف انسان ہی نہیں بلکہ چرند پرند بھی پانی ڈھونڈتے ہیں۔‘‘

آپؐ نے ارشاد فرمایا:

’’جس نے کوئی کنواں کھدوایا پھر جو بھی پیاسا جاندار اس میں سے پانی پئے گا خواہ وہ جن ہو، انسان ہو یا کوئی پرندہ تو اللہ قیامت تک اس شخص کو اجر دیتا رہے گا۔‘‘ (صحیح الترغیب و ترہیب ۲۷۱)

’’قیامت تک‘‘ فائزہ کے بائیں طرف والی لڑکی زیر لب بڑبڑائی جسے اس نے بہ آسانی سن لیا۔

’’قیامت تک اجر دیتا ہی رہے گا… امیزنگ۔‘‘ وہ سخت حیرت زدہ تھی۔

’’صرف پانی پلا دینا نہیں بلکہ پانی کا نظم کرنا اور ایسے علاقوں میں پانی کا نظم کرنا جہاں پانی کی شدید قلق ہو زیادہ اجر کا باعث ہے۔ کیوں کہ مدینہ منورہ میں جب مسلمانوں کو پانی کی قلت ہوئی تو حضرت عثمانؓ نے رومہ کا کنواں کھدوا کر وقف کر دیا جس پر رسول اللہؐ نے انہیں جنت کی بشارت دی۔‘‘ (بخاری)

تقریباً ستائیس اٹھائیس سالہ ینگ لیڈی کرسی پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ گلابی دو پٹے میں ان کی سرخ و سفید رنگت کھلتا ہوا گلاب لگ رہی تھی۔ بہت ٹھہرے ہوئے لہجے اور پرسکون انداز میں وہ سامعین سے مخاطب تھیں۔ فائزہ کی نظریں ان کے گلاب جیسے چہرے کاطواف کر رہی تھیں۔ شاید پریگنینسی کا آخری وقت چل رہا تھا۔ وہ اپنے ابھرے ہوئے شکم پر دو پٹہ ڈالے بیٹھی تھیں۔ ان کے سامنے ایک چھوٹے سے ٹیبل پر قرآن مجید کھلا ہوا تھا۔ اس کے قریب رکھے چند صفحات پنکھے کی تیز ہوا سے پھڑپھڑا رہے تھے۔

’’پانی ایصال ثواب کا بھی بہترین ذریعہ ہے۔‘‘ ان کے منہ سے الفاظ نہیں پھول جھڑتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔

’’ایصال ثواب! پانی سے؟‘‘

’’جی ہاں۔‘‘ سامعات کی حیرت پر باجی کی بیٹی مسکرائیں۔

’’کیوں کہ اپنی والدہ کی وفات پر سیدنا سعد بن عبادہ نے رسول اللہؐ سے کہا۔

’’اللہ کے رسولؐ! میری والدہ فوت ہوگئی ہیں، ان کی طرف سے کون سا صدقہ افضل رہے گا…؟ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ’’پانی پلانا۔

چناں چہ انھوں نے کنواں کھدواکر وقف کر دیا اور کہا۔ ’’یہ سعد کی والدہ کی طرف سے ہے۔‘‘

(سنن ابی داؤد ۱۶۸۱)

انھوں نے اپنے لیکچر کی یقینا بہت اچھی تیاری کی تھی۔ وہ احادیث کے ریفریسنز بھی ساتھ بتاتی جا رہی تھیں۔

ایک خاتون بول پڑیں۔ ’’باجی، کنواں کھدوانا یا بور کروانا ہم جیسوں کے لیے بہت مشکل ہے۔ ہم تو ویسے ہی مہنگائی کی مار سہہ رہے ہیں… تو کیا کوئی دوسرا راستہ…!‘‘ وہ ہچکچا گئیں۔

’’بالکل۔‘‘ نہر اور کنویں کے علاوہ بہت سارے طریقے ہیں۔ مثلاً نل لگوانا، ہینڈ پمپ، ٹیوب ویل، راہ گیروں کے لیے راستے پر سبیلیں لگوانا، الیکٹرک واٹر کولر لگوانا وغیرہ۔‘‘

تو یہ سب بھی تو خرچے والے ہی کام ہیں باجی شاید ان کا سوال سمجھیں نہیں۔‘‘ کوئی اس کے پیچھے سے بڑبڑایا تھا۔

’’یہ بھی مشکل ہے۔‘‘ وہی خاتون پھر سے بولیں۔

باجی نے ذرا توقف کیا پھر کہنے لگیں۔ ’’ایک عام مڈل کلاس شخص کے لیے یہ تھوڑا مشکل تو ہوسکتا ہے لیکن ناممکن ہرگز نہیں۔ جہاں کہیں پانی کا نظم کیا جا رہا ہو تو اس میں اپنی کسی بھی طرح کی شرکت سے اس میں حصہ لیا جاسکتا ہے۔ مثلاً کہیں بورنگ ہو رہی ہو یا سبیلیں لگ رہی ہوں تو جسمانی محنت یا روپے دے کر بھی اس اجر میں شامل ہوا جاسکتا ہے۔‘‘

’’ہاں، یہ ممکن ہے اور آسان بھی۔‘‘ وہ عورت کچھ مطمئن ہوئی لیکن وہیں باجی کی کام والی ماسی بھی اجتماع میں سر پر میلا ددو پٹہ ڈالے بیٹھی تھی اور کافی دلچسپی سے یہ ساری باتیں سن رہی تھی، کہہ اٹھی۔

’’لیکن ہمارے لیے تو یہ بھی ناممکن ہے باجی۔ ہمارا گھر تو خود دوسروں کی خیرات پہ چلتا ہے میں بھی اپنے ابا کے ایصال ثواب کے لیے پانی کا صدقہ کرنا چاہتی ہوں لیکن غریبوں کے لیے تو شاید کوئی راہ بچی ہی نہیں۔‘‘

اس لڑکی کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں جسے اس نے اپنے میلے بد رنگ دو پٹے سے رگڑ ڈالا۔

’’راہیں تو کھلی ہوئی ہیں بس جذبہ چاہیے۔‘‘

اس کے رونے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے وہ بدستور مسکرا رہی تھیں۔

’’تم‘‘ اپنے گھر کی چھت یا صحن میں پانی کا پیالہ رکھ سکتی ہو۔ تمہارے ابا کے لیے یہ بھی ایصالِ ثواب ہوگا کیوں کہ اولاد کی ہر نیکی کا اجر والدین کو ضرور ملتا ہے۔ جب پرندے اس سے پانی پئیں گے تو اللہ سے امید ہے کہ انہیں بھی اجر ضرور ملے گا۔‘‘

’’کیا؟‘‘ اس کا منہ کھل گیا اور آنکھیں جگمگا اٹھیں۔

’’ہاں! پرندوں کے لیے پانی کا پیالہ رکھنا، دانے وغیرہ ڈالنا، بچی ہوئی روٹی یا آٹے کی گولیاں بنا کر ڈالنا یہ پرندوں کے لیے وقف ہے اور ان کے لیے بہترین نظم بھی۔‘‘

وہ اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں کہہ رہی تھیں۔ خواتین کی آتش شوق یکایک بھڑک اٹھی تھی۔ سب بے حد دلچسپی سے سن رہی تھیں۔ پن ڈراپ سائیلنس تھا اور فائزہ … اس کا تو سارا وجود گویا سماعت بن گیا تھا۔ باجی اسی میلے دو پٹے والی لڑکی سے مخاطب تھیں۔ ’’اور اگر تمہیں کسی سے پتہ چلے کہ کہیں نل لگوایا جا رہا ہے یا کہیں بورنگ ہو رہی ہو یا کہیں واٹر کولر لگوایا جا رہا ہے تو تم اس میں اپنی استطاعت کے مطابق سو پچاس روپے یا چلو صرف دس روپے ہی دے دو تو اس طرح کے Contribution سے تم بھی اس ثواب کی حق دار بن سکتی ہو۔ اپنے گھر کے باہر کسی پرانی بالٹی یا ٹب کو بھر کر چوپایوں مثلاً بکری، گدھے وغیرہ کے لیے پانی رکھ سکتی ہو۔ اس پر بھی اجر ہے۔

یہ کام تو آپ تمام خواتین کرسکتی ہیں بلکہ بچوں کے ذریعے کروائیں تاکہ بچوں میں بھی خدمت خلق کا شعور وجذبہ پیدا ہو۔ او رپانی پلانے کے کام کو کمتر ہرگز نہ سمجھیں ہمارے دین میں جانور تک کو پانی پلانے کا اجر ہے۔ علمائے کرام کہتے ہیں کہ اگر سور کو ختم ہوکر نا ہو اور وہ پانی پی رہا ہو تب بھی اس کے پانی پینے تک انتظار کرنا چاہیے اور پھر مارنا چاہیے لیکن پیاسا نہیں۔

نبیؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جب کوئی آدمی اپنی بیوی کو پانی پلاتا ہے تو اسے اجر دیا جاتا ہے۔‘‘

ایک صحابی کہتے ہیں کہ یہ سن کر میں اٹھا اور اپنی بیوی کو پانی پلایا۔

’’میرے شوہر تو جی ہل کر خود پانی تک نہیں پیتے مجھے کیا پلائیں گے۔‘‘ ایک خاتون کے شکوے پر کچھ عورتیں دو پٹہ منہ میں دبا کر ہنسنے لگیں۔

اسے نظر انداز کر کے باجی نے پانی پلانے پر مزید کچھ احادیث بیان کیں۔ انھوں نے پانی پلانے والی ایک بدکار عورت اور پیاسے کتے کو سیراب کرنے والے شخص کا واقعہ بھی سنایا جنھیں اللہ تعالیٰ نے صرف پانی پلانے پر بخش دیا تھا۔

فائزہ مبہوت تھی۔ اجتماعات میں اس طرح ’’کرنے کے کام‘‘ بھی بتائے جاتے ہیں، آج معلوم ہوا تھا۔ آج شاید پہلی دفعہ اسے نیند نہیں آئی تھی بلکہ وہ وہاں بیٹھے بیٹھے خود کو کافی چاق و چوبند محسوس کر رہی تھی۔

اجتماع سے واپس آنے کے بعد تو وہ ایک الگ ہی جہان میں تھی۔ اس کا موڈ یک دم خوش گوار ہوگیا تھا۔ اس کے وجود پر چھائی یاسیت کے بادل یکایک چھٹ سے گئے تھے۔

گھر آکر اس نے پہلا کام یہی کیا کہ اسٹور روم میں جاکر مٹی کی ایک ہنڈیا نکال لائی۔ دادی ایک زمانے میں اس میں دہی جمایا کرتی تھیں۔ اس نے اسے پانی سے لبالب بھرا اور ٹیرس کی دیوار پر رکھ آئی۔اس عمل سے اسے یک گونہ سکون و طمانیت کا احساس ہوا۔ اس کی بدلی کیفیت محسوس کی جاسکتی تھی۔ ممانی کے بھائی کی شادی کا دن آپہنچا تھا۔ صبا کو ابھی بھی نقاہت ہو رہی تھی۔ طے پایا کہ وہ، امی اور فضا آپو مہران کے ساتھ بالا پور جائیں گے۔ آج مہران کا اپنے دوستوں کے ساتھ ’’سوایہ نالہ‘‘ (آکولہ کے قریب واقع پرفضا مقام) کے جھرنے میں Swiming کا پروگرام تھا جو تایا جان کے حکم پر کینسل کرنا پڑا تھا۔ سو وہ ویسے ہی چڑا ہوا تھا۔ اور تنے ہوئے تاثرات کے ساتھ فائزہ کو دیکھ رہا تھا جو یکے بعد دیگرے پانی کی تین بڑی بڑی بوتلیں بھر لائی تھی اور گاڑی میں رکھنے لگی تھی۔ ’’آپ کہیں تو ’’فریش ایکوا‘‘ کی پوری پندرہ لیٹر کی کین ساتھ لے لیتے ہیں۔‘‘اس نے طنزیہ کہا۔

’’لے لیتے۔‘‘ اس نے اطمینان سے جواب دیا۔ ’’لیکن گاڑی میں جگہ نہیں ہے۔‘‘

’’صرف ایک گھنٹے کا سفر ہے فائزہ آپو۔‘‘ وہ بھنا رہا تھا۔ ’’اور ہم وہاں کسی بیاباں جنگل میں نہیں جا رہے ہیں وہاں پہنچتے ہی ہمیں کھانا پانی سب مل جائے گا۔‘‘

’’لیکن کیا پتہ راستے میں کوئی پیاسا مسافر مل جائے جسے پانی کی ضرورت ہو۔‘‘

وہ بہت سنجیدگی سے کہہ رہی تھی۔

’’اب بحث بند کرو۔ فائزہ صحیح کہہ رہی ہے۔‘‘ فضا آپو اس کی سائیڈ نہ لیں، ناممکن تھا۔

اب کے وہ کچھ نہیں بولا تھا لیکن ناراضگی اس کے چہرے سے ظاہر تھی۔ اس کی ناراضی کو فضا آپو نے اس کے بگڑے موڈ پر محمول کیا، جو پکنک کا پلان چوپٹ ہوجانے کی وجہ سے خراب ہوگیا تھا۔

’’گھر کا اکلوتا بیٹا ہونا نری مصیبت ہے۔‘‘ یہ جملہ تو وہ صبح و شام کے اذکار کی طرح دہراتا تھا۔

گھر کے اندر و باہر کے ہر چھوٹے بڑے کام کے لیے اس کا نام پکارا جاتا تھا۔ اور مہران اگر اکلوتا تھا تو ذمہ دار بھی بہت تھا۔ وہ اپنے فرائض نبھانے میں کبھی نہیں چوکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ تایا جان خواتین کو حفاظت سے لے جانے کی ذمہ داری اسے سونپ کر قدرے بے فکر اور مطمئن ہو جاتے تھے۔ لیکن جب وہ اسے بہنوں کے ساتھ زبردستی کہیں بھیجتے تو اکثر اسے اپنے اکلوتے ہونے کا قلق ستانے لگتا۔ ستم تو یہ بھی تھا کہ ساری خواتین اس سے بڑی تھیں اور اس کی ایک نہیں چلنے دیتی تھیں۔ پھر بھی وہ صبا اور فائزہ پر کسی طرح اپنا غصہ نکال ہی لیتا تھا۔ اور ان کی اس طرح کی حرکتوں سے نالاں رہتا تھا جیسے ابھی صرف ایک گھنٹے کے سفر میں پانی کی دو دو لیٹر والی تین بوتلیں ساتھ رکھنا اس کی سمجھ سے بالکل باہر تھا۔ خود پر ضبط کر کے وہ ڈرائیونگ سیٹ پر آبیٹھا۔ اس کے بازو فرنٹ سیٹ پر آمنہ چچی بیٹھی تھیں۔

حسب معمول فضا آپو کے ساتھ انس بھی آیا ہوا تھا اور پارٹی ویئر تھری پیس سوٹ میں بہت ہی پیارا لگ رہا تھا۔

فائزہ اور فضا آپو پچھلی سیٹ پر ونڈو سائیڈ پر بیٹھیں۔ درمیان میں فضا آپو نے انس اور یاسر کو بٹھایا تھا۔

ابھی وہ انی کٹ (Anicutt) پولیس لائن تک ہی پہنچے تھے کہ رش کی وجہ سے گاڑی کی اسپیڈ بالکل کم کردینی پڑی۔

فائزہ کھڑکی سے باہر ہی دیکھ رہی تھی۔ روڈ کی ایک کنارے بہت بڑا سا پنڈال لگا ہوا تھا وہاں ٹیبلز کی لمبی قطاروں پر بے شمار ٹھنڈے پانی کی کینیں رکھی ہوئی تھیں۔ کچھ والینٹرز وہاں سے گزرتے تمام راہ گیروں کو پانی کا گلاس پیش کر رہے تھے۔ اور سب کو پانی پلا رہے تھے۔ چند دوسرے والینٹرز ہر آ آتے جاتے شخص کو مٹی کے چھوٹے باؤلز بھی دیتے جا رہے تھے۔

فائزہ متجسس ہوکر قدرے آگے کو جھکی اور سننے کی کوشش کرنے لگی۔ ایک اورنج ساڑی والی عورت کو وہ شخص مٹی کا پیالہ تھماتے ہوئے کہہ رہا تھا۔

’’پلیز بہن جی اس میں پانی بھر کر پکشیوں کے لیے اپنے ٹیرس پر رکھیں۔‘‘

اس نے بے تحاشا حیرت سے یہ منظر دیکھا تھا۔ وہ دم بخود بیٹھی بہت اچنبھے سے انہیں تکے جا رہی تھی۔ کڑکتی دھوپ تھی اور والینٹرز (رضاکار) سروں پہ ہیٹ پہنے بہت دل جمعی سے اپنا کام انجام دے رہے تھے۔ جس شخص نے اس ساڑی والی عورت کو پیالہ دیا تھا وہ ان کی کار سے کچھ قریب تھا۔ اپنے ماتھے سے پسینہ پونچھتے ہوئے وہ کسی بھی راہ گیر کو بغیر پیالہ دیے نہیں جانے دے رہا تھا۔ بقیہ سب بھی مستعد تھے۔ ان کے چہرے پر اپنے کام کے تئیں لگن اور اندرونی مسرت صاف دکھائی دے رہی تھی۔

فائزہ نے اس بڑے اور عارضی Tent (پنڈال) پر لگے بینر کو پڑھنے کی سعی کی لیکن بینر ہوا سے لہرا رہا تھا وہ دیکھ نہیں سکی کہ یہ سارا انتظام کس کے زیر اہتمام کیا جا رہا تھا۔ لیکن ایک چیز واضح تھی کہ یہ نظم چاہے کسی نے بھی کیا ہو، لیکن وہ مسلم ہرگز نہیں تھے۔ وہ اپنے حال حلیوں اور بات چیت سے غیر مسلم ہی لگ رہے تھے۔

“It is organised by Dainik Bhasker Team”

مہران نے انہیں اطلاع دینے والے انداز میں کہا۔ فائزہ اس کی آواز پر ایک لمحے کے لیے اس کی طرف متوجہ ہوئی اور پھر سے بینر پڑھنے کی کوشش کی۔ بینر اب بھی ہل رہا تھا۔

’’پچھلے ہی ہفتے انھوں نے ’’جئے ہند چوک‘‘ پر ہر آتے جاتے رکشا والوں کو سفید رومال مفت تقسیم کیے تھے، جو بے چارے سارا دن دھوپ میں محنت و مشقت کرتے ہیں۔‘‘ مہران مزید کہہ رہا تھا۔

’’اچھا۔‘‘ فضا آپو اور امی بھی اسی طرف متوجہ تھیں۔

’’غیر مسلم تنظیمیں کیا کیا کام کر رہی ہیں اور ایک ہم ہیں‘‘ وہ سر جھٹک کر بڑبڑایا اور گاڑی کی اسپیڈ بڑھا دی۔

’’اس دن کے اجتماع میں بھی باجی نے پانی پلانے پر ہی درس دیا تھا۔‘‘ امی انہیں اجتماع میں بتائی گئی باتیں دہرانے لگیں۔

کار سڑک پر تیز رفتار سے دوڑ رہی تھی۔ اسے سفر کرنا بہت پسند تھا۔ سفر میں وہ ہمیشہ ونڈو سے باہر دیکھتے ہوئے موسم اور منظر انجوائے کرتی تھی۔ اسے ان لوگوں پر سخت حیرت ہوتی تھی جو دن کا سفر سوتے میں گزارتے ہوئے اس لطف سے محروم ہو رہتے ہیں اور بہت کچھ سیکھنے، سمجھنے اور دیکھنے کے مواقع کھو بیٹھتے ہیں۔

گرم ہوائیں چلنا شروع ہوگئی تھیں۔ درخت تیزی سے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ دو رکہیں دیرانے مضافات میں جہاں کوئی چھوٹی موٹی بستی بھی نہ تھی وہیں ایک پکے سیمنٹ سے بنے شیڈ کے اندر چند پانی کی ٹنکیاں نظر آنے لگیں۔ ٹنکیوں پر بڑے بڑے حرفوں میں ’’پینے کا پانی‘‘ لکھا ہوا تھا۔ اور سمنٹ کے اس شیڈ پر پینٹ سے تحریر تھا۔ ’’مراٹھا سیوا سنگھ پان پوئی سیوا۔‘‘

کار آگے بڑھتی رہی اور وہ اسی مختصر شیڈکو دیکھتی رہی تاوقتے کہ وہ نگاہوں سے اوجھل ہوگیا۔

وہ ہمیشہ سفر کا لطف اٹھاتی تھی لیکن آج ایسا نہیں ہو رہا تھا۔ اس کے سینے پر کوئی بوجھ سا آپڑا تھا۔ پانی پلانا سب سے افضل صدقہ تھا۔ اور یہ کام غیر لوگوں کے ذریعے ہو رہا تھا۔ وہ کچھ اب سیٹ ہوگئی تھی۔

سڑک پر آگے بہت آگے اسے ایک عورت و مرد تقریباً تین سالہ ایک بچے کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔ وہ دونوں آنکھوں پر ہاتھوں کا چھجا بنائے کبھی دائیں اور کبھی بائیں طرف دیکھ رہے تھے۔ فاصلہ ذرا کم ہوا تو اس نے مہران کو کار روکنے کو کہا۔ ’’گاڑی کیوں رکوا رہی ہیں ہم انہیں لفٹ نہیں دے سکتے۔‘‘

’’تم گاڑی روکو۔‘‘ اس نے حتمی انداز میں کہا تو لب بھیج کر اس نے کار روک دی۔ وہ عورت اور مرد بھی انہیں سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگے۔

’’کیا کوئی پرابلم ہے؟‘‘ مرد ہونے کے ناطے مہران کو پوچھنا پڑا۔

’’کوئی پرابلم نہیں ہے… ہم بس کا انتظار کر رہے ہیں۔ بس اب آتی ہوگی۔‘‘

’’آپ پانی پی لیجیے۔۔۔ اتنی دھوپ میں کھڑے ہیں۔‘‘

فائزہ نے کار سے اتر کر پانی کی بوتل ان کی طرف بڑھائی۔

’’پانی ہے ہمارے پاس۔‘‘

’’لیکن یہ ٹھنڈا پانی ہے۔‘‘ اس نے اصرار کیا۔ بچہ اس کے برقع سے ڈر کر ماں کو جاچپکا تھا۔ ماں نے بھی اسے ایسے گلے سے لگا لیا جیسے وہ اسے ان سے چھیننے لگے ہوں۔ ’’ہمارے پاس بھی چلڈ واٹر باٹل ہی ہے۔‘‘

اب کی بار اس شخص نے اسے باقاعدہ بیگ سے نکال کر بوتل دکھائی تھی اور انداز ایسا تھا کہ ہماری جان چھوڑو۔ فائزہ پر گھڑوں پانی پر گیا تھا۔ اوپر سے مہران کی کچکچاتی نظریں۔

’’پڑگئی آپ کے سینے میں ٹھنڈک۔‘‘ گاڑی کو سڑک پر اسپیڈ میں ڈال کر وہ الفاظ چباتا ہوا بولا۔ ’’کیسی ایمبیرسنگ سچوئیشن تھی۔ وہ شخص مشکوک نگاہوں سے دیکھ رہا تھا ہمیں۔ مجھے سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ آخر آپ میں سب کو پانی پلانے پر کیوں مصر ہیں؟‘‘

اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ مہران کو کیا پتہ تھا کہ پیاس کیا ہوتی ہے۔ اگر ان مسافروں کے پاس پانی نہ ہوتا تو وہ اسے بوتل دینے پر سر آنکھوں پر بٹھا لیتے۔

’’گاڑی روکیں پلیز گاڑی روکیں۔‘‘

انس پیٹ پکڑ کر اچانک چلانے لگا تھا۔ مہران نے گھبرا کر کار روک دی۔

’’کیا ہوا؟‘‘

’’مجھے سوں سوں کرنا ہے۔‘‘ انس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ بہ مشکل کنٹرول کر رہا تھا۔ فضا آپو نے بہ عجلت تمام ڈور کھولا اور اسے باہر نکال کر فارغ کیا۔ انس اب ونڈو سیٹ پر تھا اور اپنا ہاتھ باہر لہراتے ہوئے کوئی پوئم گنگنا رہا تھا۔ مہران اور آمنہ چچی اسے ہاتھ اندر لینے کے لیے کئی بار ٹوک چکے تھے۔

’’چچی۔‘‘ دس منٹ بھی گزرنے نہ پائے تھے کہ انس کی دل فگار چیخ سے زمین اور آسمان دہل گئے۔ مہران کا پیر بریک پہ جا پڑا۔ انس چلا چلا کر رونے لگا تھا۔ فضا آپو کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ فائزہ اور مہران دروازہ کھول کر تیزی سے انس کی سائیڈ پر آئے۔ اس کا رونا دھونا کم نہیں ہو رہا تھا۔

آپو اسے پچکار رہی تھیں۔ ’’کیا بات ہے بیٹے بتاؤ…‘‘

’’یہ دیکھیں…‘‘ اس نے اپنا ہاتھ آگے کیا۔

’’کوے نے میرے ہاتھ پر چھی چھی کردی ہے…‘‘ وہ شدید صدمے کے زیر اثر تھا۔

مہران کا غصہ ساتویں آسمان کو چھونے لگا۔ فضا آپو نے انس کا ہاتھ دھلا کر واپس کار میں بٹھایا تو وہ پھٹ پڑا۔

’’اس مصیبت کو کیوں ساتھ لے آئیں آپ۔‘‘

’’ایک گھنٹے کے سفر میں تین بار اسٹے کر چکے ہیں ہم۔ اتنا بریک تو ہم نے اس وقت بھی نہیں لیا تھا جب آکولہ سے ممبئی پورے بارہ گھنٹے سفر کیا تھا۔ یہ کیا ہے کبھی سو سو کبھی چھی چھی۔‘‘ ناک چڑھا کر اس نے مری سی صورت بنائی۔

’’تم زیادہ تاؤ مت دکھاؤ۔ چھوٹا بچہ ہے وہ اور بچوں کے ساتھ ایسے حالات ہوتے ہی ہیں۔‘‘ فضا آپو برہمی اور ترش روئی سے بولیں۔

’’کب سے نوٹس کر رہی ہوں تمہیں… تمہارے تو مزاج ہی نہیں مل رہے۔ کبھی فائزہ پر بگڑ رہے ہو کبھی بچے پہ برس رہے ہو۔ فائزہ اگر ان مسافروں کو پانی پلانا چاہتی تھی تو یہ اس کی اچھائی ہے۔ اور قابل ستائش ہے قابل گرفت نہیں۔ اور اگر وہ اس پر شک کر رہے تھے تو یہ ان کی برائی تھی۔ اس میں فائزہ کا کیا قصور۔

تم اگر ہمیں نہیں لے جانا چاہتے تو ہم لوگوں کو یہیں اتار کر واپس چلے جاؤ۔ ہم بس پکڑ لیں گے۔ اور آئندہ کے لیے بھی میں ابو سے کہہ دوں گی کہ یا تو ہمیں خود لے جایا کریں یا پھر ہمارے لیے کسی ڈرائیور کا انتظام کردیں۔ کم از کم اتنی باتیں تو نہ سننی پڑیں گی۔‘‘

آپو سخت ناراض ہوگئی تھیں۔ مہران دھیما پڑ گیا۔

’’ابو سے کچھ مت کہئے گا۔‘‘ اسے بھی شاید اپنے ناروا رویے کا احساس ہوگیا تھا۔ مدہم لہجے میں ندامت سے بولا تھا۔

پھر واقعی وہ سارے راستے ذرا سا بھی ناراض نہیں ہوا اور اسی شرافت سے سر شام انہیں واپس لے آیا۔

٭٭٭

’’فائزہ صبح شام ٹیرس پر چڑھتی مگر کوئی پرندہ اس کے پیالے سے پانی پیتا نہیں دکھائی دیتا تھا۔ اب تو کافی دن ہوچکے تھے۔ آج صبح بھی وہ ٹیرس پر کھڑی ارد گرد کا نظارہ کر رہی تھی کہ ان کے پڑوسی شوکت انکل کی چھت پر نگاہ پڑی۔ شوکت انکل کی چھت پر پانی سے لبریز تین پیالے تھے۔ وہ بچپن سے دیکھتی آرہی تھی شوکت انکل سالہا سال سے پرندوں کے لیے پانی کا نظم کیے ہوئے تھے اور بڑی فکر سے دونوں وقت ان میں پانی بھرا کرتے تھے۔

پرندوں کے پر پھڑپھڑانے کی آواز پر فائزہ ادھر متوجہ ہوئی تھی۔ تینوں پیالوں پر پرندے بیٹھے سیراب ہو رہے تھے بلکہ پتھر کے ایک بھاری بھرکم پیالے پر تو بیک وقت دو کبوتر بیٹھے اپنی پیاس بجھا رہے تھے۔ فائزہ ہمہ تن چشم بن گئی تھی۔ بڑا ہی خوب صورت منظر تھا۔ کبوتر پیالے میں چونچ ڈال کر پانی لیتا اور نگلنے کے لیے آسمان کی طرف سر اٹھاتا۔ پھر اگلی بوند کے لیے چونچ پیالے میں ڈالتا۔

شوکت انکل کے پیالے کافی بڑے بڑے تھے۔ پانی پیتے پیتے ایک چڑیا اس میں گر گئی تھی پہلے تھوڑا گھبرائی اور پھر پر پھڑپھڑاتے ہوئے باقاعدہ نہانے لگی۔

گملوں میں لگائے گئے ہرے بھرے پودوں پر طرح طرح کے پھول کھلنے لگے تھے۔ پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو، پرندوں کی چہچہاہٹ اور ان کی سر مستیاں بہت دلفریب و حسین نظارہ تھا۔ دو کبوتر، ایک کوا اور ایک چڑیا سب وہاں سے پانی پی رہے تھے۔اس نے بہت اشتیاق سے یہ منظر دیکھا پھر یکبارگی اس کا دل افسردہ ہوگیا۔اس نے حسرت بھری نگاہ اپنے ’سنسان‘ پیالے پر ڈالی۔ ’’اے اللہ! پرندوں کو میرے گھر کا راستہ دکھادے۔‘‘وہ اس وقت کچھ ایسی دلبرداشتہ تھی کہ اپنی کیفیت دادی سے چھپا نہیں سکی۔ ’’شوکت کے پیالے برسوں سے رکھے ہوئے ہیں۔ اور اگر پرندوں کو پانی پینے کی جگہ ایک بار معلوم ہوجائے تو وہ وہیں آجاتے ہیں۔ دھیرے دھیرے ہمارا گھر بھی پرندوں کی نظر میں آجائے گا۔ اگر پرندے فی الحال پانی نہیں بھی پی رہے تب بھی تمہیں پانی رکھنے کا اجر ضرور ملے گا۔ اللہ بہت وسعتوں والا ہے میری بچی! وہ تو صرف نیتوں پر بھی اجر دے دیتا ہے۔‘‘

٭٭

’’امن ٹی وی اردو‘‘ پر علی الصبح روزانہ تلاوتِ قرآن مع ترجمہ نشر کی جاتی تھی۔ دادی اس پروگرام کو پابندی سے دیکھتی تھیں۔ چند دن قبل سے اس چینل پر ’’سیرت سیریز‘‘ شروع ہوئی تھی۔ کافی دلچسپ پروگرام تھا اور ناشتہ کے دوران فائزہ بھی اس سے استفادہ کرتی تھی۔ بجھے بجھے انداز میں اس نے ٹی وی آن کیا۔ گولڈن شیروانی والے مولانا حسین خاں نے نیا سبق شروع کر دیا تھا۔ ’’اللہ اپنے پسندیدہ بندوں پر ہی آزمائش ڈالتا ہے۔ ہر شخص اپنے دین کے اور اپنے ایمان کے مطابق آزمایا جاتا ہے اور اگر وہ کسی بڑی مصیبت میں گرفتار ہو جاتا ہے تو یہ انسان کا امتحان ہوتا ہے اور اس آزمائش کے پیچھے کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے۔ آزمائش انسان کو گناہوں سے پاک کرتی ہے اور انسانی ترقی و تزکیے کا ذریعہ ہے۔

جو رَب اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے وہ اپنے ہی پیاروں کو عذاب میں ڈال کر کیا کرے گا؟‘‘

چائے پراٹھے سے ناشتہ کرتی فائزہ ساکت ہوگئی۔ ہر لفظ جیسے اسی سے کہا جا رہا تھا۔ اس کے بارے میں کہا جا رہا تھا۔

’’جسے ہم عذاب سمجھ رہے ہوتے ہیں کبھی کبھی وہی ہمارے لیے خیر کا راستہ کھولتا ہے۔ وہ مصیبت ایک وارننگ ہوتی ہے، ایک تنبیہ ہوتی ہے اور ایک الارم ہوتا ہے کہ ہم کہیں غلط جا رہے ہیں۔ جہاں ہمیں نہیں جانا تھا۔

’’صدمے انسان کو جگاتے ہیں اور غمگین و اُداس دل میں ایمان کی لذت محسوس ہوتی ہے پھر انسان صبر کا پہاڑ بن جاتا ہے۔ شاک لگنے کے بعد آپ میں Awareness آتی ہے۔ کبھی کبھی کوئی ناخوشگوار واقعہ ہمیں ہلا ڈالتا ہے جس سے انسان کی زندگی کا رخ مڑ جاتا ہے۔ بعض غم انسان کی پوری شخصیت کو تبدیل کردیتے ہیں اور انسان سے وہ کام کرالیتے ہیں جو عمومی حالات میں وہ نہیں کر سکتا۔‘‘ اب بھی مخاطب شاید وہی تھی۔ فائزہ ناشتہ کرنا بھول گئی۔

’’حادثات غیر سنجیدہ، شخص کو سنجیدہ اور ذمہ دار بنا دیتے ہیں، جس نعمت کی پہلے قدر نہ تھی دھیرے دھیرے اس کی قدر آنے لگتی ہے۔ جس مصیبت کو آپ اپنے حق میں شر سمجھ رہے ہیں، عذاب یا سزا سمجھ رہے ہیں اس میں لازما کوئی خیر ہے یقینا کوئی بھلائی ہے جو عموماً انسان کی نظروں سے وقتی طور پر اوجھل ہوتی ہے لیکن آگے چل کر اس کے دور رس نتائج نکلتے ہیں۔سیرت سے بھی اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔

ایک سفر میں جب عائشہؓ کا ہار گم ہوا قافلے کو کوچ کرنے میں دیر ہوئی عصر کی نماز کا وقت تنگ ہونے لگا اور وضو کے لیے پانی بھی میسر نہیں تھا تبھی اللہ تعالیٰ نے تیمم کا حکم نازل کیا، جس کی وجہ سے رہتی دنیا تک لوگوں کو سہولت مل گئی۔مثلاً واقعہ افک جو حضرت عائشہ کے لیے بے حد تکلیف دہ تھا لیکن کتنی بڑی خیر اس سے تمام مسلمانوں اور خود عائشہؓ کے لیے نکلی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی برأت میں پوری کی پوری دس آیتیں نازل کیں۔‘‘

اس سے بڑے اعزاز کی بات کسی عورت کے لیے اور کیا ہوگی کہ رب کائنات اس کا دفاع کر رہا ہے۔ حضرت عائشہؓ کا تذکرہ قیامت تک قرآن میں باقی رہ گیا جب کہ عائشہؓ کو وہ آزمائش اس وقت سب سے بڑی مصیبت لگ رہی ہوگی۔

’’ایک بات یاد رکھیں ناظرین اس بڑی مصیبت میں مبتلا انسان اپنی کم سمجھی میں اللہ سے ناراض ہو بیٹھتا ہے لیکن جانتا نہیں کہ آزمائش میں ڈال کر اللہ ہر انسان کو کسی مقصد کے لیے تیار کر رہا ہوتا ہے۔ کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے اس سے۔اگر آپ بھی کسی خاص مصیبت میں گرفتار ہیں یا کوئی غیر معمولی واقعہ آپ کے ساتھ پیش آیا ہے تو جان لیں کہ رو دھوکر اور اداس رہ کر مسئلے کا حل نہیں ملے گا۔ آپ کے ساتھ کچھ ایسا ہوا ہے جو دوسروں کے ساتھ نہیں ہوا تو اس مقصد کو کھوجیں، سمجھیں اور ڈھونڈھیں کہ آپ کو اب کیا کرنا ہے…‘‘

ٹی وی اسکرین پر منظر تبدیل ہو چکا تھا۔ پروگرام ختم ہوگیا تھا اور اسکرین پر تھرکتی تصویریں دیکھتی ہوئی وہ بالکل ساکن تھی۔ لیکن یہ سکوت اس کے اندر طاری نہیں تھا۔ کچھ تصاویر اس کے ذہن کے پردے پر بھی چل رہی تھیں۔

پانی تلاشتی دو نازک لڑکیاں… پیاس کے مارے تڑپتا کبوتر گیلی مٹی چاٹتی بکری، بس تھپتھپاتا گاڑی کو آگے بڑھانے کا اشارہ دیتا بس کنڈیکٹر… نیم پلیٹ پر لکھا ’’بھگوان داس شرما‘‘ وہ ٹھنڈا میٹھا جنت کا گھونٹ۔

ان تھرکتی ناچتی تصویروں میں سے اب صرف دو تصویریں یکے بعد دیگرے چلنے لگیں۔ پانی پلاتے ڈھیر سارے والینٹرز اور پیاس کی شدت سے بے چین موت کے خوف سے روتی سسکتی فائزہ… صرف یہی دو منظر آپس میں گڈمڈ ہونے لگے۔ کڑکتی دھوپ میں دلجمعی اور دل کی تمام تر آمادگی کے ساتھ تشنہ لب مسافروں اور راہ گیروں کو پانی کا گلاس پیش کرتے رضا کار۔ اور پانی کے ایک گلاس کے لیے بے حال ہوتی بلکتی فائزہ۔

اب بیک گراؤنڈ میں کچھ آوازیں بھی سنائی دینا شروع ہوگئی تھیں۔

’’آہ… پانی…؟؟ میں اب مزید پیاس برداشت نہیں کرسکتی۔‘‘

’’بھگوان داس شرما۔‘‘ کیا تم ایک ہندو کے گھر کا پانی پیوگی؟؟‘‘

’’یہ پانی آپ لوگوں کے لیے ہی رکھا ہوا ہے۔‘‘

’’یہ باؤل ہم نے پکشیوں کے لیے رکھا ہے۔‘‘

’’اللہ پانی پلانے والے کو قیامت تک اجر دیتا ہی رہے گا۔ امیزنگ۔‘‘

’’پلیز بہن جی اس میں پانی بھرکر پکشیوں کے لیے اپنی ٹیرس پر رکھیں۔‘‘

’’آپ کے ساتھ کچھ ایسا ہوا ہے جو دوسروں کے ساتھ نہیں ہوا تو اس مقصد کو کھوجیں اور سمجھیں کہ اب آپ کو کیا کرنا ہے۔‘‘

ناشتہ ادھورا رہ گیا تھا۔ پلیٹ سرکا کر وہ اٹھی اور پرعزم انداز میں کمرے سے باہر نکل گئی اس کی سمجھ میں آگیا تھا کہ اسے کیا کام کرنا ہے۔

٭٭

جب سیدنا سعد بن عبادہؓ نے نبی اکرمؐ سے پوچھا کہ میری والدہ کی طرف سے سب سے افضل صدقہ کون سا رہے گا تو رسولِ اکرمؐ نے فرمایا تھا۔ ’’پانی پلانا۔‘‘

اس کا قلم تیزی سے چل رہا تھا۔

نبیؐ نے کیوں پانی پلانے کو سب سے بڑی نیکی اور فضیلت والا کام بتایا تھا…؟وہ قلم کا پچھلا حصہ لبوں میں دبائے سوچنے لگی… پھر لکھنا شروع کیا۔

’’شاید اس لیے کیوں کہ پانی کے بنا کوئی جاندار زندہ رہ ہی نہیں سکتا۔ لیکن اسے صدقہ کیوں کہا گیا ہے۔ صدقہ کیا ہوتا ہے، کیا کرتا ہے، کیا فائدے ہیں اس کے… اب اس کا دماغ الجھنے لگا تھا۔

اس نے جھنجھلا کر کاغذ قلم ایک طرف ڈالا اور کچھ کتابیں چھاننے لگی۔ اس سے بھی مطمئن نہیں ہوئی تو انٹرنیٹ کا سہارا لیا لیکن وائی فائی کا نیٹ ورک کچھ ویک تھا۔

وہ پھر کچھ بے ربط الفاظ لکھنے لگی…

پانی پلانا سب سے افضل صدقہ ہے۔۔۔ صدقہ وہ ہوتا ہے جو بلاؤں اور مصیبتوں سے انسان کا بچاؤ کرتا ہے۔

٭ صدقہ اللہ کے غضب کو ٹھنڈا کر دیتا ہے۔

٭ صدقہ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا۔

٭ صدقہ بری موت کو ٹالتا ہے۔

٭ صدقہ کرنے والے کے لیے فرشتے تک دعائیں کرتے ہیں۔

٭ اللہ کی راہ میں دیا گیا کھجور کی گٹھلی برابر صدقہ اللہ کے یہاں پہاڑ جتنا بن کر قبول کیا جاتا ہے۔۔

اس نے اپنے لکھے ہوئے پر نظر ثانی کی اور غیر مطمئن سی کرسی کھسکا کر اسٹڈی ٹیبل سے اٹھ گئی۔

کچھ ہی دیر بعد وہ باجی کے گھر کے گیٹ کے باہر کھڑی تھی۔ باجی جنہیں اب آنٹی کہنا زیادہ مناسب تھا بھاری بھرکم وجود والی ایک دین دار خاتون تھیں جو محلے میں باجی کے نام سے ہی جانی جاتی تھیں۔ ان کی اکلوتی اولاد نصریٰ باجی تھیں اور فائزہ اس وقت بطور خاص نصریٰ باجی سے ملنے آئی تھی۔ نصریٰ باجی اس وقت اپنے آنگن میں کیاریوں میں لگے پودوں کو پائپ سے پانی دے رہی تھیں۔ وہ گیٹ کھلنے کی آواز پر فائزہ کی طرف متوجہ ہوئیں اور مسکرا کر اس کا خیر مقدم کیا۔ ڈرائنگ روم کا کولر آن کر کے انھوں نے اسے پانی کا گلاس پکڑایا۔ اس نے پینے سے انکار کیا تو وہ متبسم ہوئیں۔

’’ عجلت میں آئے ہوئے مہمان کی ضیافت ہم بھلے ہی نہ کریں لیکن اسے پانی ضرور پیش کرتے ہیں۔ چند گھونٹ ہی پی لو تا کہ ہمیں بھی اجر مل جائے۔‘‘

چہرے پہ پھیلی مسکراہٹوں نے ان کی شخصیت میں جاذبیت سی بھر دی تھی۔ دھیما دھیما پرخلوص سا لہجہ، نگاہوں میں سادگی، تصنع اور بناوٹ سے قطعاً پاک چہرہ فائزہ ان کے گھر بہت ہچکچاتے ہوئے آئی تھی لیکن انھوں نے اس کی ساری Hasitation دور کردی تھی۔

’’اس دن اجتماع میں آپ نے جو احادیث بیان کی تھیں کیا مجھے ان کے references مل سکتے ہیں؟‘‘

ادھر ادھر کی مختصر باتوں کے بعد اس نے جھجکتے ہوئے اپنی آمد کا مقصد بیان کیا تھا۔

’’کیوں نہیں؟‘‘

بغیر اس سے کوئی سوال جواب کیے وہ بہ مشکل اٹھیں اور چند صفحات لاکر اس کے حوالے کردیے۔ اس نے مختصراً اپنا پلان انہیں بتایا، جسے سن کر وہ بے پناہ خوش ہوئیں اور اسے یقین دلایا کہ وہ اسے ہر ممکن سپورٹ کریں گی۔

’’اگر زحمت نہ ہو تو اپنے مضمون کی ایک کاپی مجھے بھی دے دینا۔‘‘

فائزہ ان کے پرکشش نقوش اور گلاب نما چہرہ دیکھتی رہ گئی۔ کیا عاجزی تھی! مضمون کے سارے Contents تو وہ انہی سے لے کر جا رہی تھی، ان کی شخصیت سے وہ متاثر تھی ہی اب محبت بھی محسوس ہونے لگی تھی۔

گھر آکر اس نے وہ ساری احادیث یکجا کیں، کچھ ترتیب بدلی اور نصری باجی نے اسے جو چند Points بتائے تھے وہ اور پھر کچھ اپنی باتیں اچھے طریقے سے لکھ کر ایک دلآویز مضمون تیار کرلیا۔ تایا جان سے درخواست کر کے اس نے اس مضمون کے ایک دو نہیں پورے 5000 فولڈرز چھپوالیے، جو نمازِ جمعہ کے بعد تقسیم کردیے گئے۔

اس نے حسب وعدہ فولڈرز کی چند کاپیاں نصریٰ باجی کو بھجوا دی تھیں۔

تایا جان نے اس کی بہت حوصلہ افزائی کی تھی اور ایک واقعہ بھی اس سے شیئر کیا۔ ہم چھوٹے بچے تھے اور قریب کے گاؤں میں پیدل پڑھنے جاتے تھے۔ گرمی کے دن تھے اور اس دن تو بڑی شدید گرمی تھی۔ ہم تو بچے تھے وقفہ میں کھیلتے رہے مگر اس دن ہم نے ہر ایک کو یہ کہتے سنا کہ آج گرمی بہت زیادہ ہے۔

ہمارے راستے میں پیپل کا ایک پیڑ تھا جس پر بے شمار طوطے رہا کرتے تھے۔ شام کو جب ہم واپس آئے تو راستے میں جو پیپل کا پیڑ تھا اس کے نیچے پہنچ کر ٹھٹک گئے۔ ایک دو نہیں سینکڑوں کی تعداد میں طوطے مرے پڑے تھے۔ہم سمجھ نہ سکے اور ان مردہ طوطوں کے ساتھ ادھر ادھر پھینک پھانک کرنے لگے۔ چند منٹ بعد پیڑ سے کچھ گرنے کی آواز آئی ہم نے دیکھا کہ ایک طوطا مرکر زمین پر آن پڑا ہے۔ کوئی چار بجے کا وقت رہا ہوگا۔ راستہ ویران نہ انسان نہ پانی۔ ہر طرف سناٹا۔ ہم چند ساتھی کھیلتے کودتے راستہ سے گزر کر گھر پہنچ گئے۔ گھر پہنچتے ہی اپنی ماں کو کہتے سنا۔ ’’آج بڑی گرمی ہے۔‘‘

’’جب بڑے ہوئے تو معلوم ہوا کہ وہ پرندے یقینا اس دن کی شدید گرمی اور پانی نہ ملنے کے سبب مرے ہوں گے کیوں کہ طوطا نازک پرندہ ہے اور اس کی قوت برداشت کم ہوتی ہے۔

تایا جان کو اس کے مضمون کا خاص حصہ پسند آیا تھا وہ ایصالِ ثواب والا پوائنٹ تھا اور انھوں نے دادی کے سامنے دادا جان مرحوم کے ایصالِ ثواب کے لیے غریبوں کی بستی میں بورنگ کروانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔

مہران نے اس فولڈر کے مضمون کو مختصر کر کے انگلش میں ٹرانسلیٹ کیا اور اسے Blog بنا کر نیٹ پر ڈال دیا۔ فیس بک اور وہاٹس ایپ پر بھی وہ آرٹیکل وائرل ہوگیا۔ لیکن اس کے آخر میں فائزہ کا نام نہیں تھا۔ فولڈرز پر بھی اس نے اپنا نام نہیں لکھا تھا اور نام لکھنے کی چنداں ضرورت بھی نہ تھی۔ مگر چند دن بعد ہی نصریٰ باجی نے اپنے گھر بلا کر اسے ’’دینک بھاسکر‘‘ (اخبار) مسکراتے ہوئے تھمایا تو کچھ دیر بول ہی نہ سکی۔ اس نیوز پیپر میں وہ آرٹیکل ’’فائزہ حیدر‘‘ کے نام سے شائع ہوا تھا۔

’’دینک بھاسکر‘‘ ہندوستان کا سب سے زیادہ سرکولیشن والا اخبار تھا جو چھ زبانوں میں بیک وقت پورے ملک میں شائع ہوتا تھا۔ حیرت تو اسے اس بات پر تھی کہ اس کی وہ تحریر شائع کیسے ہوگئی تھی۔ احادیث کے ساتھ کسی بھی قسم کی چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی تھی ورنہ حذف و اضافہ کے نام پر اکثر ایڈیٹرز آرٹکلز میں ڈنڈی مار دیتے ہیں۔

فائزہ کو یہ سر پرائز نصریٰ باجی نے دیا تھا۔ دینک بھاسکر کے ایڈیٹر سے ذاتی طو رپر بات کر کے انھوں نے اسے چھپوایا تھا۔ وہ حیرت سے اس میں اپنا مضمون دیکھ رہی تھی۔ وہ کوئی رائٹر نہیں تھی اور نہ ہی لکھنا لکھانا اس کا کام تھا۔ لیکن دل میں اللہ نے نیکی کرنے کا جذبہ پیدا کیا تو قلم بھی چل پڑا۔

فائزہ نے وہ تحریر اردو میں لکھی تھی اور فولڈرز بھی اردو میں چھپوائے تھے جب کہ بھاسکر ہندی اخبار تھا۔ سچے دل اور خلوص سے کی گئی معمولی سی نیکی کو اللہ کس طرح شرف قبولیت عطا کرتا ہے۔ اس نے تو صرف 5000 فولڈرز چھپوائے تھے جن کا لاکھوں تک پہنچنا ناممکن تھا۔ لیکن اس کثیر الاشاعت اخبار میں اس کی اشاعت کے بعد افادیت یقینا کم از کم دس گنا بڑھ جاتی تھی اور اس کی افادیت کا سب سے بڑا پہلو یہ تھا کہ رسول اکرمﷺ کی احادیث لوگوں تک جائیں نہ جانے کون کون پڑھے اور کس کس کا دل بدلے۔

اکیلا تنہا انسان کوئی کام احسن طریقے سے نہیں کر سکتا۔ اجتماعیت پر اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے۔ کام تو اس نے اکیلے ہی شروع کیا تھا لیکن اللہ نے اسے سپورٹر عطا کردیے تھے۔

آکولہ ضلع کے میونسپل کمشنر (ہیڈ آف کمیٹی) صائم صاحب اور ان کے مہانگر پالیکا کے ارڈ ممبر ’’ڈبلیو سیٹھ‘‘ تایا جان کے خاص دوستوں میں سے تھے۔ نام تو ان کا ’’وقار الملک‘‘ تھا لیکن لوگ انہیں ’’ڈبلیو سیٹھ‘‘ کے نام سے ہی جانتے تھے۔

فائزہ نے ان کے ذریعے سبیلیں لگوانے کا مشورہ تایا جان کو دیا اور اس پر مصر بھی رہی۔ لیکن سچ پوچھیں تو اب تایا جان کو اصرار کی ضرورت نہ تھی وہ اپنے دل کی تمام تر آمادگی کے ساتھ اس کام کے لیے رضا مند تھے۔

مہاراشٹر کے چندر پور، ناگپور اور آکولہ میں گویا ایک ہوڑ (ریس) لگی تھی کہ کس روز کس شہر کی تپش زیادہ ہوتی ہے۔ مئی میں ضلع کلکٹر نے ریڈ الرٹ جاری کروادی تھی کہ سترہ مئی سے بائیس مئی تک عوام دن میں گیارہ بجے سے شام چار بجے تک شدید مجبوری اور ضرورت کے علاوہ گھر سے نہ نکلیں۔

ڈبلیو سیٹھ تایا جان کے صرف ایک بار کہنے پر ہی مان گئے تھے۔ ان کے ذہن میں بھی یہ پلان کئی دنوں سے تھا۔ شہر میں جابجا پانی کی سبیلیں لگ گئی تھیں۔اور فائزہ بے حد خوش تھی۔ اپنی چھت پر پانی کا پیالہ رکھ کر تو وہ سمجھ رہی تھی کہ بہت بڑا کارنامہ انجام دے لیا تھا لیکن بالا پور کے سفر کے دوران اس نے جو مناظر کو دیکھے تھے وہ اسے ایک عجیب سی شرمندگی سے دو چار کر رہے تھے۔

اگر رمضان نیکیوں کا موسم بہار تھا تو گرمی کا موسم بھی نیکیاں کمانے کا موقع تھا۔ اللہ کے رسولؐ نے سب سے فضیلت والا صدقہ پانی پلانے کو قرار دیا تھا۔ اور اگر وہ لوگ غیر مسلم ہوکر یہ کام کر رہے تھے تو امت مسلمہ اس بات کی زیادہ مستحق تھی کہ اس کے افراد وہ کام کریں، جسے رسولِ اکرمؐ نے سب سے افضل صدقہ بتایا تھا۔

صرف محلے کا ہی نہیں بلکہ سارے شہر کا ماحول یکسر تبدیل ہوگیا تھا۔ جگہ جگہ پانی کے اسٹالز لگے دکھائی دیتے تھے۔ ہر گھر کے سامنے جانوروں کے لیے ٹب یا بالٹی اور عارضی طور پر سمینٹ سے بنے مختصر حوض رکھے دکھائی دیتے تھے ۔ ہر گھر کے صحن، بالکونی اور چھت پر پانی سے لبریز پیالے رکھے تھے۔ بچوں کو ایک خاص ایکٹی ویٹی مل گئی تھی وہ بہت پرجوش تھے۔

اللہ کو یقینا اس سے یہ بڑا کام لینا تھا تبھی تو پیاس کی آزمائش سے گزارا تھا تاکہ وہ اس کی شدت کو پوری طرح محسوس کر سکے اور اس کے مطابق نہ صرف لوگوں کی بلکہ جانوروں اور خلق خدا تک کی پیاس بجھانے کا کام کرے۔

اپنے تئیں اس روز کے واقعے کا یہی مقصد سمجھ کر وہ مطمئن ہوگئی تھی لیکن ۔۔۔ وہ غلط تھی۔lll (جاری)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں