کتاب و سنت کی تعلیمات مومن کے اخلاق و کردار کو بنانے کے لیے ہیں۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو تہذیب و تمدن کی حالت میں دیکھنا چاہتا ہے اور موجودہ دور کی انسانیت اس کی زیادہ متلاشی ہے۔ ان احکام و فرامین کو ایسے لوگوں تک پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے۔ پیارے رسولﷺ نے اپنی فرمودات میں سماجی و معاشرتی اصلاح پر بہت زور دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشرہ کو بہتر بنانے والے اس کے افراد ہی ہوں گے، اس لیے ان کے اخلاق و کردار کو بنانے و سنوارنے پر بطور خاص زور دیا گیا ہے۔ اس میں کہیں ترغیب کا انداز ہے تو کہیں حکم کا۔ اسلوب و انداز بھلے ہی بدلا ہوا ہو لیکن مقصد مومن کی اصلاح ہی ہے۔ ذیل میں اسی طرح کی ایک حدیث کی تشریح کی جا رہی ہے، توقع ہے اس سے فائدہ ہوگا۔
’’حضرت براء بن عازبؓ سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نبیؐ نے ہم کو سات باتوں کا حکم دیا۔ ہمیں حکم دیا جنازہ کے ساتھ جانے کا، مریض کی عیادت کا، دعوت دینے والی کی دعوت کو قبول کرنے کا، مظلوم کی مدد اور قسم پورا کرنے میں تعاون کرنے کا، سلام کا جواب اور چھینکنے والے کی چھینک کا جواب دینے کا۔
۱- جنازہ کی پیروی
جنازہ کی اتباع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی کے مرنے کی خبر سن کر اس کی تجہیز و تکفین میں شرکت کی جائے، محض موت کی خبر سن کر ٹال نہ دیا جائے۔ جنازہ میں شرکت ایک معاشرتی ضرورت ہے لیکن اسلام نے اس ضرورت کو باعث اجر و ثواب بنا دیا ہے۔ جنازہ کے ساتھ جانے کی بڑی فضیلت بتائی گئی ہے۔ ایک دوسرے پہلو سے غور کریں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ جنازہ میں شرکت سے اپنی موت کی یاد دہانی ہو جاتی ہے۔ موت کے استحضار سے بندہ گناہوں کی طرف کم سے کم مائل ہو پاتا ہے۔ نیز موت سے غفلت نیکیوں سے دور اور خطاؤں سے نزدیک کردیتی ہے۔ بندۂ مومن کی کامیابی خطاؤں سے دوری اور ثواب کی قربت میں پوشیدہ ہے۔ گویا جنازہ ہم کو موت کی یاد دلاتا ہے۔
۲-مریض کی عیاد
مریض کی عیادت بڑے اجر و ثواب کا ذریعہ ہے۔ عیادت کرنے سے مریض کو دلی سکون ملتا ہے۔ مریض کو مرض اور تکلیف میں مبتلا دیکھ کر بندہ کو اپنی صحت کی قدر و قیمت پہچاننے میں مدد ملتی ہے، مریض کی عیادت محض جاکر نہیں کرنی چاہیے بلکہ حسب ضرورت اس کے علاج و معالجہ میں تعاون بھی کرنا چاہیے۔ مریض کے پاس بیٹھ کر اس کی صحت و شفا کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ اس کی دل جوئی اور ہمت افزائی کرنی چاہیے۔ ایسا نہ ہوکہ آپ کی کسی بات سے مریض دل برداشتہ ہوجائے۔
۳- دعوت قبول کرنا
دعوت کسی کار خیر کے لیے ہو تو اس کو قبول کرلینا چاہیے۔ بلا عذر شرعی کسی کار خیر سے دور رہنا گمراہی ہے۔ دعوت کسی اخلاقی عمل کی اصلاح کی بھی ہوسکتی ہے۔ اگر ہمارا کوئی بھائی کسی خرابی میں مبتلا ہے اور ہم اس کی اصلاح کے لیے بلائیں تو اسے ضرور آنا چاہیے اس میں سراسر اسی کا فائدہ ہے۔ یہ بات ذہن میں بالکل واضح رہے کہ نیت اس کے اصلاح کی ہو، اس کو رسو ایا شرمندہ کرنے کی نہ ہو۔ دعوت کسی کی مدد کے لیے بھی ہوسکتی ہے کوئی بندہ ہم کو مدد کے لیے بلائے تو ہمیں اس کی مدد کے لیے ہر حال میں جانا چاہیے۔ یہ بھی ایک سماجی ضرورت ہے۔ آج وہ ہم کو مدد کے لیے بلا رہا ہے کل کو یہ اپنی مدد کے لیے کسی دوسرے کو بلائیں گے۔ آج اگر ہم نے اس کی مدد نہیں کی تو کل کو ہماری مدد کون کرے گا۔
۴- مظلوم کی مدد
ظلم و زیادتی سماج کے کسی طبقہ کے ساتھ ہو رہی ہو ہمیں ہر حال میں اس کی مدد کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ مشاہدہ اور تجربہ صاف صاف بتاتا ہے کہ سماج میں عام طور سے اسی پر زیادتی کی جاتی ہے جو کم زور طبقہ سے تعلق رکھتا ہے۔ ہر طاقتور اپنے سے کمزور کو دبانے یا ستانے کی کوشش کرتا ہے، ظلم مادی یا اخلاقی نوعیت کا ہوسکتا ہے یا اس کے علاوہ۔ ظلم ہر حال میںظلم ہے۔ اسی طرح مظلوم کی مدد بھی کئی طرح کی ہوسکتی ہے۔ مظلوم کی مدد سے عام طور پر ذہن مالی مدد کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ بلاشبہ یہ مدد کی سب سے اعلی و افضل شکل ہے۔ قانونی مدد بھی کسی طرح اپنی افادیت کے لحاظ سے کم نہیں۔ اخلاقی و اصلاحی مدد بھی کارِ ثواب ہے۔ اپنی حد تک کوشش کرنا بھی نیکی ہے۔ ضروری نہیں کہ مظلوم کو انصاف دلاکر ہی دم لیں۔ اس کے لیے بڑے وسائل و ذرائع کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعض اوقات آدمی اپنے مظلوم بھائی کی مکمل مدد کرنے کی حالت میں نہیں ہوتا ایسی صورت میں جو بھی ممکن ہو کرنے کے لیے تیار رہے۔ یہ جذبہ بھی قابل قدر ہے۔
۵- قسم والے کی مدد
قسم کھانے کا عام شرعی اصول یہ ہے کہ کسی نیک کام پر اللہ تعالیٰ کی قسم کھائی جائے۔ ناجائز اور غلط کام کے لیے قسم کھانا درست نہیں۔ قسم پورا نہ کرنے کی صورت میں اس کا کفارہ ادا کرنے کا حکم قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ کسی شخص نے قسم کھالی کہ فلاں کام ضرور کر کے رہے گا لیکن وہ کام پورا نہ کرسکا، اس کی کئی شکلیں ہوسکتی ہیں۔ ایسی صورت میں اس کو چاہیے کہ دس مسکینوں کو کھانا کھلائے یا تین روزے رکھے یا ایک غلام آزاد کرے۔ ان تینوں میں سے کوئی کام ضرور کرے۔ ایسی حالت میں جو لوگ اس سے ہمدردی کا جذبہ رکھتے ہوں انہیں چاہیے کہ کفارہ کی ادائیگی میں اس کی مدد کریں تاکہ وہ اپنی اس قسم کی وجہ سے اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں مواخذہ سے بچ سکے۔ یہ کارخیر میں تعاون ہے۔ اس کا بڑا اجر و ثواب ہے۔
۶- سلام کا جواب
سلام کا لفظ اپنے معنی و مفہوم کے لحاظ سے بڑا ہی معنی خیز ہے۔ امن و سلامتی کی دعا دوسروں کے لیے کرنا اسلام کی عام تعلیم ہے۔ دوسروں کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرنا دوسروں کی طرف سے نیک خواہشات ملنے کی پوری امید دلاتی ہے۔ حدیث کے اس ٹکڑے سے معلوم ہوتا ہے کہ سلام کا جواب دینا مومن کا حق ہے، ا سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دوسروں کو سلام کرنا چاہیے، اس سے اتحاد و اتفاق اور ہمدردی و غم خواری کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ اسلام میں سلام کرنے بلکہ پہل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ سلام اسلامی شعار ہے، اس شعار کو عام کرنا اور خود اس پر عمل کرنا فائدہ سے خالی نہیں۔ ایک دوسری روایت میں دخول جنت کا آسان نسخہ سلام پھیلانے کو بتایا گیا ہے۔ نفسیاتی اعتبار سے غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کو سلام نہ کرنے میں شاید اتنی زیادہ دل آزاری نہ ہوتی ہو لیکن سلام کا جواب نہ دینے سے سلام میں پہل کرنے والا محسوس کرتا ہے بلکہ اس کو شکایت ہوجاتی ہے۔ ہماری معمولی لاپروائی سے کسی کو شکایت کاموقع نہ ملے، کمال اسی میں ہے ورنہ آج کے اس دور میں ہر مومن دوسرے مومن سے بے شمار معاملات میں شک کا شکار رہتا ہے۔ سلام کا جواب ذریعہ نیکی و ثواب ہے، ہر مومن کو اس معاملہ میں حساس و چوکنا رہنا چاہیے۔ یہ عمل ہے بہت معمولی لیکن اپنے اثرات کے لحاظ سے بہت ہی اہم ہے۔
۷- چھیک کا جواب دینا
چھینکنا ایک فطری عمل ہے۔ چھینک انسان کی صحت مندی کی علامت ہے۔ اسلام نے اس فطری عمل کو بھی باعث اجر و ثواب بنا دیا ہے۔ ایسے موقعے پر حکم ہے کہ چھینکنے والے کو جب چھینک آئے تو وہ الحمد للہ کہے۔ بتایا جاتا ہے کہ جتنے وقفہ کے لیے چھینک آتی ہے اس وقت تک کے لیے انسان کے دل کی حرکت رک جاتی ہے۔ جیسے ہی یہ عمل ختم ہوا دل نے دوبارہ کام کرنا شروع کر دیا۔ اگرچہ یہ وقفہ بہت ہی معمولی ہوتا ہے لیکن دوبارہ اگر دل حرکت کرنا شروع نہ کرے تو انسان کی زندگی ختم ہوجائے۔ الحمد للہ کہنا یہ شعور بیدار کرتا ہے کہ تمام تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، جس نے دوبارہ دل کو حرکت میں کردیا۔ سننے والے کا فرض ہے کہ وہ یرحمک اللہ کہے (اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے) یعنی اس چھینک کے بعد تم کو جو زندگی کا وقفہ ملا ہے، اس میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت شامل حال رہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو الحمد للہ کہنے کی توفیق دی تو اس کی رحمت کی ہی بنا پر ہے اور آئندہ بھی وہ تم کو اپنی رحمت کے سایہ میں رکھے تاکہ تم اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزار سکو۔
اس سلسلے میں آخری حکم یہ ہے کہ پھر چھینکنے والا کہے: یہدیکم اللہ و یصلح بالکم (اللہ تبارک و تعالیٰ تم کو ہدایت دے اور تمہارے حالات بہتر بنا دے) اس سے معلوم ہوا کہ چھینک کا جواب دینے والا بھی فائدہ سے خالی نہیں، اس کو ہدایت اور اصلاح حال کی دعا اپنے مومن بھائی کی طرف سے مل گئی۔ یہ بھی اسلامی شعار ہے، ان امور کی پابندی سے کسی طرح کا کوئی نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہی فائدہ ہے۔ اسلامی شریعت کی یہی خصوصیت اس کو دیگر ادیان باطلہ سے ممتاز کرتی ہے۔