۲۰۱۷؍ اس اعتبار سے منفرد سال ہے کہ اس دوران مسلمانوں کے لیے کئی پہلوؤں سے حالات عالمی سطح پر تنگ ہونے شروع ہوگئے تھے۔
’’ابھی مہران نے کہا تھا ناکہ سعودی گورنمنٹ جس طرح کے سیاسی فیصلے لے رہی ہے لگتا ہے کہ وہ خود اپنے برے دنوں کو دعوت دے رہی ہے۔‘‘
فائزہ نے چہرے اور گردن پر کس کر دو پٹہ لیتے ہوئے کہا جو ذرا ڈھیلا ہونے لگا تھا۔ وہ ابھی بھی نماز کی طرح دو پٹہ باندھے ہوئے تھی۔
’’تم لوگ بتاؤ کیا سعودی حکومت کا یہ اقدام دانشمندانہ کہا جاسکتا ہے کہ اس نے امریکہ کے ساتھ تاریخ کا سب سے بڑا اسلحہ کی خریدار کا معاہدہ کرلیا ہے۔ معاہدہ بھی وہ جس کی قیمت ۳۵۰ ملین ڈالر ہے …؟؟
فائزہ گہری سانس بھر کر پیچھے کو ہوئی اور کہنے لگی۔
’’اہل عقل و فہم کی نظر میں نہ یہ سیاسی طور پر دانش مندانہ قدم ہے اور نہ ہی مالی طور پر…
مالی طور پر یہ اس طرح غیر دانشمندانہ قدم تھا کہ اس معاہدے کی وجہ سے امریکی خزانے کو تو ایک بڑا مالی نفع حاصل ہوا، لیکن اس کے نتیجے میں اب سعودی خزانے کو خالی ہو جانا ہے۔ اینڈ یونو وہاٹ!! ایسا فیصلہ کرتے ہوئے مومنانہ بصیرت اور ایمانی غیرت کو قطعاً بالائے طاق رکھ دیا گیا تھا۔ کیوں کہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ امریکہ اسرائیل کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اور اسرائیل وہ ملک ہے جس کے وجود کا مقصد ہی مسلمانوں اور اسلام کو نابود کرنا ہے، پھر دنیا نے دیکھا کہ اگلے ہی دن امریکہ نے تیس ملین ڈالر کی اسرائیل کے لیے امداد کا اعلان کر دیا … گویا مسلمانوں کا پیسہ مسلمانوں ہی کے خلاف ہوگا … اس کے تاثرات تیکھے ہوگئے تھے۔
Agreed صبا تائیداً سر ہلا رہی تھی۔ ’’یہ بات تو بچہ بچہ جانتا ہے کہ اسرائیل کی مدد کرنا مسلمانوں کے خون چوسنے میں اسے مدد دینے کے مترادف ہے۔‘‘
’’ہاں…‘‘ مہران نے موبائل اسکرین اوپر نیچے کرتے ہوئے کہا…
’’اسرائیل کی تمامتر قوتیں مسلمانوں کی نسل کشی میں لگی ہیں۔ اور اس کی سرحدیں مصر سے عراق تک اور سیریا سے حجاز تک کے علاقے کو نگلنے کا خواب دیکھے ہوئے ہیں۔۔۔‘‘
وہ اب بھی موبائل پر انگلی سے ٹچ ٹچ کرتا شاید کچھ ڈھونڈھ رہا تھا۔
’’لیکن تم قطری شہریوں کے بارے میں کیا کہہ رہی تھیں فائزہ؟ صبا نے اپنے برابر بیٹھی فائزہ کی طرف گردن موڑی۔ فائزہ کا چہرہ سبز دو پٹے میں لپٹا ہوا تھا… اور اس کی گوری رنگت سبز دو پٹے کے درمیان کھلتا ہوا سفید گلاب لگ رہی تھی۔
’’تم اسد الاسلام کو جانتی ہونا؟‘‘
’’وہ قطر والے اسد الاسلام انکل…؟ جو چاچو کے بیسٹ فرینڈ ہیں اور چاچو کے ساتھ ان کی ہی ریاض والی کمپنی میں جاب کرتے ہیں۔‘‘
’’ہاں! اسد الاسلام انکل قطر چلے گئے ہیں یا شاید انہیں نکال دیا گیا ہے۔ میں جب بھی ابو سے انکل کے متعلق استفسار کرتی وہ نظر انداز کر دیتے یا سب خیریت سے ہے کہہ کر بات پلٹ دیتے۔ لیکن مجھے پتہ نہیں تھا کہ وہ مجھ سے کچھ چھپا رہے ہیں۔ اسد الاسلام انکل کی بیٹی عربینہ بنت اسد فیس بک پر میری فرینڈ ہے۔ اس نے انکل کے ساتھ کی فوٹو FBپر اپ لوڈ کی ہے جو ان کے قطر والے گھر میں کھنچوائی گئی تھی۔ اگر یہ چھپانے والی بات نہیں تھی تو ابو مجھ سے یہ بھی تو کہہ سکتے تھے کہ اسد انکل چھٹیوں میں اپنے گھر گئے ہوئے ہیں۔‘‘ بات بدلنے کی کیا ضرورت تھی…‘‘
فائزہ کچھ دکھی ہوگئی تھی۔ فیس بک پر اسد الاسلام کی قطر والے گھر میں لی گئی تصویر کو دیکھ کر وہ بہت چونکی تھی اور یہ جان کر کہ ابو نے اسے سچ نہیں بتایا تھا وہ بہت افسردہ ہوگئی تھی۔۔۔ اور ابھی اسے وہی افسردگی یاد آگئی تھی۔
’’یو مین، اسد الاسلام انکل کو جاب سے نکال دیا گیا ہے…؟‘‘
صبا نے تاکید سے پوچھا۔
’’ڈونٹ نو…‘‘ فائزہ نے تاسف سے سر جھٹکا۔ ’’عربینہ بنت اسد نے مجھے یہ نہیں بتایا۔ نامعلوم بے چاری خود بھی جانتی ہے یا نہیں۔
البتہ اسد الاسلام انکل اب سعودی واپس نہیں جانے والے ہیں، یہ اس نے مجھے بتایا ہے۔ لیکن میرا غالب گمان یہی ہے کہ انکل کو جاب سے فارغ کر دیا گیا ہے۔‘‘
’’لیکن قطری شہریوں پر یہ نزلہ کیوں گر رہا ہے۔۔۔؟ صبا چکرا گئی…
’’ڈونالڈ ٹرمپ کے سعودی دورے کی وجہ سے یا اس معاہدے کی وجہ سے جو سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان ہوا ہے…‘‘ فائزہ نے اسے معلومات بہم پہنچائیں اور مزید کہنے لگی۔
’’اس واقعے کے بعد خلیجی ممالک نے قطر کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔ انھوں نے قطر سے سفارتی تعلقات ختم کرلیے، فضائی سرحدیں اس کے پروازوں کے لیے ممنوع کر دیں اور حد تویہ ہوگئی کہ یہاں کے مطلب قطر کے شہریوں کو اپنے اپنے ملکوں سے نکل جانے کے احکامات دیے…‘‘ اور ہاں اب کے سال تو قطری شہریوں کی حج جیسی عظیم الشان عبادت بھی خطرے میں ہے۔ شاید انہیں حج کو آنے کی بھی اجازت نہ مل سکے۔
’’Unbelicealle‘‘ صبا نے نفی میں گردن ہلائی۔
اس کا سر چکرانے لگا جب اس نے بتایا کہ پرسوں سعودی عرب کے دو مشہور عالموں کو محض اس وجہ سے گرفتار کر لیا گیا کہ انھوں نے ٹویٹر پر یہ دعا کی تھی کہ اللہ تعالیٰ سعودی عرب اور قطر کے درمیان صلح و مصالحت کے حالات پیدا فرما دے۔ شیخ سلمان العودہ وہ عالم ہیں جن کے ایک کروڑ بیس لاکھ فالور ہیں جب کہ عائض القرنی کے ۲۰ لاکھ سے زیادہ فالور ہیں۔
’’قطر کا بائیکاٹ… لیکن ایسا کیوں…؟ اب انہیں قطر سے کیا دشمنی ہے؟‘‘
الفاظ اس کے لبوں سے ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے تھے۔ ’’وحشت بھری آنکھوں سے اس نے اس نے پہلے مہران کو دیکھا جو اب بھی اپنے موبائل پر جھکا کچھ سرچ کر رہا تھا۔ پھر فائزہ کے ستے ہوئے چہرے کو۔
’’کیوں کہ قطر وہ ملک ہے جس کو حماس، اخوان المسلمون اور حزب اللہ جیسی جماعتوں کا سپورٹر گردانا جاتا ہے… اور یہ اس کا کوئی بڑا قصور تو نہیں ہے…‘‘ فائزہ نے طنزیہ کہا… ’’اخوان اور حماس سے تعلق کی بنا پر قطر کو یہ سزا دی جا رہی ہے۔ بلکہ سبق سکھایا جا رہا ہے او ریہی اصل میں وہ طاقتیں ہیں جو کسی بھی وقت کسی بھی صورت اسرائیل کو چیلنج کر سکتی تھیں۔ شاید اسی لیے ان دونوں طاقتوں کو مکمل طو رپر ختم کرنے کے لیے یہ لازم تھا کہ ان کو سیاسی پناہ سے محروم کر دیا جائے… وہ سیاسی پناہ جو انہیں قطر فراہم کرتا رہا تھا اور سیاسی طاقت کی اہمیت سے کسے انکار ہوسکتا ہے؟ یہ عرب ممالک تو بے چارے عالمی سیاست کی بساط کے مہرے ہیں وہ تو اپنا بھلا اور برا بھی سمجھنے کی طاقت نہیں رکھتے۔‘‘
فائزہ نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر بات جاری رکھی۔
’’اہل اقتدار ہی ملک کی سرزمین پر اپنے من جاہے قوانین نافذ کرا سکتے ہیں جیسے وطن عزیز سر زمین ہندوستان پر اوپر سے نیچے تک زعفرانی رنگ چڑھ گیا ہے۔‘‘
وہ کڑوے لہجے میں بولی۔ اس کڑواہٹ کا اثر اس کے چہرے پر بھی دیکھا جاسکتا تھا۔
’’یہ تو خیر انڈیا میں ہندتوا کا ایجنڈا ہے سبھی جانتے ہیں۔ لیکن ڈونالڈ ٹرمپ کی نیت کا فتور بھی کوئی ڈھکا چھپا نہیں ہے… ان فیکٹ موجودہ صدر امریکہ الیکشن کے دوران ڈنکے کی چوٹ پر اپنی مسلم دشمنی کا اظہار کرتے رہے ہیں… تو کیا ہمارے بھولے بھالے خادم الحرمین اس بات سے ناواقف تھے یا وہ جان بوجھ کر دشمنوں کی صف میں جا کھڑے ہوئے ہیں…‘‘
فائزہ کا تجزیہ طنز سے بھرپور تھا۔ اس وقت ساری دنیا بشمول ہندوستان اور اسرائیل میں مسلمانوں کی حالت دگرگوں تھی۔ اور ایسے میں سعودی عرب جیسے ملک (جس کے دو شہریوں میں دنیا بھر کے مسلمانوں کا دل دھڑکتا تھا) کا ایک ایسے ملک سے ہاتھ ملانا اور اسے مالی فائدہ پہنچانا جو مسلمانوں کے خلاف اسرائیل کی بہت بڑی مدد کرتا ہو… فہم و ادراک سے بالا تر تھا۔
پوری دنیا کے مسلمان حیران و پریشان اور گھبراہٹ میں مبتلا ہوگئے۔ اپنے بھائی سے کوئی بھی تسلی او رسپورٹ کی ہی امید رکھتا ہے اور یہاں تو تسلی تو درکنار الٹا قاتل کے ہاتھ میں تلوار تھمانے والی بات تھی۔
سوشل میڈیا پر جس طرح سعودی حکمرانوں کی تھوتھو ہو رہی تھی وہ ہر مسلمان کے لیے باعث تکلیف تھا۔
فائزہ اب خاموش ہوگئی تھی۔ چند لمحے خاموشی چھائی رہی پھر شاید مہران کو موبائل میں مطلوبہ چیز مل گئی تھی۔
’’یہ دیکھیں۔‘‘ اس نے موبائل ایک طرف بڑھایا۔ ’’یہ خبر میں نے کل ہی پڑھی تھی…،،
فائزہ نے اس کے ہاتھ سے موبائل لے لیا اور سنجیدگی سے اس کی اسکرین پر نظریں دوڑانے لگی۔ صبا اس کے ساتھ لگی بیٹھی تھی۔ وہ بھی فائزہ کے ساتھ موبائل پر جھک گئی، اس طرح کہ دونوں کے کندھے اور سر جڑ گئے تھے۔
خبر کچھ اس طرح کی تھی…
’’سعودی کے لوگوں کی نوکریوں کو بڑھاوا دینے کے لیے سعودی سرکار کی طرف سے غیر ملکی ورکرز سے Leviوصولنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کی وجہ سے ہندوستانیوں کے لیے سعودی عرب میں مواقع تو کم ہوں گے ہی اس کے علاوہ موجوہ لوگوں کی بچت میں بھی کمی آئے گی۔
یہ Levi ایسے وقت میں طے کی گئی ہے جب سعودی عرب میں پانچ فیصد کا ویلیو ایڈیڈ ٹیکس لگانے کی بھی بات کی جا رہی ہے… ان دونوں فیصلوں سے ہندوستانی ورکرز کی امیدوں کو بڑا جھٹکا لگے گا۔‘‘
’’یہ Levi کیا ہوتا ہے؟ …‘‘ صبا نے سر اٹھا کر مہران سے پوچھا۔
’’محصول سمجھ لیں، ٹیکس…‘‘ اس نے لاپرواہ لہجے میں جواب دیا۔
’’اچھا۔‘‘ وہ پھر سے جھک کر آگے پڑھنے لگی۔‘‘
’’کویت فائنینشیل سینٹر کے ایگیسکٹیو وائس پریزیڈنٹ ایم آر راگھوننے گلف نیوز کو بتایا… کہ اس ٹیکس کی وجہ سے ہندوستانیوں کی بچت میں6 سے 15 فیصد تک گراوٹ آسکتی ہے۔‘‘
فائزہ موبائل صبا کے ہاتھ میں چھوڑ کر سیدھی ہوگئی اسے اس خبر میں کوئی دلچسپی نہیں تھی البتہ صبا نے موبائل پکڑ کر آگے پڑھنا جاری رکھا۔
’’فی الحال سعودی کمپنیاں وہ سرکار کو ایک غیر ملکی ملازم پر ۲۰۰ ریال یعنی ۳۴۳۹ روپے Levکے طور پر دیتی ہیں۔ پوری خبر پڑھ لینے کے بعد صبا نے مہران کو اس کا موبائل واپس کر دیا۔
’’مہران‘‘ فائزہ نے بے ساختہ اسے پکارا۔
’’کیا ابو وہاں کسی کے مقروض ہوگئے ہیں…؟‘‘ اسے یکایک نصریٰ باجی کی گفتگو اور اپنا وہ پراسرار خواب یاد آگیا تھا۔ وہ بے چین ہوگئی۔ کون تھا وہ پریشان اور شدید پیاسا شخص جو مدد کے لیے مسلسل فائزہ کو آوازیں لگا رہا تھا… کیا وہ ابو تھے…؟
مہران چند لمحے کچھ سوچتا رہا۔
’’میرے علم میں تو ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ نہ ہی ابو نے کبھی ایسا ذکر کیا ہیـ۔ لیکن عین ممکن ہے کہ کسی شدید ضرورت کے تحت چاچو نے کسی سے وہاں مدد لی ہو۔ کیوں کہ انڈیا سے وہاں کے اکاؤنٹ میں پیسے ٹرانسفر ہونے میں کبھی دیر بھی ہو جاتی ہے۔۔۔ حالاں کہ میں اس کی پوری کوشش کرتا ہوں کہ ابو کا حکم ملتے ہی فوراً پیسے جمع کرا دوں، بصورتِ دیگر ڈانٹ پڑتی ہے۔۔۔ لیکن ایک منٹ۔۔۔‘‘
وہ ٹھٹکا… ’’آپ اچانک یہ قرض والی بات کیوں پوچھ رہی ہیں۔‘‘
وہ تعجب سے پوچھ رہا تھا۔ صبا بھی چونکی تھی اور ان دونوں کے سوالیہ انداز کو دیکھ کر فائزہ کو اپنی حماقت کا احساس ہوا۔ یہ سوال اس طرح صاف صاف پوچھنے والا تھوڑے تھا۔ نصریٰ باجی نے اسے خواب والی بات کسی کو بھی بتانے سے سختی سے منع کیا تھا۔
اب وہ کیا کرے؟… فائزہ ذرا سی گھبرائی… وہ دونوں اسی طرح استفہامیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے اس کے جواب کا انتظار کر رہے تھے۔
آں ۔۔۔ وہ۔۔۔‘‘ وہ گڑبڑا کر کہنے لگی۔۔۔‘‘ بس ۔۔۔ مجھے لگا کہ ابو کے ساتھ ایسی تو کوئی پرابلم نہیں ہے ناں…،،
’’تم اب جاؤ مہران تراویح کا وقت ہو چلا ہے۔‘‘ وہ اسی گھبرائے انداز میں بولی، مبادا پھر سے استفسار کرنے لگیں۔lll