عموماً ایسا ہوتا تھا کہ حیدر مرتضیٰ کے ہندوستان آنے پر خاندان اور دوستوں کی طرف سے دعوتیں آنا شروع ہوجاتیں اور حیدر مرتضی کی چھٹی کا ایک بڑا وقت صرف لوگوں سے ملنے ملانے میں گزر جاتا۔ اس بار بھی ان کی آمد پر دعوتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا لیکن انھوں نے ساری دعوتوں کے لیے منع کردیا تھا کیوں کہ ان آئے دن کی دعوتوں سے فائزہ بہت بیزار رہتی تھی۔ اس کا دل چاہتا کہ اس کے ابو اپنی ساری چھٹیاں گھر پر ہی اہل خانہ کے ساتھ گزاریں۔ اہل خانہ کے جذبات کو ملحوظ رکھتے ہوئے حیدر مرتضیٰ اکثر دعوتوں کے لیے معذرت کرلیتے لیکن اس کے باوجود بھی بہت ساری جگہوں کی دعوتیں قبول کرنا ناگزیر ہو جاتا لیکن اس مرتبہ انھوں نے بھی تک ایک بھی دعوت قبول نہیں کی تھی۔
’’میں تو اب یہیں ہوں… ہوتی رہیں گی دعوتیں…‘‘ وہ فون پر بات کرتے ہوئے کسی کو بہت سلیقے سے انکار کر رہے تھے۔
’’جی جی بالکل…‘‘ میں خود آپ سے ملنے آؤں گا بس دعوت کا تکلف ابھی رہنے دیں۔‘‘
فائزہ ان کے لیے چائے لے کر اندر آئی تو وہ سلام کر کے فون آف کر رہے تھے۔
’’ابو صبح پھپھو کا بھی فون آیا تھا۔۔۔‘‘ اس نے یاد دلایا۔
’’ہاں! آپا بے چاری کب سے بلا رہی ہیں آپ کو… کہہ رہی تھیں کہ بھائی صاحب (پھوپھا) انہیں طعنہ دے رہے ہیں کہ تمہارا بھائی اب تک ملنے گھر نہیں آیا۔ بس عید کے دن رسمی سی ملاقات کی تھی…‘‘ آمنہ بے اختیار بول پڑیں۔
’’اف تم عورتیں بھی کمال کرتی ہو۔ بھائی صاحب نے ایسے ہی شکوہ کر دیا ہوگا اور تم لوگوں نے اسے طعنہ بنا دیا۔‘‘
’’آپا نے ہی بولا تھا‘‘ وہ جزبز ہوئیں۔ آخر کیوں جوں کی توں بات شوہر تک پہنچا دی۔ جب کہ جانتی ہوکہ حیدر مرتضی اس طرح کی باتوں اور الفاظ کو بالکل پسند نہیں کرتے۔
’’ابھی تو میں انور (دوست) کی طرف جا رہا ہوں اس نے کوئی پلاٹ خریدا ہے وہی دکھانے لے جا رہا ہے مجھے… ایسا کرتے ہیں شام کو سب لوگ ساتھ میں ہی آپا کے گھر ہو آئیں گے۔ کیوں فائزہ…!‘‘
وہ چپ رہی۔ پھپھو کے گھر وہ نہیں جانا چاہتی تھی۔ تنزیلہ باجی کی بد زبانی کی وجہ سے نہیں بلکہ اریب بھائی کی وجہ سے… عید کے دن جس طرح وہ گہری نگاہوں سے اسے بار بار دیکھ رہے تھے، اسے ان سے خوف آنے لگا تھا۔وہ عید کے دن اس کے آس پاس منڈلا رہے تھے بار بار اسے مخاطب کر رہے تھے اور تو اور دونوں بہنوں کی موجودگی کے باوجود بھی ہر کام کے لیے اسے آوازیں لگا رہے تھے۔
’’فائزہ! پانی دے دو۔‘‘
’’فائزہ ! چائے پلا دو۔‘‘
’’فائزہ یہ … فائزہ وہ…‘‘
اف! ان بھائی اور بہنوں نے تو اس کی عید خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ اور اریب بھائی کی یہ عامیانہ حرکتیں اسے زہر سے بھی زیادہ بری لگی تھیں۔ وہ لاکھ ہینڈ سم تھے، اسٹائلش اور خوبرو تھے لیکن انسان کی پہچان صرف ان ہی چیزوں سے تو نہیں ہوتی۔ انسان تو کردار سے بڑا بنتا ہے اپنے کیریکٹر سے پہچانا جاتا ہے۔ ساتھ رہتے اور کھیلتے، ملتے ملاتے ان کی نظریں کب بدل گئیں اسے پتہ نہ چلا۔ جو بھی تھا بہرحال اب وہ ان کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ بس ابو اور امی چلے جائیں شام کو …وہ کسی بہانے سے رک جائے گی… اس نے طے کرلیا تھا۔
’’سب چلتے ہیں نا پھر؟‘‘ حیدر مرتضیٰ اس کے جواب کے منتظر تھے۔
’’جی … یہ چائے۔‘‘ انہیں سرسری سا جواب دے کر اس نے کپ انہیں پیش کیا۔
تبھی تایا جان کے لان سے دیوار کے پار سے ان لوگوں کو کوئی آواز سنائی دینے لگی۔
’’تائی جان مجھے بلا رہی ہیں…‘‘ فائزہ نے ذرا توجہ سے سنا تھا…
’’شاید کوئی کام ہوگا۔ میں جا رہی ہوں امی!‘‘
وہ دو پٹہ درست کرتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔ اب چوں کہ آنگن کا درمیانی دروازہ کھلا رہنے لگاتھا تو گھر کے باہر سے جانے کی اور برقع اوڑھنے کی ضرورت نہیں تھی۔
’’میں فائزہ میں اچھا چینج محسوس کر رہا ہوں۔‘‘
حیدر مرتضیٰ خوشبودار چائے کی پیالی سے سپ لینے لگے۔
’’اب ذمہ دار ہو رہی ہے۔‘‘
’’بالکل صحیح ہے۔‘‘ آمنہ نے شوہر کی بات سے اتفاق کیا اور مسکرائیں۔
’’پچھلے کچھ ماہ اپنی تائی جان کی زیر تربیت رہی ہے۔‘‘ ذمے دار اور سگھڑ تو بننا ہی تھا۔‘‘
’’ہوں…‘‘ حیدر مرتضیٰ ان سے متفق تھے۔
٭٭
شام کو…
’’السلام علیکم ابو…‘‘ فائزہ نے ان کی کال ریسیو کرتے ہوئے ہاتھ میں پکڑا کسی محلول سے بھرا کپ سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔ وہ اس وقت تایا جان کے گھر صبا کے کمرے میں تھی۔
’’بیٹے اپنی امی سے کہنا مجھے دیر ہوجائے گی، میں کھام گاؤں میں ہوں اور فی الحال کوئی بس دستیاب نہیں… ٹھیک ہے؟؟
’’آپ کھام گاؤں گئے ہیں…؟‘‘ فائزہ نے تعجب سے پوچھا۔ یہ اسے نہیں معلوم تھا۔
’’ہاں انور کا پلاٹ ہے یہاں… کھیت اور دیگر زمینیں دیکھتے ہوئے اچھی خاصی دیر ہوگئی ہے… بس ملتے ہی نکل جائیں گے؟‘‘
’’جی میں گھر جاکر امی کو بتادوں گی۔‘‘
’’تو ابھی تم کہاں ہو؟‘‘
’’تایا جان کے گھر…‘‘ صبا قے کرنے لگی تھی اسی لیے تو تائی جان نے مجھے ڈاکٹر کو فون کرنے کے لیے بلایا تھا…‘‘
’’اچھا پھر…کس ڈاکٹر کو دکھایا اسے…؟‘‘
’’تائی جان تو ڈاکٹر افراح کے علاوہ کسی سے کنسلٹ نہیں کرتیں۔ ڈاکٹر افراح کو شک تھا کہ یہ فوڈ پوائزنگ ہوسکتی ہے…‘‘
’’فوڈ پوائزنگ تو ایڈمٹ کا کیس ہے۔‘‘ وہ فکر مندی سے بولے… ’’تو تم لوگ گھر پر کیوں ہو اسے ہاسپیٹل کیوں نہیں لے گئے؟‘‘ وہ ایک دم پریشان ہوگئے تھے۔
’’ابو میں نے ڈاکٹر افراح سے کہا تھا کہ میں اسے ہاسٹپیل لے آتی ہوں لیکن انھوں نے منع کر دیا کہ اسپتال میں داخل کرنے کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب اسہال اور الٹیوں کی وجہ سے جسم سے بڑی مقدار میں پانی نکل جائے۔ اور گھر میں کسی اور کو قے نہیں ہوئی تو ہوسکتا ہے کہ یہ فوڈ پوائزنگ نہ ہو۔ فی الحال انھوں نے مجھے صبا کو گلوکوز پانی میں گھول کر پلانے کو کہا ہے۔ ڈاکٹر افراح بس اب آتی ہی ہوں گی…‘‘
’’اچھا…‘‘ حیدر مرتضیٰ قدرے مطمئن ہوئے۔
’’پھر بھی بیٹے اگر ضرورت ہو تو اسے دوا خانہ لے جانا۔ مہران تو ہوگا گھر پر؟‘‘
’’ہاں مہران ہے گھر پر…‘‘ اس نے تسلی دینے والے انداز میں کہا۔
’’ٹھیک ہے میں بھی جلد از جلد پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں…‘‘
’’صبا پہلے سے بہتر ہے ابو آپ فکر نہ کریں اطمینان سے آئیں… السلام علیکم۔
٭٭
رات کو نصریٰ باجی صبا کی عیادت کے لیے آئی تھیں۔ وہ روزانہ بعد نماز مغرب اسی وقت واک کے لیے نکلتی تھیں۔ آج مختصر چہل قدمی کر کے تایا جان کے گھر آئی تھیں۔
صبا بستر پر بے دم سی پڑی تھی۔ الٹیوں نے اسے نڈھال کر دیا تھا۔ ڈاکٹر افراح کو آئے کافی دیر ہوچکی تھی اور وہ اب بھی صبا کے قریب موجود تھیں۔ ان کے چہرے سے دوپہر والی تازگی مفقود تھی۔ تکان سے چہرہ مرجھایا ہوا لگ رہا تھا۔
’’اب باسی کھانا بالکل نہیں کھانا سمجھیں!‘‘ ڈاکٹر افراح نے صبا کو ڈپٹا۔
فائزہ نصریٰ باجی کی غیر متوقع آمد سے بہت خوش تھی۔ اس نے بہت گرم جوشی سے ان کا استقبال کیا۔
’’میں نے سوچا صبا کی عیادت کرلوں۔‘‘ وہ مسکراتے ہوئے اپنے ازلی نرم و سوئیٹ انداز میں بولیں۔
’’بہت اچھا سوچا موسٹ ویلکم…‘‘
’’آج امید ہاسپٹل گئی تھی وہیں افراح سے معلوم ہوا۔‘‘
’’اوہ اچھا… ادھر آجائیے…‘‘
’’فائزہ مسرت کے ساتھ انہیں سیدھے صبا کے کمرے میں لے آئی جہاں امی اور تائی جان بھی ڈاکٹر افراح کے ساتھ موجود تھیں۔
’’یہ تو بہت خوش کن اتفاق ہے کہ ایک دن میں آپ سے دوسری بار ملاقات ہوگئی۔‘‘ نصریٰ باجی نے افراح کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا۔ ’’مجھے لگا کہ آپ آکر جاچکی ہوں گی۔‘‘
افراح تھکاوٹ سے مسکرائی۔ ’’میں جلدی آجاتی لیکن عین وقت پر ایک ڈلیوری کا کیس آگیا تھا اس لیے شام ہوگئی۔‘‘
’’سیزیرین تھا؟‘‘ آمنہ نے یوں ہی پوچھا۔
’’نہیں ڈلیوری تو نارمل ہوگئی تھی مگر اصل میں مریض کو پانچویں مرتبہ بھی بیٹی پیدا ہوئی۔ بیٹا کوئی نہ تھا تو بس اسی کو لے کر اس عورت کے شوہر اور ساس نے سارے ہاسپٹل کو سر پہ اٹھا لیا تھا… اتنا ہنگامہ مچایا کہ اللہ کی پناہ… ایسے نازک وقت میں بھی بہو کو بھلا برا کہنے لگے تھے۔ ساس نے تو وہ جلی کٹی سنائی جیسے بیٹی پیدا کر کے اس نے اس دنیا کا سب سے بڑا گناہ کر ڈالا ہو۔ مریض کی قابل رحم حالت کا بھی لحاظ نہیں کیا۔ بالآخر تنگ آکر میں نے پولیس بلانے کی دھمکی دی تب کہیں جاکر ذرا ٹھنڈے ہوئے۔‘‘ ڈاکٹر افراح نے تاسف سے کہا۔ ’’بالکل جاہل لوگ تھے۔‘‘ ان کے لہجے میں بیزاری تھی… اسی ثانیے ان کا موبائل گنگنانے لگا تو وہ ریسیو کرتی کھڑکی تک چلی گئیں… شاید نیٹ ورک کمزور تھا۔
’’ہاہ! بیٹی ہوتی ہی ہے ایسی چیز۔‘‘ تائی جان کے لہجے میں سارے زمانے کا درد اور افسوس آسمایا تھا۔ ’’وہ بوجھ نہ بھی ہو تو ماں باپ کا دل کمزور کر دیتی ہیں۔ بیٹی والوں کو جھکنا ہی پڑتا ہے… ایک آدھ لڑکی تو خیر ہونی چاہیے لیکن پانچ پانچ بیٹیاں!!! اللہ توبہ…‘‘
انھوں نے بے ساختہ جھرجھری لی۔
’’مجھے اب چلنا چاہیے۔‘‘ افراح فون بند کرتی واپس آئیں۔ ’’ڈاکٹر صاحب باہر گاڑی میں میرا ویٹ کر رہے ہیں۔‘‘ انھوں نے جھک کر نصریٰ باجی کے گال سے اپنا گال مس کیا پھر سیدھی ہوکر اسمارٹ سی ڈاکٹر نے اپنے کھلے بال کندھوں سے پیچھے کیے، لمبی چین والا پرس کمر پر لٹکایا اور خدا حافظ کہتی نکل گئیں۔ فائزہ انہیں چھوڑنے باہر تک گئی تھی۔ لوٹ کر آئی تو تائی جان کی گل افشانیاں جاری تھیں۔
’’بیٹیوں پر ڈھیر سارا خرچ کرو، خون، جگر پلاکر انہیں پالو پوسو اور آخر کار بیاہ دو اور بھئی سچی بات تو یہ ہے کہ آج کے دور میں بیٹیوں کو پیدا کرنا، پالنا اور ان کو پڑھانا، ان کا خیال رکھنا جان جوکھوں کا کام ہے اور اس زمانے میں تو ان کی کانچ کی طرح حفاظت کرنے کی بھی اضافی ذمے داری ہے ورنہ پہلے تو صرف جوان لڑکیوں کی فکر کی جاتی تھی لیکن ہوس کے پجاری تو ننھی بچیوں کو بھی نہیں بخش رہے … میں تو کہتی ہوں بیٹیاں نہ ہی ہوں تو بہتر ہے۔‘‘
انھوں نے کسی جج کی طرح فیصلہ سنادیا تھا۔
’’ایسا نہیں ہے بھابھی! بیٹیاں تو اللہ کی رحمت ہوتی ہیں۔‘‘ آمنہ نے متانت سے کہا۔ انہیں بھی کئی بار بیٹا نہ ہونے کا طعنہ مل چکا تھا۔ خاص طور پر اس وقت تو ضرور انہیں احساس دلایا جاتا جب وہ مہران سے کسی کام کے لیے کہتیں۔ (اکیلا بچہ کہاں کہاں کی ذمہ داریاں نبھائے تمہارا بھی ایک آدھ بیٹا ہوتا تو یہ پریشانی نہ ہوتی) جٹھانی کا یہ جملہ تیر کی طرح سیدھا ان کے دل پہ جالگتا۔
’’تو میں نے کب کہا کہ زحمت ہوتی ہیں۔‘‘ فائزہ نے حیرت سے انہیں دیکھا۔ پچھلے کئی منٹوں سے وہ ’’بیٹیاں بوجھ ہوتی ہیں‘‘ کے عنوان سے تقریر کر رہی تھیں اور اب فوراً ہی اپنی بات سے پلٹ گئیں… واہ! تائی جان کا اعتماد یا شاید ڈھٹائی کمال کی تھی اور تائی جان کی متضاد بات پر فائزہ کے حیرت زدہ تاثرات نصریٰ باجی کو مسکرانے پر مجبور کر گئے… وہ اپنا تبسم چھپانے کے لے چہرہ پھیر گئیں۔
’’لیکن آج کا ماحول اتنا خراب ہوگیا ہے کہ بچے جب گھر سے نکلتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ماں باپ کے حلق پر کسی نے چھری رکھ دی ہو۔ صبا جب تک کالج سے واپس نہیں آتی میں مسلسل ہولتی رہتی ہوں۔‘‘ تائی جان نے اپنی کیفیت بتائیـ
’’وہ تو ہے… فائزہ کی طرف سے میں بھی بہت فکر مند رہتی ہوں۔‘‘ آمنہ نے جٹھانی سے اتفاق کیا اور دیورانی کی اس تائید پر تائی جان پر جوش ہوگئیں۔ ’’آمنہ وہ تمہیں پیچھے کی گلی والے عمران صاحب یاد ہیں۔‘‘ پھر آمنہ کے اثبات میں سر ہلانے پر بات جاری رکھی…‘‘ پوری آٹھ لڑکیاں تھیں ان کی۔ ساری بیٹیاں شادی کے بعد ایک ایک کرکے رخصت ہوگئیں اور پیچھے باپ ان کی شادی اور جہیز کے لیے کیا گیا قرض چکاتا رہا۔ یہاں تک کہ ان کے گھر کا سامان تک بک گیا جب کہ پورے محلے میں وہ بہت متمول اور امیر سمجھے جاتے تھے۔ انہیں دیکھ کر تو بہت عبرت آتی تھی۔ بیٹے کے انتظار میں آٹھ بیٹیاں پیدا کرلیں۔ پانچ سات لڑکیاں ہوں اور بیٹا کوئی نہ ہو تو یہ بوجھ صرف باپ کے کندھے جھکاتا ہے۔ رشتہ دیکھنے کے لیے لڑکے والوں کی ضیافتیں کرتے رہو… پھر منگنی کا فنکشن، تاریخ کی دعوت، نکاح میں بارات کا کھانا، پھر بچہ کی ڈلیوری کا خرچ اور تو اور چلہ کا فنکش، سب کچھ لڑکی والوں کو ہی کرنا پڑتا ہے۔ آخر باپ کتنا بوجھ برداشت کرے۔ نہ بابا نہ ۔ بیٹے چاہے جتنے ہوں لیکن لڑکی بس ایک ہی کافی ہے۔‘‘
بیٹیوں کی شان میں ایسے عزت افزا کلمات سن کر فائزہ کا غصہ سے برا حال ہونے لگا، لیکن نصریٰ باجی کی وجہ سے ضبط کیے بیٹھی رہی…
’’خالہ جان یہ ساری رسمیں جن کا آپ نے ذکر کیا وہ سب تو ہم انسانوں کی ایجاد کردہ ہیں… اللہ نے تو ہمیں ان کا پابند نہیں کیا… اور جب رب کے احکامات کی خلاف ورزی کریں گے تو پریشانیاں جھیلنی ہی پڑیں گی۔‘‘ وہ آگے بھی کچھ کہنے جا رہی تھیں کہ تائی جان نے ان کی بات کاٹ دی۔
’’تمہیں بھی تو شاید دو بیٹیاں ہیں ناں!‘‘ ان کے تیکھے انداز میں پوچھنے پر فائزہ ایسے سہم گئی جیسے انھوں نے توپ کا رخ نصریٰ باجی کی طرف کر دیا ہو۔‘‘
’’پہلا بیٹا ہو جاتا تو اچھا تھا۔‘‘ توپ سے آگ کا گولہ نکلا۔
’’خالہ جان ایک دو نہیں تین ہیں۔ پہلے ایک بیٹی اسریٰ اور پھر دو جڑواں بیٹیاں ملیحہ اور نبیہا لیکن تینوں اپنے پاپا کے بغیر اور ان کے پاپا بیٹیوں کے بغیر نہیں رہ سکتے، اس لیے وہ نانڈیڑ میں ہیں اپنے پاپا کے پاس۔‘‘ بیٹیوں کے ذکر پر ان کی آنکھوں میں چمک اور لبوں پر مسکراہٹ آگئی اور چہرے پر ممتا کا نور جگمگانے لگا۔ فائزہ ان کے چہرے پر بکھرے دھنک رنگوں کو دلچسپی سے دیکھنے لگی۔
نصریٰ باجی کی بیٹیوں کے بارے میں اسے بھی آج ہی معلوم ہوا تھا۔ ’’تینوں بیٹیاں‘‘۔ تائی جان کی آنکھیں مشرق سے مغرب تک پھیل گئیں۔
’’جی ماشاء اللہ۔‘‘ نصریٰ باجی نے سکون و اطمینان سے جواب دیا۔
’’ایک بھی بیٹا نہیں‘‘ تائی جان کی آنکھیں ہنوز پھیلی ہوئی تھیں۔ شاید اس سے زیادہ پھیلانے کی ان میں استطاعت نہیں تھی۔ ان کے اوور ری ایکٹ کرنے پر فائزہ کا غصہ اور جھنجھلاہٹ عود کر آئی۔ خود پر کنٹرول کرنا اب مشکل لگ رہا تھا۔ جب نصری باجی نے کہہ دیا تھا کہ تینوں بیٹیاں ہیں تو اب بیٹے کا پوچھنے کی کیا ضرورت تھی یا صرف نصریٰ باجی کا دل دکھانا مقصد تھا۔ تائی جان کی فطرت سے وہ خوب واقف تھی… مگر دانت پیستے ہوئے ضبط سے کام لے رہی تھی۔ مٹھیاں بھنچی ہوئی تھیں۔
’’چچ چچ چچ۔‘‘
تائی جان کے حقارت امیز افسوس پر فائزہ تلملا اٹھی۔ یہ کون سا طریقہ تھا مہمان سے بات کرنے کا۔ اس نے ناراضگی سے صبا کو دیکھا۔ صبا خود اس صورت حال سے پریشان اور شرمندہ ہو رہی تھی۔
’’اب اللہ بیٹا دے دے تو اچھا ہے ورنہ اتنی لڑکیوں کا کیا کرنا ہے۔‘‘
نصریٰ باجی کے چہرے کا رنگ تیزی سے بدلا۔ … جانے وہ صبر و تحل کی کن انتہاؤں سے گزر رہی تھیں۔ فائزہ کا دل ادا س ہوگیا۔
’’کیا بیٹیاں اتنی بری ہوتی ہیں تائی جان؟‘‘ اس نے اب بھی ضبط سے کام لیا۔ لیکن لہجے میں خفگی، بیزاری اور ناگواری جھلکا دی تھی اور واقعی تائی جان نے اسے محسوس کرلیا تھا گڑبڑا کر بولیں۔
’’نہیں بھئی میری بھی دو بچیاں ہیں۔ میں تو صرف اتنا کہہ رہی تھی کہ بیٹا ہونا ضروری ہے۔‘‘ انھوں نے بہت سہولت سے کہہ دیا۔
’’اور وہ کیوں ضروری ہے؟؟‘‘
اس کا ضبط جواب دے چکا تھا اس نے تنک کر تائی جان سے پوچھا۔
’’بیٹے ایسا کیا دے دیتے ہیں جو بیٹیاں نہیں دے سکتیں۔‘‘ اسے غصہ آگیا تھا۔
وہ بیٹا بہتر یا بیٹی۔‘‘ کی بحث میں نہیں پڑنا چاہتی تھی لیکن تائی جان کی یہ نشتر چبھوتی باتیں!! وہ نصریٰ باجی کے دکھ اور کرب کو محسوس کر رہی تھی۔ بے چاری یہاں آکر پچھتا رہی ہوں گی۔ نصری باجی کو اپنی پریگننسی کے آخری وقت میں خوش رہنا چاہیے تھا۔ کچھ دیرپہلے ہی تو ڈاکٹر افراح کہہ رہی تھیں کہ آج نصریٰ باجی کا بلڈ پریشر بڑھا ہوا تھا، اوپر سے یہ تائی جان کی باتیں۔
فائزہ بری طرح کلس گئی اور صبا پر ایسی شعلہ بار نظریں ڈالیں جیسے یہ دل دکھانے والی باتوں کی اصل وجہ وہی ہو اور تھا بھی ایسا ہی… نہ وہ بیمار پڑتی، نہ نصریٰ باجی اس کی عیادت کو آتیں اور نہ غم زدہ ہوتیں۔
’’کھوکھو…‘‘ صبا کو اچانک کھانسی آگئی۔ پھر خوامخواہ کراہی۔
’’فائزہ پلیز مجھے پانی پلادو۔‘‘
فائزہ فورا متوجہ ہوئی اور ٹیبل پر رکھا پانی اسے دیا۔
’’یہ نہیں! یہ کافی دیر سے پڑا ہے… تم کچن سے لادو مجھے پانی…‘‘ اور پھر زبردستی کھانسنے لگی۔
فائزہ اسے گھورتی کمرے سے چلی گئی۔ صبا کی نوٹنکی اسے خوف سمجھتی تھی۔ اسے فائزہ کو کمرے سے باہر نکالنا مقصود تھا بس۔
وہ پانی لے کر آئی تو آمنہ نے اسے بیٹھنے نہیں دیا (بیٹھے گی تو پھر بحث ہوگی) اسے بھگانے کو بولیں۔
’’تمہاری نصریٰ باجی کب سے آئی ہوئی ہیں انہیں کچھ کھلاؤگی پلاؤگی نہیں کیا۔‘‘
’’نہیں پلیز، تکلیف مت کیجئے… آپ لوگ صبح سے پریشان ہوں گے۔ میں اب چلوں گی۔ اجازت دیجیے۔‘‘
وہ بہ مشکل خود کے پھیلے وجود کو سنبھالتی اٹھ گئیں۔
’’بیٹے کے لیے وظیفے وغیرہ پڑھا کرو… تمہیں تو بہت جا نکاری ہے دین کی۔‘‘ تائی جان کا طنزیہ مشورہ۔
اُف …اُف… فائزہ کا دل چاہا اپنے بال نوچ لے یا اپنا سر دیوار سے پھوڑ لے۔
وہ نہیں چاہتی تھی کہ نصریٰ باجی اب مزید ایک منٹ بھی یہاں رکیں، اس لیے اس نے انہیں رسمی طو رپر بھی رکنے کو نہیں کہا بلکہ ان کے ساتھ ہی اٹھ کھڑی ہوئی۔
وہ بہت شرمندہ سی ان کے ساتھ باہر تک آئی تھی۔
’’نصری باجی!… وہ… آپ تائی جان کی باتوں کا برا نہ مانئے گا… پلیز…‘‘ وہ ان سے نگاہیں چراتے ہوئے ندامت سے کہہ رہی تھی۔
رات کی ٹھنڈی ہواؤں سے لان کے کنارے لگی پھولوں کی بیلیں ہلکورے لے رہی تھیں۔ موسم میں خنکی تھی۔ شاید رات کی رانی کے سارے پھول کھل گئے تھے۔ ان کی دلفریب مہک او ربھینی بھینی خوشبو ان پھولوں کے وجود کا پتہ دے رہی تھی۔ لان میں مدھم سا بلب جل رہاتھا جس کی ناکافی روشنی میں پودوں کو پہچاننا مشکل تھا۔ آسمان پر ستارے جھلملا رہے تھے۔ چاند غائب تھا۔
’’اصل میں تائی جان مزاج کی بہت اچھی ہیں۔ (یا اللہ اس جھوٹ کے لیے معاف کرنا) ان کا تعلق دیہات سے ہے، وہاں اسی قسم کی باتیں ہوتی ہیں۔ کبھی کبھار تو صبا کو بھی باتیں سنا دیتی ہیں۔‘‘
وہ لان عبور کرتے ہوئے وضاحتیں دے رہی تھی۔ اس کی کوشش تھی کہ کسی طرح وہ نصری باجی کا غم غلط کرسکے۔
’’میں نے مائنڈ نہیں کیا، کیوں کہ اس سے زیادہ تلخ اور اذیت ناک باتیں سن چکی ہوں۔ میرے شوہر اور ساس سسر کی جان ہے ان بچیوں میں۔ لیکن رشتہ دار خواتین اپنی باتوں سے یہ جتاتی ہیں کہ بیٹی سے بڑا دکھ اور کوئی نہیں ہوتا… تم شرمندہ مت ہو… یہ ہمارے معاشرہ کا حصہ ہے…‘‘
نصریٰ باجی لفظ لفظ سہج کر ادا کر ر ہی تھیں اور انداز ہنوز نرمی والا تھا۔ وہ باتیں کرتے ہوئے اب گیٹ تک آگئے تھے۔
’’مسلم معاشرے میں بھی یہ باتیں تکلیف دینے والی ہیں تو اب تم ذرا ان غیر مسلموں کے بارے میں سوچو کہ ان کے دلوں پر اس طرح کی باتیں سن کر کیا بیتتی ہوگی۔ وہاں تو بیٹیوں کو عیب سمجھا جاتا ہے۔ صرف بیٹیوں کو نہیں بلکہ تمام عورت ذات کو منحوس کہا جاتا ہے۔ اسی لیے تو وہ لڑکی کے جنین کو ماں کے رحم میں ہی ختم کردیتے ہیں۔‘‘
وہ آہنی گیٹ کی سلاخ تھامے مدھم آواز میں کہہ رہی تھیں اور فائزہ خاموش انہیں سن رہی تھی۔ نصریٰ باجی کے پیچھے اندھیری سڑک سنسان تھی یہ عشا کا وقت تھا۔
’’میرا دل چاہتا ہے ان بے چاری غیر مسلموں کو بتاؤں کہ اسلام نے کیا مقام و مرتبہ دے رکھا ہے عورتوں کو … تو وہ ساری خواتین بعید نہیں کہ صرف عورتوں کے حقوق جان کر مسلمان ہو جائیں جیسے کہ بہت دفعہ ہوا ہے … خاص طور پر مغربی ممالک میں…‘‘
فائزہ ہمہ تن گوش تھی اور آنکھوں میں نرم تاثر تھا۔ نصری باجی اس کی پسندیدہ شخصیات میں سے تھیں اور ان کا یوں اس کے قریب کھڑے ہوکر گفتگو کرنا اسے مسرت کے احساس سے دو چار کر رہا تھا۔ وہ بہت توجہ سے ان کی بات سن رہی تھی۔
’’میں اپنے شوہر کے ٹرانسفر کی وجہ سے کچھ سال جنوبی مہاراشٹر کے ایک چھوٹے سے دیہات میں رہی تھی۔ وہاں کتنے ہی روح فرسا مظالم کی داستانیں رقم ہیں۔ کچھ واقعات کی تو میں خود گواہ ہوں۔ عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ ایسا بے رحمانہ اور ظالمانہ سلوک کہ دل بے اختیار پکار اٹھے کہ اب انسانیت سے عاری اس دنیا میں کوئی عورت جنم نہ لے۔‘‘
فائزہ کو ان کی آواز بھیگی ہوئی محسوس ہوئی۔
’’ہماری یہ مسلم خواتین تو صرف چند طعنے تشنیع پر ہی اکتفا کرلیتی ہیں لیکن مجھے بہت ہیبت آتی ہے ان دیگر مذاہب کی عورتوں کا سوچ کر جنہیں انسان ہی نہیں سمجھا جاتا۔ اُن معصوموں کو تو پتہ ہی نہیں کہ اللہ نے انہیں کتنی محبتوں کے ساتھ بنایا ہے، کتنے اہتمام اور اکرام کے ساتھ انہیں پیدا کیا اور رحمت کا پیکر بنا کر دنیا میں بھیجا ہے۔ تم جانتی ہونا فائزہ کہ بیٹیاں اللہ کی رحمت لے کر آتی ہیں۔ اور اللہ کے رسولؐ تمام عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے تھے۔ اللہ نے عورتوں کے ساتھ کتنے رحم و کرم کا سلوک کرنے کا حکم دیا۔ اللہ کے رسولؐ نے بھی عورتوں سے محبت و نرمی سے پیش آنے کی کتنی ہی تاکیدیں فرمائیں… آہ…‘‘ نصریٰ باجی نے تشکر سے اپنے سینے پر سیدھا ہاتھ رکھا۔
’’میں تو اپنے عورت ہونے پر اللہ کی بے حد شکر گزار ہوں اور اس بات پر ممنون ہوں کہ اس نے میرے گھر عورتیں بھیجی ہیں۔ مجھے بھی بیٹے کی تمنا ہے اور یہ بہت فطری ہے لیکن بیٹیوں پر ناشکری ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔
لیکن یہ ساری باتیں تو غیروں کو نہیں معلوم نا!؟ وہ بے چاریاں اپنا مقام اور اہمیت جانتی ہی نہیں… کاش کوئی اٹھے اور بتائے ان بے چاریوں کو کہ رسول اللہؐ نے انہیں پستیوں سے نکال کر کس بلندیوں تک لے جاپہنچایا ہے…!!
نصریٰ باجی کا جملہ ’’کاش کوئی اٹھے…‘‘ سن کرفائزہ کے دل کو کچھ ہوا … اسے لگا یہ جملہ شاید اسے مخاطب کر کے کہا گیا ہے۔ وہ ساکت سی کھڑی رہ گئی … دل ڈوب کر ابھرا تھا… اگر اللہ چاہتا تو ممکن تھا کہ آج وہ بھی ان بے چاریوں کی صف میں کھڑی ہوتی۔ ظالم اور بے رحم لوگوں کے درمیان… اپنی اہمیت و مقام سے انجان لاعلم اور غافل… اور شاید کسی مسیحا کی منتظر…
نصری ٰباجی کی آواز نے اس کے خیال کو وہیں روک دیا…
’’اسلام کا تعلق دل سے ہے اور عورتیں دل سے سوچتی ہیں۔ بہ نرم دل ہوتی ہیں… جب انہیں پتہ چلے گا کہ ان کی اصل حیثیت و مقام کیا ہے تو وہ فورا ہی حلقہ بگوشِ اسلام ہو جائیں… وہ تو شاید انتظار کر رہی ہوں گی کسی مسیحا کی آمد کا جو انہیں جانوروں سے بدتر زندگی سے نجات دلائے۔‘‘
فائزہ بہت بری طرح چونکی تھی… بالکل ابھی تو یہی خیال اس کے ذہن میں آیا تھا… وہ گنگ رہ گئی۔
نصریٰ باجی نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھاما اور محبت سے دباتے ہوئے مصافحہ کیا…
’’کافی وقت (لیا تمہارا… مجھے جانا چاہیے… پیر بھی درد کرنے لگے ہیں… ان کے منہ سے ایک کراہ نکلی۔ ’’تم مجھے دعاؤں میں ضرور یاد رکھنا۔‘‘
’’جی ضرور…‘‘
نصریٰ باجی دھیمے دھیمے قدم اٹھاتی آگے چلے گئیں اور وہ بہت ساری سوچوں میں گھری ان کے چھوٹے چھوٹے قدموں کو دیکھتی وہیں کھڑی رہ گئی۔lll