کاش

محمد مصطفی علی انصاری

کمرۂ عدالت کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ معزز مسلم خاندان کی خاتون فیملی کورٹ میں کھڑی ہوئی تھی۔ جج نے کہا کہو کیا شکایت ہے، ساس و خسر میں سے ایک نے عرض کیا ہم دونوں کو نہ ساس سے شکایت ہے نہ خسر سے نہ ہی نندوں سے گلا، نہ دیوروں سے ناراضگی۔ سسرال میں ہم اپنے میکے سے زیادہ خوش ہیں۔ لیکن ہمیں کہا جارہا ہے کہ علیحدہ ہوجائیں۔

تب جج دوسری طرف مخاطب ہوا جہاں ایک ضعیف عورت کمر جھکائے ہوئے کھڑی تھیں۔ ساتھ میں ایک عمر رسیدہ شخص جس کے سر کے تمام بال رخصت ہوچکے تھے اور گال نیم چپکے ہوئے خاموش کھڑے ہوئے تھے۔ جج نے کہا بتاؤ تمہیں کیا شکایت ہے کیوں علیحدہ کرنا چاہتے ہو؟

ساس نے ادب سے کہا، جج صاحب خدا کی قسم یہ دو بہو ہمیں اپنی اولاد سے زیادہ عزیز ہیں، وہ ہمارا ہر وقت خیال رکھتی ہیں نہ ہی میرے دیگر بچے اور بچیوں کو کوئی شکوہ و شکایت ہے حتی کہ یہ ہمیں فجر کی نماز سے قبل وضو کا پانی گرم کر کے اور سلام پھیرنے سے قبل گرم گرم چائے لیے ہوئے خدمت کرتی ہیں۔

لیکن جج صاحب میرا کرایہ کا مکان جو تین کمروں پر مشتمل ہے، میں دیکھ رہی ہوں، یہاں ان کو وہ پرئیویسی (Privicy) نہیں مل رہی ہے جو ایک نئے جوڑے کا حق ہے۔ ہم ہرگز یہ نہیں چاہتے ہماری خدمت کی خاطر ان لوگوں کے جذبات کا گلا گھوٹیں۔ اسی لیے ہم چاہتے ہیں کہ وہ علیحدہ رہیں بس اور کچھ نہیں ذرا آپ ہی سمجھائیں۔

جج نے دیر تک غور کرنے کے بعد یہ فیصلہ دیا کہ بہوؤں کو چاہیے وہ ساس اور خدا کی بات پر غور کریں اور ان دونوں کا فرض ہے کہ وہ بہوؤں کے عجز کا خیال رکھیں۔

فیصلہ دے کر جج نے نیم آبدیدہ ہوتے ہوئے کہا، کاش! ہفتہ میں ایک ایسا مقدمہ ہو؟lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں