چند باتیں عالمی یومِ خواتین پر

امتیاز وحید

آٹھ مارچ کا دن عالمی سطح پر خواتین کے لیے مختص ہے۔اس سال بھی اس موقع سے ۸؍ مارچ ۲۰۱۵کو دنیا بھر میں’عالمی یومِ خواتین‘کی تقریبات بڑی شان کے ساتھ منائی گئی۔میڈیا میں ہمیشہ کی طرح اس کا شور و غوغا رہا۔ کارپوریٹ سیکٹر میں کلیدی حیثیت کی حامل خواتین شخصیات کے خیالات اور ان کے انٹر ویو پڑھنے کو ملے۔خواتین کو بااختیار بنانے والی تنظیموں کی سرگرمیاں بھی میڈیا کے ذریعے سامنے آئیں۔ اس موقع سے خواتین سے متعلق بر سرِ اقتدار این ڈے حکومت کے عزائم اور منصوبوں کی فہرست بھی سامنے آئی،جس میں حکومت نے خود کو اپنی وومین پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کے عہد کا پابند بتایا اور خواتین کو خودکفیل بنانے سے متعلق حکومت کی کارگزریوں کو بھی پیش کیا ہے۔

ان حوصلہ افزا رپورٹوں کو دیکھ کر اتنا اندازہ تو ضرور ہوتا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں آج کی خواتین نے بلاتفریق زندگی کے متعدد شعبوں میں قابلِ ذکر پیش رفت کی ہے۔ان میں خود اعتمادی آئی ہے اور ان کے معاشرتی وقارمیں اضافہ ہوا ہے۔اس موقع سے فلمی اورسماجی خواتین ہستیوں کے ساتھ وزیر داخلہ جناب راج ناتھ سنگھ نے جب یہ کہتے ہوئے کہ’’ہندوستان کی لڑکیاں صرف بائک ہی نہیں چلا سکتیں بلکہ آسمان کی بلندیوں تک بھی جاسکتی ہیں۔وہ کسی بھی کام میں پیچھے نہیں ہیں‘‘ ’جب آل وومین بائک ریلی‘ کا حوصلہ بڑھایا تو ان کا جوش اور ولولہ آسمان چھونے لگا۔دہلی کے ساتھ ملک کے گیارہ شہروں میں بائک سوار خواتین نے نسائی قوت کا مظاہرہ کیا۔مختلف میدان میں نمایاں کارکردگی کی حامل خواتین کو انعام و اکرام اور سند عطا کئے گئے،مبارک باد اور تہنیتی پیغاموں کا سلسلہ قائم ہوگیا، ۴۵ خواتین پولیس سب انسپکٹر کو ترقی دے کر انسپکٹر بنایا گیا،دہلی اور دیگر ریاستوں کی پولیس نے خواتین کے لیے انوکھے حفاظتی پروگرام بنائے اور اس طرح ’بین الاقوامی یومِ خواتین‘ کا جشن منایاگیا۔

میڈیا کی رنگا رنگ تصویروں کے بیچ خواتین کے امور پر بظاہر سب ٹھیک ٹھاک معلوم ہوا۔ تاہم یہ صرف سکّے کا ایک پہلو تھا۔اس مخصوص دن کے جشن کے متوازی ایسی رپورٹیں بھی شائع ہوئی ہیں،جو خواتین کے شعبے میں حکومتی اور غیر حکومتی اداروں کی تمام تر کارگزاریوں اور رپورٹوں پر سوالیہ نشان لگاتی ہیں۔ روزنامہ راشٹریہ سھارا کے قومی صفحہ ۳ پر پی ٹی آئی کے حوالے سے ایک رنگین تصویر میں عالمی یومِ خواتین کے موقع پر بے گھر خواتین اپنے عارضی گھر کے باہر بیٹھی ہوئی بے بس نظر آئیں۔اس طرح ایک ہی اخبار میں خواتین سے متعلق موضوعات پر تضادات کی بہتات ہے۔بغور مشاہدہ کیجیے تو پائیں گے کہ جرائم کی وہی رفتار ہے بلکہ صورت حال دن بہ دن سنگین ہوتی جارہی ہے۔ملک کے دارالسلطنت کے تئیں تو کم از کم ہمیں پُر امید ہونا چاہئے لیکن ایسا نہیں ہے ۔اخباری رپورٹوں بلکہ اخبارات کے اداریوں میںخواتین سے متعلق خدشات کے ضمن میں جن اعداد و شمار کو گفتگو کی بنیاد بنایا گیا ہے ،وہ انتہائی تشویش ناک ہیں۔

گزشتہ دو ماہ کے دوران دہلی میں آبروریزی کے تین سو معاملے درج کیے گئے ہیں جبکہ خواتین کے ساتھ بد سلوکی کے پانچ سو سے زائد معاملے سامنے آئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار تو ان خواتین کی جانب سے آئے ہیں،جو با ہمت ہیں،نہیں توہمارے مشرقی سماج میں ایسے درجنوں امور پر خواتین اور ان کے اہلِ خانہ کئی وجوہ کی بنا پر خاموشی کا کڑوا زہر پی لیتے ہیں ۔حالانکہ خواتین کے خلاف بڑھتے جرم کی شرح کو ریکارڈ میں آنے پر پولیس محکمے نے جرم کے خلاف اقدامات کے حوالے سے اسے اچھی علامت بتاتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اب خواتین اپنے خلاف ناانصافی کو لے سامنے آنے کا حوصلہ جٹا پارہی ہیں،جس کی ماضی میں واضح کمی تھی۔

خواتین میں اس جرأت کا محرک ۱۶؍ دسمبر ۲۰۱۲کا وہ المناک واقعہ ہے،جس نے ہندستانی سماج کو سنجیدگی سے غور و فکر کرنے پر مجبور کیا۔دہلی کے اس شرمناک واقعے کے تناظر میں جہاں قانون بدلنے سے خواتین میں خود اعتمادی آئی وہیں دوسری جانب خواتین کے خلاف جرم میں ۲۰۰۳ میں ۳۰۰ تا ۴۰۰ فیصد کا اضافہ بھی ہوا۔۲۰۰۴ تا حال صورت حال میں ہنوز کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔تاہم شکر ہے کہ جرم کے خلاف جرأت کا اظہار کیا جارہا ہے۔حکومتی ریکارڈ کے مطابق ملک میں فی گھنٹہ کسی نہ کسی صورت میں ۱۸ خواتین کو جنسی چیرہ دستی کا شکار بننا پڑتا ہے۔خواتین سے متعلق بیشتر شعبے کس مپرسی کا شکار ہیں۔ عورتوں کی صحت کے سیکٹر ہی پر نظر ڈالیں تو مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ملک کے ایک موقر ہندی رسالے میں حاملہ عورتوں پر مشتمل ایک رپورٹ کی سرخی… ’’ہندستانی حاملہ عورتوں کا حال افریقیوں سے بھی بدتر‘‘ جیسے مایوس کن الفاظ میں لگائی گئی ہے ۔اس کے بموجب ہندستان میں پیدا ہونے والے زیادہ تر بچے اور انھیں جنم دینے والی حاملہ عورتیں ناقص غذائیت کا شکار ہیں۔ان کی حالت غریب افریقی ممالک کے بچوں اور حاملہ عورتوں سے بھی بدتر ہے۔ہندستان میں نقص تغذیہ بچوں کی نشو و نما کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔وہ مادرِ رحم سے ہی ناقص غذائیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ہندستان میں۴۲ فیصد مائیں نقصِ تغذیہ کا شکار ہیں جبکہ افریقہ میں اس کا تناسب 16.5 فیصد ہے۔یعنی ہندستانی مائیں افریقی ممالک سے 25.5 فیصدی زیادہ ناقص غذائیت کا شکار ہیں۔جبکہ نقصِ تغذیہ کے باب میں لڑکیوں کا تناسب ہمارے ملک میں ۹۰ فیصدی تک جا پہنچا ہے۔

اب ذرا ان تدابیر پر بھی غور کیا جائے جو حکومت کی جانب سے خواتین کی فلاح و بہبود کے سلسلہ میںکی جارہی ہیں۔بچیوں اور خواتین سے متعلق بلاشبہ حکومت پر عزم ہے اور اپنی مختلف اسکیموں کے ذریعے طبقۂ نسواں کو خود کفیل بنانے کی کوشش کررہی ہے۔ غالباً حکومت کو مرد و زن کی ترقی کی شرح میں واضح طور پر عدمِ توازن کا احساس ہے۔یہی سبب ہے کہ ہندستان نے آسٹریلیا کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ۲۰۰۵ -۲۰۰۶کے مالی سال میں جنس کی بنیاد پر بجٹ (GenderBudget) لانے کی پہل کی۔اس بجٹ کا نقطۂ آغاز دراصل دو مخالف جنس کے مابین ترقی کی غیر متوازن گھائی کو پاٹنا اور اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ خواتین ترقی میں مردوں سے پیچھے نہ رہ جائیں۔اس سے اس نتیجے تک بآسانی رسائی ہوتی ہے کہ خواتین سے متعلق جملہ امور میں حکومت کے پاس ایک مختص رقم ہے اور ان پر عمل درآمد کے لیے مالی دشواری کا کوئی مسئلہ نہیں ہے اور حکومت نیک نیتی کے ساتھ خواتین کی حالت کو بہتر بنانے کی خواہاں ہے جبکہ صورت اس کی تردید کرتی ہے۔حقائق بتاتے ہیں کہ ۶۵ فیصدکام کاجی خواتین آمد و رفت کے لیے عوامی ذرائعِ نقل و حمل کا استعمال کرتی ہیں،جن میںان کا تحفظ ایک اہم مسئلہ ہے۔حکومت کے حالیہ بجٹ میں اس پہلو پر کوئی فکر مندی دکھائی نہیں دیتی۔اس بار وزیر مالیات عالی جناب ارون جیٹلی کے پیش کردہ بجٹ میں تقریباً ہر مَد میں جنس کے لیے مختص بجٹ کا خاصا نقصان ہوا ہے۔صحت کی صورتِ حال آپ نے دیکھی لیکن اس بار کے بجٹ میں صحت کے شعبے میں 17.9 فیصدی کی کٹوتی کی گئی ہے۔بال وِکاس یوجنا (ICDAH) بجٹ 16000کروڑ سے گھٹا کر 8000 کروڑ روپے اور مِڈ ڈے میل منصوبہ کی رقم 13000 کروڑ سے کم کرکے 9000 کروڑ روپے کردی گئی ہے،جن کا براہ راست اثر خواتین طبقے پر پڑتا ہے۔ سر دست ہندستان میں 57 وزارتوں اور شعبوں میں جنڈر بجٹ سیل قائم کیا گیا ہے مگر جیٹلی کے حالیہ بجٹ کو جنسی تعصب سے یکسر مبرا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ خواتین کی آمدنی میں متوقع چھوٹ میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔البتہ’ نربھیا فنڈ ‘ میں اضافہ ایک حوصلہ افزاخبر ہے۔ ۲۰۱۳ میں یو پی اے حکومت نے خواتین کے تحفظ کی خاطر’ نربھیا فنڈ ‘ کے تحت 1000 کروڑ روپے مختص کئے تھے لیکن افسوس کہ اب تک اس رقم کا کوئی موثر استعمال نہیں کیا جا سکا۔ ’بیٹی بچائو بیٹی پڑھائو‘ جیسے اہم منصوبے پر محض ۱۰۰ کروڑ کا بجٹ ہے جبکہ اسکولی تعلیم کے بجٹ میں گزشتہ سال کے مقابلے 8.3اورسرو شکچھا ابھیان رقم میں 9.5 فیصدی کی واضح کمی کردی گئی ہے۔خواتین کی تعمیر و ترقی کے حکومتی دعووں کے درمیان موجودہ حکومت کا حالیہ بجٹ اس کی ’’نیک نیتی‘‘ کا مظہر ہے۔ جب کہ تازہ ترین اطلاع کے مطابق حالیہ بجٹ میں ملک بھر میں 650مقامات پر ’نربھیا مراکز‘کے قیام کا منصوبہ شامل ہے۔یہ مراکز مظلوم عورتوں کو علاج،قانونی مدد اور کونسلنگ کی سہولتیں مہیا کرانے کے لیے ’وَن اسٹاپ کرائسس‘سنٹر کی طرح کام کریں گے۔اچھی خبر ہے ۔خیر کی دعا کیجیے!

اس موقع سے صدرِ جمہوریہ اور وزیر اعظم ہند نے خواتین کے تئیں مہذب رویہ اپنانے، ان کے لیے احترام کا جذبہ پیدا کرنے اور قانون کے بہتر نفاذ سے خواتین کو وسیع تحفظ فراہم کرنے کی سمت میں حکومت کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔یہ سب اپنی جگہ مگر یہی کافی نہیں،ہمیں سماج کو اپنی ذمے داری کے تئیں حساس بنانا ہوگا۔سماجی سوچ میں تبدیلی ایک ناگزیر ضرورت ہے جسے پیدا کرنا ہوگا۔اس کے ساتھ ہی خواتین اور لڑکیوں کو نسائی آزادی کے واضح مفہوم کا ادراک کرنا ہوگا۔یہ سوچنا ہوگا کہ وہ کوئی کموڈیٹی نہیں بلکہ اشرف المخلوقات ہیں،نصف بہتر ہیں اور اسی طرح ان پر اَن گنت مقدس رشتوں کا بار بھی ہے۔آزادی کا تصور منطقی بندش کے بغیرممکن نہیں۔اس واضح تصور آزادی سے خود خواتین کو سماج میں دوسروں کے لیے حدیں مقرر کرنی ہوگی۔ اپنی متعینہ حد اور دوسرے کے اختیارات کی حد کے تعین کے بغیر’ عالمی یومِ خواتین‘ کاتصور بے رنگ ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں