ایک چمن تھا خوبصورت، دلنشین، لبھاونا ،ہرا بھرا، گھاس بھی تھی، گلاب بھی تھے، چمبیلی اور موگرا بھی تھے، زمین سے چمٹی ننھنی سی بنفشہ بھی خوش تھی،نہ جانے کتنے پھول تھے۔
کچھ پھلوں کے درخت بھی بڑھ گئے تھے۔ آم، جام سے لے کر سیب اور سنترہ، انجیر اور چیکو نہ جانے کتنے۔ ہر آنے والا اس چمن کی آبیاری کرتا۔کبھی کانٹے دار جھاڑیوں کو صاف کرتا کبھی پگڈنڈیوں کو درست کرتا۔
یہاں طوطا مسلسل رٹ لگاتا، بلبل نغمہ گاتی، چڑیاں چہچہاتیں، کویل اور مینا پیار کی کہانیاں سناتی۔کبوتر کا جوڑا بھی مست تھا۔
کچھ لوگوں کو خیال آیا کہ چمن میں ہماری مرضی چلے گی انھوں نے آواز اٹھائی۔
انھیں چمن کے گل ہاے رنگا رنگ کی رونق پسند نہیں تھی۔ انھوں نے اعلان کیا کہ ہم ایک ہی رنگ کے پھول کھلانا چاہتے ہیں۔انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ پھول بڑے حسین ہونگے ،لبھاونے ہونگے، دلکش ہونگے ،اس کی چمک سے سارا ماحول چمک اٹھے گا۔
کچھ لوگ ان کی باتوں میں آگیے کچھ لوگوں نے صدائے احتجاج بلند کی۔اور چلاّ چلاّ کر کہنے لگے کہ اس چمن کو زیب اختلاف سے ہے۔
ان کی آواز کو دبادیا گیا۔انکے خلاف سازشیں کی گئیں…انھوں نے بربریت کا ناچ شروع کردیا۔ بلبل کے نغموں پر پابندی لگائی، کبوتر کے جوڑے کو مار دیا ،مینا اور کویل کی محبت کو بدنام کیا، طوطے کی آواز بند کردی۔آم کے درخت توڑ دیے، انجیر اور چیکو کے درختوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔شرمیلی بنفشہ سہم کر مرگیی ،گلابوں کا رنگ پھیکا پڑگیا، موگرے مرجھانے لگے، چمبیلی کا رنگ خون کی طرح لال ہوگیا۔مالی بھی مایوس ہوکر چمن سے بھاگ گیا۔مینا، کویل اور بلبل بھی اڑ گئیں۔طوطا چلاتا رہا، پھڑپڑایا تو اس کے پر نوچ دیے گیے اسے چمن میں ہی ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا پھر بھی طوطے نے آواز اٹھائی۔روز ایک طوطے کو مارا جانے لگا۔ طوطے کی موت سے سب سہم گیے۔
درخت مرجھانے لگے ،اب کے گلابوں پر بہار نہیں آئی، موگرے کے پتے مرجھا گیے اور اپنے پھولوں کا وزن بھی برداشت نہ کرسکے، چمبیلی کی بل کھاتی ہوئی نزاکت مارے خوف کے ختم ہوگئی۔۔ پودے مرجھانے لگے، اب کہ موسم میں بہار جو گئی تو واپس نہیں آئی۔
چمن کا کوئی مالی نہ رہا تو بہت سے جانور گھس آے، انھوں نے چمن کو برباد کردیا۔
اب وہاں کے درخت کاٹ کر بیچے جانے لگے، چمن کی زرخیز مٹی فروخت ہونے لگی۔آہستہ آہستہ وہاں ایک گڑھا بن گیا۔ اب بھی لوگ امید میں تھے کہ نیا چمن بننے والا ہے اور نیے پھول کھلنے والے ہیں۔
دھیرے دھیرے گڑھے میں گندا پانی جمع ہونے لگا، مردہ جانور اور لاشیں پھیکی جانے لگیں۔مدتوں کے سڑے ہوئے پانی نے دلدل پیدا کردی، بارش کے پانی نے تالاب بنادیا۔اب وہاں کمل کھلنے لگے، دیکھنے میں بڑے خوبصورت اور دلنشین۔لوگ خوش ہوگیے کہ بہار پھر آئی ہے وہ بھی ایک ہی رنگ کی بہار آئی ہے۔پھول بہت دلکش تھے۔ پانی میں تیرتے ہوئے پھول دیکھ کر لوگ خوش ہونے لگے۔ لوگوں نے چلاّ چلاّکر اپنی بہادری کی کہانی سنائی کہ انھوں نے نیا چمن بنایا ہے، انھوں نے کیچڑ میں کنول کھلایا ہے۔ خوشی زیادہ دیر تک نہیں رہ سکی۔ لوگ جان گیے کہ دھوکہ ہوا ہے۔کنول تو فریب ہے جو دور سے خوبصورت دکھتا ہے ،قریب جاؤ تو دلدل کی موت نصیب ہوتی ہے۔وہ پھول ہی کیا جو دلدل میں کھلتا ہے، نہ کسی کے مانگ کا سندور بن سکتا ہے، نہ کسی کی زلف کا نور، کسی کے گلے کا ہار بن سکتا ہے نہ کسی محبت کی سیج پر سج سکتا ہے۔نہ ہی عقیدت کے چند پھولوں میں اس کا مقام ہے اور نہ ہی خوشی کے جشن کے گلدستوں میں اس کا مقام۔ایک دھوکا ہے ایک چمکدار دھوکہ…
یہ کیسا چمن اور یہ کیسے یک رنگی پھول۔۔جہاں نہ بلبل کا نغمہ ہے، نہ طوطے کی رٹ، نہ مینا کی معصومیت نہ چڑیوں کی شرارت۔۔جہاں نہ تتلیاں ہیں نہ بھنورے۔ جوان اور خوبصورت دوشیزائیں اپنے پیار کے لیے پھول بھی نہیں چن سکتیں۔
طوطا، بلبل مینا ،چڑیا ،گلدم اور ہد ہد یک رنگی چمن کی خوفناکی سے گھبرائے ہوئے ،سہمے ہوے، دور سے نظاّرہ کر رہے ہیں۔۔اب تو بس ایک خاموشی ہے…ایک گہری خاموشی…ایک ٹہرا ہوا گہراخاموش اور ڈراؤنا پانی رہ گیا ہے جو اپنے اند ر سڑاند لیے ہوئے ہے۔ اوراب ان معماران چمن کے پاس ایک ہی نعرہ ہے کہ کنول کھلے ہیں دلدل دلدل۔lll