کاش۔۔۔۔۔ اور کاش۔۔۔۔۔

فہد عامر الاحمدی — ترجمہ: تنویر آفاقی

چند روز پہلے مجھے ایک ای میل موصول ہوا۔ جس کے توسط سے ایک کتاب ’’پانچ چیزیں جن پر اکثر لوگوں کو ندامت ہے‘‘ کا خلاصہ مجھے ارسال کیا گیا ہے۔ باوجود اس کے کہ کتاب کا موضوع دل پسند ہے، لیکن چوں کہ یہ خلاصہ مجھ تک ’واٹس اَپ‘ کے ذریعے پہنچا ہے ( جس پر میں بہت زیادہ بھروسا نہیں کرتا)، چنانچہ اس کے سلسلے میں کچھ بتانے سے پہلے یہ تحقیق کرلینا ضروری تھا کہ اس نام کی کتاب واقعی موجود بھی ہے کہ نہیں۔ اور تحقیق کر لی گئی ہے۔کتاب واقعی موجود ہے۔

یہ کتاب ایک آسٹریلیائی نرس ’برونی ویئر‘ کی ہے۔ یہ نرس بہت سے عمر رسیدہ مریـضوں کی وفات سے قبل ان کے پاس موجود رہی ہے۔اس کا معمول تھا کہ ان کے آخری ایام میں ان سے ان نمایاں چیزوں یا کاموں کے بارے میں سوال کیا کرتی تھی کہ دوبارہ جوانی کی زندگی میسر آنے کی صورت میںجن کے کرنے ( یا نہ کرنے ) پر انھیں ندامت ہو۔اس نے نوٹ کیا کہ پانچ قسم کی خواہشیں ایسی ہیں جن کا اظہار بیشتر عمر رسیدہ مریضوں کی طرف سے ہوا ہے:

۱۔ ’’میری تمنا یہ ہوگی کہ میرے اندر اتنی ہمت ہو کہ میں خود کے لیے جی سکو ں، دوسروں کی توقع یا آرزو کے مطابق اپنی زندگی بسر نہ کروں۔‘‘ اس طرح کا جواب دینے والوں میں سے اکثر نے یہ بات کہی ہے کہ انھیں اس بات پر ندامت ہے کہ وہ دوسروں ( آفس کے باس وغیرہ) کوہی خوش کرتے رہے یا خود کو اس صورت میں پیش کرتے رہے کہ معاشرہ یا ان کے ارد گرد رہنے والے لوگ ان سے خوش رہیں۔

۲۔’’ میری تمنا یہ ہوگی کہ میں اپنا زیادہ تر وقت اپنے اہل خانہ اور دوستوں کے لیے نکال سکوں۔‘‘ اس خواہش کا اظہار یا توان مردوں کی جانب سے ہوا جنھوں نے مشقت بھری اس زندگی کے ایک ہی ڈھرّے پر اپنی تمام عمر گزار دی یا ان عورتوں کی جانب سے ہوا جنھوں نے کم عمری میں ہی اپنے اہل خانہ کو کھو دیا تھا۔

۳۔’’ میری خواہش یہ ہوگی کہ میرے اندر اتنی جرأت ہو کہ میں صراحت کے ساتھ اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کر سکوں۔‘‘اس قسم کی خواہش ظاہر کرنے والے اکثر لوگ وہ تھے جنھوں نے دوسروں سے تصادم مول نہ لینے کی وجہ سے ، غیر مستحق لوگوں کے لیے قربانی دینے کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے اپنے جذبات اور احساسات کو چھپائے رکھا۔

۴۔’’ میری تمنا یہ ہوگی کہ میں اپنے پرانے دوستوں کے ربط میں رہوں اور ان کے ساتھ اپنی دوستی کی تجدید کرتا رہوں۔ اس لیے کہ پرانے دوست باقی تمام دوستوں سے اس اعتبار سے جدا ہوتے ہیں کہ ان سے مل کر ہمیں خوشی ہوتی ہے اور ان کے ساتھ وقت بتا کر بچپن کی خوبصورت یادیں لوٹ آتی ہیں۔لیکن افسوس ہے کہ ہم کام کاجی زندگی کے دوران اپنا گھر سنوارنے کے چکر میں ان دوستوں سے دور ہو جاتے ہیں۔ آخرکار یا تو ہم انھیں ہمیشہ کے لیے کھو دیتے ہیں یا ایک دن اچانک ان کے انتقال کی خبر سننے کو ملتی ہے۔‘‘

۵۔’’ کاش میں نے خوشی کا حقیقی مفہوم بہت پہلے سمجھ لیا ہوتا۔ دراصل ہم میں سے بیشتر لوگ اس حقیقت کو بہت دیر سے سمجھ پاتے ہیں کہ خوشی تو ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے جس کا مال ودولت، منصب اور شہرت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔خوشی ہمارے اپنے اختیار کی چیز کی ہے جسے ہم چاہیں تو معمولی محنت اور برائے نام پونجی خرچ کرکے بھی حاصل کر سکتے ہیں۔لیکن ہم اسے حاصل کرنے کے سلسلے میں روایتی طرز فکر سے چمٹے رہتے ہیں۔‘‘

یہ وہ نمایاں خواہشیں ہیں جن کا اظہار (اپنی وفات سے پہلے) اکثر بوڑھے لوگوں نے اس کتاب میں کیا ہے ۔یہ کتاب مجھے’ امازون بک اسٹور‘ سے دستیاب ہو گئی تھی ( اور میں نے اس پر خاصہ وقت صرف کیا ہے۔) اس کتاب کا نام ہے: “The Top Five Regrets of the Dying: A Life Transformed by the Dearly Departing”۔ کتاب کے ’’مشتملات‘‘ کی اہمیت کے اعتراف کے ساتھ، کتاب کی خوبصورتی اس بات میں پوشیدہ ہے کہ اس نے زندگی کے آخری مرحلے میں داخل ہونے سے پہلے جب کہ زندگی کی فوت شدہ سچائیوں کو دوبارہ حاصل کرنے میں ہم بے بس ہو جاتے ہیں، بڑھاپے سے حاصل ہونے والاسبق سیکھنے کی جانب ہمیں متوجہ کر دیا ہے۔ باوجود اس کے کہ کتاب کی مؤلّفہ نے جن انسانی خواہشات کو پیش کیا ہے وہ ہر انسان کی جانی پہچانی ہیں، تاہم ہمارے معاشرے کے بزرگوں کی بھی اپنی کچھ خواہشات ہوتی ہوں گی۔ ( تو کیوں نہ آپ بھی اپنے دادا جی سے پوچھیں کہ انھیں اپنی زندگی میں کس بات پر ندامت کا احساس ہے؟)

آپ کی مدد کے لیے میں ایک کہاوت یا ’’چھ خواہشیں‘‘ بیان کر دوں جو میں نے کبھی ایک ریٹائرڈ بزرگ سے سنی تھی: ’’بیس برس کی عمر سے پہلے تک آپ کوشش کرتے ہیں کہ آپ سارے انسانوں سے اچھے ہوجائیں، چالیس کے ہونے سے پہلے تک آپ کوشش کرتے ہیں کہ ہر انسان آپ سے خوش رہے، ساٹھ برس کے ہونے تک تمام لوگوں کو خوش کرنے اور تمام لوگوں سے بہتر ہونے کی خواہش آپ کے اندر سے ختم ہو چکی ہوتی ہے۔اور جب آپ ریٹائرمنٹ کی عمر کو پار کر چکتے ہیں تو اس وقت آپ پر یہ منکشف ہوتا ہے کہ کسی کو آپ کی نگرانی کرنے یا آپ کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے میں دلچسپی ہی نہیں تھی۔‘‘ lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں