یہ مقابلہ حسن نہیں بلکہ مقابلہ حسن سیرت تھا، سجاسجایا ہوا ہال اپنی تنگ دامنی کا شکوہ کر رہا تھا لوگ منتظر تھے۔ جیسے ہی ہال میں صدر جلسہ اور تمام ممبران جیوری نے اپنی اپنی سیٹ سنبھالی، لیڈی اناؤنسر نے انگریزی میں یہ اعلان کیا، جس کا ترجمہ یہ ہے: ’’آج کا دن خوشیوں کی انتھا کا دن ہے کیوں کہ یہ مقابلہ حسن نہیں بلکہ مقابلہ حسن سیرت ہے۔ تمام ججس کی گہری تحقیق کے بعد بیک آواز یہ اعلان کیا گیا کہ آج تک ایسا مقالہ ’’دنیائے عالم پر حضورؐ کے احسانات‘‘ مذہبی، سیاسی، سماجی، و معاشی نسلیت پیش کر سکے او رہم یہ اعلان کرنے پر مجبور ہیں کہ محترمہ نے اپنے کمال قلم سے وہ کچھ نچوڑ دیا ہے اور ہو سکتا ہے ساری دنیا ایسا مقابلہ پیش کر سکے، ہم بڑے ادب اور بڑے فخر سے یہ اعلان کرتے ہیں کہ ’’محترمہ صبیحہ انصاری حاحبہ‘‘ یہاں تشریف لائیں اور اس مقابلے کا ایوارڈ قبول کریں‘‘ جیسے ہی پہلی صف سے ایک برقعہ پوش خاتون اٹھیں سارا ہال تالیوں کی گونج سے گڑگڑا اٹھا۔ وہ جیسے ہی ڈائس پر پہنچیں صدر جلسہ کی التجا پر بعد حمد و ثنا اپنے زریں خیالات کا یوں اظہار کیا:
’’اگر میں عمر بھر اس عنوان پر لکھتی رہوں خدا گواہ ہے سیرت نبیؐ کے احسان کا ایک فیصد بھی پورا نہ ہو جو میرے اور آپ کے رحمۃ للعالمین نے کیے ہیں۔ پھر ایک دم اپنا موضوع بدلا اور کہا کہ میں بھی حقیقت میں اس انعام کی مستحق نہیں ہوں۔ ہال میں ایک سکینڈ کے لیے سناٹا چھا گیا پھر سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا خدا ہی بہتر جانتا ہے میں نے جو کچھ بھی کوشش کی ہے اس میں ننانوے فیصد میری بڑی بھاوج صاحبہ یعنی میری جیٹھانی محترمہ کا حصہ ہے۔ انہوں نے روز اول سے ہی مجھے اپنی چھوٹی بہن کی طرح پیار کیا اور ان پانچ سالوں میں میرے دونوں بچوں کی دیکھ بھال کی وہی پوری ذمہ دار ہیں۔ اگر میرے بچے مجھے دن میں ایک بار امی جان کہتے ہیں تو سوبار بڑی اماں بڑی اماں کہتے تھکتے نہیں۔ یہ انہی کی محبت، ہمدردی کا دیا ہوا صلہ ہے جو آپ دیکھ رہے ہیں۔ وہ بار بار یہی کہتی رہتی ہیں ’’تو کچھ کرسکتی ہے کر کے دیکھ اللہ مالک ہے‘‘ میں چاہتی ہوں کہ یہ ایوارڈ انہی کے ہاتھوں سے لوں اگر اجازت ہو؟‘‘ جیسے ہی ’محترمہ یاسمین‘ کا نام اناؤنس ہوا ہال پھر ایک بار کافی دیر تک گونجتا رہا۔lll