خیالوں کے سمندر مں الجھی ہوئی فرح چونک اٹھی جب امی نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔ فرح نے امی کے چہرے کی طرف دیکھا جو غم اور تھکان سے چور چور تھا۔ امی نے دھیمی آواز سے کہا: ’’بیٹی گھر جاکر فریش ہو آؤ۔ رات بھر جاگتی رہی ہو۔‘‘
فرح نے سرد آہ بھر کر کہا۔ ’’امی میں جاگتی رہی ہوں تو آپ بھی تو ساری رات جاگی ہیں۔‘‘ امی نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا:
’’میری بات مانو اور گھر ہو آؤ۔‘‘ فرح نے امی کی بات کو ٹالنا مناسب نہ سمجھا اور اپنا بیگ درست کرنے لگی اور ایک نظر ابو پر ڈالی جو ہاسپٹل کے بیڈ پر سخت تکلیف میں مبتلا تھے۔ ان کے چہرے پر درد اور پریشانی کے اثرات نمایاں تھے۔ ان کی تکلیف کے اثرات فرح اپنے دل میں محسوس کر رہی تھی۔ ابو کو سینے کے درد سے بھی بڑھ کر وہ روحانی درد تھا جو فرحان صاحب نے انھیں دیا تھا۔ آج اپنے بھائی کو بھائی کہنے میں بھی فرح کو شرم محسوس ہو رہی تھی۔ کیا اولاد اسی لیے ہوتی ہے؟ بڑھاپے میں تکلیف دینے کے لیے یا پڑھاپے میں سہارا دینے کے لیے؟ آخر اتنی بے رخی کیوں؟
الجھے خیالات اور پیچیدہ سوالات کے ساتھ فرح ہاسپٹل سے نکلی۔ جلد ہی اسے ٹیکسی مل گئی۔ ٹیکسی ڈرائیور کسی سے فون پر بات کر رہا تھا اور کہتا جاتا تھا میرا بچہ مرجائے گا صاحب اگر وقت پر آپریشن نہ ہوا۔ مجھے رقم کی بے حد ضرورت ہے۔ مخالف سے نفی میں جواب آتا رہا اور ڈرائیور اصرار کرتا رہا۔ فرح کو ذرائیور کا مسئلہ سمجھ میں آگیا تھا۔ فرح اپنے دل میں سوچنے لگی ’’واہ رے محبت!‘‘ ایک باپ کی اپنے بچے کے لیے کتنی تڑپ… کتنی بے چینی؟؟ کیا ماں باپ جوانی میں تکلیف اور مشقتیں برداشت کر کے اولاد کی پرورش اسی لیے کرتے رہے کہ جب بڑھاپے میں جسم جواب دینے لگے تو اولاد انھیں تنہا چھوڑ کر اپنی دنیا کہیں اور بسا لے۔
مغرب کی نماز گھر پر پڑھ کر فرح ہاسپٹل پہنچی تو دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب ابو کا چیک اپ کر رہے تھے۔ چیک اپ کے بعد ڈاکٹر صاحب نے فرح سے کہا:
’’بیٹا تمہارے ابو کی طبیعت میں سدھار نہ ہونے کی وجہ ذہنی دباؤ ہے۔ اگر وہ دور ہوجائے تو طبیعت انشاء اللہ سدھر جائے گی۔ اس نے یہ رات سخت تکلیف اور پریشانی میں گزاری۔ رات تہجد کے وقت جب امی نے نماز ادا کی اور بارگاہِ الٰہی میں اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا کرنے لگی تو وہ بھی دل میں آمین کہے جاتی تھی۔
’’یا اللہ! میرے شوہر کو صحت عطا فرما اور میرے بیٹے کو ہدایت دے کہ وہ اپنے آج کے ساتھ اپنے کل کی بھی فکر کرے۔ یا اللہ تیرے پیارے نبی حضرت محمدؐ کا ارشاد ہے کہ انسان کی ہر گناہ کی سزا اللہ چاہے تو دنیا میں دیتا ہے یا آخرت میں دیتا ہے لیکن والدین کے ساتھ بدسلوکی کی سزا دنیا ہی میں دے دی جاتی ہے۔ یا اللہ میں چاہتی ہوں کہ میرے بچے کا آج اور کل دونوں اچھا ہو۔ میرے اللہ میری دعا قبول کرلے آمین…
امی کی دعاؤں کو سن کر فرح کی آنکھیں نم ہو رہی تھیں۔ پھر نہ جانے اسے کب نیند نے آلیا۔ آنکھ کھلی تو منظر ہی کچھ اور تھا۔ بھیا ابو کے ہاتھ پکڑے شرمندگی کے انداز میں بیٹھے تھے اور ابو ٹکٹکی لگائے بھیا کو دیکھ رہے تھے۔ ابو کے چہرے کی چمک فرح اور امی کے سوا کون سمجھ سکتا تھا۔ بھابی امی کے پاس بیٹھی ہیں اور بچے بھی ساتھ ہیں۔ اس منظر کو دیکھ کر فرح کے آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ لیکن اب کی بار یہ آنسو شکر گزاری کے تھے۔ خوشی کے تھے۔ اس رب کی شکر گزاری کے جو ستر ماؤں سے زائد اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے۔lll