کمیونیکیشن مرد و عورت کے درمیان

عمار انس

شوہر اور بیوی کے درمیان گفتگو اور اندازِ کمیونیکیشن کا مطالعہ نہایت اہم ہے۔ اس سے رشتوں میں مضبوطی، معاملات میں صفائی اور محبت و الفت میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ ایک دوسرے کی شخصیت کو سمجھنے، رشتوں کو قائم رکھنے اور انھیں مزید بہتر بنانے میں مددگار ہوتا ہے۔ ایک خاتون کی شخصیت کے ارتقاء کے تناظر میں کمیونی کیشن کا مطلب خواتین اور مردوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت کو سمجھنا، ان کے زبان اور بیان میں کارفرما خصوصی معنویت اور رشتوں میں پیدا ہونے والے تنازع کی وجوہات تلاش کرکے ان کا علاج کرنا ہے تاکہ عورت اپنے منفرد کردار کو پہچانے اور ایک مستحکم خاندان اور اچھے معاشرے کے قیام میں اپنا کردار ادا کرے۔
بہترین گفتگو کے لیے ایک دوسرے کی شخصیت کو سمجھنا لازمی ہے۔ عورت اور مرد کے درمیان بنیادی فرق ہے۔ عورت زندگی کے تمام شعبوں میں مختلف طرح سے اپنا ردعمل ظاہر کرتی ہے۔ مرد اورعورت ایک دوسرے مختلف ہیں۔ ان کی ضرورتیں مختلف ہیں، ان کی زبان اور لباس مختلف ہے ان کی عادتیں مختلف ہیں اور ان میں کوئی مماثلت اور مشابہت نہیں۔ اس فطری اختلاف سے ناواقفیت کی وجہ سے وہ دونوں ایک دوسرے سے ویسی ہی توقعات باندھتے ہیں جیسی وہ ہم جنس کے لوگوں سے کرتے ہیں۔ کوشش اس بات کی رہتی ہے کہ عورت مرد کو اپنی خاص عادات اور توقعات کا پابند بنادے۔ مرد بھی عورت کے ساتھ ویسا ہی کرتا ہے۔ جبکہ یہ سراسر ناممکن ہے کہ عورت مرد کی پابند بن جائے اور مرد عورت کا تابع بن جائے۔ جب یہ صورت حال ایک خاص حد سے آگے بڑھتی ہے تو اس کا نتیجہ نزاع، جھگڑوں اور طلاق کے علاوہ کچھ بھی نہیں نکلتا۔ اگر دونوں ہم سفر ان باتوں کا خیال رکھیں جو ان کے فطری بنیادی اختلاف کی تشریح کرتے ہوئے موافقت کا راستہ دکھلاتی ہیں تو یقین جانئے ان کی زندگی کا سفر سہانا ہوجائے گا، ان کا گھر جنت نشان بن جائے گا، ایک خوش خرم اور اندرونی مشکلات سے آزاد معاشرت وجود میں آئے گی اور حقیقت میں یہ ممکن ہے۔ جب مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے کے ذہن و مزاج اور طبیعت کو سمجھ کر اس کے مطابق معاملہ کریں۔
عورت اور مرد کا مزاج
زیادہ تر عورتوں کو شکایت ہوتی ہے کہ ان کا شوہر ان کی نہیں سنتا، ان کے جذبات کی قدر نہیں کرتا، یا تو انہیں یک سر نظر انداز کرتا ہے یا تھوڑا سا سن کر دس ٹکے کا ایک جواب دے دیتا ہے اور پھر اپنے کام میں لگ جاتا ہے۔ عورت کا خیال نہ رکھنے کے سوال پر اس کا یہی جواب ہوتا ہے کہ اس نے تو اس کا مسئلہ حل کردیا ہے۔
اسی طرح مردوں کی عورتوں کے بارے میں عام شکایت ہے کہ وہ ان کے سر پر سوار ہونا چاہتی ہیں، انہیں اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتی ہیں یا اپنی مرضی کے مطابق بدلنا چاہتی ہیں۔ وہ اپنے آپ کو مصلح سمجھتی ہیں۔ ہر وقت اصلاحی درس دیا کرتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کی شکایتیں واقعی موجود ہیں لیکن صرف و صرف ایک دوسرے کی شخصیت اور مزاج سے ناواقف ہونے کی پیداور ہیں۔
مرد کی شخصیت اور مزاج
مرد کی شخصیت اور مزاج اس طرح کا ہے کہ وہ طاقت، قوت ہنر مندی اور نتائج کو اہمیت دیتا ہے۔ اس کے اندر ایک طرح کا شیر چھپا ہوتا ہے۔ وہ ایسے کام اختیار کرتا ہے جو اس کی طاقت، بہادری اور صلاحیت کا سکہ جمادیں۔ وہ اپنی شخصیت کے کمال کا احساس اپنی کامیابیوں سے کرتا ہے۔ اس کی شخصیت کا ایک ایک عمل اس کے اس مزاج کی گواہی دیتا ہے۔ اس کا لباس بحیثیت فوجی ، سائنس داں، پروفیسر، ڈاکٹر اور بزنس مین اس کی شخصیت اور اندرونی قوت کا پتا دیتا ہے۔ اس کی چال، آنکھوں سے دیکھنے کا انداز، اس کے شوق جیسے گھڑ سواری، نشانہ بازی، شکار، سیاسی و سماجی قسم کے دقیق موضوع پر گفتگو اس کی اسی طبیعت کا اشارہ دیتے ہیں۔ اس کے پیر گھر میں نہیں ٹکتے، ساری دلچسپیاں گھر کے باہر کے کاموں سے ہوتی ہیں۔ وہرومانی ناولوں کے مطالعے اور رومانی گفتگو وغیرہ میں بالکل دلچسپی نہیں لیتے۔ لوگوں سے رشتے ناطے نبھانا ان کی ترجیح نہیں ہوتا۔ ان کا طرئہ امتیاز یہ ہے کہ انہیں اچھا جب محسوس ہوتا ہے جب وہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے کوئی محاذ سر کرلیا ہے۔ کامیابیوں سے وہ اپنی قوت اور فخر کا اظہار کرتے ہیں۔ یہی ان کی خوشی کا راز ہے۔ زندگی کی اس محاذ آرائی میں اپنی مرضی کے بغیر کسی قسم کی مدد ان کے لیے توہین ہے۔ چاہے کوئی ان کے ہاتھ میں چاند ہی کیوں نہ لاکر رکھ دے۔ اگر اسے کسی کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ نہ صرف سنتا ہے بلکہ اس کا انتہائی مشکور بھی ہوتا ہے۔
شورت کی شخصیت اور مزاج
عورت کی شخصیت ایسی ہے کہ وہ پیار و ہمدردی، گفتگو، خوبصورتی اور تعلقات بنانے کو اہمیت دیتی ہیں۔ ایک دوسرے کا خیال رکھنا، تعاون کرنا، تعلقات استوار کرنا، دوسروں کے دکھ درد کو محسوس کرنا ان کا خاص مزاج ہے وہ اپنی شخصیت کا احساس اپنے جذبات اور رشتوں کی سطح سے کراتی ہیں۔ ان کی شخصیت کا کمال یہ ہے وہ اپنی ساری کیفیات دوسروں کے ساتھ بانٹ کر اور ان کے ساتھ جوڑ کر دیکھتی ہیں۔ ان کے لیے رشتے اور جذبات ہر چیز سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ یہاں رشتوں ناطوں کا ایک سلسلہ اور جذبات و احساسات کا ایک بہاؤ ہوتا ہے جو گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔ بالکل چاند کی طرح کبھی پورا کبھی آدھا اور کبھی ایک چوتھائی۔ ان کی پوری شخصیت اسی مزاج کی دھری پر گھومتی ہے۔ ان کے لباس طاقت و قوت کے بجائے خوبصورتی اور حسن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان کے زیورات مرد کی طرح سخت کوشی اور جنگووانہ طبیعت کے بجائے نرمی اور حسن کا اظہار کرتے ہیں۔ گفتگو ان کا خاص ہتھیار ہے اس سے وہ اپنے شخصی جذبات کی ترسیل کرتی ہیں۔ دوسروں سے بات چیت کرکے، اپنے مسائل دوسروں سے بیان کرکے یا ان کے مسائل سن کر اور اپنا مشورہ دے کر وہ خوشی محسوس کرتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ عورتیں نفسیات کی ڈاکٹر ہوتی ہیں ہر ایک کی کاؤنسلنگ کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہوتا ہے۔ وہ ارتقاء چاہتی ہیں اس کے لیے تجاویز کے تبادلے اور روحانیت کا سہارا نہیں لیتی ہیں۔
عورتوں اور مردوں کی شخصیات اور مزاج میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ مرد مقاصد، ہدف اور نتائج کے حصول کی طبیعت پر پیدا ہوا ہے جبکہ عورت جذبات و احساسات اور تعلقات کی طبیعت پر۔
شخصیات اور مزاج کا ٹکراؤ
جب یہ دو مختلف مزاج کے لوگ ایک گھر کی چھت کے نیچے جمع ہوتے ہیں تو عدم واقفیت میں ایک دوسرے کو اپنے اپنے مزاج پر پرکھتے ہیں۔ بیوی شوہر کو اپنی توقعات کی کسوٹی پر پرکھتی ہے اور شوہر اپنی بیوی کو اسی کسوٹی پر جانچتا ہے۔ وہ ایک دوسرے سے یہ امید کرتے ہیں کہ ان کا شریک حیات ویسا ہی محسوس کرے جیسا وہ کرتی یا کرتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک دوسرے کو اپنی خاص طبیعت میں ڈھال لینا چاہتا ہے۔ حالاں کہ یہ اجتہاد سراسر غلط ہے۔ آگ اور پانی کا مزاج دونوں میں سے کسی ایک کے مشابہ ہوجائے تو سمجھ لو ایک کا وجود ختم اور اس کے لیے تو کوئی بھی تیار نہیں ہوسکتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس اختلاف کو سمجھے اور اس کا احترام کرے اور مل جل کر رہیں۔ مندرجہ ذیل مکالمے پرغور فرمائیے۔ایک دن عارف کے گھر آنے پر زبیدہ نے کہا۔
زبیدہ: آج میں بہت تھک گئی ہوں گھر میں اتنا کام نکل آیا کہ کیا بتاؤں بالکل فرصت ہی نہیں ملی۔
عارف: پورا دن پڑا ہوا تھا آخر کیا کرتی رہیں؟
زبیدہ: کیا مجھے نوکرانی سمجھ لیا ہے آخر میری بھی تو کچھ ضرورتیں ہیں۔ تمہیں تو گھر سے کوئی مطلب نہیں۔
عارف: بات کا بتنگڑ مت بنایا کرو۔ تم ہمیشہ منھ بنائے رہتی ہو۔ تمہارے ساتھ تو رہنا مشکل ہے۔
زبیدہ: تم آخر میری بات کیوں نہیں سنتے؟
عارف: سن تو رہا ہوں۔ آخر اور کیسے سنوں!!
اس مکالمے میں عارف کو نسوانی مزاج کی سمجھ نہیں ہے۔ دراصل زبیدہ عارف کی محبت توجہ کی طلب گار ہے یہ اس کا خاص مزاج ہے۔ اس کے جملوں کا ظاہری مطلب باطنی مطلب سے بالکل مختلف ہے۔ اگر عارف اس طرح جواب دیتا تو صورت حال دوسری ہوتی۔
زبیدہ: آج میں بہت تھک گئی ہوں گھر میں اتنا کام نکل آیا کہ کیا بتاؤں بالکل فرصت ہی نہیں ملی۔
عارف:ہاں، تبھی تو گھر چمک رہا ہے۔
زبیدہ: سچ؟
عارف: ہاں سچ میں، زبیدہ تم بہت اچھی ہو!!
زبیدہ: اُوؤں (خوش ہوکر)
اس طرح ہم دردی کے دو جملے تناؤ بھرا ماحول خوشگوار بناسکتے ہیں۔ عارف جیسے شوہروں کو سمجھنا چاہیے کہ جذبات بانٹنا عورت کی فطرت ہے۔ ان کا مقصد مسائل پیش کرنا بالکل نہیں ہوتا وہ کسی قسم کے حل کی توقع نہیں کرتیں بلکہ شوہر کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانا چاہتی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ ان کا شوہر ان کا خیال رکھے، ان کے جذبات کا احترام کرے اور ان کے کاموں کی تعریف کرے۔
اسی طرح عورتیں اپنے مشورہ دینے کی عادت سے اپنے مردوں کوناراض کرتی ہیں مثلاً مندرجہ ذیل مکالمہ پر غور فرمائیں۔
ایک بار عارف اور زبیدہ بارات میں گئے۔ کار عارف چلا رہے تھے ۔ عارف ایک دوسرے راستے سے ہوتے ہوئے میرج ہال پہنچے تو زبیدہ نے گاڑی سے اترتے ہی کہا۔
زبیدہ: کافی لمبا ہوگیا نا۔ تھک گئے ہوگے۔ کیا میں تمہاری مدد کروں۔
عارف: (خاموش)
اس کے بعد سے عارف کے چہرے پر ایک تناؤ چھا گیا اور پوری تقریب میں وہ تناؤ باقی رہا۔
محاذ فتح کرنے کے بعد یہ مناسب موقع تھا کہ زبیدہ اس کی ڈرائیونگ کی تعریف کرتی۔ اس کے اندر چھپے بہادر جنگجو کو کامیابی کا احساس دلاتی۔ زبیدہ نے اپنی نسوانی فطرت کو دھیان میں رکھ کر عارف کو مختصر راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا تھا لیکن عارف کو ایسا لگا کہ وہ کہہ رہی ہے کہ تمہیں راستوں تک کا علم نہیں ہے۔ تم کمزور ہو۔ تمہیں میری مدد کی ضرورت ہے وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ زبیدہ کا قطعی یہ مطلب نہیں تھا۔ اسی طرح کی ہزاروں غلط فہمیاں گھریلو تصادم کو جنم دیتی ہیں۔ انجانے میں گھر ویران اور قبرستان بن جاتے ہیں۔ بسے بسائے گھر اجڑ جاتے ہیں دونوں ہم سفر منزل کے آنے سے پہلے ہی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ اپنی زندگی کو خوشگوار بنانے ، اپنے گھر کو اندیشیوں سے بچانے کے لیے آپ کو ایک دوسرے کی شخصیات اور مزاج کو سمجھنا ہوگا۔ دونوں کو ایک دوسرے کے لیے نرم گوشہ پیدا کرنا ہوگا۔ موافقت کے اصول سے ہی گھر کا استحکام ممکن ہے۔
مرد و عورت کے درمیان گفتگو کا فن
عورتوں اور مردوں کے مزاج میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ مرد کاموں کے بوجھ اور اس کے سبب ہونے والے ذہنی تناؤ سے نجات پانے اور کاموں کو مکمل کرلینے کے بعد ہی دوسری طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اس دوران اس کا تمام تر ارتکاز اور توجہ صرف اور صرف اس کے کاموں پر ہوتی ہے۔ جبکہ عورت کاموں کے بوجھ تلے دب کر تناؤ کا شکار ہوتی ہے اور ایک جذباتی کیفیت اختیار کرلیتی ہے۔ دوسروں کے ساتھ بات کرکے وہ تناؤ کو نبٹاتی ہے اور ہلکا پھلکا محسوس کرتی ہے۔ مرد اس دوران تنہائی کو ترجیح دیتا ہے اور کاموں کو تنہا ہی نمٹانا زیادہ بہتر تصور کرتا ہے۔ ازدواجی تعلقات میں اگر اس فرق کو ملحوظ نہ رکھا جائے تو گھر کا اکھاڑا بننا طے ہے۔ اگر بیوی یہ دیکھے کہ اس کا شوہر اس کی کسی چیز پر توجہ نہیں دے رہا ہے، اس کی باتوں کو نہیں سن رہا ہے یا ان کا جواب نہیں دے رہا ہے تو سمجھ لیجیے کہ اس وقت وہ کسی مسئلے کو سلجھانے میں لگا ہے۔ ایسے وقت میں اس کا صرف پانچ فیصد ذہن ہی دوسری طرف ہوتا ہے اور بقیہ ۹۵ فیصد مسئلے کو سلجھانے ہی میں لگا رہتا ہے۔ بعض موقعوں پر فوری حل نہ ملنے کی صورت میں وہ اخبارات ، ٹی وی یا میگزین وغیرہ دیکھنے میں لگ جاتا ہے۔ ایسے وقت میں بیوی کا یہ محسوس کرنا کہ وہ اسے نظر انداز کررہا ہے، اس کا خیال نہیں رکھ رہا ہے یا اپنے مسائل اس کے ساتھ زیر بحث نہیں لا رہا ہے، بالکل ایک غیر حقیقی توقع ہے کیونکہ وہ اپنی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہے۔
اسی طرح جب عورت تناؤ میں ہوتی ہے تو اس کی طبیعت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے تمام مسائل کے بارے میں گفتگو کرے۔ وہ تمام ممکنہ مسائل کے بارے میں گفتگو کرکے بہترمحسوس کرتی ہے۔ جب وہ مسائل کے بارے میں بات کرتی ہے تو مسائل کا ایک انبار لاکر رکھ دیتی ہے۔ اس میں ماضی کے مسائل، حال کے مسائل، مستقبل کے مسائل، ممکنہ مسائل یہاں تک کہ ایسے مسائل بھی شامل ہوجاتے ہیں جن کا دراصل کوئی حل ہی نہیں ہے۔ اس میں وہ اپنے جذبات بھی شامل کردیتی ہے۔ ناامیدی، ڈر، مایوسی وغیرہ کے جذوات اس کی گفتگو منطقی لحاظ سے غیر مربوط ہوتی ہے۔ ایسے وقت میں اس کی توقع ہوتی ہے کہ مرد اسے سمجھے اور ہم دردی کا اظہار کرے۔ مرد ذات کے نزدیک مسائل کا ذکر دو وجہ سے ہوتا ہے:
(۱) مسئلے کا حل طلب کرنے کے لیے۔
(۲) دوسرے کو موردِ الزام ٹھرانے کے لیے۔
عورت جب اپنے مسائل کو ذکر کرتی ہے تو مرد اس کے ہر مسئلے کا حل نکال نکال کر دیتا ہے لیکن جب وہ خوشی کا اظہار نہیں کرتی تو وہ سمجھتا ہے کہ اس کا حل مسترد کردیا گیا ہے اور اس طرح وہ ناراض ہوجاتا ہے۔ یا پھر وہ سمجھتا ہے کہ وہ اسے موردِ الزام ٹھہرا رہی ہے وہ اپنا پلّہ جھاڑنے کی کوشش کرتا ہے، تلخی بڑھتی جاتی ہے اور نوبت لڑائی جھگڑے تک آپہنچتی ہے۔ یہاں پر شوہر کو چاہیے کہ وہ ٹھنڈے دماغ کے ساتھ اس کی بات سنتا رہے جہاں وہ کرے وہ دو جملے ہم دردی کے بول دے بس دیکھیے اس کا جادوئی اثر ہوگا۔ ذیل میں ہم کچھ باتوں کا ذکر کرتے ہیں۔ اگر انھیں اختیار کیا جائے تو ایک دوسرے کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
ایک دوسرے کو تحریک دیں
ایک دوسرے کے مزاج کے اختلاف کو سمجھنے کے بعد دونوں کو چاہیے کہ ایک دوسرے کو تحریک دیں، ایک دوسرے کی ضرورت بنیں۔ جب مرد کسی کام کو پورا کرلیتا ہے تو اسے رشتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان ضرورتوں کو پورا کرکے وہ اپنے آپ کو طاقت ور محسوس کرتا ہے۔ اس کے لیے بیوی کے مکمل بھروسے اور یقین کی ضرورت ہوتی ہے۔ بیوی کو چاہیے کہ ایسے موقع پر وہ اپنے شوہر کو اپنے پیار کے اظہار کا بھرپور موقع دے ورنہ وہ اپنے پرانے طریقے پر واپس چلا جائے گا۔ دوسری طرف مرد کو چاہیے کہ وہ اس کے جذبات کی قدر کرے، ان کا خیال رکھے اور ان کی ساری باتوں کو غور سے سنے اور یہ رویہ ہمیشہ رہنا چاہیے۔
ایک دوسرے کی جذباتی ضرورتوں کا خیال رکھیں
مرد اور عورت کو چاہیے کہ ایک دوسرے کی جذباتی ضرورتوں کا خیال رکھیں۔ تاکہ رشتوں کو قائم رکھنے میں ایک دوسرے کے مدد گارہوں۔ دونوں ایک دوسرے سے محبت و الفت رکھتے ہیں لیکن ایک دوسرے کی ضرورتوں سے واقف نہیں اس لیے غلط فہمیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ کہتے کچھ ہیں اور اسے سمجھا دوسرے طریقے سے جاتا ہے۔ مرد اور عورت کی بارہ جذباتی ضرورتیں ہوتی ہیں جن کے ذریعہ ان کے درمیان محبت کا مفہوم سمجھا جاسکتا ہے ان میں سے ۶ مرد کی ہیں اور بقیہ ۶ عورت کی۔
عورت کی اہم ترین جذباتی ضرورتیں یہ ہیں:
۱- اس کا شوہر اس کا خیال رکھے۔
۲- اس کی شکایتوں کو غیر مشروط طریقے سے سنا جائے اور اسے سمجھا جائے۔
۳- اس کا شوہر اس کے حقوق، تمناؤں اور ضرورتوں کو تسلیم کرے، اسے اپنی عزت افزائی کا احساس دلائے۔ (وہ اپنے کو شوہر کی نظروں میں معزم محسوس کرے)
۴- اس کا شوہر اس کی ضرورتوں کو اہمیت دے ، اس کے لیے مخلص رہے۔
۵- اس کا شوہر اس کے جذبات کو جائز تسلیم کرے، بحث بازی نہ کرے۔
۶- اسے یہ یقین دلائے وہ اس طرح محبت و الفت کا رویہ مستقبل میں رکھے گا۔
اسی طرح مرد کی چھ اہم جذباتی ضرورتیں یہ ہیں:
۱- بیوی اس پر بھروسہ کرے کہ وہ بیوی کے حق میں جو کچھ کررہا ہے بہتر سے بہتر کررہا ہے۔
۲- اس کی بیوی بغیر مشورے دیے اور بغیر بدلنے کی کوشش کیے اس کی بات کو خوشی خوشی مان لے۔
۳- بیوی یہ تسلیم کرے کہ اسے اس کی فلاں کوشش سے بہت فائدہ پہنچا۔
۴- اس کی بیوی اس کی کوشش اور کامیابیوں کی تعریف کرے۔
۵- شوہر اپنی بیوی کی آنکھوں میں ہیرو بننا چاہتا ہے۔ اس کی اچھائیوں کا اعتراف ا ور کوششوں کی ستائش کی جائے۔
۶- اس کی صلاحیتوں اور کردار کو حوصلہ دیا جائے۔ یہ چیز اس کے اندر خود اعتمادی اور امید پیدا کرتی ہے۔
یہ جذباتی ضرورتیں ایک دوسرے سے جڑی ہیں ایک ضرورت دوسرے شریک کی طرف سے دوسری ضرورت کے لیے راستہ ہموار کرتی ہے۔
بحث بازی سے اجتناب
رشتوں کے استحکام میں باہمی گفتگو ایک اہم عنصر ہے اور بحث بازی سب سے خطرناک اور رشتوں کو برباد کردینے والا عنصر ہے۔ ایک دوسرے کی کمیاں گنانا، ذات برادری کو گالی دینا، ایک دوسرے کے ماں باپ، بھائی بہن اور خاندان کو نیچا بتانا رشتوں کو توڑ دینے کے لیے کافی ہے۔ ازدواجی زندگی کے لیے بحث و مباحثہ زہر قاتل ہے۔ چیزوں کے بارے میں بات چیت کریں اس کے اچھے اور غلط پہلوؤں پر بھی بات کریں لیکن بحث و مباحثہ کی حدود میں قطعی داخل نہ ہوں۔
ایک دوسرے کا دل جیتیں
مرد لوگ سوچتے ہیں کہ بڑے بڑے کام کرنے سے عورت کا دل جیتا جاسکتا ہے۔ جیسے تاج محل بنوادو، اونچی بلڈنگ کھڑی کردو، کار لے آؤ وغیرہ۔ یاد رکھئے اکثر چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی بڑی بڑی چیزوں سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ بلکہ چھوٹے چھوٹے عمل جیسے بیوی کے لیے کار کا دروازہ کھول دینا، پھول لاکر دے دینا، کبھی کبھی گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹا دینا، رشتوں پر زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس طرح عورت کو چاہیے کہ وہ مرد کا دل جیتے۔ اس کی خوبصورت ہنسی، خوشی کا اظہار، اس کے تحفہ کی تعریف، اسے گھریلو کاموں میں شامل کرکے اس کی خوب سے خوب تعریف مرد کے دل کو موم بناسکتی ہے۔
بیوی کے دل جیتنے کے طریقے
۱- گھر میں داخل ہوتے ہی اسے السلام علیکم کیجیے۔ اس کی خیریت دریافت کیجیے ، ضرورتوں کے بارے میں پوچھئے۔ چند منٹ اس کے قریب رہیے۔
۲- خاص موقعوں پر اس کے لیے تحفہ تحائف پھول اور گلدستے لائیے۔
۳- اگر سفر پر جائیے تو اسے تیار ہونے کے لیے اضافی وقت دیجیے۔ اگر لیٹ ہو رہے ہوں تو بلا کر نرمی سے بتائیے۔ اگر اکیلے سفر پر ہوں تو اسے فون کرتے رہیں۔
۴- اگر آپ کی کسی بات سے وہ ناراض ہوگئی ہو تو کھلے دل سے ’’سوری‘‘ کہیں لیکن زیادہ تشریح و تاویل نہ کریں۔
۵- جب علاحدگی میں رہ کر کام کرنے کی ضرورت محسوس ہو تو اسے بتادیں اور جب وہ کام ہوجائے تو اسے بتادیں اسے کیاکیا پریشانی ہوگئی تھی۔
۶- جب وہ بات کے تو مرد کو چاہیے کہ میگزین کو بند کردے، ٹی وی چل رہا ہو تو اسے بند کردے اور غور سے اس کی بات سنے۔
۷- اگر تھکی ہو یا طبیعت خراب ہو تو مرد کو چاہیے اس کے گھریلو کاموں میں اس کی مدد کرے۔
۸- اپنے سامان کو صحیح جگہ رکھیں، اپنے بیڈ روم کو ٹھیک کرلیں، بچوں کو اسکول کے لیے تیا رکرنے میں مدد کریں۔
۹- جب تقریب میں جائیں تو اسے کپڑے پہننے کا تھوڑا زیادہ وقت دیں۔
۱۰- اس کے لیے اس کی پسند کی کوئی چیز یا پڑھنے کے لیے مناسب کتابیں اور میگزین وغیرہ لاکر دے دیں۔
۱۱- اس کے کھانے کی تعریف کریں، اس کے لیے کام کو آسان بنایا جائے۔
۱۲- جب گھر سے رخصت ہوں تو السلام علیکم کہہ کر اور مسکرا کر نکلیں۔
یہ چھوٹے چھوٹے عمل آپ کے رشتوں کو مضبوط بناسکتے ہیں۔
آخری بات
اوپر ذکر کی گئی چیزوں کو اگر عملی زندگی میں خلوص کے ساتھ استعمال کیا جائے تو آپ کے رشتے لازماً درست بھی ہوجائیں گے اور مضبوط ہوں گے۔ مگر یاد رکھیے کہ رشتے مشینوں کی طرح نہیں ہوتے جنھیں کسی آلہ سے درست کیا جاسکے یہ صرف و صرف مستحکم ارادہ اورخلوص و محبت ہی کے ذریعہ ٹھیک اور مضبوط بن سکتے ہیں۔ اس سلسلہ کی سب سے اہم بات اللہ تعالیٰ کا وہ قول ہے جو عام طور پر نکاح کی مجلسوں میں پڑھا جاتا ہے:
یا ایہا…
اور اللہ کے رسول کی رہنمائی جو اللہ کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ بندوںکے حقوق بھی ادا کرنے کی تاکید کرتی ہے۔ بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر چاہے گا تو اپنے حقوق معاف کردے گا لیکن بندوں کے حقوق اسی صورت میں معاف ہوں گے جب بندہ خود معاف کرے۔ سماج میں رہنے والے لوگ اور ایک خاندان میں رہنے والے شوہر بیوی اگر ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی اور اپنی اپنی ذمہ داریوں کے لیے سنجیدہ اور مخلص ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ ازدواجی زندگی اور گھریلو ماحول خوشگوار نہ ہو۔ اور اگر ایسا نہیں تو پھر سمجھ لینا چاہیے کہ رشتے اور میاں بیوی کا تعلق نہ توپلاسٹک کا کوئی ڈبہ ہے جسے ’’کوئک فکس‘‘ سے جوڑا جاسکے اور نہ لکڑی کا فریم جسے ’’فیوی کول‘‘ سے جوڑ کر پائیدار بنادیا جائے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں