اہل مغرب اپنے آپ کو مہذب، متمدن، باشعور، امن دوست، انسانی حقوق اور فرد کی آزادی کا احترام کرنے والے اور ترقی یافتہ کہتے ہیں، جب کہ مسلمانوں کو غیر مہذب، پس ماندہ، رجعت پسند، انسانی حقوق بالخصوص خواتین کی آزادی پر قدغن عائد کرنے والے، متشدد، دہشت گرد اور اسلام کو تشدد پر اْبھارنے والا مذہب قرار دیتے ہیں۔ بالعموم مغربی ذرائع ابلاغ مسلمانوں کی منفی تصویر ہی پیش کرتے ہیں۔ گویا مغرب مہذب ہے اور مسلمان غیر مہذب اور جدید تہذیب و ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
اہلِ مغرب اپنے اس دعوے میں کس حد تک سچے ہیں۔۔۔کتنے متمدن، مہذب، امن دوست اور تہذیب یافتہ ہیں۔۔۔ اس کی حقیقت کا تمدنی جائزہ ڈاکٹر جاوید جمیل نے اپنی کتاب:
Muslim Most Civilised, Yet Not Enough
( مشن پبلی کیشنز، Vihar 214, Sarita -K نئی دہلی، بھارت) میں لیا ہے۔ مصنف نے مسلمانوں کے خلاف مغربی پروپیگنڈے کا مختلف سماجی حوالوں اور اعداد وشمار سے جائزہ لیتے ہوئے اس بات کو واضح کیا ہے کہ مسلمان اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود آج بھی مغرب سے زیادہ مہذب ہیں۔ آج بھی قتل و غارت، تشدد، جنسی تشدد، اسقاطِ حمل، شراب نوشی، جوا، عصمت فروشی، فحاشی و عریانی، خودکشی، طلاق، ہم جنس پرستی، بچوں کے جنسی استحصال، والدین اور بزرگوں کے مسائل، تعلیم، اقتصادی ترقی اور دیگر حوالوں سے اسلامی ممالک کی تمدنی صورتِ حال سماجی پیمانوں اور اعداد وشمار کے لحاظ سے بحیثیتِ مجموعی مغرب سے بہتر ہے۔
مغرب میں انسانی جان کا کس قدر احترام کیا جاتا ہے، اس کا اندازہ لگانے کے لیے اگر دنیا کے 50ممالک میں شرح قتل کا جائزہ لیا جائے تو ان میں مغربی ممالک سرفہرست ہیں، جب کہ مسلم ممالک میں قتل کی شرح مقابلتاً بہت کم ہے۔ امریکہ میں شرحِ قتل مسلم ممالک کے مقابلے میں 10گنا زیادہ ہے۔ اسی طرح زنا بالجبر کے واقعات کے لحاظ سے امریکہ، جنوبی افریقہ، فرانس، جرمنی اور آسٹریلیا دنیا کے 50 ممالک میں سے 10 سرفہرست ممالک میں شامل ہیں۔ دنیا میں قتل کیے جانے والے ایک کروڑ 60 لاکھ افراد میں سے ایک کروڑ 35 لاکھ افراد کا تعلق اْن ممالک سے ہے جنھیں ترقی یافتہ اور طاقت ور ترین شمار کیا جاتا ہے، یعنی چین، امریکہ، برطانیہ، فرانس اور روس۔ ان کے مقابلے میں مسلم ممالک میں جو دنیا کی آبادی کے 20 فیصد سے زیادہ پر مشتمل ہیں، شرح قتل بہت کم ہے۔
خاندان جو کسی بھی تہذیب و تمدن کی بنیادی اکائی ہے، اس کی تشویش ناک صورت حال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مغربی ممالک میں بغیر شادی کے (سنگل پیرنٹ) جنم لینے والے بچوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ 2008ء میں بن باپ کے جنم لینے والے بچوں کا تناسب 40.6 فی صد تھا۔ اسی طرح یونان میں یہ شرح 5فی صد، سائپرس میں 9 فی صد، ایسٹونیا میں 58 فی صد اور آئس لینڈ میں 64 فی صد ہے۔ یورپ میں اس شرح میں تشویش ناک حد تک 46 فی صد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ اس کے مقابلے میں مسلم ممالک میں یہ شرح تقریباً اسی طرح نام نہاد مہذب مغربی دنیا میں 5 سے 7 کروڑ بچے ہرسال اسقاطِ حمل کی نذر کردیے جاتے ہیں، جب کہ مسلم ممالک میں اس کی شرح بہت کم ہے۔ نوجوان بچیوں میں شرح حمل کے حوالے سے مغرب کی انتہائی زیادہ شرح کے حامل ممالک کے مقابلے میں مسلم ممالک اس فہرست میں کہیں نظر نہیں آتے۔
عورت کی آزادی کے علَم بردار مغرب میں عصمت فروشی کو باقاعدہ پیشہ قرار دے کر عورت کی کس طرح تذلیل کی جارہی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ میں 3 لاکھ 25 ہزار سے زیادہ خواتین جن میں 17سال سے کم عمر کی بچیاں بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں، عصمت فروشی اور عریاں ویڈیو سازی کی صنعت سے وابستہ ہیں۔ یہ یقینا عورت کا استحصال ہے اور اسے ایک تجارتی جنس بنانے کے مترادف ہے۔
مغرب میں فرد کی آزادی کا ’احترام‘ کرتے ہوئے ’ہم جنسیت‘ کے حق کا بھی ’احترام‘ کیا جاتا ہے اور اسے اب قانونی تحفظ بھی فراہم کیا جارہا ہے۔ اس کے نتیجے میں جو اخلاقی انحطاط اور معاشرتی انتشار پیدا ہوگا، اس سے آنکھیں بند رکھی جا رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں ہم جنسیت جیسا گھنائونا فعل عام ہوتا جا رہا ہے اور باقاعدہ ہم جنسی شادیاں رچائی جارہی ہیں۔ ’مہذب‘ مغرب کے مقابلے میں مسلم ممالک میں ’ہم جنس پرستوں‘ کی باہمی شادی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
شراب جو اْم الخبائث ہے، فساد کی جڑ، بہت سی بیماریوں، حادثات اور جرائم کا ایک بڑا سبب ہے، مگر مغرب نے اسے اپنی معاشرتی روایت قرار دے رکھا ہے۔ دنیا میں ہر سال تقریباً ایک کروڑ 40 لاکھ سے زائد افراد شراب نوشی کے نتیجے میں مختلف امراض سے دوچار ہوکر ہلاک ہوجاتے ہیں۔ صرف امریکہ میں اس بنا پر ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔ مسلم دنیا میں شراب نوشی کا تناسب بہت کم ہے۔ دنیا کے 30 ایسے ممالک جہاں شراب نوشی عام ہے، اس فہرست میں صرف ایک مسلم ملک ترکی کا نام ہے اور وہ بھی سب سے آخر میں۔ اس لحاظ سے بھی مسلم ممالک مغرب سے زیادہ مہذب ہیں۔ اسی طرح جوا اور قماربازی کا معاملہ ہے۔ دنیا کے 10ممالک جہاں جوا عام ہے، وہ مغربی ممالک ہیں، جب کہ مسلم ممالک میں اس کا رواج بہت کم ہے۔
مسلم ممالک میں اگر شرح خواندگی کا جائزہ لیا جائے تو قازقستان، ترکمانستان اور آذربائیجان میں 99 فی صد شرح خواندگی ہے اور یہ امریکہ اور برطانیہ کے ہم پلّہ ہیں۔ ازبکستان، بوسنیا، برونائی دارالسلام، کویت، فلسطین، قطر، انڈونشیا، ملائیشیا، اْردن، عرب امارات میں شرح خواندگی 90 فی صد سے زیادہ ہے۔ جب کہ لبنان، بحرین، ترکی، لیبیا، سعودی عرب، شام، ایران اور عمان میں یہ شرح 80 فی صد سے زائد ہے۔ سائنسی میدان میں ترقی کے حوالے سے بھی مسلم دنیا میں پیش رفت ہورہی ہے۔ 2010ء کے ایک مطالعے کے مطابق جنوبی کوریا کے مقابلے میں ایران سائنسی ترقی کے حوالے سے سرفہرست ہے۔ فی کس آمدنی کے حوالے سے بھی مسلم ممالک قطر اور متحدہ عرب امارات دنیا کے پانچ سرفہرست ممالک میں سے ہیں، جن کی فی کس آمدنی امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا اور فرانس سے بھی کافی زیادہ ہے۔ مہذب دنیا کو جاننے کا ایک پیمانہ خودکشی کا رجحان بھی ہے۔ دنیا کے 17ممالک جن میں خودکشی کا رجحان سب سے زیادہ ہے، ان کا تعلق مغربی ممالک سے ہے، جب کہ مسلم ممالک میں اس کی شرح تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔
متمدن دنیا کے اس مختصر جائزے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مغرب اپنی تمام تر ترقی کے باوجود سماجی انتشار اور اخلاقی انحطاط کے لحاظ سے خود کہاں کھڑا ہے اور دنیا کو کس ’ترقی‘ کی راہ پر ڈال رہا ہے! اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل اور ناجائز مفادات کے حصول کے لیے جس طرح سے صرف موجودہ صدی میں عراق اور افغانستان میں لاکھوں انسانوں کا خون کیا گیا اور دنیا کے امن کو پامال کیا گیا، وہ مغرب کی امن دوستی اور انصاف پسندی کا کھلا ثبوت ہے۔
دوسری طرف مسلم ممالک اپنی تمام تر سیاسی، سماجی، معاشی خامیوں کے باوجود معاشرتی اور اخلاقی لحاظ سے یقینا مغرب سے زیادہ مہذب ہیں۔ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود ترقی کی دوڑ میں بھی پیچھے نہیں ہیں اور اس کے لیے تگ و دو جاری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مغرب کی بالادستی کے جادو سے نکلا جائے۔ بلاشبہ مسلمانوں کو اہلِ مغرب کے مقابلے میں تمدنی لحاظ سے اخلاقی برتری حاصل ہے لیکن مغربی تہذیب اور مادیت کے نتیجے میں معاشرتی انتشار اور اخلاقی بگاڑ میں بھی اضافہ ہورہا ہے جس کا سدباب کرنے اور اسلام کی آفاقی تعلیمات کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام کی تعلیمات کو شعوری طور پر قبول کرنے سے جہاں موجودہ تمدنی برتری کو مزید مستحکم بنیادوں پر قائم رکھا جاسکتا ہے، وہاں اسلام کی مثبت تصویر بھی سامنے آسکے گی۔ اس سے جہاں اسلام مخالف مغربی پروپیگنڈے کی قلعی کھل جائے گی وہاں فی الواقع ایک مہذب دنیا کے قیام کے لیے بھی راہ ہموار ہوگی۔ تاہم، اس حوالے سے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ lll