پیاس بجھاتے چلو! (قسط-14)

سلمیٰ نسرین آکولہ

وہ ایک عام سی صبح تھی۔ سب لوگ معمول کے مطابق روز مرہ کے کام سر انجام دے رہے تھے۔ آج فائزہ نے واشنگ مشین لگائی تھی، ابو اور تایا جان باہر گئے ہوئے تھے، امی کچن میں مصروف تھین اور دادی نمازِ چاشت پڑھ رہی تھیں… کپڑے دھل گئے تھے…

’’امی میں اوپر جا رہی ہوں۔‘‘ دھلے ہوئے کپڑوں کی بالٹی اٹھا کر وہ سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی۔ روشن سا دن تھا۔ چھت پر دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ دو دن سے موسم ابر آلود تھا۔ آج سورج کی حاضری اطمینان اور خوشی کا باعث تھی کیوں کہ ابر آلود موسم اس پر ایک طرح کا ڈپریشن طاری کر دیتا تھا۔ چھت کی دیوار پر رکھے پیالے سے ایک مٹھو اپنی سرخ چونچ سے پانی پی رہا تھا کہ فائزہ کی قدموں کی چاپ سے پر پھڑپھڑاتے ہوئے اڑ گیا۔ اس کی گھبراہٹ پر فائزہ ہنس دی اور کپڑے بالٹی سے نکال کر رسی پر پھیلا نے لگی۔

یکایک محلہ میں غیر معمولی ہل چل محسوس ہوئی اور شور شرابے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ فائزہ لپک کر گئی اور چھت کی دیوار سے نیچے جھانکا۔ جانے کیا ناگہانی آفت آگئی تھی کہ سڑک پر عجیب افراتفری مچی تھی۔ خواتین اور بچوں کی پکار اور وحشت ناک آوازیں۔ فائزہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ پھر ان مشتعل نوجوانوں پر اس کی نگاہیں تھم گئیں جن کے ہاتھوں مین خنجر اور تلواریں تھیں وہ پورے محلے میں پھیل چکے تھے۔

فائزہ کی آنکھیں دہشت سے ابل پڑیں۔ وہ جیسے اپنی قوت گویائی کھو بیٹھی ہو۔ پھر بہت سے ٹائر چرچرانے کی آواز پر اس نے گھبرا کر سڑک کی دوسری طرف دیکھا۔ یکے بعد دیگرے دو ٹرک اور جیپیں ان کی بستی کے چوراہے پر آکر رکے اور نوجوانوں کا سیلاب ان گاڑیوں سے ’’جئے شرم رام‘‘ کے نعرے بلند کرتا باہر بہہ نکلا۔ راہ گیر تو ان کی گرفت میں آئے ہی تھے لیکن ان کا جھنڈ کا جھنڈ اب گھروں سے عورتوں اور بچوں کو گھسیٹتا باہر نکال رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سڑک خون سے لت پت ہوگئی۔ کچھ غنڈوں نے گھروں اور دکانوں پر مٹی کا تیل چھڑکنا شروع کر دیا تھا۔ مٹی کے تیل کی بو سارے محلے میں پھیل گئی۔ایک بپھرے ہوئے نوجوان نے آگ کی تیلی دکھائی اور آناً فاناً گلی آگ کی لپیٹ میں آگئی۔ پورا علاقہ دل دوز چیخوں سے گونج اٹھا۔ لوگ گرتے پڑتے جلتے کپڑوں سمیت گلی سے باہر آئے تھے۔ ایک چھوٹا سا بچہ بدحواسی سے بھاگ رہا تھا کہ بلوائیوں میں سے ایک نے تلوار سونتی اور ایسا وار کیا کہ بچے کا سر کٹ کر دور جا پڑا۔

فائزہ کے حلق سے ایک دلفگار چیخ نکلی… آنکھیں پھٹ گئیں تھیں اس نے دونوں ہاتھ کانوں پر رکھ لیے تھے… اس کا سارا وجود دہل گیا تھا۔

اس کے چلانے کی آواز پر فسادیوں نے بے ساختہ اوپر دیکھا، ان کی لال انگارہ آنکھوں کو خود پر پڑتے دیکھ کر وہ حواس باختہ ہوکر دھڑا دھڑ نیچے اتری…

امی اور دادی بھی شورسن کر اندر سے نکل آئی تھیں۔

’’باہر یہ آوازیں کیسی ہیں بہو…؟‘‘

’’پتہ نہیں اماں میں دیکھتی ہوں…‘‘

’’دروازہ مت کھولیں امی باہر ہندوؤں نے محلے پر حملہ کر دیا ہے…‘‘

فائزہ نے روہانسی ہوکر بے اختیار انہیں روکا۔

عین اسی ثانیے دروازے پر پے در پے وار ہونے لگے۔ شاید دروازہ توڑا جا رہا تھا۔

’’یا اللہ…‘‘ دادی اور امی رونے لگی تھیں۔ فائزہ کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ دروازے کے پٹ دھاڑ کی آواز سے کھلے اور نہ جانے کتنی ہی بدبختوں کا جمگھٹا اندر گھس آیا… خون آشام نگاہوں سے انھوں نے اطراف میں دیکھا… اور سیدھے فائزہ پر جھپٹے۔

فائزہ زور دار آواز اور وزن کے ساتھ نیچے گری کسی نے اس کے سر پر ضرب لگائی تھی۔

’’آہ ہ ہ ہ ّ‘‘ فائزہ کی چیخیں اور کراہیں بہت خطرناک تھیں۔

اس نے آنکھیں کھولیں تو وہ صبا کے کمرے میں موجود تھی… ٹیوب لائٹ کی روشنی میں نہائی وہ کرسی سمیت فرش پر پڑی تھی… اس نے فرش پر پڑے پڑے ادھر ادھر اپنی خوابیدہ آنکھیں گھمائیں… وہ کرسی کے نیچے دبی ہوئی تھی… اس نے لیٹے ہوئے ہی کرسی کو خود پر سے بمشکل سرکایا… اور دونوں ہاتھ زمین پر ٹیک کر اٹھ کر بیٹھی… وہ سر تا پا پسینے میں تربتر تھی۔ بدن پر موجود کپڑے گیلے ہوگئے تھے۔ او روہ ایسے ہانپ رہی تھی جیسے دوڑ کر آئی ہو۔ سر کی دائیں طرف بہت درد ہو رہا تھا اس نے چھوا تو چپچپاہٹ محسوس ہوئی۔ خون نکل رہا تھا… کرسی سے گرتے ہوئے شاید اس کا سر میز کے کونے سے ٹکرایا تھا۔

’’ٹھک ٹھک ٹھک…‘‘

دروازے پر دستکیں ہو رہی تھیں پھر تایا جان اور دیگر کی صدا سنائی دی…

’’صبا … فائزہ، کیا ہوا بچو…؟‘‘

فائزہ نے گھبرا کر خود کے بھیگے وجود کو دیکھا چہرے پر ہاتھ پھیرا پسینہ ٹپک رہا تھا اس نے جلدی جلدی دو پٹے سے منہ پونچھا۔ کرسی سیدھی کی اور زخم چھپانے کے لیے اوڑھنی سر پہ ڈال لی پھر خود کو کم۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں