کاش

مرزا عمیر بیگ

جب چودھری افتخار صاحب نے مجھ سے کہا کہ میری بیٹی کو تم پڑھا دوگے تو میں چپ رہ گیا۔ وہ میرے منیجر تھے اور تھوڑے اکھڑ قسم کے آدمی تھے لیکن اپنے سے بڑے عہدے والے لوگوں سے وہ بڑا میٹھا بولتے۔ جی سر، یس سر، یس یس سے آگے ان کے منہ سے کوئی لفظ نہیں نکلتا۔ اور ان کے سامنے سے ہٹتے ہی ان کی قابلیت کی دھجیاں اڑاتے رہتے۔ ان کی نظروں میں ان کے علاوہ ہر شخص نااہل تھا اور سارے آفس کا بوجھ ان کے ناتواں کندھوں پہ آن گرا تھا۔ حالاں کہ وہ اچھے خاصے تنو مند شخص تھے اور اپنے ماتحت لوگوں سے بھی وہ یہ توقع کرتے تھے کہ وہ بھی یس سر کے علاوہ کوئی لفظ منہ سے نہ نکالیں۔ میں نیا نیا ہی آیا تھا اس لیے میرے پاس انکار کی ذرا بھی گنجائش نہ تھی۔

اس لیے جمعرات کی شام میں ان کے گھر پہنچ گیا۔ مجھ کو ڈرائنگ روم میں بٹھا کر انھوں نے اپنی بیٹی کو آواز لگائی۔ ’’سلمیٰ۔‘‘

جی آئی! ایک میٹھی سی آواز آئی۔ اور پھر ایک نازک سی لڑکی روم میں داخل ہوئی۔

چودھری صاحب گرج دارآواز میں بولے، یہاں بیٹھو، یہ تم کو پڑھانے آیا کریں گے۔

سلمیٰ نے نظر اٹھا کر مجھے دیکھا اور سلام کر کے بیٹھ گئی۔

چودھری صاحب اسی کڑک دار آواز میں بولے ’’فیل ہوگئی یہ اس سال، آپ دیکھ لیں۔ اسے کس کس سبجیکٹ میں مدد کی ضرورت ہے اور اٹھ کر چلے گئے۔

ان کے جاتے ہی اس سہمی ہوئی لڑکی میں جیسے جان آئی۔ میں نے اس سے پوچھا کیا سبجیکٹ ہیں آپ کے۔ وہ بولی اکنامکس مین ہے باقی لٹریچر اور ہسٹری ہے۔

پھر کہاں مشکل آتی ہے آپ کو؟

’’جی! مشکل تو کہیں نہیں آتی‘‘ اس نے کہا ’وہ بہت آہستہ سے بولی اس لیے میں نے کہا ذرا زور سے بولو میں کم سنتا ہوں۔

اس کے ہونٹوں پہ ایک خفیف سی مسکراہٹ آئی پروہ کچھ بولی نہیں۔

میں نے اس سے پوچھا چلو تم بتاؤ کہاں سے پڑھائی شروع کی جائے۔

’’جہاں سے جی چاہے‘‘ اس نے پھر ہلکے سے کہا۔ مجھے بڑا غصہ آیا مجھے لگا شاید یہ مذاق کر رہی ہے یا پھر بہت زیادہ لاپرواہ ہے۔ اس لیے مشکل ہوگی اس کو پڑھانے میں۔ اور مجھ کو پڑھانا تو تھا ہی اس لیے کہیں سے شروع تو کرنا ہی تھا۔

جاؤ اکنامکس کی کتاب لے آؤ ذرا دیکھوں کیا کیا ہے کورس میں۔ وہ کتاب لے آئی اور ہم نے اس کی پڑھائی شروع کروادی۔

ہفتہ میں تین دن ہم اسے پڑھانے جاتے تھے۔ جو بھی سبجیکٹ میں شروع کرتا ایسا لگتا کہ اسے سب کچھ آتا ہے۔

مجھے پڑھانے میں کوئی محنت نہیں لگتی۔ وہ پہلے سے سب تیاری کرلیتی۔ اب میرے لیے یہ حیرت کی بات تھی کہ آخر اتنی ذہین لڑکی فیل کیسے ہوگئی؟

وہ تھوڑی تھوڑی مجھ سے مانوس ہوگئی تھی اور اس کی دبی دبی کمزاور آواز بھی نکلنے لگی تھی۔ وہ چودھری صاحب سے بہت خوف زدہ رہتی۔ ان کے کمرے میں داخل ہوتے ہی جیسے سانپ سونگھ جاتا۔

میری سمجھ میں دھیرے دھیرے آرہا تھا۔ شاید باپ کے خوف نے اس کی خود اعتمادی اس سے چھین لی تھی۔ اس لیے پڑھائی کے ساتھ ساتھ میں یہ بھی کوشش کرتا کہ اس کے اندر خود اعتمادی پیدا ہو۔ اس کے دل سے ڈر نکل جائے۔ شاید اسی وجہ سے وہ پرچے ٹھیک سے نہیں کر پاتی ہو۔

ایک دن پڑھاتے ہوئے میں نے اس سے کہا میرے سامنے زور سے بولو۔ اس نے ڈرتے ہوئے جواب دیا پاپا ڈاٹیں گے، میں نے کہا نہیں ڈاٹیں گے۔ تم زور زور سے آواز سے پڑھو۔ پھر ڈرتے ڈرتے وہ آواز نکالنے لگی۔

میںپابندی سے اسے پڑھانے جاتا۔ ساتھ ساتھ میں نے اس سے پرانے پیپرز بھی بالکل امتحان کے انداز میں کرائے۔ ممکن ہو اسے امتحان کا خوف ہو۔ جب وہ اس طرح پیپرز گھر پہ کرنے لگے گی تو اس کی عادت بن جائے گی۔ وہ کھٹاکھٹ پیپر کرلیتی۔ باقی وقت میں مجھ سے باتیں کرنے لگتی۔ وہ بتانے لگی اسکول کے علاوہ وہ کہیں نہیں جاسکتی۔ کسی مال میں بھی اگر جاتی اور وہ ان کے سامنے سے ہٹ جائے تو اس کو ڈانٹ پڑنے لگتی۔ غالباً وہ اس مقولہ پر عمل کرتے تھے کہ کھلاؤ سونے کا نوالہ مگر دیکھو شیر کی نظر سے۔

چودھری صاحب یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ وقت کی تبدیلی کے اثرات بچوں پر مرتب ہو رہے ہیں۔ وہ گھر میں موجود ’’ٹی وی‘‘ کی تعلیم سے بھی لاتعلق ہے۔ کیا ہو رہا ہے کون کیا سیکھ رہا ہے اس کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ بس جو بات اہم تھی ان کی نظر میں وہ ان کا حکم تھا۔

ایک دن سلمیٰ نے مجھ سے فون پر کہا آپ پاپا سے کہہ دیں کہ ہم بک فیئر دیکھنے اپنی دوست کے ساتھ چلے جائیں۔ پلیز وہ سمجھ رہے ہیں ہم گھومنے جا رہے ہیں۔

اس طرح سال گزر گیا اور پھر سلمیٰ کا امتحان آگیا۔ مجھے پوری امید تھی کہ نہ صرف وہ پاس ہوجائے گی بلکہ غالباً ٹاپ کرے گی۔

مجھے یہ بھی فکر تھی کہ اب ان کے گھر جانا بند ہوجائے گا اور سلمیٰ کے لیے جو کھڑکی کھلی تھی جس سے وہ اپنے دل کا غبار نکال لیتی تھی وہ بند ہوجائے گی۔ مجھے افسوس ہوتا کہ آخر لوگ یہ بات کیوں نہیں سمجھتے کہ والدین اور بچوں کے مابین ہلکی پھلکی گفتگو کا بھی سلسلہ قائم ہونا چاہیے۔ ورنہ بچے آخر کس سے اپنے مسائل کا حل پوچھیں گے۔

چودھری صاحب کی قسم کے گھروں میں بچوں کی مائیں بھی ڈری سہمی ہوتی ہیں، جن کی بات میں کوئی وزن نہیں ہوتا بس حکم ہی چلتا ہے۔

آج سلمیٰ کا رزلٹ آن لائن آگیا تھا۔ اور پچھلے سال کی طرح وہ اس بار بھی فیل ہوگئی۔ چودھری صاحب نے مجھے خونخوار نظروں سے دیکھتے ہوئے یہ بات سنائی۔ میں حیرت سے اچھل پڑا ’’یہ نہیں ہوسکتا‘‘ میرے منہ سے نکلا۔ انہوں نے مجھے گھورا خود چیک کرلو۔

میں نے اچھی طرح چیک کیا، سلمیٰ کا رول نمبر ندارد۔ میں اب ان کے گھر نہیں جانا چاہ رہا تھا۔ اس لیے میں نے چپکے سے فون کیا۔ اتفاق سے فون سلمیٰ نے ہی اٹھایا۔

سلمیٰ! آخر ایسا کیسے ہوگیا؟ تم کو تو سب آتا تھا۔ پھر تم فیل کیسے ہوگئیں۔ مجھے بہت افسوس ہے۔ میں تم کو ٹھیک سے پڑھا نہیں سکا۔

نہیں سر! اس نے کہا آپ بہت اچھے ٹیچر ہیں، اور مخلص دوست بھی ہیں۔ آپ رنجیدہ نہ ہوں۔ چلئے بتائے دیتی ہوں میں کیوں فیل ہوگئی۔

پاپا کے ایک دوست ہیں ان کا بیٹا پچپن میں میرے ساتھ پڑھتا تھا۔ وہ انٹر فیل ہوگیا تھا اس کے والد نے پھر اسے بزنس شروع کرادیا۔

پھر میں نے پوچھا اس سے کیا ہوا۔

وہ سر! وہ آہستہ سے بولی ہم بچپن سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ اگر میں پاس ہوجاتی تو پاپا ہرگز اس سے میری شادی نہیں کرتے۔ اس لیے میں اس سے زیادہ نہیں پڑھنا چاہتی! ہمارے معاشرے کی بوسیدہ روایات کا خوف اس پہ حاوی تھا۔

لیکن وہ خاموش، گم سم سی نازک لڑکی اپنی محبت میں کتنی مضبوط تھی۔ مگر کاش اس مضبوطی میں دنیا داری کا بھی کچھ دخل ہوتا۔ اپنی ناسمجھی میں اس نے خود کو نااہل بنا لیا۔ اور یہی نااہلی کہیں اس کو رد کرنے کا سبب نہ بن جائے۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں