’’ثروت! میرے پاس ایک کہانی ہے۔ بول لکھے گی‘‘ میں ہاتھ میں پکڑا ہوا پانی کا گلاس پینا بھول گئی۔ مجھے خود کو دیکھتا دیکھ کے وہ بولی ’’میں پہلے تیرے کہانیاں لکھنے کے خلاف تھی لیکن میری سن۔۔۔‘‘
میں نے سر کے اشارے سے ہامی بھرلی اور وہ شروع ہوگئی۔‘‘ پتا ہے میں کل ہسپتال گئی تھی ایک دوست کی والدہ کو دیکھنے وہ بیمار تھیں۔ وہاں گئی تو ڈاکٹر راؤنڈ پر تھے، تو میں انتظار گاہ میں بیٹھ گئی۔ بیٹھے پانچ منٹ ہی ہوئے تھے کہ ایک بوڑھی عورت آکر میرے پاس بیٹھ گئیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک تازہ اخبار بھی تھا میری طرف دیکھ کے بولیں ’’کبھی اخبار پڑھا ہے؟‘‘
’’جی پڑھا ہے، روز پڑھتی ہوں۔‘‘
’’کبھی کسی بچے کو روتے دیکھا ہے؟‘‘
’’جی اکثر دیکھتی ہوں‘‘
’’کبھی اسے ماں کی گود میں سوئے دیکھا ہے؟‘‘
مجھے غصہ آنے لگا تھا پر میں چپ رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔’’جی دیکھا ہے‘‘
’’پھر نیند میں اچانک روتے بھی دیکھا ہوگا؟‘‘ ’’جی‘‘ میں نے بس اتنا کہا۔
وہ روتے ہوئے کہنے لگی۔ ’’میرا بیٹا مجھے چھوڑ کر بیرون ملک چلا گیا۔ میری بہو کو بھی لے گیا۔ میرا پوتا جو روزانہ میرے ساتھ سوتا تھا اسے بھی لے گیا۔ وہ بہت رویا تھا لیکن اس کے باپ نے ایک نہ سنی۔ جاتے ہوئے کہہ گیا۔ اولڈ ہاؤس آپ کے لیے ہی بنا ہے۔ نہیں تو رہو اسی گھر میں۔ یہ جو دیس کو اور اپنی بوڑھی ماں کو ٹھوکر مار کر جاتے ہیںنا، ان کی موت بھی تماشا بن جاتی ہے۔ کیا ماں اتنی حقیر اور سستی ہوتی ہے۔ کیا ماں اتنی بے وقعت ہوتی ہے‘‘ وہ کہتی جاتی اور روتی جاتی تھی۔
ثروت! لوگ کتنے ظالم ہوتے ہیں تم یہ ضرور لکھنا۔ اور لوگوں کو بتانا کہ ماں اتنی بے وقعت نہیں ہوتی۔ اس کے قدموں تلے جنت ہوتی ہے جنت۔‘‘ میں نے اپنی دوست کو یقین دلایا کہ میں یہ ضرور لکھوں گی۔ll