ڈراؤنا خواب

وسیم اشرف

شہر کی رونق سے قدرے دور کچے گھر میں چھوٹے سے آنگن میں بیٹھی وہ غریب عورت ایک پرانے کرتے کو پیوند لگا کر پہننے کے قابل بنا رہی تھی۔ اس کے مکھڑے پر ان دیکھے دْکھڑے نمایاں محسوس کیے جا سکتے تھے۔ دو سالہ چھوٹا بیٹا اس کی گود میں کھیل رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں جوار کی روٹی کا ایک ٹکڑا تھا۔ کچھ کھا لیتا اور کچھ چورا چورا کر کے زمین پر پھینکتا جا رہا تھا۔ بڑا بیٹا کچھ دور بیٹھا اپنے ہی کھیل میں مست تھا۔ وہ مٹی گیلی کر کے گول گول ٹکیاں بناتا اور پھر ان کو دیوار سے چپکا دیتا۔ نجمہ کی ساری توجہ کْرتے کو پیوند لگانے پر مرکوز تھی۔ تبھی سوئی میں دھاگا ختم ہو گیا۔ اس نے دھاگے کی نلکی اپنے گھٹنے کے پاس رکھی تھی۔ دائیں بائیں دیکھا، نلکی نہ ملی تو غصیلے لہجے میں بیٹے سے پوچھا:

’’نذارے… نذارے…نلکی تم نے اٹھائی ہے؟‘‘

نذر جس کو پیار سے نذارا کہتے تھے، اپنے کھیل میں کھویا ہوا تھا۔ ماں کی بات سنی ان سنی کر دی۔ اسی دوران نجمہ کا دھیان چھوٹے بیٹے کی طرف گیا۔ وہ روٹی کے ٹکڑے پر نلکی رکھ پانی میں بھگو بھگو کر کچی زمین پر عجیب سے نقش و نگار بنا رہا تھا۔ یہ دیکھ کر نجمہ غصے سے لال پیلی ہو گئی۔ اس کے شوہر کا کْرتہ کئی دن سے پھٹا ہوا تھا۔ دھاگا نہ ہونے سے وہ سلائی نہیں کر سکی تھی۔ جب کْرتے کے چیتھڑے ہونے کو آئے تو نجمہ نے ہمسائی سے کہا:’’ وہ اس کے گدوں کی سلائی کر دے گی ، بدلے میں وہ دھاگے کی نلکی دے ڈالے‘‘۔

ہمسائی نے اسے نلکی دے دی۔ اب نلکی کا یہ حال اس سے دیکھا نہ گیا۔ اس نے محمود کو زور سے کھینچ کر تھپڑ جڑ دیا اور بولی: ’’تیرا بیڑا غرق، کم بخت یہ کیا کیا تو نے، مر جا تو۔‘‘ ایک اور طمانچے نے بچے کا دوسرا گال بھی سرخ کر دیا۔ شیرخوار زور زور سے رونے لگا۔

اسی دوران باہر سے آواز آئی:

’’پکوڑے، کرارے، مسالے والے‘‘۔

نذارا مٹی کی ٹکیاں بنانا بھول گیا۔ گیلی مٹی سے لتھڑے ہاتھ قمیص سے صاف کرتا ماں کے پاس آ گیا اور بولا: ’’ماں ، پیسے دے، جلدی دے، نہیں تو پکوڑے والا چلا جائے گا۔‘‘ نجمہ اور طیش میں آ گئی۔ دھاگے کی نلکی دھوتے دھوتے قریب رکھی اور غصیلے لہجے میں بولی: ’’دفع ہو جا، مرتے ہیں نہ جان چھوڑتے ہیں، پیسے دے، تیرے باپ نے درختوں پر لگا رکھے ہیں جو توڑ کر دے دوں، دور ہو جا میری نظروں سے، نہیں تو چمڑی ادھیڑ کر رکھ دوں گی۔‘‘

بیٹا بگڑ گیا، کندھے ہلاتے، ٹانگیں چلاتے، بانہیں پھیلاتے ہوئے ماں کی ایک ٹانگ جکڑ لی اور ضد پر اتر آیا، ٹانگ نہ چھوڑی۔ پکوڑے والے کی آواز جْوں جْوں دور ہوتی جا رہی تھی بچے کے چلانے، رونے کی آواز میں شدت آتی گئی۔ زور سے جکڑی ٹانگ جھٹک جھٹک کر پیسے مانگنے لگا، بات نہ بنی تو جہاں کیچڑ بنا ہوا تھا، وہاں لوٹنیاں کھانے لگا۔ اس کی ساری قمیص کیچڑ سے لتھڑ گئی۔ اسے کیچڑ میں لت پت دیکھ کر نجمہ کے غصے کی آگ اور بھڑک اٹھی۔ اس نے بیٹے کو ٹھڈے مارے۔ اس کی اشتہا کی انتہا دیکھ کر پیچ و تاب کھاتے ہوئے اسے روئی کی طرح دھنک کر رکھ دیا۔ اسی اثنا میں پاؤں میں ٹوٹی چپل گھسیٹتا، سر سے پاؤں تک مٹی میں اٹا ایک گبھرو جوان اندر آیا۔ پیٹھ پر ایک تھیلا تھا جسے آتے ہی اس نے ایک کونے میں رکھ دیا۔

دونوں بچوں کی چیخ پکار نے گھر سر پر اٹھایا ہوا تھا۔ گرمی سے بے حال، پیاس سے برا حال۔ مولا داد کو اگرچہ گھبراہٹ ہو رہی تھی، لیکن بچوں کی حالت دیکھ کر سب بھول گیا۔ وہ جلدی سے آگے بڑھا۔ ایک بازو سے چھوٹے بیٹے کو اٹھایا اور دوسرے سے بڑے کو اٹھا کر اس کا منہ اپنے رخسار سے لگا لیا۔ دونوں کو ساتھ لپٹا کر غصے سے بھنوئیں اوپر چڑھاتا ہوا بولا: ’’ان بیچاروں پر کیوں قیامت ڈھا رکھی ہے، کیا ظلم ہو گیا ان سے؟‘‘

نجمہ سیخ پا ہوتے ہوئے بولی: ’’بیچارہ نہ کہہ ان فتنوں کو، یہ آفت کے پرکالے ہیں، بڑے ضدی ہیں، ان کی کود پھاند مجھ سے برداشت نہیں ہوتی، جینا دوبھر کر دیا ہے میرا، حرام ہے جو ایک پل بھی چین لینے دیتے ہوں۔ اس نے باری باری دونوں کی کارگزاری شوہر کے گوش گزار کر دی۔‘‘

دونوں کے رخساروں پر بوسے دیتے ہوئے مولا داد نے کہا :’’پھر کیا ہوا، کون سا طوفان آ گیا، دھاگا تھا یا سونے کا کنگن، بچے ہیں، اگر بڑے کو ایک روپیہ دے دیتی تو مر جاتی تو۔‘‘

نجمہ غصے سے بولی: ’’تمہارے لاڈ پیار نے ہی ان کو بگاڑ رکھا ہے۔ سمجھانے کے بجائے سر پر چڑھانا شروع کر دیتے ہو۔ ان کی اوٹ پٹانگ حرکتوں نے میری ناک میں دم کر رکھا ہے۔ جی چاہتا ہے دانتوں سے پیس ڈالوں، چبا کر کھا جاؤں۔‘‘ وہ آپے سے باہر ہوئے جا رہی تھی۔

نذارے کی کیچڑ کیچڑ قمیص اتارتے ہوئے مولا داد غصہ ضبط کرتے ہوئے بولا :’’ویسے ہی گلا دبا کر مار دے دونوں کو، بچے ہیں سیانے تو نہیں۔ شرارتیں تو کریں گے۔‘‘ نذارے کی پیٹھ پر مار پیٹ کے نشان دیکھ کر مولا داد چیخا: ’’ایسے مارتے ہیں قصائیوں کی طرح، کون سا گناہ ہو گیا تھا ان بے چاروں سے‘‘۔

شوہر کو پیشانی سے پسینا صاف کرتے اور ہونٹوں پر زبان پھیرتے دیکھ کر اس نے غصہ پی لیا اور پگھل سی گئی، فوراً کمرے میں گئی اور ڈبے میں پانی لا کر بولی: ’’اچھا منہ ہاتھ دھو لو، چھوڑو ان کو، ان کا تو دن رات یہی حال ہے، کھاتے پیتے ہوئے بھی ندیدے بنے رہتے ہیں۔ کبھی ان کو کسی چیز سے محروم رکھا ہے، جو چیز بھی آتی ہے پہلے ان کو دیتی ہوں، اگر کبھی پیسا ٹکہ پاس نہ ہو تو یوں آسمان سر پر اٹھا لینا کیا اچھی بات ہے؟ دیکھنے سننے والے کہتے ہوں گے جیسے انھوں نے زندگی میں کچھ دیکھا ہی نہیں۔‘‘

ہاتھ منہ دھو چادر کے کونے سے صاف کر مولا داد قریب پڑی چارپائی پر بیٹھ گیا۔ نجمہ اس کے لیے پانی لینے چلی گئی۔ کٹورا بھرنے کے بعد اس نے دیگچے میں ہاتھ ڈالا، یہ کیا۔ دیگچہ خالی تھا، دوپہر کے وقت اس میں کچھ شکر تھی۔ اب خالی برتن منہ چڑا رہا تھا۔ وہ سمجھ گئی، نذارے نے کام دکھایا ہو گا۔

’’خالی پیٹ سادہ پانی پینا ٹھیک نہیں،‘‘ یہ سوچتے ہوئے وہ بھاگم بھاگ ہمسائی کے گھر گئی، تھوڑی سی لسی لی اور پانی میں ملا کٹورا بھر کے لے آئی۔ مولا داد نے لسی پی اور دونوں بیٹوں کو چارپائی پر ساتھ ہی لٹا لیا، ایک دائیں دوسرا بائیں۔ نجمہ ہاتھ والے پنکھے سے ان کو ہوا دیتے ہوئے بولی: ’’یہ بڑا تو کچھ زیادہ ہی خراب ہوتا جا رہا ہے۔ میرا تو جی چاہتا ہے اس کے ہاتھ پاؤں توڑ کر کمرے میں پھینک دوں، وہیں پڑا رہے تو اچھا ہے‘‘۔ اس نے شکر غائب ہونے کی بات مولا داد کو بتا دی۔ بچے نے پیٹھ ماں کی طرف کر لی اور باپ کے گلے میں بانہیں ڈال اس کے سینے سے منہ لگا آنکھیں بند کر لیں۔ مولا داد دونوں کی طرف دیکھتا ہوا بولا: ’’چل اب چھوڑ، ابھی تک غصے سے بھری بیٹھی ہے، ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر بچوں کو پیٹا نہ کر۔ یہ تیرا زیور تیرے گہنے ہیں، تیری اس طرح کی حرکتوں سے ان کا حسن گہنا جائے گا۔ وہ سیانے کہتے ہیں نہ کہ ’’ماں پر پوت، پِتا پر گھوڑا، بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا۔‘‘ نہیں سمجھی نا! مطلب یہ کہ اولاد اپنے ماں باپ پر ہی ہوتی ہے، تو جل بھن کر کوئلہ نہ ہوا کر۔ بڑے ہوتے جائیں گے تو سمجھ بھی آتی جائے گی، چھوڑ دے اپنا خون جلانا، شکر کھا لی تو کیا ہوا، ان صورتوں سے شکر زیادہ اچھی ہے؟ رب کی عطا پر خطا نہیں کرنی چاہیے‘‘۔

بیٹوں کی طرف پیار بھرے غصے سے دیکھ کر نجمہ بولی:’’تم نے اپنے لاڈ پیار سے ان کو خراب نہ کر دیا تو میرا نام بدل دینا، سر پر چڑھائے رکھا کر انھیں۔ ہاں، سچ یاد آیا !کیا بنا پھر کام کا؟ آج جلدی آ گئے۔‘‘

مولا داد نے ٹھنڈی سانس بھری، کہنے لگا: ’’بننا کیا تھا، کام کہیں ملتا ہی نہیں۔ پتا نہیں کیسا منحوس مہیناہے، ماجد کے ساتھ ایک سیٹھ کی کوٹھی پر گیا تھا۔ امید تھی کہ دو اڑھائی ماہ کے لیے کام مل جائے گا، لیکن اس نے دہاڑی لگوائی اور دو سو روپے ہاتھ میں دے کر چلتا کر دیا۔ کوئی بیس دن بعد بمشکل روزی روٹی کی آس بندھی تھی۔‘‘

’’کیوں ہٹا دیا اس سیٹھ نے‘‘؟ نجمہ نے دکھی لہجے میں پوچھا۔

مولا داد بولا: ’’بھلی عورت سن! کتوں کے بھونکنے سے کبھی گداگر کی خیرات بند ہوتی ہے نہ ہی کبھی بخیل لوگوں کے باعث کسی کی روزی کم ہوئی ہے۔ اپنا بھی اللہ ہے‘ کسی پر اپنا زور تو نہیں، سیٹھ کہنے لگا ہمارے پرانے مزدور آ گئے ہیں، اب تمہاری ضرورت نہیں‘‘۔

اداسی کی ایک لہر نجمہ کے سراپے میں سرایت کر گئی۔ شوہر کو پریشان نہیں دیکھ سکتی تھی۔ حوصلہ جمع کر کے بولی ’:’چلو پھر کیا ہوا، ابتلا، آزمائش، امتحان بھی تو زندگی کا حصہ ہیں، یہ نہ ہوں تو خوشیوں کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے؟ میں مایوس ہوں نہ ہی نراش، کام کہیں اور مل جائے گا۔ جب تک نہیں ملتا میں زمینداروں کے گھروں میں جا کر اْپلے تھاپ کر کچھ نہ کچھ بندوبست کر ہی لیا کروں گی! مجھے زیادہ فکر اس چڑیل کی ہے روزانہ دوپہر کو برے وقت کی طرح آ جاتی ہے۔ میں سوچ رہی تھی کہ ایک ہزار روپے کا انتظام ہو جاتا تو اپنی ٹوٹی نتھ بیچ کر باقی پیسے ملا اس کا اْدھار چْکا کر یہ قصہ تو تمام کر دیتی‘‘۔

’’کتنے پیسے بنتے ہیں اس کے؟‘‘

’’لیے تو پندرہ سو تھے لیکن اب سود بھی مانگتی ہے۔‘‘

’’اچھا، رب داتا ہے، کبھی نہ کبھی تو دے گا ہی۔‘‘

’’تو آٹے کا کیا بنے گا؟ مکئی پیس کر جو آٹا گوندھا تھا اس سے پانچ چھ روز تو گزر بسر ہو گئی‘ لیکن اب بمشکل رات کی روٹی پکے گی۔‘‘

مولا داد سر سے پاؤں تک کانپا پھر گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ آخر بولا :’’امید ہے کہ ایک دوسری جگہ پر کام مل جائے گا۔ مستری نذیر کہہ رہا تھا، آنے والے مہینے کی پہلی تاریخ کو سیٹھ انور کا بھٹہ چالو ہونے والا ہے، وہاں تجھے کام دلوا دوں گا، باقی جو رب کی مرضی‘‘۔

وہ پیار بھری نظروں سے سوئے ہوئے بیٹوں کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا:’’دیکھو مالک کے رنگ، کسی کو دھن دولت سے نوازتا ہے تو کھانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ جن کو بیٹے بیٹیاں دیتا ہے انھیں کبھی کبھی کھْل کر کھانے کو نہیں ملتا۔ روٹی کے ٹکڑے ٹکڑے کے لیے ترستے ہیں۔ گاڑیوں والے سیٹھوں کے نصیب دیکھو، گاڑیاں ہیں تو ساتھ بیماریاں ایسی کہ ڈاکٹر کہتے ہیں پیدل چلو اور پیدل چلنے والے للچائی ہوئی نظروں سے گاڑیوں کو گھورتے رہتے ہیں۔ یہ سب رب کی تقسیم ہے۔ آج جس سیٹھ کی کوٹھی پر میں کام مانگنے گیا تھا، ماجد نے بتایا تین شادیاں کر چکا، لیکن رب کے کام ہیں کہ اولاد کسی ایک سے بھی نہیں ہوئی۔ ایک بچہ گود لے کر پالا تھا وہ بھی ان کا نہ بنا۔ چھوڑ کے چلا گیا۔ یہ عیش و عشرت، بے فکری سے زندگی کے شب و روز گزارنے والے بھی اندر سے کھوکھلے ہیں۔ راحت، آرام، چین ان کی قسمت میں کہاں؟ کوئی اولاد کو ترستا تو کوئی روٹی کے لیے بلکتا ہے۔ رب کا نظام ہے یہ۔‘‘

نجمہ ممتا بھری نگاہوں سے دونوں بیٹوں کو دیکھتے ہوئے بولی:

’’ہم بڑے دھن وان ہیں، ہمارا دھن، دولت، مال، جائیداد ہمارے بیٹے ہیں، اللہ ان کی عمردراز کرے۔ ہم بہت سے لوگوں سے اچھے ہیں اور خوش قسمت بھی، ہمیں کس بات کی فکر؟ جیتے رہیں، جس نے پیدا کیا وہی رزق دے گا۔ پال کر بڑا بھی کر دے گا۔اس کے گھر میں کس چیز کی کمی ہے، جب بڑے ہوں گے تو ان کو بھی نواز دے گا۔‘‘ اب اس کے دل میں بچوں کی محبت ٹھاٹھیں مار رہی تھی، ماں جو تھی۔ اولاد کسے پیاری نہیں ہوتی؟ اس نے دونوں بیٹوں کا ماتھا باری باری چوما۔

رات ہو گئی تو جو تھوڑا بہت گھر میں تھا، کھا پی کر صحن میں چارپائیاں بچھائیں اور سبھی لیٹ گئے۔ محمود سو گیا، نذارا ماں کی چارپائی پر بیٹھا تھا۔ باپ نے پیار سے اسے کہا :’’کاکا تجھے مارا تھا نہ ماں نے؟ اب تو اس سے نہ بولنا۔‘‘ دن والی پٹائی یاد آتے ہی نذارا اْٹھ کر باپ کی چارپائی پر چلا گیا۔

اپنی چھوٹی چھوٹی بانہیں باپ کے گلے میں ڈال کر ماں کو دیکھا اور بولا: ’’میں نہیں بولتا اماں سے، اماں مجھے مارتی ہے، بہت مارتی ہے۔‘‘

نجمہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ کلیجے میں آگ سی دہک اٹھی۔ آہ! میں نے کیسے قصائیوں کی طرح بچے کو مارا۔ دن کا ڈھایا ستم یاد آتے ہی آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔ وہ ہچکیاں لے کر رونے لگی۔ رہا نہ گیا تو جلدی سے اٹھی، نذارے کو اٹھایا، سینے سے لگایا، پیشانی اور رخساروں پر بیساختہ بوسے دینے لگی۔

’’میں اب اپنے ہیرے کو کبھی نہیں ماروں گی۔ رب کرے میرے ہاتھ جل جائیں۔ میں کیوں چاند کے ٹکڑے کو ماروں گی؟ نہیں ماروں گی چندا، معاف کر دے ماں کو۔‘‘ نذارا روزانہ باپ کے ساتھ سوتا تھا لیکن آج نجمہ اسے خود سے الگ نہ کر سکی۔ نجمہ نے دائیں محمود اور بائیں نذارے کو لٹایا اور خود بھی سونے کی کوشش کرنے لگی۔

نیند آتے آتے بے سروپا باتیں اس کے ذہن میں گردش کر رہی تھیں، خاص کر کوٹھی والے سیٹھ کی باتیں، جو اس کے شوہر نے سہ پہر کو بتائی تھیں۔ اس کے کانوں میں شوہر کی گفتگو گونج رہی تھی۔ انہی خیالات میں کھوئے کھوئے اسے نیند آ گئی۔ ابھی اسے سوئے ہوئے کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ باہر کا دروازہ کھٹکا۔ نجمہ کو جھٹکا لگا، اس نے مولا داد کو اٹھایا۔ مولا داد نے جا کر دروازہ کھولا، موٹی توند والا ایک سیٹھ تھا۔ نجمہ کا ماتھا ٹھنکا، رات کے اس پہر، سحر ہونے سے پہلے کون آ گیا۔ مولا داد نے سیٹھ کو صحن میں بٹھایا اور نجمہ سے مخاطب ہوا: ’’جن سیٹھ صاحب کا میں نے تجھ سے ذکر کیا تھا یہ وہی ہیں، بڑے نیک اور خداترس آدمی ہیں۔‘‘

سر پر دوپٹا درست کرتے ہوئے نجمہ نے دھیمی آواز میں کہا: ’’خوش آمدید جناب، آپ نے ہم غریبوں کے گھر قدم رنجہ فرمائے۔‘‘

مولا داد پھر کہنے لگا: ’’میں نے تمہیں ایک بات تو بتائی ہی نہیں تھی۔ میرے ذہن میں تھا کہ سیٹھ صاحب آئیں گے تو ان کے سامنے ہی بتاؤں گا۔‘‘

نجمہ کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ مولا داد پھر بولا: ’’ان کا ہمارے اوپر بڑا احسان ہے۔ ہماری غربت پر ترس کھاتے ہوئے یہ ہمیں کچھ دینا چاہتے ہیں‘‘۔

نجمہ کے چہرے پر پریشانی کے لہراتے سائے تحلیل ہو گئے۔ دل میں خوشی سے گدگدی ہونے لگی۔ اس نے آنکھیں نیچی کر لیں۔ مولا داد نے پھر کہا: ’’لیکن اس کے عوض ہمیں بھی ان کا ایک حکم بجالانا ہو گا‘‘۔

نجمہ کا دل اتھل پتھل ہونے لگا۔ انجانے خوف نے سراسیمہ کر دیا۔ مولا داد نے بات کو اٹکا رکھا تھا، آہستہ آہستہ کوئی انکشاف کرنے والا تھا۔ اس نے دھڑکتے دل سے پوچھا:’’کیسا حکم؟‘‘

’’یہی کہ‘‘۔ وہ کہتے کہتے رکا لیکن سیٹھ نے اس کی بات کو ادھورا نہ رہنے دیا اور بولا: ’’آپ اپنا ایک بچہ ہمیں دے دیں، لیکن دل میں یہ خیال بھی نہ لانا کہ وہ پھر کبھی آپ کو نہیں ملے گا، وہ ایک طرح سے آپ کا ہی ہو گا، آپ جب بھی چاہیں اس سے مل لیا کیجیے گا۔ کسی قسم کی روک ٹوک نہ ہو گی۔ ہم اپنا بیٹا بنا کر رکھیں گے۔‘‘

سیٹھ نے الفاظ نہیں بم گرا دیے تھے۔ نجمہ کے پاؤں تلے جیسے کسی نے دہکتے انگارے رکھ دیے۔ اسے لگا سیٹھ نے توپ داغ دی ہے اور گولے اس کے دماغ میں لگے ہیں۔ اس کی ساری آس اورخوشی پانی میں نمک کی طرح بہ گئی۔ ان قیامت خیز گھڑیوں میں وہ شوہر کی جانب رحم طلب نگاہوں سے تکنے لگی۔ وہ گم سم اور سن کھڑی تھی۔ تھرتھراتی، کانپتی آواز میں بولی: ’’ہائے میں مر گئی، یہ کیا سودا کر لیا تم نے‘ میں تو دنیا جہان کی دولت کے بدلے اپنے بچوں کا ایک بال تک نہ دوں کسی کو۔‘‘

مولا داد اور سیٹھ نے اسے سمجھانے کے واسطے طرح طرح کے جتن کر لیے۔ لالچ کی چوری ڈالی، سبز باغ دکھائے۔ سہانے سپنوں میں الجھانے کی ہر ممکن سعی کر ڈالی پر بات نہ بنی، نجمہ کے دل پر رتی بھر اثر نہ ہوا۔

آخر مولا داد چیخا: ’’اگر تم نے میری دی ہوئی زبان کا مان نہ رکھا تو میں کچھ کھا کے مر جاؤں گا۔‘‘

وہ آہ بھر کر رہ گئی۔ مولا داد کی بات پر اس نے کلیجہ تھام لیا۔ صبر کر کے چپ ہو گئی۔ چھاتی پر منوں وزنی پتھر رکھ کر بیٹا دینا قبول کر لیا۔ اب سوال یہ تھا کہ سیٹھ کو بیٹا کون سا دیا جائے… چھوٹا یا بڑا؟ یہ فیصلہ بھی انھوں نے مصیبتوں کی ماری نجمہ پر ہی چھوڑ دیا۔

اْدھر مولا داد جلدی کر رہا تھا اِدھر نجمہ جس بیٹے کو بھی دینے کا خیال دل میں لاتی، سینے میں برچھیاں پیوست ہونے لگتیں۔ مولا داد آپے سے باہر ہونے لگا تو اس کے منہ سے آہِ شب نکلی: ’’ٹھیک ہے، محمود کو لے جاؤ‘‘۔

جیسے ہی سیٹھ نے شیرخوار کا بازو پکڑا، نجمہ پر قیامت ٹوٹ پڑی: ’’ہائے رب کا واسطہ ہے، اس کو نہ لے جاؤ، اس نے تو ابھی دودھ بھی نہیں چھوڑا۔‘‘ وہ چیخنے لگی۔ اس کی آہ و بکا سے ماحول میں افسردگی چھا گئی۔

جب سیٹھ نے نذارے کو پکڑا تو وہ بدنصیب اوندھے منہ اس کے اوپر لیٹ گئی، دہائیاں دیتے، آنسو بہاتے بولی:’’ہائے میں نے اس کو پالا پوسا ہے اس کو نہ لے جاؤ‘‘۔

ننانوے کے پھیر نے مولا داد کے دماغ پر قبضہ کر رکھا تھا۔ چیخ و پکار، چھینا جھپٹی، چپقلش، آواز گریہ، ماحول میں سخت تناؤ تھا۔ کوئی نتیجہ نہ نکلا تو ماتھے پر تیوریاں ڈالے مولا داد طیش میں آگے بڑھا اور نجمہ کو اس زور کا دھکا دیا کہ وہ لڑکھڑاتی، ڈگمگاتی کئی قدم دور جا گری۔ اس نے نذارے کا بازو پکڑا اور سیٹھ کے ہاتھ میں دیتے ہوئے بولا: ’’آپ لے جائیں اسے۔ اس سے پہلے کہ گھر میں فساد کی آواز سازبن کر دوسروں کے کانوں میں رس گھولے، اس کو ماتم کرتی رہنے دیں، آپ جائیں۔‘‘

سیٹھ نے نذارے کا بازو پکڑا اور باہر کی طرف قدم بڑھا دیے۔ نجمہ زمین پر گری بانہیں پھیلائے آہ و فریاد کر رہی تھی۔ وہ چیخی، چلائی، اس کی پکار، صدا، آہ و بکا کا کسی پر اثر نہ ہوا۔’’اللہ کے واسطے، نذارا ہمارا سہارا ہے، اسے مت چھینو مجھ سے، یہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، نہ لے کر جاؤ میں جیتے جی مر جاؤں گی۔ یہ تازہ پھول کلیاں توڑ کر کیوں میرا گلشن اجاڑنا چاہتے ہو؟‘‘

اس نے جھولی اٹھا کر شوہر اور سیٹھ سے فریاد کی۔ نذارا بھی خود کو سیٹھ کے طاقتور بازو سے چھڑانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے ماں کی طرف دیکھ کر بلبلا رہا تھا ’’اماں، اماں! چھڑا لے مجھے۔ اماں یہ مجھے لے کر جا رہا ہے، اماں میں تجھے کبھی تنگ نہیں کروں گا، مجھے اس کے ساتھ نہ بھیج۔‘‘

نذارے نے زور کا جھٹکا مار سیٹھ سے بازو چھڑا لیا اور بھاگ کر ماں سے لپٹ گیا۔ روتے ہوئے ماں کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتا ہوا بولا: ’’ماں اسے کہو ہمارے گھر سے چلا جائے، نہیں میں، میں نہیں جاؤں گا اس کے ساتھ۔‘‘

وہ بے سدھ سا ہو کر ماں کی گود میں لڑھک گیا۔

نجمہ کی اچانک آنکھ کھل گئی۔ نذارا اس کا ہاتھ اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہہ رہا تھا :’’اماں! اماں! میری طرف منہ کر کے کیوں نہیں سوتی؟‘‘

آنکھیں ملتی نجمہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ اس کا سانس دھونکنی کی طرح چل رہا تھا۔ اس نے نذارے کو زور سے کلیجے کے ساتھ لگا لیا۔ خوب بھینچا، ماتھا چوما، پھر شوہر کا پاؤں ہلاتے ہوئے بولی: ’’ہیں جی، سو گئے ہو؟‘‘

’’ہائے ربا! کتنا ڈراؤنا خواب دیکھا میں نے۔‘‘

ایسا بھیانک خواب دیکھنے کے بعد پھر نیند کہاں آنی تھی؟ آنکھوںہی آنکھوں میں سحر ہو گئی۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں