ڈائن

عطیہ پروین

دو مہینہ تک مسلسل بیمار رہ کر آج صالحہ مر گئی۔ وہ صالحہ جو مجھے جان سے زیادہ عزیز تھی۔ وہ صالحہ جس کے چہرے پر حوروں کی سی معصومیت اور دیویوں جیسا جلال تھا۔ جس کے دبلے پتلے، کمزور جسم میں ہزاروں لطافتیں لپٹی رہتی تھیں، جس کے گلابی لبوں پر ایک مرجھائی ہوئی اداس مسکراہٹ چپکی رہتی تھی، صالحہ جو میرے لیے قابل عزت مگر محلے والوں کے لیے قابل نفر ت تھی۔ وہ صالحہ جس کی دوستی پر مجھے فخر تھا جس کی قربت میرے لیے باعث تسکین مگر اوروں کے لیے باعث نفرین تھی۔

معصوم صالحہ! جس کو لوگوں نے ’’ڈائن‘‘ جیسا مکروہ خطاب دیا تھا۔ آج ۔۔۔۔! آہ! آج وہی صالحہ مرگئی۔ مر نہیں گئی، قتل کردی گئی۔ اس کا قاتل کوئی ایک شخص نہیں۔ پورا محلہ ہے، پورا شہر ہے۔ یہاں کا ایک ایک شخص اس کا قاتل ہے۔ ہر وہ شخص قاتل ہے، جس نے صالحہ کو ڈائن کہہ کر پکارا ہے۔

آج وہ صالحہ مر گئی۔ محلے والے خوش ہیں۔ ’’چلو پاپ کٹا۔‘‘

’’وہ موٹی، ڈائن مر گئی، آج محلہ پاک ہوگیا۔‘‘

خس کم جہاں پاک۔

اف! اس کا ناپاک وجود کس قدر باعث تکلیف تھا!!!

یہ تیر و نشتر صبح سے میرے کانوں میں چبھ چبھ کر مجھے اذیت دے رہے ہیں۔ تڑپا رہے ہیں۔ جی چاہتا ہے، ان سب کی زبانیں کھینچ لوں۔ گلا گھونٹ دوں۔ مگر ۔۔۔۔ دانت پیس کر رہ جاتی ہوں۔ لوگ میرے خیالات سے بے خبر ہیں۔ میرے غصہ سے انجان ہیں اور میرے غم سے بے پرواہ۔ وہ صالحہ کو اب بھی ڈائن کہہ رہے ہیں۔ اب بھی لعنت ملامت کر رہے ہیں ۔۔۔۔ آہ وہ نہیں جانتے کہ صالحہ بے قصور تھی۔ وہ ڈائن نہیں۔ قابل فخر عورت تھی، لوگوں نے اس کو بدنام کیا۔ صلواتیں سنائیں۔ آوازے کسے مگر وہ۔۔۔ خاموش رہی مہر بلب! دنیا اس کو قاتل سمجھتی رہی۔ نفرت کرتی رہی۔ مگر اس نے اپنی زبان بند رکھی۔ میرے سمجھانے پر بھی حقیت ظاہر نہ کی، ہاں! وہ صالحہ جس نے اپنی بدنامی برداشت کرلی۔ مگر اپنے شوہر کو بدنام کرنا گوارا نہ کیا۔ وہ مرتے دم تک اس کو یاد کر کے آنسو بہاتی رہی۔ سسکیاں بھرتی رہی۔ سب اس کو شوہر کا قاتل سمجھتے رہے اور سمجھ رہے ہیں۔ مگر یہ لوگ حقیقت سے ناواقف ہیں۔ حقیقت سے صرف میں واقف ہوں۔ صرف میں اور کوئی نہیں۔ میری طرح اگر یہ لوگ بھی حقیقت سے آگاہ ہوتے تو آج اس طرح خوشیاں نہ منا رہے ہوتے، صالحہ کی لاش پر صرف اس کی بوڑھی ماں آنسو نہ بہا رہی ہوتی۔ وہ ماں، جو اس کو ڈائن سمجھتے ہوئے بھی اپنی کوکھ پیٹ رہی ہے۔

اف! کس قدر گہری تھی صالحہ ۔ جس نے اپنی ماں کو بھی حقیقت کی ہوا نہ لگنے دی۔ اور مجھ کو بھی نہ بتاتی۔ اگر میں بھی اسے ڈائن سمجھتی ہوتی۔ اس سے نفرت کرنے لگتی۔ اس پر فقرے کستی۔ اگر کسی محفل میں اسے دیکھ لیتی تو اوروں کی طرح میں بھی اپنے لباس کو اس کے آنچل کے لمس سے بچاتی ہوئی دور جا بیٹھتی۔ اور سرگوشیاں کر کر کے طنزیہ مسکراہٹیں اچھالتی ہوتی۔۔۔۔! مجھے فخر ہے کہ صالحہ صرف مجھے اپنی سچی ہمدردسمجھتی تھی۔ ہمدم و ہمراز! اس نے صرف مجھے اپنا راز دار بننے کا شرف بخشا۔ مرنے سے ایک روز پہلے اس نے یہ راز مجھے بتایا۔ اور اب جب کہ وہ اس دنیا سے کہیں دور، بہت دور جاچکی ہے، کبھی نہ واپس آنے کے لیے، تو میں سوچ رہی ہوں کہ اس کے راز کو راز ہی رکھوں یااس کی پیشانی سے اس سیاہی کو دھونے کے لیے ہر ایک پر یہ راز افشا کردوں۔ زندگی میں نہ سہی مرنے کے بعد ہی وہ اپنی کھوئی ہوئی عزت حاصل کرلے۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔۔ منہ کھولتی ہوں۔ اور چپ ہوجاتی ہوں۔ اس کی قسم یاد آتی ہے تو کپکپا کر رہ جاتی ہوں۔ آج میری آنکھوں کے سامنے وہ منظر گھوم رہا ہے۔ جب دنیا والوں نے اس کو یہ مکروہ خطاب دیا تھا! ۔۔۔ یہ خطاب!! جس کو سن کر وہ کانپ جاتی تھی۔ تھرا اٹھتی تھی۔۔۔۔ اور سسک پڑتی تھی ۔۔۔۔ بے گناہ صالحہ۔

آہ! ایسی ہی ایک صبح تھی ۔۔۔۔ موسم گرما کی ایک منحوس صبح ۔۔۔۔ جب بستر سے اٹھتے ہی کان میں یہ آواز پڑی تھی۔

صالحہ نے اپنے شوہر کو مار ڈالا۔

ہائے ڈائن کو رحم بھی نہ آیا۔ چائے میں زہر پلا دیا۔ ’’ڈائن ۔۔۔۔ ڈائن‘‘

اور میں کانوں میں انگلیاں دے کر بھاگی۔ مجھے دیکھتے ہی صالحہ کے زرد گالوں پر دو آنسو ڈھلک پڑے ۔۔۔ اور پھر میرے ہاتھوں کا لمس پاکر وہ سسکنے لگی تھی ۔۔۔ وہ دن اور آج کا دن ڈائن کا خطاب سن سن کر کان پک گئے اور کلیجہ چھلنی ہوگیا۔ مجھے اس لفظ سے نفرت ہوگئی ہے۔

اس منحوس نام کو سن کر صالحہ خون کے آنسو روئی تھی۔ اس نے اپنے گداز جسم کو گھلا گھلا کر ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا لیا تھا۔ اور آخر کار جب وہ یہ سب برداشت نہ کرسکی تو اس چمکیلی صبح نے اس کے گھر میں تاریکی پھیلا دی۔

صالحہ:اب ان جان لیوا طعنوں سے، ان آوازوں سے، ان چڑھے ہوئے ابرووں اور طنز کے زہریلے تیروں کی زد سے باہر بہت دور چلی گئی ہے۔ اب کوئی آواز، کوئی نشتر اس کو تڑپا نہ سکے گا۔ تلملا نہ سکے گا ۔۔۔ صالحہ کی موت نے جہاں مجھ کو شدید ترین صدمہ پہنچایا میرے دل کو غم سے اور میری آنکھوں کو آنسوؤں سے لبریز کر دیا۔ وہاں مجھے ایک قسم کا سکون بھی ملا۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ اب میری صالحہ خون کے آنسو نہیں بہائے گی۔ نہ جلے گی نہ تڑپے گی۔ مگر آہ! ضبط نہیں ہوتا۔ صبر نہیں آتا۔ آنسو ہیں کہ امنڈے چلے آتے ہیں۔ دل ہے کہ بے قابو ہوا جاتا ہے۔ میری شفیق دوست، میری غمگسار سہیلی۔ اب مجھے کہاں ملے گی؟ وہ خود تو چلی گئی۔ مگر مجھے تڑپنے اور سسکنے کے لیے چھوڑ دیا۔ اس کی موہنی صورت میری آنکھوں کے آگے گھوم رہی ہے۔ آہ! ابھی کل تک تو وہ باتیں کر رہی تھی۔ میرے ہاتھ سے دوا پی رہی تھی۔ اور بھی کل شام تک وہ مجھ سے قسمیں لے لے کر سسک سسک کر اپنا راز بتا رہی تھی۔

وہ راز جس کو سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے ۔۔۔ اُف مجھے پھر یاد آگیا۔۔۔۔ میری بے گناہ صالحہ! وہ ڈائن نہیں تھی ۔۔۔۔ کاش میں لوگوں کو یہ بتا سکتی۔ ان کے دلوں سے نفرت کے اس غبار کو دور کرسکتی۔ میں سب کو یہ سمجھا سکتی کہ صالحہ نے اپنی عصمت و عفت کا خون کرنے کی بجائے اپنے شوہر کو ختم کر دیا۔ اس نے اپنی عزت پر اپنے سہاگ کو بھینٹ چڑھا دیا ــــ کاش لوگ اس بات کی تہ تک پہنچ سکتیــــ مجھے معلوم ہے کہ اس کا شوہر کتنا برا آدمی تھا۔ اس نے اپنے گل چھروں کے لیے صالحہ کا ایک ایک کپڑا اور ایک ایک چھلا تک بیچ ڈالا۔ اس نے گھر کا ایک ایک تنکا صاف کر دیا۔ مگر صالحہ پتھر کی مورتی کی طرح خاموش رہی۔ منہ میں زبان رکھتے ہوئے بھی اُف تک نہ کی۔ اور پھر روز بروز اس کے شوہر کا ہاتھ کھلتا گیا۔ زبان کھلتی گئی۔ گھر اجڑتا گیا، مگر صالحہ نے پھر بھی سر تسلیم خم رکھا۔

لیکن ایک روز ۔۔۔ اس کا دل جل اٹھا۔ اس کا دماغ چکرا گیا، اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اس کا وجود کانپ اٹھا۔ اس کی آنکھیں چنگاریاں برسانے لگیں ۔۔۔۔ اس کے شوہر نے کچھ ایسی ہی بات کہی تھی اس سے۔ صالحہ نے بتایا: ’’وہ مجھے بھی فروخت کرنا چاہتا تھا شکیلہ۔ میری آبرو کو نیلام کرنا چاہتا تھا۔ میرا جسم بیچ کر ۔۔۔۔ میرا جسم بیچ کر شراب پینا چاہتا تھا۔ اور شکیلہ وہ جوئے میں مجھے داؤں پر لگانا چاہتا تھا۔۔۔۔!

میری نسوانیت! میری غیرت چیخ پڑی شکیلہ، میرا بدن سلگ اٹھا ، میرا جی چاہا۔ اپنے ہاتھوں سے اس ذلیل مرد کا گلا گھونٹ دوں، جو اپنی ناموس کو بالا خانے پر بٹھا دینا چاہتا ہے۔ جس کی غیرت کو آگ لگ گئی ہے، جس کا ضمیر مردہ ہوچکا ہے۔ تب بتاؤ۔۔۔ بتاؤ شکیلہ؟ میں کیا کرتی؟۔۔۔۔

کیا میں بک جاتی؟ کیا میں چند سکّوں کے عوض ضمیر کا بیوپار کرنے لگتی۔ اپنے جسم کا، نئے نئے مردوں سے سودا کرتی؟ میں نے دل کڑا کر کے اپنے ہاتھوں اپنی مانگ سونی کردی۔ میں نے خود اپنی چوڑیاں توڑ دیں۔ اپنا نام نہاد سہاگ اجاڑ دیا۔ میں نے چائے میں زہر ملا کر اس ذلیل وجود کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔ جو مجھے گندی نالیوں کا کیڑا بنانا چاہتا تھا۔ اور میں ۔۔۔ آہ ۔۔۔ میں۔۔۔ اپنی بوڑھی اپاہج ماں کی خاطر زندہ رہ گئی۔ میری موت کے بعد اس کی زندگی کے ٹمٹماتے ہوئے چراغ کو تیل کون دیتا؟ کون پرسان حال ہوتا اس کا؟

اب بتاؤ شکّو! کیا میں نے برا کیا؟ کیا میں ڈائن ہوں؟‘‘

وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔

اور اب ۔۔۔۔۔ اس وقت! جب کہ وہ ہمیشہ کے لیے اس شہر کو۔ اس محلے کو، محلے والوں کو، اپنی بوڑھی اور اپاہج ماں کو۔۔۔۔ اور اپنی غم زدہ سہیلی کو چھوڑ چکی ہے ۔۔۔۔ تب بھی کسی کو اس مظلوم پر رحم نہیں آرہا ہے۔ اس وقت بھی لوگ یہی کہہ رہے ہیں۔

’’چلو! اچھا ہوا!! ڈائن ختم ہوگئی۔ محلہ پاک ہوگیا۔‘‘

اُف! اپنے کان کس طرح بند کرلوں!lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں