کام ابھی باقی ہے!

سید موسیٰ کلیم الفلاحی

KBC کے منچ پر آج خوش قسمتی سے گولپاڑھ آسام سے تشریف لائیں ایک مسلم خاتون محترمہ علیمہ خاتون کو پہنچنے کا موقع نصیب ہوا۔ کھیل کا تیسرا سوال 3000 روپے کب لیے کچھ اس طرح تھا…

رمضان کے مہینے میں رکھے گئے اپواس کو عربی میں کیا کہتے ہیں؟…

٭ A۔ Salat ٭ B۔ Shukran

٭ C۔ Saum ٭ D۔ Shahadah

محترمہ علیمہ خاتون لڑکھڑا گئیں۔ کافی سوچ بچار کرنے لگیں۔ وقت نکلا جارہا تھا۔ چاروں لائف لائنسموجود تھیں۔ جواب معلوم نہیں تھا فورا جوڑی دار والی لائف لائن کا انتخاب کیا۔ اس لائف لائن میں وقت کی تنگی ہوتی ہے۔ اب محترمہ علیمہ خاتون اور ان کے جوڑی دار دوست چاروں اوپشنس پر غور کرنے لگے۔ کافی کوشش کے باوجود بھی جب جواب نہ بن پڑا تو ان دونوں نے دوسری لائف لائین 50/50 استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ لہٰذا دو غلط جواب حذف کردیے گئے۔ اور اب صرف Salat اور Saum باقی رہ گئے۔ لیکن یہ دیکھ کر بڑا تعجب ہوا کہ اب ان دونوں حضرات کی مشکل پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ بالآخر کافی غور و خوص کے بعد ان دونوں نے تیسری لائف لائن Public poll استعمال کرنے کا فیصلہ کیا… باقی بچے دو اوپشنس میں public نے Salat کو %44 اور Saum کو %56 ووٹ دیے۔

یہ کھیل کا تیسرا سوال تھا۔ محترمہ تین اوپشنس استعمال کرچکیں تھیں۔ اب چوتھے سوال اور پھر پانچویں سوال نے تو میرے ہوش اڑادیے۔ پانچویں سوال میں دھرمندر اور زینت امان پر فلمائے گئے ایک پرانی فلم کے گانے کا کچھ حصہ دکھایا گیا اور پوچھا گیا کہ یہ کس فلم کا گانا ہے؟ اور چار اوپشنس رکھے گئے… محترمہ مسکرائیں اور بلا توقف جواب دیا کہ یہ گانا فلم ’’دھرم ویر‘‘ کا ہے۔ پورا حال تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے گونج اٹھا۔

اس پروگرام میں محترمہ علیمہ خاتون کی ذاتی زندگی کے کچھ احوال بھی دکھائے گئے۔ محترمہ ایک ریٹائرڈ بینکر ہیں اور اپنے عالیشان گھر میں مقیم ہیں۔ فاضل اوقات میں گھر کی باغبانی کرنا ان کا بہترین مشغلہ ہے۔ ساتھ ہی ساتھ قریبی رشتہ داروں اور اڑوس پڑوس کے لوگوں کی امداد کرنا، ان کے دکھ سکھ میں کام آنا ان کا بہترین مشغلہ ہے۔ محترمہ نے اپنے ذاتی خرچ پر آنکھوں سے معذور ایک لڑکی کا نہ صرف کامیاب آپریشن کروایا بلکہ اس کی شادی بیاہ کے اخراجات بھی اٹھائے۔ محترمہ کے صاحبزادے Russia میں ڈاکٹر ہیں اور اپنی روسی اہلیہ اور دو بچوں کے ساتھ ہر سال چھٹیوں پر ہندوستان آتے ہیں۔

محترمہ علیمہ خاتون ایک باصلاحیت، تعلیم یافتہ اور تجربہ کار خاتون لگیں اور وہ حقیقت میں ویسی ہیں لیکن ان کا نام کیونکہ علیمہ خاتون تھا اور وہ مسلم گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں اس لیے اس شو نے مجھے حیران بھی کیا اور پریشان بھی۔حیران ہونے کی بات یہ ہے کہ وہ ایک تعلیم یافتہ مسلم خاتون تھیں اور وہ جس دین کی ماننے والی تھیں اس دین سے متعلق ان کی معلومات کا عالم یہ تھا کہ وہ روزہ تک کے لفظ، جسے عربی میں صوم کہتے ہیں، واقف نہیں تھیں۔ صوم یا روزہ مسلمانوں کے عقیدے اور عمل کا بہت بنیادی اور عام لفظ بھی ہے اور عمل بھی۔ اب اگر میں ایک مسلمان کی حیثیت سے آگے کی عملی اور دینی زندگی کا تصور کروں تو مایوسی، حیرت اور افسوس کے علاوہ کچھ بھی سامنے نہیں آتا۔

میرے لیے پریشانی کا باعث یہ بات ہے کہ ہمارے اطراف واکناف میں کتنے ہی ایسے لوگ ہیںجن میں دین کی بنیادی تعلیمات کا فقدان ہے! ان میں گاؤں و قصبوں میں بسنے والے غریب لوگ ہی نہیں بلکہ بہت اسے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اونچے عہدوں پر فائز اہلِ ثروت بھی ہیں جو دین کی بنیادی تعلیمات سے ناآشنا ہیں !

KBC کا یہ شو ہمیں بہ حیثیت مسلمان انفرادی اور اجتماعی جائزہ اور احتساب کی جانب متوجہ کرتا ہے اور اس حقیقت سے آگاہ کرتا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے اندر دینی معلومات یا دینی شعور کی سطح تباہ کن حد تک معمولی یا مفقود ہے۔ ایسی صورت میں ہم دین پر عمل کرنے والی امت کا تصور کس طرح کر سکتے ہیں۔ یہ کیفیت دین دار افراد اور دینی اداروں اور تنظیموں کے لیے بھی ایک آئینہ ہے جو تبلیغ دین کے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں۔ بڑے بڑے جلسے اور جلوسوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ملک اور عالمی سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔لیکن اپنے اطراف و اکناف میں بسنے والوں کی کوئی خبر نہیں رکھتے ! بات صاف ہے۔ منزل۔ منزل دور ہے اور تیاری کچھ نہیں!

وقت فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے

نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے

اورملت کی غفلت اور بے توجہی پر یہ شعر یاد آتا ہے:

ہائے اس دوریِ منزل پہ یہ انداز خرام

کارواں موج رواں، سیل رواں ہوجاتا

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں