چیل اور طوطا

محمد زبیر

ماموں کے گھر لوہے کی پتریوں سے بنے اس چھوٹے سے پنجرے میں قید طوطے پر مجھے بہت ترس آتا، میں اس سے اچھی طرح واقف تھا۔ میرے پندرہ سالہ ماموں زاد بھائی حفیظ نے اسے پالا ہوا تھا۔ اس کے پر تھے مگرنا کارہ کیوں کہ پروں کو استعمال کرنے کے لیے کھلی فضا کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب کہ پنجرے کا کل رقبہ دو مربع فٹ بھی نہیں تھا۔ ایک دن میں نے سب کی آنکھ بچا کر اس کے پنجرے کا دروازہ کھولا مگر وہ پنجرے ہی میں بیٹھا رہا۔ میں نے دو تین بار اسے ہش ہش کیا تو وہ باہر نکل آیا لیکن اسے آزادی کا شعور نہیں تھا لہٰذا سکڑ کر پھر بیٹھ گیا۔

میں نے اسے دونوں ہاتھوں سے اٹھایااور فضا میں ڈال دیا۔ وہ بہ مشکل اڑ پایا اور پڑوسیوں کی دیوار پر جا بیٹھا انھوں نے اسے دوبارہ حفیظ کے حوالے کر دیا۔ جب اسے دوبارہ قید کیا گیا تو میں نے اس کے قریب جاکر اس کے کان میں ھولے سے کہا: ’’واہ طوطے صاحب! تم بھی نرے نکلے، میں نے تمہیں آزاد کیا مگر تم فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ اب پنجرے والی پر غمالانہ زندگی تا حیات تمہارا مقدر رہے گا۔ مگر اس کی آنکھوں میں کسی قسم کا تاثر نہیں ابھرا بلکہ وہ پھڑپھڑا کر پرے ہٹ گیا۔

اسے اڑنے کی مشق نہیں تھی اس لیے شاید زیادہ دور نہیں اڑ سکا۔ میں نے سوچا کہ پہلے اسے اڑنے کی مشق کرنی ہوگی تب ہی اسے آزادی جیسی نعمت کا احساس ہوگا۔

اسے ’باقاعدہ‘ رہائی دلانے کے لیے اب میں نے اس سے بات چیت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ حفیظ مجھ سے چھوٹا ہے، اتنا چھوٹا کہ جب وہ پیدا ہوا تو میں بی اے کا امتحان دے رہا تھا اس لیے میری بہت عزت کرتا ہے۔ ایک دن میں نے اس سے پوچھا: ’’حفیظ! کیا تمہیں آزادی کی نعمت اور غلامی کی ذلت کا احساس ہے؟‘‘

’’میں سمجھا نہیں‘‘ وہ الجھے ہوئے لہجے میں بولا۔

’’دیکھو حفیظ، اگر میں تمہیں زندگی میں کچھ دیر کے لیے اس کمرے میں بند کردوں تو تم پر کیا بیتے گی؟‘‘

’’میں اکتا جاؤں گا بلکہ چیخوں گا چلاؤں گا۔‘‘ حفیظ نے جواب دیا۔

’’اس کا مطلب ہے کہ تم قید جیسی ذلت کا کرب محسوس کرسکتے ہو۔‘‘

’’مگر آج آپ اس قسم کی باتیں کیوں لے بیٹھے، خیریت تو ہے نا؟‘‘ حفیظ مسکراتے ہوئے بولا۔

’’ہاں خیریت ہے، میں جاننا چاہتا ہوں کہ آزادی اور غلامی میں کیا فرق ہے؟ تمہاری بات سے اندازہ ہوا کہ تم غلامی کے عذاب سے واقف ہو مگر حیرت ہے کہ اتنے باشعور ہونے کے باوجود تم نے ایک پرندے کو اپنی قید میں رکھا ہوا ہے۔ وہ پرندہ کہ جسے قدرت نے پروں کا تحفہ دے کر دنیا میں بھیجا مگر تم نے محض اپنی تسکین کے لیے اسے چھوٹے سے پنجرے میں قید کر رکھا ہے۔ اس کی زبان ہوتی تو وہ بھی چیختا چلاتا، تمہاری منتیں کرتا، وہ تو اب بھی فریادیں اور آہ و زاریاں کرتا ہے جسے تم اس کی میٹھی بولیاں سمجھتے ہو۔ اسے رہا کردو حفیظ، وہ آزاد فضاؤں میں اڑنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ اسے ان فضاؤں میں واپس بھیج دو تاکہ وہ آم کے درختوں پر بیٹھ کر چہک سکے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کچی کیریاں کھاسکے۔ اس کے پروں کو ہوا کا تحفہ دے دو، اسے تمہارے ہاتھ کی دودھ ملائیاں کہاں پسند ہوں گی، یہ سب کچھ تو اسے مجبوراً کھانا پڑتا ہے۔‘‘ میں نے ایک ہی سانس میں اپنے دل کا حال سنا دیا۔

’’اچھا تو آج آپ طوطے کی وکالت کرنے آئے ہیں، مگر بھائی جان، آپ تو جانتے ہیں کہ دادی جان کو وہ طوطا پسند ہے، وہ کہاں مانیںگی۔‘‘ حفیظ نے کندھے اچکا کر کہا۔

’’بھئی یہ تو اور بھی غلط بات ہے کہ محض اپنی پسند، ناپسند کی بنا پر کسی سے اس کی آزادی چھین لی جائے۔ تمہاری دادی اس بات پر پہلے احتجاج ضرور کریں گی مگر بعد میں مان جائیں گی۔‘‘

’’تو پھر آج ہی اسے آزاد کردیتے ہیں۔‘‘ حفیظ نے اچانک یوٹرن لیتے ہوئے پرجوش انداز میں کہا۔

’’نہیں ابھی نہیں۔‘‘ میں نے سر کھجاتے ہوئے جواب دیا۔ ’ابھی اسے آزادی کا شعور نہیں، ابھی اس کے پروں میں طویل پرواز کی صلاحیت کم ہے۔ تم یوں کرو کہ بند کمرے میں پہلے اسے اڑنے کی مشق کراؤ تاکہ وہ تین چار روز میں اپنے آپ کو سنبھالنے اور مقدور بھر اڑان کے قابل ہوجائے۔‘‘

’’آج کون سی تاریخ ہے؟‘‘ حفیظ نے سوال کیا۔

’’آج آٹھ اگست ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔

’’تو پھر اسے ۱۵؍ اگست والے دن اڑائیں گے، وہ اتنے دنوں تک اڑنے کی مشق کرچکا ہوگا۔‘‘

’’وعدہ کرو کہ اس معاملے میں تم کسی کے دباؤ میں نہیں آؤگے۔‘‘ میں نے اپنا ہاتھ اس کے آگے کرتے ہوئے کہا۔

’’ارے بھائی جان! آپ مجھے اتنا کچا سمجھتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دیا۔ اب اس کی آنکھوں سے آزادی کا شعور جھانک رہا تھا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ آزادی ایسا تحفہ ہے جس کی تمنا ہر ذی حس کرتا ہے۔

چار پانچ دن اپنی ساعتیں مکمل کر کے گزر گئے، پندرہ اگست کو ماموں جان کے گھر جا پہنچا، تو وہاں جاکر پتہ چلا کہ حفیظ نے طوطے کی آزادی کے سلسلے میں سب کو قائل کرلیا ہے۔

’’آئیے بھائی جان! اسے اپنے ہاتھوں سے آزاد کیجیے کیوں کہ اس کی آزادی کی تحریک آپ نے شروع کی ہے۔‘‘ وہ مجھے پنجرے کی طرف لے جاتے ہوئے بولا۔

’’نہیں حفیظ! اسے تم ہی آزاد کروگے۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ غلامی کے بعد آزادی کی اڑان کیسی ہوتی ہے۔ ویسے تم نے اسے اڑنے کی مشق تو کروا دی ہے نا؟‘‘ میں نے اس سے سوال کیا۔

’’یہ کافی مشق کرچکا ہے، آپ فکر نہ کریں۔‘‘

طوطے نے بیگانی نظروں سے ہماری طرف دیکھا پھر آنکھیں پھیر لیں۔ حفیظ نے پنجرے کا دروازہ کھولا اور ایک ہاتھ سے پکڑ کر اسے باہر نکالا۔ طوطا اس کے ہاتھوں میں بری طرح پھڑپھڑانے لگا۔ حفیظ نے بسم اللہ پڑھی اور اسے ہوا میں اچھال دیا۔ طوطا اوپر کو اٹھا، فضا ہی میں وہ تین قلابازیاں کھائیں مگر جلد ہی اس نے اپنے آپ کو سنبھال لیا اسے اڑنے کا سلیقہ نہیں تھا لیکن اڑنے کی جبلت تو موجود تھی۔ جلدی ہی اس کی اڑان میں قدرے پختگی آگئی۔

ابھی وہ زمین سے بیس پچیس فٹ ہی کی بلندی پر پہنچا تھا کہ اچانک ایک چیل نے غوطہ لگایا اور طوطے کو اپنے پنجوں میں دبوچ کر اوپر کی طرف پرواز کر گئی۔ وہ اس کے طاقت ور پنجوں میں پھڑپھڑا رہاتھا۔ ہم دونوں نے بے بسی سے ایک دوسرے کو دیکھا پھر دوبارہ آسمان کی جانب سے نگاہیں پھیر لیں۔ چیل اس طوطے کو اپنے موذی پنجوں میں دبائے بہت اوپر جاچکی تھی۔ جب وہ ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئی تو میں نے خالی پنجرے کی طرف دیکھا۔ یکایک مجھے یوں لگا جیسے ہم تمام اسی طوطے کے مانند ہیں ہمیں ایک طرف آزادی ملی تو دوسری طرف استحصالی عالمی نظام نے ہمیں اپنے پنجوں میں دبوچ لیا، بالکل اس چیل کی طرح۔

میںماموں کے گھر سے باہر نکل آیا اور گلی میں شور مچاتے اور خوشیاں مناتے ہوئے بچوں کو دیکھا، وہ بہت خوش تھے اور ۱۵؍ اگست کو اپنا یوم آزادی منا رہے تھے۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں