کاغذی لباس

مرزا نعیم بیگ

کیا اس وقت کوئی اس بات پر یقین کر سکے گا کہ آیندہ سالوں میں ہم ایسے ملبوسات بھی زیب تن کیا کریں گے جو کاغذ کے بنے ہوں گے؟ کاغذی ملبوسات تیار کرنے کا خیال سب سے پہلے 1966ء میں کنساس سٹی امریکا کی اسکاٹ پیپر کمپنی کے مالک جان اسکاٹ کے ذہن میں پیدا ہوا۔ جس نے اپنی کمپنی کے حصہ داروں کی مشاورت سے دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ’’پہنیے اور پھینک دیجیے‘‘ (Use and Throw)قسم کے کاغذی ملبوسات کی مینو فیکچرنگ شروع کی۔ اس وقت یوں معلوم ہونے لگا تھا

گویا ملبوسات کی صنعت میں ایک انقلاب برپا ہونے والا ہے۔ ان کاغذی ملبوسات کی بڑے وسیع پیمانے پر تشہیر کروائی گئی۔ اندرون و بیرون ملک اخبارات میں ان کے بارے میں خبریں شائع کروائی گئیں۔ جس کے نتیجے میں ان کاغذی ملبوسات کو تیار کرنے والی اسکاٹ پیپر کمپنی کو ہزاروں کی تعداد میں آرڈر ملنا شروع ہوگئے۔ ڈیلروں اور تقسیم کنندگان نے اس نئی اور نرالی ایجاد کے بارے میں چھان پھٹک شروع کر دی۔ اس وقت یہ بات سامنے آئی کہ دراصل اسکاٹ کمپنی والوں نے اپنی دوسری کاغذی مصنوعات کی فروخت بڑھانے کے لیے کاغذی لباس کو ایک پبلسٹی سٹنٹ کے طور پر استعمال کیا تھا۔

لیکن اس وقت کاغذی لباسوں کی تیاری واقعی عمل میں آ چکی تھی۔ ہر چند کہ یہ محدود پیمانے پر تھی۔ انھیں پان امریکن ائیر ویز کے ہوائی جہازوں کے فضائی میزبانوں کے ہلکے نیلے رنگ کے یونیفارموں کے ہم رنگ بالا پوشوں کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔ انھیں باورچی خانوں میں بھی استعمال کیا جا رہا تھا۔ ایک مرتبہ استعمال کے بعد یہ پھینک دیے جاتے تھے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کاغذی ملبوسات کی تیاری میں بھی بہتری آتی گئی۔ آرائش و زیبائش کی اشیا فروخت کرنے والی دْکانیں ہزاروں کی تعداد میں سفید دھاریوں والے گلابی گائون خرید کر اپنی دْکانوں میں برائے فروخت آراستہ کرنے لگیں۔ یہ گائون سیلونوں میں کام آتے تھے۔ انھیں کیلی فورنیا کی ایک کمپنی زیمر اینڈ کو تیار کرتی تھی۔ جو بعد از استعمال پھینک دی جانے والی اشیا کی تیاری میں سرِ فہرست تھی۔ کمپنی لیبارٹریوں میں کام کرنے والوں کے لیے کاغذی کوٹ، خوارک پر تجربات کرنے والوں کے لیے کاغذی گائون اور ہسپتالوں میں کام کرنے والے صفائی کے عملے کے لیے کاغذی جوتوں کی تیاری میں بڑی شہرت کی حامل تھی۔ اس فرم کے صدر ہیر لڈزیمر کا کہنا تھا ’’دس عشروں کے اندر اندر ہر صنعتی یونٹ میں بعد از استعمال پھینک دیے جانے والے کوٹوں اور لبادوں کی مانگ میں قابلِ ذکر اضافہ ہوجائے گا۔‘‘

دیواروں پر سفیدی اور رنگ روغن کرنے والوں کے لیے کاغذی گائون بہترین ہیں کہ یہ ان کے لباسوں کو چھینٹوں اور داغ دھبوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔ اگر ہر شخص اپنی گاڑی میں ایک کاغذی گائون رکھے تو ٹائر کھولتے یا کوئی اور کام کرتے وقت یہ گائون اسے ڈرائی کلیننگ کے اخراجات سے بچائے گا۔ یعنی یہ اس کے لباس کو گریس اور دیگر چیزوں کے داغ دھبوں سے محفوظ رکھے گا۔ یہ گائون صرف پونے دو ڈالر میں مارکیٹ میں دستیاب ہے۔ اسے ایک مرتبہ استعمال کے بعد دوسری بار بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ یہ بہت پائیدار طور پر بنایا گیا ہوتا ہے۔

کاغذی کپڑے تیار کرنے والی دو سرکردہ امریکی کمپنیوں اسکاٹ اور کمبرے کلارک نے زیادہ مضبوط اور پائیدار کاغذی کپڑا تیار کرنے کے لیے یہ کیا تھا کہ نائیلون کے ایک باریک جال کو خصوصی طریقِ کار کے عمل سے گزارتے ہوئے کاغذات کی موٹی تہوں کے درمیان رکھ کر ایسا کاغذی کپڑا تیار کیا جو دیکھنے اور پہننے میں عام کپڑے جیسا ہی معلوم ہوتا تھا۔ اس کپڑے کو کچھ کیمیائی اجزا کے اضافے کے ساتھ اس قابل بھی بنا لیا جاتا تھا کہ اس پر آگ کا اثر نہ ہو اور نہ ہی یہ پانی میں بھیگنے سے خراب ہو۔ یہ کپڑا زیادہ تر سڑکوں پر کام کرنے والے مزدوروں کی جیکٹیں تیار کرنے میں استعمال ہوتا تھا۔

ہسپتال اور ڈاکٹر بہت پہلے ہی سے مابعد استعمال پھینک دیے جانے والے ملبوسات، جیکٹیں اور سرجیکل گائون وغیرہ استعمال کر رہے ہیں۔ معاشی پہلو سے کاغذی ملبوسات کے استعمال سے بچت ہی بچت ہے۔ ایک پھینکے جانے والے کاغذی گائون کی قیمت پچیس سینٹ ہوتی ہے۔ جبکہ عام کپڑے کے گائون کی دھلائی میں چالیس سینٹ خرچ ہوتے ہیں۔ ایک پرائیویٹ گائناکالوجسٹ کی رپورٹ کے مطابق کاغذی گائونوں کے بچت کے علاوہ اور بھی بہت سے فوائد ہیں۔ وہ ایک ڈبے میں پچاس پچاس کی تعداد میں بند ہوتے ہیں۔ آسانی سے اسٹور کیے جاسکتے ہیں۔ ان کے ساتھ داغ دھبوں، پھٹنے اور باندھنے جیسے مسائل نہیں ہوتے۔ مزیدبرآں مریض بھی ایسے گائون پسند کرتے ہیں جنھیں پہلے کبھی استعمال نہیں کیا گیا۔

کاغذی کپڑے اب صرف ریاست ہائے متحدہ امریکا ہی میں نہیں بلکہ جنوبی امریکی ممالک کی یونیورسٹیوں میں بھی کاغذ کے بنے ہوئے ڈگری گائون اور کیپ متعارف کرانا شروع کردیے ہیں۔ جنھیں بعد از استعمال پھینک دیا جاتا ہے۔ مردوں کی پیراکی کی نیکریں جو کاغذی چادروں کی بنی ہوئی ہوتی ہیں۔ مارکیٹوں میں عام دستیاب ہیں۔ ڈیونٹ پیپر کمپنی نے کاغذی چادروں کو کتابوں کی جلدیں بنانے اور دیواریں ڈھانپنے سے لے کر پیراکی کے لباس تیار کرنے تک ترقی دی ہے۔ ہوٹلوں میں کاغذی رومالوں کو بھاری تعداد میں خریدا جاتا ہے اور گاہکوں کو مہیا کرایا جاتا ہے۔

کاغذی کپڑے سے بچوں کے بِب اور دوسرے کپڑے بھی تیار کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح کاغذی چادریں تکیوں کے غلاف بھی۔ کاغذی چادریں اتنی بڑی بڑی ہوتی ہیں کہ پورا بِستر ڈھانپ لیتی ہیں۔ امریکی محکمۂ افواج میں یہ چادریں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں اِستعمال ہوتی ہیں۔ ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے ہر سال فوجیوں کے لیے لاکھوں کی تعداد میں کاغذی زیر جاموں کاغذی جوتوں اور چادروں کے آرڈر دیے جاتے ہیں۔ ٹرینوں اور ہوائی جہازوں میں کاغذی بالا پوشوں اور سرپوشوں کا اِستعمال عام ہے۔

ایک حقیقت یہ ہے کہ خریدار صرف قیمت دیکھ کر ہی ہر چیز نہیں خرید لیا کرتے۔ مثلاً ٹِشو پیپر جو ہر زمانے میں بے حد پر فروش اور سب سے زیادہ اِستعمال ہونے والی چیز چلی آرہی ہے۔ روپیہ نہیں بچاتا لیکن صفائی و سہولت ضرور مہیا کرتا ہے۔ اسی طرح کاغذی نیپکن کوئی خاتون خانہ محض بچت کا پہلو مد نظر رکھتے ہوئے نہیں خریدتی جب کہ اس کے پاس اپنا لانڈری کا انتظام ہو۔ سالہاسال سے خواتین بڑی محنت و مشکل سے ویکیوم کلینرز کے گرد مٹی کے تھیلے صاف کرتی چلی آرہی تھیں پھرجب کاغذی تھیلے متعارف ہوئے، تو انھوں نے انھیں فوراً ہی قبولِ عام کی سند عطا کردی اور قیمتوں کی بھی پروا نہیں کی۔ اب بچوں کے ڈائپرز کے بارے میں بھی یہی رجحان دیکھنے میں آرہا ہے۔ کپڑے کے بنے ہوئے ڈائپرز اِستعمال تو کر لیے جاتے تھے لیکن انھیں ٹھکانے لگانا ایک مسئلہ ہوتا تھا۔ لیکن اب کاغذی ڈائپرز نے یہ مشکل آسان کر دی ہے۔ اِستعمال کے بعد انھیں فلش میں بہا دیا جاتا ہے۔ کاغذی ڈائپرز کی سیل آج کل ہر جگہ آسمان پر پہنچی ہوئی ہے۔ یہ اقتصادیات پر سہولت کا خراج ہے۔

مابعداِستعمال پھینک دی جانے والی اشیا کے بارے میں ایک دوسری قابلِ ذکر حقیقت یہ ہے کہ ان میں بہت سی آہستہ آہستہ ہی قبولِ عام کی سند حاصل کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر کاغذی تولیے۔ کاغذی تولیہ، جان اسکاٹ نے1967ء میں متعارف کرایا تھا۔ یہ تولیے اس لیے مقبولِ عام کی سند حاصل نہ کرسکے کہ یہ بہت موٹے اور بھاری تھے اورٹوائلٹ کے کام نہ آسکتے تھے۔ چوبیس سال گزرنے کے بعد انھیں گھریلو اِستعمال کے لیے تیار کیا جانے لگا۔ پھر بھی انھیں ایسی مقبولیت حاصل نہ ہوسکی۔ لیکن آج کل گھریلو خواتین انھیں سالانہ اربوں کھربوں کی تعداد میں استعمال کرتی ہیں۔

اگر تجارتی تاریخ کوئی راہنما چیز ہے، تو استعمال کیجیے اور پھینک دیجیے، قسم کی چیز کی مقبولیت کا یہ پھیلائو اس قسم کی دوسری اشیا کی ایجاد اور پذیرائی کا دروازہ کھول دیتا ہے مثلاً کاغذی نیپکن نے کاغذی تولیوں کو قابلِ قبول بنا دیا ہے اور کاغذی گائونوں نے ساحلی ملبوسات کو۔

لیکن کاغذی ملبوسات و دیگر کاغذی مصنوعات کی پذیرائی و مقبولیت خواہ کسی بھی حد تک پہنچ جائے یہ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ آیا یہ کپاس، ریشم، پولیسٹر و دیگر قدرتی و غیر قدرتی ریشوں سے بنے ہوئے کپڑوں کے مقابل آسکیں گی یا نہیں۔ کاغذی کپڑا تیار کرنے والے کو اتنی اْجرت نہیں ملتی جتنی کہ دوسرا کپڑا تیار کرنے والے کاریگر کو ملتی ہے۔ یہی حال انھیں تیار کرنے والی فیکٹریوں کا بھی ہے۔ لیکن اس کا امکان موجود ہے کہ ان کے مسائل کا حل ضرور تلاش کر لیا جائے گا اور وہ وقت بھی دور نہیں جب دنیا بھر کے لوگ اپنی مارکیٹوں سے نہایت سستے داموں میں بڑی بھاری تعداد میں کاغذی ملبوسات اور دیگر کاغذی مصنوعات خرید رہے ہوں گے۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں