چند باتیں مصر کے سلسلے میں

شمشاد حسین فلاحی

مصر میں صدر مرسی کی منتخب حکومت کا فوج کے ہاتھوں مگر عرب حکمرانوں اوراسرائیل و امریکہ کی شہ پر تختہ پلٹ کردیے جانے کے بعد اب عدالتی نظام بھی فوجی آمریت کی راہ پر چلتے ہوئے اخوان المسلمون سے وابستہ افراد یہاں تک کے نمایاں شخصیات کو بھی انتقامی جذبہ میںاندھے ہوکر موت کی سزا بانٹ رہا ہے۔ ۲۸؍اپریل کو مصر کی مقامی عدالت نے اخوان سے وابستہ 683افراد کو محض دو پیشیوں کی سرسری کارروائی کے بعد موت کی سزا سنادی۔ جن افراد کو سزائے موت سنائی گئی ہے ان میں اخوان کے مرشد عام محمد بدیع بھی شامل ہیں، جو فوجی حکمرانوں کی حراست میں ہیں۔ اس سے قبل بھی اسی طرح کے ایک سرسری سی قانونی بحث کے بعد 529افراد کو سزائے موت سنائی گئی تھی، جن میں سے 492افراد کی سزائے موت کو بعد میں عمر قید میں تبدیل کردیا گیا۔

گزشتہ رمضان میں مرسی حکومت کا عالمی طاقتوں کے ایجنٹ عبدالفتاح سیسی نے تختہ پلٹ کر فوجی حکومت قائم کرلی اور جب اخوان اور مصری عوام نے اس فوجی انقلاب کے خلاف پرامن احتجاج کیا تومیدان رابعہ میں اندھا دھند گولیاں چلاکر ہزاروں انسانوں کا قتلِ عام کیا گیا۔ میدانِ رابعہ میں قائم عارضی ہاسپٹل اور اس سے متصل مسجد میں آگ لگادی گئی۔ جہاں سیکڑوں افراد زندہ جل گئے اور پوری دنیا نے ذرائعِ ابلاغ کے ذریعے نشرکی جانے والی تصویروں کو بہ چشم سر دیکھا۔ عیدالفطر کے چند روز بعد شروع ہونے والے جمہوریت کے خلاف اس ظالمانہ فوجی آپریشن سے لے کر آج تک مصری جمہوریت پسند عوام فوجی جبر سے لوہا لے رہے ہیں۔ہزاروں انسانوں کو جن میں اخوان کی اعلیٰ قیادت سے لے کر مقامی افراد تک شامل ہیں، گرفتار کرکے جیلوںمیں ڈال دیا گیا ہے اور ان پر بے بنیاد اور جھوٹے الزامات لگا کر غیر منصفانہ اور ظالمانہ سزائیں دی جارہی ہیں۔ اخوان سے وابستہ نوجوانوں اور طلبہ مختلف مقدموں میں پھنسا کر تعلیمی کیرئیر تباہ کیا جارہا ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے ان کا اخراج کرکے انھیں بیرونِ ملک تعلیم کے لیے جانے سے بھی روکا جارہا ہے۔ اس طرح اخوان سے وابستہ پوری ایک نسل کو تباہ کرنے کی منصوبہ بند کوشش ہورہی ہے۔

ایک طرف تو سیسی کی آمرانہ و جابرانہ حکومت کی گولیاں،قید بند، اس کے عدالتی نظام کا ظلم اور اس کا اخلاقی دیوالیہ پن ہے جو انصاف اور اس کے تقاضوں کی عصمت دری کرررہا ہے اور دوسری طرف عالمی برادری ہے،جو اپنے ہی بنائے ہوئے عالمی قوانین اور خود اپنی قائم کردہ جمہوری اخلاقی قدروںاور قیامِ امن و انصاف کے لیے وضع کردہ اصولوں کا مذاق ہی نہیں اُڑا رہی بلکہ ان کی دھجیاں بکھیرنے میں لگی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ حسنی مبارک کے بعد مصری عوام کو ایک طویل دور آمریت سے نجات ملی تھی اور انھوںنے جمہوری فضا میں سانس لینا شروع کیا تھا کہ ’مشرق و مغرب‘ اپنی سازشوں میں مصروف ہوگئے اور بالآخر عین مغربی طرزِ جمہوریت کے ذریعہ جب مصری عوام نے اخوان المسلمون کو حکومت کے لیے چن لیا تو یہ اس بات کو نہ مغرب کی اسلام دشمن طاقتیں برداشت کر سکین اور نہ مصر کے پڑوسی عرب مملکتیں جو خود کو اسلام کا ہیرو اور اسلامی قانون کی پاسدار باور کراتی ہیں۔ حالاں کہ ان عرب مملکتوں کے شایان شان ہرگز نہ تھا کہ وہ اپنے پڑوسی ملک میں اسلام پسند جماعت کے خلاف سازش کا حصہ بنتے۔ خاص طور پر سعودی عرب کا عالم اسلام میں جو احترام اور وقار تھا وہ اس بات کا متقاضی تھا اور ہے کہ وہ دنیا میں اسلام اور اس کے ماننے والوں کے ساتھ عناد اور دشمنی کے بجائے دوستی اور تعاون کی روش اپنائی جاتی مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔

اور ایسا صرف اور صرف اس وجہ سے ہوا کہ دنیا جانتی ہے کہ اخوان المسلمون وہ گروپ ہے، جو اللہ کی وحدانیت کا قائل اور رسول ؐ کی قیادت و سیادت کو اپنے لیے اسوئہ اور نمونہ مانتا ہے۔ بس یہی چیز تھی جو نہ تو عرب کے شہنشاہوں کے لیے قابلِ قبول تھی اور نہ مغرب کی اسلام دشمن طاقتوں کے لیے قابلِ برداشت۔

امریکہ، یوروپ اور اسرائیل کے لیے اخوان سے نفرت و دشمنی تو اس لیے قابلِ فہم ہے کہ وہ اسلام او ر اسلام پسندوں کو دنیا میں کسی بھی صورت میں برسرِ اقتدار برداشت کرنے کے لیے خود کو آمادہ نہیں کرپاتے، خواہ وہ مغرب کے ہی جمہوری پیمانوں کے مطابق منتخب ہوکر کیوں نہ آئیں۔ اس کی واضح مثالیں الجزائر، فلسطین، تیونس اور ترکی وغیرہ میں اسلام پسندوں کے خلاف کی گئی اور کی جارہی سازشیں ہیں۔ اور اب مصر اس کی واضح ترین اور قریب ترین مثال ہے۔ مصر میں اسلام پسندوں سے اسرائل کا خوف فطری ہے کہ عین اس کے پڑوسی ملک میں اگر اسلام پسند اقتدار میں آتے ہیں تو وہ اپنے غاصبانہ قبضوں کو مزید نہیں پھیلا سکے گا بلکہ عین ممکن ہے کہ کچھ حصوں سے اسے ہاتھ دھونا پڑجائے، بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق اسرائیل و امریکہ تو عرب دنیا خصوصاً لبنان، مصر اور اردن وغیرہ میں اسلام پسندوں کو تو درکنار وہاں مضبوط حکومت تک کو دیکھنے کے روادار نہیں اور اس سلسلے میں وہ لبنان میں پوری طرح کامیاب ہیں، جو طویل عرصہ خانہ جنگی کا شکار رہا اور ابھی بھی وہاں غیر مستحکم حکومت ہے اور اسی کا فائدہ اٹھا کر اسرائیل متعدد بار لبنان پر فوجی چڑھائیاں بھی کرچکا ہے۔

یہ تو مغربی اور اسلام دشمن طاقتوں کی سوچ ہے جس نے عالمِ اسلام کے خلاف عام طور پر اور مصر کے خلاف خاص طور پر سازشوں کے لیے آمادہ کیا ہے۔ لیکن عرب مسلم حکمرانوں کا اور خاص طور پر ان حکمرانوں کا جو عالمِ اسلام کی نظر میں احترام رکھتے تھے اور جنھیں شعائرِ اسلام کی تو لیت کا شرف بھی حاصل ہے، اس موقع پر جو رویہ رہا ہے وہ نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ عالمِ اسلام کی نظر میں ان کی قدر و منزلت کو نقصان پہچانے والا ہی نہیں بلکہ تباہ و برباد کرنے کا سبب ہے۔ مسلم دنیا کو ہرگز یہ توقع نہیں تھی کہ وہ عرب دنیا کی ایک اہم مملکت میں جمہوری حکومت کے خلاف کسی بھی قسم کی سازشوں کا حصہ بنیں گے اور اپنے عرب اسلامی بھائیو ںکے خون سے اپنے ہاتھ رنگین کریں گے۔ عالم اسلام کے تمام افراد ان عرب حکمرانوں کے رویے پر حیران ہیں کہ ایک تو عرب دوسرے مسلم حکمران جو اپنے اپنے ملکوں کو اسلامی مملکتیں باور کراتے ہیں اور جو فی الواقع عالمِ اسلام کے پسماندہ اور غریب ممالک میں اسلام کی دعوت و تبلیغ اور مسلمانوں کے رفاہی کاموں کی قیادت کرتے رہے ہیں آخر اس اخوان المسلمون کے خلاف جس کا اسلام پسند اور جمہوریت پسند ہونا جگ ظاہر تھا، کیسے کھڑے ہوسکتے ہیں۔

لیکن ان حکمرانوں کے بیانات اور مصر میں جمہوریت کے قاتل فوجی آمر سیسی کی محبت اور اس کے لیے اپنے خزانوں کے منھ کھول دینے کی روش یہ بتاتی ہے کہ یہ طاقتیں خواہ کتنی ہی اسلام پسندی اور مسلم دوستی کا دم بھرتی رہیں، انھیں اگر کسی چیز سے محبت ہے تو وہ ہے ان کا اقتدار۔ اور اسی اقتدار کی حفاظت اور حمایت کے لیے وہ ’دین داری‘ کے نام پر ’دین بازی‘ کرتے رہے ہیں۔ اب انھیں یہ خوف ستا رہا ہے کہ جمہوریت کی یہ لہر اگر اور آگے بڑھی تو جس طرح حسنی مبارک کے تین دہائیوں پرانے اقتدار کا خاتمہ ہوگیا اور کرنل قذافی ختم ہوگیا۔ اسی طرح ان کے اقتدار کا تخت بھی الٹا جاسکتا ہے۔ اس لیے اسلام اور مسلمانوں کے خون سے زیادہ اہم ان کے لیے ان کا اقتدار ہے۔ اگر ان حکمرانوں کو اسلام اور اسلام پسندوں سے ذرا بھی محبت ہوتی تو عین اس وقت جب قاہرہ کے میدانِ رابعہ میں لوگو ںکی لاشیں گررہی تھیں اور ہزاروں جسم خون میں لت پت تڑپ رہے تھے، خدام حرم کے عظیم شرف سے ہم کنار لوگ یہ نہ کہتے کہ وہ ’’دہشت گردی کے مقابلہ کے لیے مصری قوم کے ساتھ ہیں‘‘۔ مصری قوم کیا سیسی اور اس کے ٹولے کا نام ہے یا ان لوگو ںکا نام ہے جنھوں نے واضح اکثریت سے مرسی کو منتخب کیا تھا اور وہ اس کی حکومت کے خلاف فوجی آمر کے جبر پر احتجاج کررہے تھے۔ انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا اور پوری دنیا کے مسلم و غیر مسلم ممالک میں مہم چلائی کہ وہ بھی اسے دہشت گرد قرار دیں۔

خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد

جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے

عین اس وقت جب اخوان المسلمون کو میدان رابعہ میں خون سے نہلایا جارہا تھا عالمِ اسلام کی کچھ ’دین باز جماعتیں‘ قاتلوں کی حمایت میں کھڑی تھیں اور کچھ محض خاموش تماشائی۔ حالاںکہ دل تو ان کے بھی غمگین تھے مگر پس پردہ طاقتوں کے خلاف بولنے کی جرأت محض اس وجہ سے نہ کرسکتے تھے کہ وہ ان ظالم طاقتوں کے’احسانات ‘ تلے دبے تھے اور انھوں نے تعلیم مفاد کے مکتب میں صرف نمک حلالی کا سبق سیکھا تھا اورحقیقت میں ایسے لوگ کم ہوتے ہیں، جو حق گوئی اور نمک خوری کی کشمکش کے وقت حق گوئی کا شعار اپنائیں۔ اپنی اس روش کو صحیح ٹھہرانے کے لیے وہ مختلف جواز او رحیلے بھی تلاش کر لیتے ہیں اور ان میں کامیاب ترین حربہ وہ ہوتا ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(ترجمہ) ’’شیطان تمہیں فقر سے ڈراتا ہے اور برائی کاحکم دیتا ہے۔‘‘

وائے افسوس! وہ بھول گئے کہ وہ کیا کھوکر کیا حاصل کررہے ہیں اور وہ یہ بھی بھول گئے کہ آج اخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دینے کا مطلب یہ نہیں کہ صرف اخوان دہشت گرد ہیں، بلکہ اس وقت کی آمد کا الارم ہے جب یہی طاقتیں ان تمام قوتوں کو دہشت گرد قرار دیں گی، جو اسلام، جمہوریت اور انسانی آزادی کی پکار لگائیں گے۔

اس وقت اخوان مخالف اور اسلام دشمن طاقتوں کی پوری کوشش یہ ہے کہ وہ مصر کی صورتحال کو مصر کا اندرونی سیاسی مسئلہ بناکر دنیا کے سامنے پیش کریں اور ذرائع ابلاغ کی حد تک وہ اس میں کامیاب بھی ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ مصر میں آج جو کچھ ہورہا ہے، اور اخوان اور مصرکی منتخب حکومت کی قیادت پر جو بھی ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، وہ صرف سیسی اور اس کے ٹولے کا کام نہیں، اس جرم معدودے چند کو چھوڑ کر پوری دنیا ایک طرف ہے اور اخوان و مرسی حکومت کے حامی ایک طرف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مصری عدالتی نظام کو بھی انصاف کی عصمت دری کی کھلی چھوٹ ملی ہے اور مصر میں جمہوریت کے قاتل سیسی پوری بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ انتخابات کا ڈرامہ رچاتے ہوئے یہ اعلان کررہا ہے کہ اگر وہ اقتدار میں آتا ہے تو مرسی اور اخوان المسلمون کا نام ونشان مٹادے گا۔ ظاہر ہے انھیں یہ طاقت و جرأت جمہوریت کی چمپئن انہی قوتوں نے دی ہے، جو جمہوریت اور انسانی حقوق کے خالق بھی قرار دی جاتی ہیں اور اس کا ڈھنڈورا بھی پیٹتی ہیں۔

مصر میں اخوان کے خلاف دشمن طاقتیں اپنی چالیں چل رہی ہیںمگر وہ یہ بھولی ہوئی ہیں کہ ان سے اور بہت بڑی مطلق چال چلنے والی ذات بھی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہے:

مکروا و مکر اللّٰہ واللّٰہ خیر الماکرین۔

کون جانے کہ آنے والا وقت کس کے لیے کیا لے کر آئے گا، مگر یہ بات تو صاف ہے کہ اب دنیا کو یہ معلوم ہوتا جارہا ہے کہ مخلص اور حقیقی دین دار کون ہے اور منافق اور مفاد پرست کون؟ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو اسی لیے تو آزماتا ہے کہ کھرے اورکھوٹے کو الگ الگ کردے اور جب آزمائش پوری ہوجاتی ہے تو اللہ کی مدد ایسے آتی ہے کہ انسان تصور نہیں کرسکتا۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے اور وہ برا وقت ہوگا، ان لوگوں کے لیے جنھوںنے دین کو حقیر مقاصد کے لیے استعمال کیا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں