چند تصویریں: ہمارے سماج کی

عظمیٰ ابو نثر صدیقی

رات خاصی بیت چکی تھی۔ عامر کے کمرے کی لائٹیں ابھی تک جل رہی تھیں… کل اس کا میٹرک کا آخری پیپر تھا اور اس نے اپنی تمام تر ذہنی صلاحیتیں اچھا گریڈ لانے کے لیے وقف کردی تھیں۔ وہ اپنے والدین کا دوسرا بیٹا تھا۔ بڑا بیٹا عادل ماشاء اللہ اپنی تعلیم مکمل کرکے بہترین ملازمت حاصل کرچکا تھا۔ اور عامر ہر بات میں ’’عادل کی طرح بنو‘‘ کی رٹ سن سن کر تھک چکا تھا۔ اب اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو ایک جیسی صلاحیتیں تھوڑی دی ہیں، کسی میں کم کسی میں زیادہ۔ یہ عامر کا نقطہ نظر تھا جو اس کے گھر والے ہرگز نہ سمجھتے تھے۔

’’چلو شکر ہے اس میٹرک کی ٹینشن سے تو جان چھوٹی… یار میں تو تھک گیا ہوں۔ اتنی محنت کرو مگر نتیجہ وہی نکلتا ہے۔ ہر جگہ دھاندلی ہے۔ بھئی سب جانتے ہیں کہ پرچیاں چلتی ہیں اب۔‘‘ عامر اپنے دوست کے ساتھ سینٹر سے نکلتے ہوئے کہہ رہا تھا۔

’’ہاں یار یہ تو ہے … مگر ہمارے اماں ابا سب یہ چاہتے ہیں کہ ان کے بیٹے پوزیشن حاصل کریں۔‘‘ … شعیب نے بائیک اسٹارٹ کی۔

’’بس یار دعا کر کہ میرا اچھا گریڈ بن جائے، ورنہ ابو نے تو دھمکی دے دی ہے کہ گھر سے باہر ہی نکال دیں گے اور ان کی صلواتیں الگ ۔‘‘ … عامر اس کے پیچھے بیٹھ گیا۔ ’’چلو بھئی فی الحال تو رزلٹ کافی دور ہے تب تک تو عیش کرو، ابھی سے سوچ سوچ کر جان کیوں جلا رہے ہو؟ شام کو آجانا میری طرف، اچھی سی مووی دیکھیں گے۔ میں نے فاتح اور انصر کو بھی کہہ دیا تھا، وہ بھی آرہے ہیں۔‘‘ شعیب فل اسپیڈ میں بائیک اڑا رہا تھا۔

’’چلو ٹھیک ہے، میں آتا ہوں شام میں تمہاری طرف‘‘… عامر کا گھر قریب تھا، وہ ہاتھ ہلا کر اپنے گھر کی طرف چل دیا۔

چھ مہینے یوں ہی بیت گئے۔ کل میٹرک کا رزلٹ آنا تھا، عامر کی جان پر بنی ہوئی تھی۔ ’’تمہارا رزلٹ عادل سے کم نہیں آنا چاہیے، میڈیکل کالج میں داخلہ ایسے ہی نہیں مل جاتا‘‘ ۔۔۔ ابو ابھی اسے کہہ کر گھر سے نکلے تھے۔

اور تو اور اس معاملے میں امی بھی اس کا کوئی ساتھ نہیں دے سکتی تھیں۔ انہیں اندازہ تھا کہ ان کے بیٹے نے دن رات محنت کی ہے، اس کے باوجود وہ ذہنی لحاظ سے اتنا اچھا نہ تھا کہ عادل جیسی کارکردگی دکھاتا۔ خیر اب صبح کا انتظار تھا۔ عامر کے لیے یہ انتظار کی رات بہت بھاری تھی، اس کے کیریئر کا تمام دار و مدار اس کے اسی میٹرک کے رزلٹ پر تھا۔ پھر امی، بہنوں اور سب کی امید افزا نظریں؟ رات جاگتے جاگتے صبح بہت دیر سے نیند آئی… امی اسے دوبارہ دیکھنے آئیں تو وہ سو رہا تھا۔ دوپہر دو بجے ابا کی غصے سے بھری گرج چمک کی آواز سن کر اس کے چودہ طبق روشن ہوگئے، وہ تیزی سے بستر سے اٹھ کھڑا ہوا۔

’’واہ واہ صاحبزادے سو رہے ہیں، پورے شہر میں میٹرک کے اسٹوڈنٹس اپنے رزلٹ کی فکر میں ہیں اور ان کی نیندیں ہی پوری نہیں ہو رہی ہیں، خوب نام روشن کیا ہے اپنے باپ کا … یہی امید تھی مجھے تم سے … تم جیسے آوارہ گرد اور کند ذہن لڑکے سے اور کیا امید ہوگی…!‘‘ ابو نے رزلٹ کا اخبار اس کے منہ پر مارا … اس نے بے چینی سے اپنا رول نمبر تلاش کرنا شروع کیا…اتنی بے عزتی کے بعد آنکھوں میں در آنے والا نمکین پانی بار بار نمبر دھندلا دیتا…آخر کار ’’Cگریڈ‘‘ میں اس کا نمبر مل ہی گیا… اتنی محنت کا یہ صلہ…؟ دکھ سے اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے… ’’ہاں اب بہا لو ٹسوے لڑکیوں کی طرح‘‘ … گھر کے تمام افراد لاؤنج میں جمع تھے اور وہ مجرم کی طرح سر جھکائے سنتا چلا جا رہا تھا۔ ابو کے آگے کچھ بولنے کا مطلب مزید بے عزتی۔

’’میں نے کہا تھا تم سے کہ خراب رزلٹ آیا تو کوئی ضرورت نہیں ہے مجھے شکل دکھانے کی… ہم دن رات ایک کر کے ان کی پڑھائی کے خرچے اٹھائیں اور اس کا یہ نتیجہ نکلے؟ دفع ہوجاؤ میرے سامنے سے۔‘‘ … عاقل صاحب نے منہ پھیر لیا۔

’’ہاں ہاں چلا جاؤں گا… نہیں دکھاؤں کا آپ کو اپنی شکل‘‘… عامر برداشت کی حد سے گزر چکا تھا، آخر چیخ اٹھا۔

’’دیکھ رہی ہو بیگم، کس لہجے میں بات کررہا ہے یہ مجھ سے؟‘‘ عاقل صاحب تھک ہار کر صوفے پر بیٹھ گئے اور عامر زور دار آواز سے دروازہ بند کر کے گھر سے باہر نکل گیا۔

’’جوان خون ہے عاقل صاحب، ذرا آرام سے بات کرلیتے۔‘‘ … بیگم کے بولنے پر وہ پھر بھڑک اٹھے ’’ہاں جوان خون ہے اور ہم جوان کے پیچھے اپنا خون جلا ر ہے ہیں، وہ؟

اب پتا نہیں کہاں گیا یہ لڑکا ۔۔۔ موبائل بھی یہیں پڑا ہے۔ اللہ خیر کرے۔‘‘ عامر کی امی دروازے کی طرف بڑھیں۔

عامر کے ذہن میں بار بار ابو کے کہے جملے گونج رہے تھے، احساس تذلیل سے اس کے اعصاب تک جل رہے تھے۔۔۔ سامنے سے آتی بس میں وہ سوار ہوگیا۔ جیب سے بہ مشکل ہی کرائے کے پیسے نکلے۔‘‘ ہر ایک خوش ہے، اپنی دنیا میں مگن اور میں۔۔۔؟‘‘ وہ مایوسی کی انتہا پر تھا۔ نیٹی جیٹی کا پل آچکا تھا۔ اس نے کچھ دیر بغور سبز سمندر کو دیکھا اور خود کو یہ کہتے ہوئے ان لہروں کے حوالے کردیا: ’’مجھے اب مر ہی جانا چاہیے۔‘‘

٭٭٭

کیا…؟ تنزیلہ کی پھر بیٹی ہوگئی…! اے ہے اس کی ساس تو اس کی جان لے لے گی… محلے میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔

تنزیلہ کو اسپتال سے لینے کوئی نہ گیا، نہ اس کا شوہر نہ اس کی ساس او رنہ ہی کوئی اور … عزیز تو نرس کے منہ سے بیٹی کی پیدائش کا سن کر ہی واپس لوٹ آیا۔ تنزیلہ کے پاس اس کی بہن تھی جس کی اپنی گھر کی ذمہ داریاں تھیں، بھابھی کے چھوٹے بچے تھے تو وہ بھی نہ آسکتی تھیں۔ تیسری بچی کی پیدائش کی خبر نے اس کے بھی ہوش گم کردیے تھے۔ کیا تھا جو اللہ اسے اس بار بیٹے سے نواز دیتا۔ غرض تیسری بیٹی کی آمد کی خبر کسی ایک کو بھی خوش نہ کرسکی۔

ہاں وہ ننھی پریاں تھیں، جو گھر پر اپنی منی سی بہن کا انتظار کر رہی تھیں۔ تنزیلہ نے کہہ سن کر اسپتال والوں سے زبردستی چھٹی لی اور اپنی بہن کے ساتھ رکشہ میں بیٹھ کر گھر آگئی… حسب معمول طنزیہ جملوں اور نظروں سے اس کا استقبال ہوا… ’’آگئی ایک اور پتھر لے کر۔ ارے میرے عزیز کے نصیب میں بیٹیاں پالنا ہی لکھا ہے کیا؟‘‘ ساس نے شدت غم سے سینہ کوبی شروع کردی تھی۔ اس نے نظریں اٹھا کر عزیز کی جانب دیکھا، کم از کم اس کا ہم سفر تو اس کا ساتھ دیتا… عزیز آگے بڑھا تو تنزیلہ کا نحیف چہرہ تمتما اٹھا، مگر وہ اس کے برابر سے گزر کر باہر نکل گیا۔ تنزیلہ ننھی سی جان کو لے کر وہیں زمین پر بیٹھ گئی۔ اس نے اپنے متوقع استقبال کے پیش نظر اپنی بہن کو باہر سے ہی رخصت کر دیا تھا کہ اس کا اپنا گھر اور بچے اس کا انتظار کر رہے تھے۔

آنے والا ہر دن اس کے مصائب میں اضافہ ہی کرتا چلا گیا۔ ہر روز کے طعنے، پھر محلے والوں کا نٹی ہٹی کی مبارک باد کے بجائے تعزیت کے لیے آنا، خود کو اور بچوں کو سنبھالنا، اوپر سے عزیز کی دوسری شادی کی دھمکی … ان سب باتوں نے تنزیلہ کو توڑ کر رکھ دیا۔ وہ ذرا ذرا سی باتوں پر بچیوں کو ادھیڑ کر رکھ دیتی اور خود زور زور سے رونے لگتی، جس پر اس کی ساس اسے مزید لعنت ملامت سے نوازتیں۔ اس دنیا میں کوئی بھی تو نہ تھا جو اس کا ساتھ دیتا۔ اس گھر سے باہر نکلتی تو کہاں جاتی؟ سائبان ہوتے ہوئے وہ بے سائبان ہوگئی تھی۔ بچیوں کو اسکول بھیج کر وہ کمرہ بند کر کے پنکھے سے لٹک گئی۔ ’’مجھے مر ہی جانا چاہیے۔‘‘ اس کے بعد اس کی تین ننھی اور معصوم شہزادیوں کا کیا ہوگا؟ اب اسے کسی بات کی فکر نہ تھی، وہ تو ہر غم سے آزاد ہوچکی تھی۔

٭٭٭

’’اے بہن، سحرش کا کوئی رشتہ آیا کیا؟‘‘ پڑوسن خالہ نے اپنی ٹھوڑی پر ہاتھ رکھ کر صابرہ خاتون سے پوچھ ہی لیا۔

’’کہاں خالہ… اب تو وہ تیس کے پیٹھے میں لگ گئی ہے اور اوپر سے سانولا رنگ … لگتا ہے تقدیر بھی کالی لکھوا کر لائی ہے۔‘‘ صابرہ خاتون کو ایک ہی دکھ تھا۔ ’’ارے ایسے نہیں بولتے… کہیں تو ہوگا اس کا جوڑ بھی … ماشاء اللہ سگھڑ ہے، پورا گھر سنبھال رکھا ہے، خود اپنی بہنوں کا جہیز بنایا ہے… سلائی، کڑھائی، بنائی ہر فن میں تو طاق ہے۔ تم فکر نہ کرو اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔‘‘

’’بس یہی تو فکر ہے خالہ … کسی طرح اس کے ہاتھ پیلے ہوں تو میں بھی سکون سے مروں، ورنہ کس کے سہارے چھوڑ کر جاؤں گی؟ ایک ہی تو بھائی ہے اور اس کی بھی جورو … اللہ معاف کرے وہ تو ایک دن بھی کسی کو برداشت نہ کرے۔ ندا اور شازیہ آتی ہیں تو مجال ہے کمرے سے باہر قدم رکھ لے۔ ہاں کھانے کے لیے بلوالو… خالہ! تم دیکھو ناں کوئی رنڈوا ہی ہو، ایک دو بچے بھی ہوں تو بھی مسئلہ نہیں … بس کھانا کمانا اچھا ہو، میری بیٹی کو اچھا رکھے۔‘‘

’’ہاں ہاں دیکھتی ہوں، تم فکر نہ کرو سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘ خالد تسلی دے کر چل دیں۔ چھوٹا سا تو گھر تھا۔ سحرش تمام باتیں اندر بیٹھی سن رہی تھی۔ اس کی ماں اس کی طرف سے بہت پریشان تھیں، پھر ہر آنے والے کی ہمدردانہ نظریں۔۔۔ اور اب تو اماں ہر طرح کے رشتے پر ہاں کرنے کو تیار تھیں۔۔۔ گھوم پھر کر گھر میں بس ایک یہی موضوع رہ گیا تھا سحرش کی شادی؟ اس سے چھوٹی ندا اور شاذیہ اپنے اپنے گھروں میں اپنے بچوں کے ساتھ سکون سے آباد تھیں، اور وہ بھی سکون سے رہتی اگر اس کے منگیتر کا انتقال نہ ہوا ہوتا۔۔۔ وہ بھی اس کی منگنی کے اگلے ہی دن ۔۔۔یہ سب تو تقدیر میں لکھا تھا مگر لوگوں کی زبانیں کون روکتا! خود اس کے اپنے گھر میں اس کی بھابھی نے اس کا جینا محال کر رکھا تھا، اس کے منحوس ہونے کے چرچے پورے محلے میں تھے۔ اس نے خود کو بس گھر تک محدود کرلیا تھا۔ خود ہی شادی بیاہ میں جانے سے کترانے لگی تھی۔

اماں کی طبیعت دو دن سے بہت خراب تھی، اور اُن کا ہر آنے والے سے ایک ہی جملہ تھا ’’میری سحرش کا کچھ ہو جاتا تو میں سکون سے مرجاتی‘‘ … آخر کار سحرش کو ایک ہی حل نظر آیا … ’’مجھے مرہی جانا چاہیے، کم از کم اماں کی پریشانی تو دور ہوگی۔‘‘ آج اماں کی دواؤں کے ساتھ وہ نیند کی گولیوں کی بوتل بھی لیتی آئی اور رات اماں کو دوا دینے کے بعد خود بھی دوا لے کر لیٹ گئی… سکون کی نیند لینے اور کبھی بھی نہ اٹھنے کے لیے … صبح اس کے گھر رشتہ داروں کا تانتا بندھا ہوا تھا … تعزیت کرنے والوں اور افسوس کرنے والوں کا رش … اماں کے لیے نہیں سحرش کی تعزیت کرنے کے لیے۔

٭٭٭

’’کیا ہوا، کچھ بنا؟‘‘ ابھی باسط نے پیر گھر میں رکھا ہی تھا کہ زبیدہ نے سوال داغ دیا۔ نہ جانے غصہ تھا، بے بسی تھی یا مایوسی… باسط ایک گہری نظر زبیدہ پر ڈال کر اندر کمرے کی طرف چل دیا۔

’’میں بھی ناں … بچارے تھک ہار آئے ہوں گے، بجائے پانی پوچھنے کے کیا پوچھنے بیٹھ گئی؟‘‘ اس نے مٹکے سے گلاس بھرا اور اندر آگئی۔

باسط کی کمپنی دو ماہ قبل بند ہوگئی تھی۔ مالکان کا آپس کا جھگڑا تھا، جس کا اثر بے شمار مزدوروں کے گھروں پر پڑا۔ باسط بھی ان میں سے ایک تھا۔ پانچ اسکول جاتے بچوں کا باپ … تینوں بیٹے بھی چھوٹے تھے اور کوئی اس قابل نہ تھا کہ باپ کا ہاتھ بٹا دیتا۔ اب روز صبح سے شام ہوجاتی، نوکری نہ ملنی تھی سو نہ ملی … پیسے بھی اب تقریباً ختم ہوگئے تھے اور آنے والی ہر تاریخ باسط کو مایوسی کی طرف دھکیل رہی تھی۔ زبیدہ پانی پلا کر وہیں بیٹھ گئی… ’’آج شریف بھائی بھی آئے تھے، کہہ رہے تھے کہ بجلی، گیس پر پیسے بہت بڑھ گئے ہیں۔ اب اگلے مہینے سے پورے پانچ ہزار کرایہ لوں گا۔چار ہزار میںپورا نہیں پڑتا۔ میں کیا کہتی خاموش ہی رہی۔ اللہ کوئی وسیلہ بنا دے توہم یہ کرایہ بھی دے سکیں گے، زیادہ کہاں سے دیں!‘‘ زبیدہ کو احساس تو تھا کہ اس کا شوہر کتنا پریشان ہے، پر وہ بھی کیا کرتی…؟ اور باسط مسلسل خاموش چارپائی پر لیٹا ایک ٹک چھت کی طرف دیکھ رہا تھا۔

’’زبیدہ کتنے پیسے ہوں گے تیرے پاس؟‘‘ آخر کار چپ ٹوٹی۔

’’ہاں کل ہم نے مال سی کر دیا تھا تو وہ تین سو روپے دے گیا ہے اور آج اٹھائیس تاریخ ہے۔ پہلی تاریخ ہوتے ہی سب کے تقاضے شروع ہوجائیں گے۔ مالک مکان، اسکول، راشن … ٹیوشن والی نے بھگا ہی دیا ہے، اور دودھ والے کو میں نے منع کر دیا ہے۔ مگر ان سب کو دینا تو ہے ناں۔ کچھ کرو ناں باسط، میرا تو دل ہول رہا ہے۔‘‘

’’تم فکر نہ کرو سب ٹھیک ہوجائے گا، اچھا یہ تین سو تو مجھے دو، او رہاں آج رات کھانا نہ بنانا، کم از کم آج تو ہم اچھا کھانا کھائیں گے، میں لیتا آؤں گا۔‘‘ زبیدہ حیران سی باسط کو دیکھنے لگی۔

شاید کہیں کوئی امید لگی ہو جو ایسا بول رہے ہیں۔ زبیدہ نے پیسے باسط کے حوالے کردیے۔ باسط سارا دن گھومتا رہا اور اچھی کوالٹی کا زہر لینے میں کامیاب ہوگیا۔ بازار سے نہاری روٹی لی اور گھر کی طرف چل دیا۔ اس رات ان سب گھر والوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور صبح کے نیوز بلیٹن میں زہریلا کھانا کھانے سے ہلاک ہونے والے پانچ معصوم بچوں سمیت سات افراد کی ہلاکت کی خبر نے سب کو افسوس کرنے پر مجبور کر دیا۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146