کم سنی کی شادی اور ہندوستانی معاشرہ

شمشاد حسین فلاحی

8 مارچ یعنی یومِ خواتین سے عین پہلے حکومت ہند کی وزارت صحت کی جانب سے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے-۴ کی رپورٹ جاری ہوئی۔ اس رپورٹ میں جہاں دیگر حقائق پیش کیے گئے وہیں کم سنی کی شادی سے متعلق بھی اعداد و شمار دیے گئے ہیں۔

کم سنی کی شادی میں جو سب سے کمزور پہلو ہے وہ لڑکیوں کی شادی کے قانونی عمر ۱۸؍ سال سے کم عمر میں شادی ہے جب کہ کم سنی میں لڑکیوں کی شادی کو ہندوستانی سماج کے ماتھے پر داغ تصور کیا جاتا ہے اور آزادی کے بعد سے ہی اس کی خاتمے کے لیے کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔

وومن امپاورمنٹ کے اس ور میں بھی ہمارے ملک میں ۲۷ فیصد لڑکیاں شادی کی قانونی عمر سے پہلے ہی شادی کے بندھن میں باندھ دی جاتی ہیں یہ انکشاف ہے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے-۴ کا، حالاں کہ مذکورہ وزارت کا یہ بھی کہنا ہے کہ 2005-6 کے اعداد و شمار کے مقابلے میں یہ تناسب کافی کم ہوا ہے جو پہلے ۴۸ فیصد یعنی آدھی سے صرف دو فیصد ہی کم تھا۔ یہ بات حیرت ناک اور افسوسناک ہے کہ اکیسویں صدی کے ہندوستان میں بھی، کسی بھی سبب، لڑکیاں کم سنی میں ہی بیاہ دی جائیں۔ جب کہ ۲۰۱۱ کی رپورٹ کے اعداد و شمار ایک اور تکلیف دہ حقیقت کو ظاہر کرتے تھے جن کے مطابق 2.3 لڑکیاں دس سال کی عمر سے بھی پہلے بیاہ دی جاتی ہیں۔

مذکورہ سروے کے دوران ۲۰ سے ۲۴ سال کی خواتین سے ان کی شادی کی عمر کے بارے میں سوالات کیے گئے اور ان کے جوابات کی بنیاد پر یہ نتیجہ نکالا گیا کہ آج بھی ہندوستان کی 27 فیصد لڑکیاں 18 سال کی عمر سے پہلے ہی شادی کے بندھن میں باندھ دی جاتی ہیں۔ مذکورہ تناسب کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں شہری اور دیہی دونوں آبادیاں شامل ہیں۔ جب کہ شہری آبادی کے سلسلے میں یہ تصور عام ہے کہ وہاں لوگ دیہاتیوں کے مقابلے زیادہ پڑھے لکھے، مہذب اور روایتی سماج سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔ اگر دونوں کے تناسب کو الگ الگ دیکھا جائے تو شہری آبادی میں یہ تناسب 17.5 فیصد ہے جب کہ دیہی ہندوستان میں یہی تناسب 31.5 فیصد ہے جو کافی تشویشناک ہے اور اس سمت میں کی جانے والی کوششوں کی نتیجہ خیزی پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ اس سلسلہ میں تجزیہ کرتے وقت حیرت ہوتی ہے کہ مغربی بنگال کے دیہی علاقوں میں یہ تناسب 46.3، راجستھان کے گاؤں میں 40.5 فیصد، جھارکھنڈ میں 44.3 فیصد اور بہار میں 40.9 فیصد ہے۔ مذکورہ ریاستوں کی حالت دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہاںدیہی ہندوستان میں حالات کتنے خراب ہیں۔

ریاستوں کی صورتِ حال

مغربی بنگال 40.7

بہار 39.1

جھارکھنڈ 38.0

راجستھان 35.4

اڑیسہ 21.3

مہاراشٹر 25.0

گجرات 24.9

کرناٹک 23.2

چھتیس گڑھ 21.3

ہریانہ 18.5

اتراکھنڈ 13.9

دہلی 13.9

چنڈی گڑھ 12.2

یہ اعداد و شمار ہندوستان کے عام سماج کے عکاس ہیں اور اس سروے میں مذہبی کمیونٹی کا خیال نہیں رکھا گیا ہے لیکن اس سے قبل ملک کی مذہبی اکائیوں پر منحصر ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے، جس سے بہ آسانی یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ مسلم سماج میں بھی اس صورتِ حال اپنی آبادی کے لحاظ سے میں شرکت ہے، البتہ اس کا تناسب معمولی سا کم ہے۔ اس حیثیت سے یہ سروے رپورٹ مسلم سماج کے لیے بھی اسی طرح باعث تشویش ہونی چاہیے جس طرح دوسروں کے لیے ہے۔ البتہ یہ بات ضرور واضح ہو جاتی ہے کہ مسلم سماج کے بارے میں جو یہ تصور پھیلایا جاتا ہے کہ ان کے یہاں کم سنی کی شادی عام بات ہے، اس گرافک سے اس غلط فہمی کا ازالہ ضرور ہوتا ہے۔

اس صورت حال کے اسباب و عوامل پر اگر گفتگو کی جائے تو کئی باتیں سامنے آتی ہیں۔

اس سلسلے میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہندوستان کے روایتی سماج میں لڑکیوں کی شادی کی عمر ان کی فطری بلوغت کو ہی تصور کیا جاتا ہے اور دیہی ہندوستان کے اکثر والدین اس عمر کو پہنچتے ہی لڑکی کی شادی کر دینا زیادہ بہتر تصور کرتے ہیں۔ اس عمر کے بعد شادی کرنے کا رواج صرف اس سماج میں ہے جہاں والدین تعلیم یافتہ ہوں اور خود لڑکیاں بھی زیر تعلیم ہوں۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ یہ اشو براہ راست معاشرے کے تعلیم یافتہ ہونے سے جڑا ہوا ہے۔ جہاں والدین اور بچے تعلیم یافتہ ہیں وہاں لڑکیاں قانونی عمر میں یا پھر تاخیر سے بیاہی جاتی ہیں۔

اس صورتِ حال کی دوسری خاص وجہ معاشی کمزوری اور غربت و افلاس ہے۔ جہاں خاندان کا سربراہ اپنی تمام محنت و مشقت کے باوجود اپنے اہل خانہ کو دو وقت کی روٹی فراہم کرنے پانے میں بھی کامیاب نہ ہو وہاں گھر کا ہر فرد خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی ایک بوجھ محسوس ہوتا ہے۔ ایسے میں لوگ لڑکوں کو بچپن ہی سے، جب ان کی قلم اور کتاب کی عمر ہوتی ہے، چار پیسے کمانے کے لیے نکال دیا جاتا ہے اور پھر اس سے بچہ مزدوری کی سماجی برائی جنم لیتی ہے، جب کہ لڑکیوں کو شادی کر کے اس کے شوہر کے حوالے کر دینے میں ہی عافیت سمجھی جاتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہو وہاں اسکول میں تعلیم دلانے کا تصور کیسے پیدا ہوسکتا ہے۔ اسی لیے غربت و افلاس اور جہالت و ناخواندگی لازم و ملزوم قرار پاتے ہیں۔

اس سلسلہ کی تیسری وجہ والدین کے اندر لڑکی کو لے کر عدم تحفظ کا احساس ہے۔ ایسے سماج میں جہاں معصوم بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات عام ہوں، سڑک پر چلتی لڑکیاں من چلوں اور مجرمانہ ذہنیت کے حامل افراد کا آسان شکار بن جاتی ہوں اور جہاں دولت مند اور بااثر لوگ مجرمانہ کاروائیوں کے باوجود کھلے گھومتے ہوں اور مجبور و غریب لوگ ان کا کچھ بھی بگاڑ پانے میں ناکام ہوں وہاں کم عمری ہی میں سہی ’’لڑکی کو اس کے گھر بار کا کر دیا جائے‘‘ کی فکر لاحق ہونافظری بات ہے۔

اگرچہ اس میدان میں بیداری کی کوششیں حکومتی سطح پر بھی اور غیر حکومتی اداروں کی جانب سے بھی کی جاتی رہی ہیں اور ہو رہی ہیں مگر ان کا کوئی خاص نتیجہ اس وجہ سے سامنے نہیں آپا رہا ہے کہ ملک میں معاشی عدم مساوات، غربت و افلاس اور جہالت و ناخواندگی ابھی تک آسن جمائے ہے۔

اگر اس برائی کا خاتمہ مقصود ہے تو غربت و افلاس کے جال میں پھنسے عوام کو غربت کی سطح سے اوپر اٹھا کر انہیں تعلیم یافتہ کیا جانا ضروری ہے۔ اسی طرح یہ بھی لازم ہے کہ امن و انصاف کی فضا پیدا ہو اور عوام ہر طرح کے خوف سے پاک زندگی گزاریں۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں