غریبی امیری کے تضاد نے معاشرے میں بہت بے چینی پیدا کردی ہے۔ حصولِ رزق اور اپنی ناجائز ضرورتوں کی خاطر حضرت انسان نے بے ایمانی کو وتیرہ بنا لیا ہے۔ دو نمبر کے کام عام ہیں۔ بڑی بڑی شاہراہوں پر دن دہاڑے شہریوں کو بے وقوف بنایا جاتا ہے۔ فراڈ کے ذریعے لوٹ کھسوٹ صدیوںسے جاری ہے اور عوام ہیں کہ جھانسے میں آکر لٹنے کو ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ لالچ بری بلا ہے۔ کسی بھی قسم کا فراڈ ہو بغیر لالچ کے کامیاب نہیں ہوسکتا۔ لالچی لوگ جب لٹ جاتے ہیں تو پھر شور و غل اور اخبارات میں بیانات کے ذریعے احتجاج کرتے ہیں۔ پولیس میں فراڈیوں کے خلاف پرچے درج کرائے جاتے ہیں۔ پولیس بھی اس طرح کے کیسوں پر زیادہ توجہ نہیں دیتی۔ آخر اللہ نے انسان کو دماغ کس لیے دیا ہے؟ انسان پھر بھی عقل سے کام نہیں لیتا اور مار کھا جاتا ہے۔ میں دور کیوں جاؤں؟ آپ کو اپنی بے وقوفی کا ایک واقعہ سنا دیتا ہوں۔ ان چند سطور کے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ شاید چند لوگ ہوشیار ہوجائیں اور نقصان سے بچ جائیں۔
میں اپنی سائیکل پر کام سے گھر آرہا تھا۔ بگھی خانہ روڈ پر فراڈیوں کا اسٹال لگا ہوا تھا۔ اوپر ایک چھتری تنی ہوئی تھی۔ ایک آدمی میری سائیکل کے سامنے آگیا۔ میں نے سائیکل روک لی تو اس نے اپنی چرب زبانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے ایک انرجی سیورڈبا دکھاتے ہوئے کہا۔ یہ انرجی سیور بالکل مفت حاصل کریں۔ اس کی کوئی قیمت نہیں ہے۔‘‘ میں نے دل میں سوچا مفت کی شراب تو قاضی پر حلال ہوگئی تھی۔ ایک بندہ مفت کی چیز دے اور دوسرا نہ لے۔ یہ گویا کفران نعمت ہے۔ میں نے اس سے ڈبا لے لیا۔ اس سے قبل کہ میں اپنی راہ لیتا۔ وہ آدمی جو فراڈ کمپنی کا نمائندہ تھا۔ فوراً بولا: ’’بھائی جان اب بسم اللہ کر کے اس ڈبے کو کھولیں۔ اگر اس میں کوئی انعام نہ ہوا تو ڈبا آپ کا۔‘‘ اس طرح آپ جتنے مرضی ڈبے مفت میں حاصل کرسکتے ہیں۔ ہاں اگر اس میں سے کوئی انعام نکل آیا تو پھر آپ کو سولہ سو پچاس روپے دینے ہوں گے۔ یہ ڈبا فری ہے۔ سولہ سو پچاس روپے انعام کی مد میں لیے جائیں گے۔ انعامات کا ایک بڑا ذخیرہ ہمارے پاس موجود ہے۔ استری، پنکھے، واٹر کولر، پیڈسٹل فین، کپڑے دھونے والی مشینیں ہیں۔ پچیس ہزار نقد کے ہزاروں انعامات ڈبوں میں موجود ہیں۔ میں نے اسٹال کے عقب میں موجود انعامات پر ایک نظر ڈالی۔ یہ سب اشیا وہاں موجود تھیں۔ ابھی میں اس الجھن میں تھا کہ ڈبا لوں یا نہ لوں، کیوں کہ ابھی میں نے ڈبا کھولا نہیں تھا۔بہرحال دل میں فوراً لالچ سما گیا کہ ہوسکتا ہے۔ کوئی بڑا انعام نکل آئے اور واہ واہ ہوجائے۔ اگرکپڑے دھونے والی مشین نکل آئی تو اسے ریڑھی پر لاد کر گھر لے جاؤں گا۔ گھر والے خوش ہوجائیں گے۔ سولہ سو پچاس روپے میں بڑا انعام نکلنے پر فائدہ ہی فائدہ تھا۔ میں ابھی شش و پنج میں مبتلا تھا کہ کیا کروں؟ عین اسی لمحے قریبی دکان سے ایک جوان باہر آیا، جس کی ادا اور چال خواجہ سراؤں جیسی تھی۔ اس نے لہرا کے بل کھاکے ہزار کا نوٹ دکھا کے اپنے ساتھیوں سے کہا۔ یہ لو … ہزار روپے کا نوٹ۔ وہ جواندر دو عورتیں بیٹھی ہیں، ان کے ڈبے سے پچیس ہزار روپے کا انعام نکلا ہے، انھوں نے یہ ہزار کا نوٹ مجھے خوش ہوکر دیا ہے۔ اسٹال والے نے ہزار کا نوٹ لے لیا۔میرے قریب موجود نوسرباز نے فوراً میری توجہ اس طرف مرکوز کرتے ہوئے کہا۔ دیکھا بھائی جان! اندر جو عورتیں بیٹھی ہیں انھوں نے بھی ایک ڈبا لیا ہے۔ اس میں پچیس ہزار روپے نقد کا انعامی کوپن نکلا ہے۔ ’’سوچیں!‘‘کل ایک آدمی نے انرجی سیور کے دس ڈبے باری بار لیے۔ ان کو کھولتا گیا کسی میں انعام نہیں تھا۔ وہ دس ڈبے فری میں لے گیا۔ انعام نہ بھی نکلے تو ڈبا فری میں آپ کا۔ آپ جتنے چاہیں ڈبے حاصل کریں۔ انرجی سیور بھی پائیں اور بجلی بھی بچائیں۔ انعام نکل آئے تو پھر فائدہ ہی فائدہ۔ سولہ سو پچاس روپے معمولی رقم ہے۔ کمپنی کی اشیا کو فروغ دینے کے لیے یہ اسکیم چلائی گئی ہے۔ حالاں کہ کمپنی کا نقصان ہو رہا ہے۔ مگر عوام میں ان کی مقبول اشیا کو متعارف کیا جا رہا ہے۔‘‘ قیمتی انعامات کے ساتھ معمولی سے سستے انعامات اس لیے رکھے گئے ہیں تاکہ کمپنی کو نرا خسارہ نہ ہو۔ اب ڈبا کھول کے اپنی قسمت آزمائیں۔ میں نے ڈبا اسے دے کر کہا۔ ’’تم خود ہی اسے کھولو۔ اس نے ڈبا میرے ہاتھ سے لے لیا اور ااسے کھولنے سے پہلے بولا۔ بھائی جان اپنی جیب چیک کرلیں۔ اگر انعام نکل آیا تو پھر آپ کو سولہ سو پچاس روپے دے کے انعام وصول کرنا ہوگا۔ ڈبا کھلنے کے بعد واپس نہیں ہوتا، میں نے اسے کہا۔ ہاں بھائی میں سولہ سو پچاس روپے ادا کر کے ہی انعام وصول کروں گا۔ رقم میرے پاس ہے۔ اس نے ڈبا کھولا۔ اس میں سے کوپن نکال کے مجھے دیتے ہوئے بولا۔ اپنے دست مبارک سے پرچی خود کھولیں میں نے پرچی کھولی۔ اس پر لکھا ہوا تھا آپ کو استری مبارک ہو۔‘‘ میں نے پرچی اسے دی وہ بولا۔ دیکھا بھائی جان انعام نکل ہی آیا نا آپ کا۔ بس اب آپ سولہ سو پچاس روپے عنایت کریں اور اپنا انعام حاصل کریں۔ کوشش جاری رکھیں۔ آپ کا کسی روز بڑا انعام بھی نکل آئے گا۔ استری بھی بطور انعام آپ کو مل رہی ہے۔ کم بل آنے سے آپ کی بچت بھی ہوگی۔ کیوں… ہے نا فائدہ ہی فائدہ۔‘‘ میں نے سولہ سو پچاس روپے دے کر استری وصول کرلی اور گھر کی جانب جاتے ہوئے دل کو تسلیاں دیتا گیا کہ اگر ایک مہینے میں اس انرجی سیور سے دو ہزار روپے کم بل آگیا تو کوئی گھاٹا نہیں۔ راستے میں ایک الیکٹرک اسٹور تھا۔ میں اسٹور کے سامنے رک گیا۔ سائیکل کھڑی کر کے اسے تالا لگایا اور اسٹور کے اندر داخل ہوگیا۔ اسٹور کا مالک میرا واقف تھا۔ میں نے اسے ساری تفصیل سے آگاہ کر کے انعام والی استری اور انرجی سیور بلب اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔ ذرا ان کی قیمت بتانا۔ اس نے بتایاکہ استری کی قیمت ڈیڑھ سو روپے ہے۔ انرجی سیور بلب کی قیمت ایک سو چالیس روپے ہے مگر آج کل یہ بلب سو روپے میں رعایتی قیمت پر مارکیٹ میں فروخت ہو رہا ہے۔ یہ کل سودا ڈھائی سو روپے کا ہے۔ ان ٹھکوں نے ڈھائی سو روپے کے سامان کے عوض تم سے سولہ سو پچاس روپے لیے ہیں۔ کھڑے کھڑے اپنی مہارت، چرب زبانی سے انھوں نے تمھاری جیب سے پورے چودہ سو روپے حاصل کرلیے ہیں۔ اس تناسب سے یہ لوگ دن میں ہزاروں انسانوں کو بے وقوف بنا کے لاکھوں روپے کا دھندا کرتے ہیں۔ سیدھے سادھے، لالچی قسم کے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کے وہ بڑی صفائی سے لاکھوں روپے بٹور لے جاتے ہیں۔ بڑے انعامات صرف دکھانے کے لیے سجا کے رکھ دیتے ہیں۔ ان کی پرچی ڈبے میں نہیں ڈالتے۔ ڈبوں میں استری وغیرہ یا ایسے اور سستے آئٹم ہوتے ہیں۔ لوگ بڑے انعامات حاصل کرنے کے لالچ میں پھنس جاتے ہیں۔
میں نے الیکٹرک اسٹور کے مالک سے کہا۔ یار میرے سامنے دو عورتوں کا پچیس ہزار کا انعام نکلا ہے۔ انھوں نے ایک ہزار روپے اسٹال والوں کو انعام دیا ہے۔
میری بات سن کے اسٹور والے نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور بولا ارے اُلو کے بھائی! میں نہیں مانتا۔ یہ تمھاری غلط فہمی ہے۔ اس طرح کی عورتیں ان کے ساتھ ملی ہوئی ہوتی ہیں۔ دکھاوے کے لیے ان کا انعام نکالا جاتا ہے تاکہ لوگوں میں مفت کے ڈبے حاصل کرنے کا جنون پیدا ہو۔ اچھا یہ بتاؤ کہ ان عورتوں نے تمھارے سامنے ڈبا کھولا تھا! میں نے کہا نہیں بھائی۔ ’’وہ قریب کی دکان میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ اندر سے ایک ہجڑہ نما آدمی باہر آیا تھا۔ اس نے اسٹال والوں کو ہزار کا نوٹ دے کر کہا تھا کہ جن عورتوں کا پچیس ہزار کا انعام نکلا ہے۔‘‘ یہ ان کی طرف سے بخشش ہے۔ میری بات سن کے الیکٹرک اسٹور والا ماتھے پر ہاتھ مار کے بولا۔ بس یار تو بھی کاٹھ کا… اب کیا کہوں تجھے۔یہ کہانی جو تم سنا رہے ہو اس کہانی میں ان عورتوں کا وجود فرضی ہے۔ تو جا اور قریب کھڑا ہو کے نظارہ کر۔ دودھ کا دودھ، پانی کا پانی ہوجائے گا۔ تجھے پتہ لگ جائے گا کہ وہ عورتیں حقیقت میں اندر موجود تھیں یا فرضی ڈرامے کے طور پر دکھانے کے لیے ہجڑے نے اپنا یہ کردار ادا کیا تھا۔ میں نے اسٹور والے سے کہا۔ ٹھیک ہے میں کل جاؤں گا اور صورت حال کا جائزہ لوں گا اور پوری رپورٹ سے تمھیں آگاہ کروں گا۔ میں نے انرجی سیور اور استری اٹھائی اور سائیکل پر گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔‘‘
گزرے ہوئے اوقات میں انسان کے ساتھ پیش آنے والے ایسے واقعات سے انسان بڑھاپے میں آکر سیانا ہو جاتا ہے لیکن صد افسوس کہ جب انسان مکمل طور پر ہوشیار ہوتا ہے، اس وقت کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیوں کہ وہ بوڑھا انسان جب اپنی اولاد کو نصیحت کرتا ہے تو اس کی اولاد باپ کی نصیحتوں کو خاطر میں نہیں لاتی۔ جب یہی اولاد والد کی نافرمانی کے بعد بوڑھی ہوتی ہے تو پھر منہ سے یہ الفاظ نکلتے ہیں۔ آہ… ابا مرحوم ٹھیک ہی فرماتے تھے لیکن بعد میں سوائے پچھتانے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ یہ کتابیں بھی بوڑھے والدین کی طرح لوگوں کو سیدھا راستہ دکھاتی ہیں۔ ہم کتابوں کی مدد سے عقل سے کام لے سکتے ہیں۔
٭
دوسرے روز میں بازار گیا۔ کچھ شاپنگ کی۔ ایک ہوٹل سے چائے پی واپسی پر میں اسی روڈ کی طرف روانہ ہوا جہاں سے میں نے انعام میں ایک روز قبل استری حاصل کی تھی۔ میں اس روڈ پر موجود ٹھگوں کے اسٹال کے قریب پہنچا اور ان سے چند قدم کے فاصلے پر کھڑا ہوگیا۔ پھر بہانے سے میں نیچے بیٹھ گیا اور اپنے سائیکل کی چین کو اس طرح دیکھنے لگا جیسے اس میں کوئی گڑبڑی ہوگئی ہے۔ اس طرح بیٹھنے کا میرا مقصد یہ تھا کہ میں کچھ دیر تک ان کی حرکات کا آرام سے جائزہ لے سکوں اور کوئی شخص یہ اعتراض بھی نہ کرے کہ یہاں کیوں کھڑے ہو یا تمھارا یہاں ٹھہرنے کا کیا مقصد ہے؟
کل کی طرح وہی عملہ تھا۔ وہی پھول تھے وہی گملا تھا۔ ایک طرف ٹھگ تھے دوسری طرف میں کنگلا تھا۔ ایک دیہاتی آدمی جو شاید غریب کسان تھا، یا ریڑھی بان تھا۔ اس لیے کپڑے میلے تھے اور سر پر بھی میلی سی پگڑی تھی۔ اس کے کپڑوں سے اس کی خستہ حالی کا پتا چلتا تھا۔ وہ اپنے سائیکل پر آتا دکھائی دیا۔ پرانے سائیکل کے اگلے پہیے کا مڈگارڈ بھی غائب تھا۔ سڑک پر کھڑے ہوئے ٹھگ نے انرجی سیور کا ڈبا دکھاکے اس کسان کو روک لیا اور اسے تمام تفصیل سے آگاہ کرنے لگا کہ کس طرح وہ بھی انعام پاسکتا ہے؟ اور بجلی بھی بچا سکتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ میں نے دل میں سوچا۔ کتنے بے ضمیر ہیں یہ لوگ۔ ایک مفلوک الحال کسان کو بھی چکمہ دے رہے ہیں۔ اگر اس جیسے یا مجھ جیسے غریبوں کو یہ اپنی لسٹ سے نکال دیں تو کیا بگڑ جائے گا ان کا۔ مگر یہ تو ظالم لوگ ہیں۔ غریبوں کو بھی ٹھگنے سے باز نہیں آرہے۔ اور پھر… میں حیران رہ گیا۔ وہی کل والا ہیجڑا ایک بار پھر قریبی دکان سے نکلا اور ہزار کا نوٹ اسٹال والے کو دے کر بولا: وہ جو اندر دو آدمی بیٹھے ہوئے ہیں، جن کا پچیس ہزار کا انعام نکلا ہے۔ انھوں نے یہ ہزار روپے ہمیں بخشش دی ہے۔ میں ان سے زیادہ دو رنہیں تھا۔ اس لیے آواز مجھ تک پہنچ رہی تھی۔ کل کی کہانی اور آج کی کہانی میں صرف معمولی سا فرق تھا۔ کل اندر دو عورتیں بتائی گئی تھیں اور آج اندر دو آدمی بیٹھے ہوئے تھے جو اس ٹھگ بازی کا فرضی کردار تھے۔ سوال یہ پیدا ہو رہا تھا کہ اس دکان والے کا ان ٹھگوں سے کیا رابطہ تھا؟ جب بھی انرجی سیور کا ڈبا دکھا کے کسی راہ گیر کو اپنے جال میں یہ لوگ پھانستے تھے، وہ ہیجڑا نما جوان دکان سے باہر آکے بتاتا تھا کہ پچیس ہزار روپے انعام نکلا ہے۔ یہ کام وہ اس لیے کرتے تھے کہ پھنسنے والے مرغے کی حوصلہ افزائی ہوسکے اور وہ خوشی سے ڈبا لے لے۔ اس ہجڑے کی یہ ڈیوٹی تھی کہ وہ دکان کے اندر رہے اور دروازے کے شیشے سے باہردیکھتا رہے۔ جونہی کوئی شکار جال میں پھنسے وہ باہر آکے پچیس ہزار انعام کا تذکرہ کرے تاکہ شکار بچ کے نہ جائے۔ کسان اس ٹھگ کی گفتگو سنتا رہا۔ اس نے ڈبا نہیں لیا اور ان کی بکواس ایک کان سے سن کے دوسرے کان سے نکالتا رہا۔ پھر وہ اپنی سامنے والی جیب کو ہاتھ سے پکڑ کر ہلاتے ہوئے بولا۔ میرے پاس رقم نہیں ہے۔ میں یہ ڈبا نہیں لے سکتا۔ اس کے بعد وہ اپنے سائیکل پر سوار ہوا اور میری طرف آنے لگا۔ جب وہ کسان میرے قریب سے گزرا تو میں جلدی سے اپنے سائیکل پر سوار ہوا اور اس کسان کے قریب پہنچ کے بولا۔ کیوں ڈبا پسند نہیں آیا۔ کسان نے میری طرف دیکھا اور بولا۔ یہ لوگ بڑے خبیث ہیں ان کے ٹھگی پروگرام کو میں خوب سمجھتا ہوں۔ دکھاتے ہیں ہاتھی اور دیتے ہیں چھوٹی سی چڑیا۔ ابھی انھوں نے مجھ سے سولہ سو پچاس روپے بٹور کے سوسو کا چھوٹا سا انعام دے دینا تھا۔ میں کوئی پاگل تو نہیں کہ ان کے جھانسے میں آجاتا؟ ڈی سی آفس چوک میں پہنچ کے وہ ایک جانب گھوم گیا اور میں چلا اپنے گھر کی جانب۔ میں نے سوچا۔ اے بے وقوف انسان، تجھ سے تو وہ کسان عقل مند نکلا اور ٹھگوں کے جال سے نکل گیا۔ تو واقعی الیکٹرک اسٹور کے مالک کے کہنے کے مطابق کاٹھ کا الو ہے۔ ان ٹھگوں کے چکر میں آکے چودہ سو روپے کا نقصان کرلیا۔ بے شک انسان عقل سے کام لے اور لالچ میں نہ آئے تو وہ نقصان سے بچ سکتا ہے۔ قدم قدم پر ٹھگوں نے گورکھ دھندے کے جال بچھائے ہوئے ہیں ہمیں چاہیے ہم اپنے عقل سے کام لیں اور اپنے آپ کو نقصان سے بچائیں۔ ان ٹھگوں کا کیا ہے یہ تو نرے بے ضمیر ہوتے ہیں۔ لوٹ کھسوٹ کے ذریعے عوام کو خوب بے وقوف بناتے ہیں۔ دکھاوے کا مال سجاتے ہیں۔lll